بیٹیوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین اور اہم ذمہ داری
کسی بھی قوم کیلئے اس کی نئی نسل سب سے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے اور نئی نسل کی تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے۔
اگر یہ تربیت درست بنیادوں پر کی جائے تو وہ نسل ترقی کی راہوں پر گامزن ہو جاتی ہے۔تربیت میں کوتاہی برتی جائے تو معاشرتی بگاڑ جنم لیتے ہیں۔ بیٹی معاشرے کی وہ نازک مگر اہم اکائی ہے جسے محبت، عزت، اعتماد اور شعور کی روشنی دے کر ہی مضبوط معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ بیٹیوں کی تربیت صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتی ہے، اس لیے یہ والدین کی ایک اہم ترین ذمہ داری ہے۔ اسلام نے بیٹی کو عزت، وقار اور برابری کا درجہ دیا ہے۔
پیغمبر اسلامﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا ؓکو سیدۃ النسا یعنی تمام عورتوں کی سردار قرار دیا گیا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی صحیح تربیت کرے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور انہیں عزت دے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ یہ حدیث اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ بیٹیوں کی تربیت اور ان کی فلاح والدین کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
تربیت اور اس کا دائرہ کار
تربیت محض تعلیم دلوانے کا نام نہیں، یہ ایک ہمہ جہت عمل ہے جس میں اخلاقی اقدار، معاشرتی آداب، مذہبی رہنمائی، جذباتی استحکام، اور عملی زندگی کے اصول سکھائے جاتے ہیں۔ بیٹی کو یہ سکھانا کہ وہ کس طرح معاشرے کا سامنا کرے، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور نیک و بد میں فرق کر سکے، یہی اصل تربیت ہے۔
شخصیت سازی میں والدین کا کردار
بیٹی کی پہلی درسگاہ ماں کی گود اور پہلا استاد والد ہوتا ہے۔ والدین دونوں کا کردار اس کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ماں بیٹی کے دل میں محبت، رحم، ایثار، اور مذہبی رجحان پیدا کرتی ہے جبکہ باپ بیٹی کو تحفظ، حوصلہ، خوداعتمادی، اور دنیا داری سکھاتا ہے۔بیٹی اپنے والدین سے عزت، پیار اور اعتماد حاصل کرے گی تو وہ دوسروں سے بھی یہی سلوک کرے گی۔
جدید دور کے چیلنجز
آج کا دور ڈیجیٹل انقلاب، سوشل میڈیا اور تیز رفتار زندگی کا دور ہے۔ اس میں ہر لمحہ نئی سوچیں، نئے خیالات اور نئی ثقافتیں ذہنوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ایسے میں بیٹیوں کی تربیت ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اگر والدین نے توجہ نہ دی تو وہ ٹی وی، انٹرنیٹ یا دوستوں سے غلط معلومات حاصل کر کے گمراہ ہو سکتی ہیں لہٰذا والدین کو چاہیے کہ بیٹیوں کے ساتھ وقت گزاریں،ان کے سوالات کے درست، سادہ اور مثبت جواب دیں۔ ان کے ذہنی، جسمانی اور جذباتی مسائل کو سمجھیں۔
اخلاقی تربیت اور مذہبی شعور
اخلاقی تربیت کے بغیر علم بے فائدہ ہے۔ بیٹیوں کو سچ بولنے، بڑوں کا ادب کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اسی طرح مذہبی شعور، نماز، روزہ، حلال و حرام کا فرق اور پردے کے مسائل کو بھی عمر کے لحاظ سے سکھایا جانا ضروری ہے۔ مذہبی ماحول سے بیٹیوں میں خدا خوفی، عاجزی اور نیکی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جو انہیں دنیاوی فتنے اور برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
تعلیم و پیشہ ورانہ تیاری
تعلیم بیٹی کا حق ہے اور اسے اس حق سے محروم کرنا ظلم ہے۔ بیٹی کو سکول، کالج، یونیورسٹی اور جہاں ممکن ہو فنی تربیت کے مواقع بھی فراہم کرنے چاہئیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی خواتین کو تعلیم یافتہ اور خود کفیل بنایا۔بیٹی کو ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، وکیل یا کوئی بھی قابل عزت پیشہ اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے بشرطیکہ وہ اسلامی حدود میں رہے۔ اس سے وہ خود انحصاری سیکھتی ہے اور وقتِ ضرورت خاندان کا سہارا بن سکتی ہے۔
بیٹیوں کو خوداعتمادی دینا
ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو اکثر کمزور، خاموش یا فرمانبردار بننے کی تربیت دی جاتی ہے مگر آج کے دور میں انہیں مضبوط، خوداعتماد اور فیصلہ ساز بنایا جانا چاہیے۔ والدین انہیں ایسے ماحول میں تربیت دیں جہاں وہ اپنے فیصلے خود لے سکیں، اپنی بات مؤثر انداز میں کہہ سکیں اور مشکل حالات کا سامنا جرات سے کر سکیں۔
تحفظ اور سماجی شعور کی تعلیم
بیٹیوں کو زندگی کے خطرات، دھوکے بازوں اور ہراسانی کے ممکنہ حالات سے آگاہ کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ ان میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اگر کوئی انہیں غیر مناسب انداز میں مخاطب کرے یا ان کا استحصال کرنے کی کوشش کرے تو وہ خاموش نہ رہیں بلکہ آواز بلند کریں اور والدین کو اعتماد میں لیں۔ بیٹی ایک پھول کی مانند ہوتی ہے جس کی نگہداشت، آبیاری اور حفاظت والدین کے ذمہ ہے۔اس کی تربیت وقتی نہیں بلکہ مستقل عمل ہے جو محبت، مشورے، اعتما اور رہنمائی پر مبنی ہونا چاہیے۔ معاشرے میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب ہر گھر میں ایک باشعور بیٹی تربیت پا کر اْبھرے گی۔ یہی تربیت، یہی شعور اور یہی اعتماد ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر سنوار سکتا ہے۔