پی ٹی آئی احتجاج پر مصر حکومت سے مذاکرات میں رکاوٹ کیا ہے ؟
پی ٹی آئی پھر سے احتجاج پر مُصر نظر آ تی ہے اور اس حوالہ سے تنظیمی سطح پر تیاریوں کا آغاز بھی کر دیا ہے، مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ احتجاج بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے ہے،
حکومت گرانے کیلئے یا وہ عوام کے حقیقی مسائل کی بنیاد پر عوام میں آنا چاہتے ہیں؟ بانی پی ٹی آئی کے حوالہ سے خبرہے کہ وہ احتجاجی تحریک کے مؤقف پر قائم ہیں اور اپنی جماعت کو ہدایات دے رہے ہیں کہ جس نے تحریک کا حصہ نہیں بننا وہ گھر بیٹھ جائے۔ بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ بھی کارکنوں میں احتجاجی جذبہ پیدا کرنے کیلئے سرگرم نظر آتی ہیں۔ اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد وہ ہمیشہ احتجاج اور احتجاجی تحریک کا پیغام دیتی ہیں۔ حالیہ ملاقات کے بعد بھی ان کا کہنا تھاکہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ پانچ اگست تک تحریک اپنے عروج پر ہو گی اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادے قاسم اور سلمان بھی احتجاج میں حصہ لینے کیلئے پاکستان آئیں گے۔ یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی کے صاحبزادے برطانوی شہری ہیں اور پاکستان احتجاج کیلئے ان کا آنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ خان صاحب کے دونوں بیٹوں کی والدہ بھی ماضی میں کہہ چکی ہیں کہ ان کے بیٹوں کا پی ٹی آئی کی سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ‘لہٰذا یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے احتجاج کیلئے فضا سازگار ہے؟ کیا اس حوالہ سے تحریک انصاف کے اندرماحول بن چکا ہے اور کیا مسائل زدہ عوام اس احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں گے؟ جہاں تک تیاریوں کی بات ہے تو احتجاجی تحریک کیلئے جو فضا درکار ہوتی ہے وہ ابھی نظر نہیں ا ٓ رہی۔ خود جماعت کے اندر بھی ایسی فضا نہیں، وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور کارکن احتجاجوں سے تھک چکے ہیں۔ احتجاج کو منظم کرنا مرحلہ عمل ہے اور حکومت کو تھکایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی یہ آپشنز پہلے ہی استعمال کر چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ پارٹی کی سرگرمیاں بانی پی ٹی آئی کی رہائی تک محدودہیں۔ پی ٹی آئی مہنگائی زدہ، مسائل زدہ عوام کی آواز بننے کو تیار نظر نہیں آتی۔عوام میں مایوسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ان کے ایشوز سے لاتعلق ہیں۔ تیسری وجہ خود بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی آمد کی خبریں ہیں۔اس سے جماعت کی سرگرمیوں میں جان پڑ سکتی ہے، ہمدردی کا عنصربھی پیدا ہو سکتا ہے مگر سوال وہی ہے کہ برطانیہ میں ناز و نعم میں پلے بڑھے لڑکے کیا اس مشکل صورتحال میں کوئی کردار ادا کر پائیں گے؟ اور اگر ان کی آمد کے باوجودمطلوبہ تعداد میں لوگ باہر نہیں نکلتے تو اور آپشن کیا رہ جائے گا؟ لہٰذا بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کی آمد اور ان کے سیاسی کردار پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس لیے کہ جب تک پارٹی فعال نہیں ہو تی احتجاجی فضا پیدا نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک بانی پی ٹی آئی کے احتجاج پر بضد ہونے کی بات ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ انہیں جو نظر آ رہا ہے وہ کسی اور کو دکھائی نہیں دے رہا، وہ سمجھتے ہیں کہ ریلیف کسی محاذ سے ممکن نہیں۔ کوٹ لکھپت جیل سے پارٹی کے اسیران کی جانب سے ڈائیلاگ کی بات اور حکومت سے مذاکرات کی بات پر بھی بانی پی ٹی آئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ اسیرانِ کوٹ لکھپت کی جانب سے ایک اور مکتوب کی خبریں ہیں اس میں بھی مذاکرات پر زور دیا گیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی یہی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ مفاہمت ہی بہتر ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی جانتے ہیں کہ اس وقت احتجاج کارگر نہیں ہو گا اسی لیے مذاکرات اور مفاہمت کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر احتجاجی تحریک اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا جائے تو جب تک پنجاب میں احتجاجی کیفیت طاری نہیں ہو گی احتجاج کارگر اور نتیجہ خیز نہیں ہو گا مگر پنجاب کی سطح پر پی ٹی آئی میں قیادت کا خلا نظر آتا ہے۔ پنجاب کی آرگنائزر عالیہ حمزہ اپنازور لگارہی ہیں مگر کیا وہ احتجاج کیلئے کارکنوں کو باہر لا سکیں گی، یہ ان کیلئے بھی بڑا امتحان ہو گا۔ جہا ںتک حکومتی حکمت عملی کا سوال ہے توحکومت پنجاب سیاسی محاذ سے زیادہ اپنی کارکردگی میں اضافہ کیلئے سرگرم نظر آتی ہیں۔ اسے بیوروکریسی کی بھی بھر پور سپورٹ حاصل ہے اور پی ٹی آئی کے احتجاج کو دبانے میں اس کاکردار نمایاں ہے۔ پی ٹی آئی کی بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ نو مئی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی۔ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے خواہاں بانی پی ٹی آئی مقتدرہ سے تعلقات بحال نہیں کر پائے۔ ماضی میں اپوزیشن کا حکومت پر دباؤ تب کارگر ہوتا تھا جب اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نظر آتی تھی مگراب ایسا نہیں ہے یہی پی ٹی آئی کے سیاسی کردار میں بڑی رکاوٹ ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے26 اراکین کی معطلی اور انہیں ڈی سیٹ کرانے کا عمل بھی بڑا ایشو بنا نظر آ تا ہے۔ سپیکر ملک احمد خان اس معاملے میں پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں اور یہ امر اُن کے حوالہ سے غیر معمولی نظر آتا ہے کیونکہ ان کاطرزِ عمل جمہوری اور سیاسی رہا ہے۔ ان کے اپوزیشن سے بھی اچھے تعلقات تھے مگر وزیراعلیٰ کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی کے بعد ان کی پوزیشن بھی متاثر ہوئی۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں، ایوانوں میں بہت کچھ ہوتا رہا ہے مگر بات اراکین کی معطلی تک کبھی نہیں گئی مگر اب وزیر اعلیٰ کی تقریر پراپوزیشن کی ہنگامہ آرائی نے سپیکر کو جذباتی کر رکھا ہے لیکن اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے حوالہ سے قوانین اُن کا ساتھ نہیں دے رہے۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر ایک طرف اپوزیشن کے احتجاج کے حق کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیٹھ کر مسائل حل کئے جا سکتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ کسی انتہائی طرز عمل کے خلاف ہیں۔ ملک احمد خان کے سیاسی کردار اور ان کے طرز عمل سے واقفیت رکھنے والوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ اگر ان جیسا شخص اس انتہائی اقدام پر آمادہ ہے تو کوئی بڑی بات تو ہو گی، مگر اپوزیشن اراکین کو ڈی سیٹ کرانے کا عمل سیاست میں بڑی قباحتوں کا باعث بنے گا جس کی نشاند ہی (ن) لیگ کی جانب سے خواجہ سعد رفیق اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ندیم افضل چن کر چکے ہیں۔ سپیکر ملک احمد خان کو اس مسئلہ کا خوش اسلوبی سے حل نکالنا چاہیے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ دو ملک احمد خان مل بیٹھیں گے تو حل نکل آئے گا، لہٰذا اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان کو سپیکر ملک احمد خان کے ساتھ مل بیٹھنے کی تدبیر کرنا ہو گی پھر سپیکر ملک احمد خان کے پاس مصالحانہ کردار کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا۔ مسئلہ الیکشن کمیشن یا عدالتوں میں نہیں سپیکر آفس ہی میں حل ہو نا چاہیے۔