عظیم شاہسوار (پانچویں قسط)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے گزارش کی ’’ امیر محترم! موجودہ طریقہ جنگ میں مجھے کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے‘‘۔’’ابن زبیر‘‘! عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بولے: ’’میدان جنگ کی صورتحال کو دیکھ کر ہی میں نے اس انداز جنگ کو اختیار کیا ہے، اگر تمہارے ذہن میں اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو ضرور بتائو‘‘؟
’’ جی امیر محترم، ایک تجویز ہے میرے ذہن میں‘‘ عبداللہ بن زبیرؓ نے بڑے احترام کے ساتھ کہا: ’’ ہم اپنے لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں۔ ایک حصہ صبح کے وقت دشمن سے جنگ کرے، اس دوران دوسرے حصے کے لوگ مکمل طور پر آرام کریں اور اپنے طور پر آنے والے معرکے کی تیاری کریں۔ جب پہلے حصے کے لوگ دشمن سے جنگ کرتے کرتے تھک جائیں تو وہ لوٹ آئیں۔ دشمن بھی تھک کر واپس چلا جائے گا۔ اس موقع پر دوسرے حصے کے لوگ تھکے ماندے دشمن پر اچانک حملہ کر دیں۔ اللہ نے چاہا تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی‘‘۔
عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ یہ تجویز سن کر بہت خوش ہوئے۔ تجویز ان کے دل کو بھا گئی تھی۔ چنانچہ وہ عارضی طور پر لشکر کی قیادت سے دستبردار ہو گئے اور لشکر کی امارت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی تاکہ وہ صحیح انداز میں اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
دوسرے دن دونوں فریقوں کا آمنا سامنا ہوا۔ حسب معمول گھمسان کا رن پڑا۔ مجاہدین کو شہادتیں بھی نصیب ہوئیں اور بے شمار مشرک جہنم واصل ہوئے۔ جب دونوں لشکر زخموں اور تھکن سے چور اپنی اپنی کمین گاہوں کی طرف لوٹ آئے تب دوسرے تازہ دم حصے کے مجاہدوں نے اچانک دشمن پر حملہ کردیا۔ دشمن کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تھکن سے چور لوگ اتنی جرأت کر سکتے ہیں۔ تازہ دم لشکر نے حیرت میں ڈوبے دشمن کو شکست سے دوچار کردیا۔ مسلمانوں نے بے شمار کافروں کو قتل کیا اور کتنے ہی لوگوں کو قیدی بنا لیا حتیٰ کہ ان کا بادشاہ بھی موت کے گھاٹ اتر گیا۔ مال غنیمت بھی وافر مقدار میں حاصل ہوا۔ یہ تھا اس شاندار تجویز کا نتیجہ، جو ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی فہم و فراست کی دلیل تھی۔
عبداللہ بن زبیرؓ نے خلیفہ وقت سید نا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت جو موقف اور طریقہ کار اختیار کیا، اسے تاریخ نے ہمیشہ کیلئے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا۔ جب مخالفوں نے سید نا عثمان غنیؓ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا۔ اس وقت چند صحابہ کرام ؓ دفاع کیلئے آ گے بڑھے، ان میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ سید ناعثمان غنیؓ اس بات پر بضد تھے کہ وہ اپنے دفاع کیلئے فوج کو نہیں بلائیں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں اور محض ان کی ذات کیلئے مسلمانوں کا خون بہے۔ اسی بنا پر ان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ لڑائی سے گریز کیا جائے۔
سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کے اسی موقف کی بنا پر عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ ان کی حفاظت کیلئے چند صحابہ کرام ؓ کے ساتھ موجود تھے۔ جب مخالف دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور سید نا عثمان غنی ؓ پر حملہ کیا تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کے زور سے انہیں سید نا عثمان غنی ؓسے دور کیا، اس مختصر لڑائی میں انہوں نے کئی باغیوں کو زخمی کیا، خود انہیں بھی کئی زخم آئے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یہ میرا سب سے بہترین عمل ہوگا۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دنیاوی جاہ و حشمت کے بالکل طلب گار نہ تھے اور نہ انہیں دنیا کے معاملات سے کوئی خاص دلچسپی تھی۔ جب خلیفہ وقت سید نا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ان کے بیٹے یزید بن معاویہ کی بیعت کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ چونکہ ایک اختلافی مسئلہ تھا، اس لئے عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا اور مکہ مکرمہ میں رہائش اختیار کرلی۔ بعد میں سید نا حسین رضی اللہ عنہ تو عراق چلے گئے اور کچھ ہی عرصے بعد میدان کربلا میں جام شہادت نوش کر گئے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ کے والی کی حیثیت سے وہیں مقیم رہے۔ یزید بن معاویہ کا کچھ ہی عرصے کے بعد انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد یزید کا بیٹامعاویہ خلیفہ بنا اب اللہ کی قدرت دیکھئے، اسے بھی حکومت کرنے کی زیادہ مہلت نہ ملی۔ چونکہ وہ کم سن تھا، اسی بنا پر حکومت کی طمع اور لالچ سے محروم تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مرتے وقت اس نے کسی کے متعلق وصیت نہیں کی کہ میرے مرنے کے بعد فلاں کو خلیفہ بنا دینا۔(جاری ہے)