سیاسی محاذآرائی اور مفاہمت کی سیاست

تحریر : سلمان غنی


سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر حکومت،عدلیہ اور اپوزیشن کے درمیان محاز آرائی کا نیا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

 پی ٹی آئی میں یہ تحفظات پائے جاتے ہیں کہ منصوبہ بندی اور سازش سے ان کی جماعت کو مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا ہے۔بانی پی ٹی آئی بہت جلد ایک بڑی عوامی تحریک چلانے کی بات بھی کر رہے ہیں اور انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو واضح طور پر پیغام بھی دیا ہے کہ وہ ملک گیر تحریک چلانے کی بھرپور تیاری کریں۔ بانی پی ٹی آئی کے بقول بڑی سیاسی تحریک چلائے بغیر ان کی جماعت کو سیاسی اور قانونی ریلیف نہیں ملے گا۔بانی پی ٹی آئی اگرچہ مذاکرات اور مفاہمت کی بات کرتے ہیں مگر ان کے بقول عملی طور پر مذاکرات کی بات حکومت سے نہیں مقتدرہ سے کی جائے گی جبکہ مقتدرہ کے بقول وہ کسی سیاسی جماعت سے مذاکرات کی حامی نہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے اندر بھی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ عملاً مذاکرات صرف مقتدرہ سے کئے جائیں جبکہ دوسرے طبقے کی رائے میں حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کا ڈول ڈالنا ضرروی ہے۔حال ہی میں پی ٹی آئی کی مرکزی سطح کی قیادت، شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے جیل سے خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہمیں ہر صورت مقتدرہ سمیت حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ان کے بقول حالیہ سیاسی بحران کا واحد حل مذاکرات ہے۔ مذاکرات کا راستہ اختیار نہ کیا تو پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستہ تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا۔پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کا یہ خط اور سوچ بانی پی ٹی آئی کی اس سوچ سے مختلف ہے جس میں ان کے بقول مذاکرات صرف مقتدرہ سے ہو سکتے ہیں۔شاہ محمود قریشی سمیت دیگر رہنماؤں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ انہیں بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کا یا ملاقات کا موقع دیا جائے تاکہ وہ مذاکرات کا بہتر راستہ تلاش کر سکیں اور انہیں بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جائے۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے پارٹی رہنماؤں کے مؤقف کے ساتھ کس حد تک کھڑے رہتے ہیں اور کیا وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو سکیں گے؟ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پارٹی کے دیگر رہنماؤں میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کیسے ہو گا؟اسی طرح یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی آنے والے دنوں میں کوئی بڑی سیاسی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور کیا بانی پی ٹی آئی کے حکم پر پی ٹی آئی سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار ہے؟

 موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کے اندر انتشار کافی نمایاں نظر آتا ہے اور ساری قیادت ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑی ہے، خاص طور پر بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کی قیادت پر پارٹی کارکنوں کے اندر بہت تحفظات پائے جاتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی کے بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں سڑکوں پر تحریک چلانا ممکن نہیں ہوگا اور ہمیں حکومت اورمقتدرہ کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور اسے سیاسی فیصلے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔یہ بھی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور ان کے لیے سیاسی راستے کے امکانات کمزور نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ان کو سیاسی راستہ دینے کے لیے حکومت اور مقتدرہ تیار نہیں۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے 26 ارکان کے خلاف سپیکر صوبائی اسمبلی الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیج رہے ہیں اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان ارکان کی رکنیت ختم کی جائے۔سپیکر پنجاب اسمبلی کا یہ اقدام سیاسی بحران میں مزید اضافہ کرے گا اور اپوزیشن اس فیصلے کو آسانی سے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔آج کی حکومت بھی ماضی میں جب اپوزیشن میں تھی تو اسی طرح اسمبلی میں ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملتی تھی لیکن ایسے سخت اقدامات کی مثال نہیں ملتی۔پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے خلاف ان اقدامات کے سیاسی مضمرات کا حکومت اندازہ نہیں کر رہی۔اس وقت پاکستان کی سیاست کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کی ضرورت ہے لیکن لگتا ایسے ہے کہ مسلسل محاذ آرائی کی سیاست کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے قومی سیاست کو مزید خطرات لاحق ہوں گے اور جمہوریت کو نقصان ہوگا۔حکومت کو چاہیے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے معاملے میں مناسب رویہ اختیار کیا جائے کیونکہ انتہائی اقدامات سے جمہوری عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔اسی طرح یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے رہنماؤں شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ اور سینیٹر اعجاز چوہدری کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ 

مسلسل لوڈ شیڈنگ سے جیل میں ان قیدیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔اصولی طور پر حکومت کو ان قیدیوں کے بارے میں بنیادی سہولتوں کی کو فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ سیاسی قیدی ہیں کوئی پیشہ ور مجرم نہیں۔محاذ آرائی کا خاتمہ اور مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار حکومت کا ہی بنتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر اپوزیشن کو قومی مفاہمت کے لیے بات چیت کا مشورہ دیا اور وزیر اعظم اپنی اس دعوت کے لیے براہ راست بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر کے پاس گئے اور ہاتھ ملایا۔ اپوزیشن کو بھی موجودہ صورتحال میں حکومت کے ساتھ بات چیت کی طرف بڑھنا چاہیے۔ حکومت کے ساتھ اپوزیشن کی بات چیت سیاسی بحران کے حل کا سبب بنے گی اور جو سیاسی تلخیاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہیں ان کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہی سیاسی سوچ اس وقت قومی سیاسی بحران کے حل کی طرف آگے بڑھنے میں ہم سب کی مدد کرسکتی ہے۔ پہلے ہی محاذ آرائی کی سیاست کی وجہ سے جہاں ہمیں سیاسی بحران کا سامنا ہے وہیں معاشی بحران کا بھی ہے۔ اس لیے سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ قومی سیاست کو مفاہمت کی سیاست کی طرف لایا جائے۔ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے اور قومی مفاد بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔