سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیا سیاسی منظر نامہ

حکومت کو اپنے قیام کے ایک سال تین ماہ بعد دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں بڑا دھچکا لگا ہے۔
سپریم کورٹ نے 27جون کو مخصوص نشستوں سے متعلق تیرہ رکنی لارجر بنچ کے آٹھ ججز کے 12جولائی 2024ء کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ اس فیصلے میں تمام نظرثانی درخواستیں منظور کر لی گئیں اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا گیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مخصوص نشستوں کی تقسیم کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا اور وہ تمام مخصوص نشستیں بحال کر دی ہیں جو تحریک انصاف کو ملنی تھیں مگرمسلم لیگ (ن)‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے 12جولائی 2024ء کے فیصلے کے بعد یہ نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد جب الیکشن کمیشن نے یہ نشستیں تحریک انصاف کے بجائے دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دیں تو سنی اتحاد کونسل نے اس کے خلاف پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا مگر پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مخصوص نشستوں کی حقدار وہی جماعت ہوتی ہے جو انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔مگر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین نے چونکہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی‘ جس نے براہِ راست انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل سپریم کورٹ گئی اور سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو بحیثیت پارلیمانی جماعت بحال کرتے ہوئے نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے لگے اور اس کے بعد ہی یہ طے ہوا کہ26ویں آئینی ترمیم نا گزیر ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا۔ آئینی عدالت کے قیام کے بعد پاکستان کی عدلیہ سے جوڈیشل ایکٹوازم کا خاتمہ ہوگیا۔ کچھ حلقوں کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم اس لیے بھی ضروری ہو چکی تھی کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کی سطح پر ہونے والے بعض فیصلے نظام کو چلنے نہیں دے رہے تھے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا وہ باب جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کھولا تھا اس ترمیم کے ذریعے اسے بند کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے اختیارات طے ہونے اور ان کے ڈھانچوں میں تبدیلی کے بعد ملک سے ہیجانی کیفیت اور سیاسی‘ قانونی اور آئینی بحرانوں کا خاتمہ ہوگیا۔ کچھ لوگ ساری صورتحال کا ذمہ دار اُن عدالتی فیصلوں کو سمجھتے ہیں جن میں وہ ریلیف بھی دیے گئے جو مانگے نہیں گئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف جہاں خود بحران کا شکار ہوئی وہیں اس نے اعلیٰ عدالتوں کی طاقت کو لگام ڈالنے کیلئے بھی جواز فراہم کر دیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے ہاتھ دو بیٹھنے اور اس کے بعد مخصوص نشستیں نہ ملنے کی تمام ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے جو وقت پر اپنے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروا سکی۔تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کرنا اور اس کے بعد اس کے حق کی نشستیں چھین لینا جمہوری روایات اور رواداری کے خلاف ہے۔پاکستان تحریک انصاف اور اس کے حامی بلکہ غیرجانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق بھی یہ فیصلے سیاسی ہیں اور ہمیشہ تنقیدی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن نے اب اُن اراکین کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جنہیں 2024ء میں یہ مخصوص نشستیں بانٹی گئی تھیں اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے بھی نئی پارٹی پوزیشن جاری کر دی ہے۔ قومی اسمبلی کے 336اراکین کے ایوان میں موجود اراکین کی تعداد 333ہے۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حکمران اتحاد کی نشستوں کی تعداد 235ہو چکی ہے‘ یعنی حکمران اتحاد کے پاس اب دو تہائی اکثریت آ چکی ہے‘ جس کیلئے 224نشستیں درکار تھیں۔ سپریم کورٹ کے نظرثانی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو 13اضافی نشستیں ملی ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو چار جبکہ جے یو آئی (ف) کو دو نشستیں اضافی ملی ہیں جس کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مجموعی نشستوں کی تعداد 123 اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستوں کی تعداد74 ہو چکی ہے۔ حکومت کے باقی اتحادیوں کو اضافی نشستیں نہیں ملیں۔ اس وقت قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پاس 22‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پاس پانچ‘ استحکام پاکستان پارٹی کے پاس چار‘ مسلم لیگ ضیا کے پاس ایک‘ بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس ایک‘ عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ایک نشست ہے جبکہ چار آزاد امیدوار ہیں جو حکومت کے ساتھ ہیں۔
اپوزیشن بنچز کی بات کی جائے تو سنی اتحاد کونسل کے پاس 80جنرل نشستیں جبکہ تحریک انصاف سے ہی تعلق رکھنے والے پانچ آزاد اراکین‘ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پاس ایک‘ مجلس وحدت المسلمین کے پاس ایک‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس بھی ایک نشست ہے۔ اپوزیشن بنچز پر بیٹھی جے یو آئی (ف) کو بھی تحریک انصاف کے حصے سے دو مخصوص نشستیں ملیں جس کے بعد قومی اسمبلی میں جمعیت علما اسلام (ف) کی کل نشستوں کی تعداد 10ہو گئی ہے۔
شہر اقتدار میں چہ مگوئیاں ہونے لگی ہیں کہ حکومت اب ستائیسویں آئینی ترمیم کی تیاریاں کر رہی ہے اور شاید اسی لیے اس نے دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی کی قیاس آرائیاں بھی ہونے لگی ہیں۔ اس سے قبل 26ویں آئینی ترمیم حکومت نے جے یو آئی (ف) کو ملا کر کی تھی۔ اب اسے کسی نئی آئینی ترمیم کیلئے اپوزیشن بنچز سے کسی کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگرچہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت بھی حکومت آخری وقت تک تصدیق کرنے سے انکار کرتی رہی مگر یہ ترمیم اچانک ہو گئی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پَر تول رہی ہے۔ اگر یہ بات درست بھی ہے تو ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ خیبر پختونخوا حکومت گرانے کیلئے بھی اپوزیشن بنچز کے نمبرز پورے نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے دبنے کے باوجود سنی اتحاد کونسل موجود ہے اور پی ٹی آئی اراکین اس کے پارٹی ڈسپلن میں آتے ہیں جو پارٹی پالیسی کے بغیر وزیراعلیٰ کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے۔ یوں خیبر پختونخوا حکومت تبدیل کرنا بھی ممکن نظر نہیں آتا۔