تحریک عدم اعتماد کا انجام
آزاد جموں و کشمیر میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو تبدیل کرنے میں پیپلزپارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عام سیاسی کارکن اس ناکامی کو ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کی عدم دلچسپی بھی قرار دے رہے ہیں۔کہا یہ جارہا ہے کہ وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد آخر ی وقت میں صرف اس لئے روک دی گئی کہ اس سے آزاد جموں و کشمیر میں جاری حکومتی اصلاحاتی پروگرام متاثر ہوگا۔
یہ بھی شنید ہے کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق سیاست سے تھک چکے ہیں اور واقعی جانا چاہتے تھے،اس کا ثبوت یہ ہے گزشتہ ہفتے جس وقت اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط بھی ہو گئے تھے، سپیکر قانون ساز اسمبلی کو مظفر آباد میں رہنے کا کہا گیا تھا اور پیپلزپارٹی نئے وزیر اعظم کے انتخاب اورحلف کی تیاریاں بھی کر چکی تھی تو وزیر اعظم چوہدری انوار الحق مظفر آباد میں اپنی چیزوں کو سمیٹنے میں مصروف تھے کہ شاید اس بار 27 کا ہندسہ پورا ہو جائے اور وہ تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے پہلے گھر چلے جائیں گے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، یوں عدم اعتماد کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
گزشتہ دو سال سے اس حکومت کی کار کردگی کو دیکھا جائے تو وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اور ان کی کابینہ نے کوئی نئی قانون سازی نہیں کی بلکہ اسی قانون میں رہتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کا بجٹ ماہانہ 30 لاکھ روپے تک لے آئے ہیں جو پہلے کروڑوں روپے تک تھا۔ آزاد جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایسے وزرا ئے اعظم بھی گزرے ہیں جنہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر ایک دن میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپے خرچ کئیمگروزیر اعظم ہاؤس کیا پورے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کا ایک ماہ کا خرچہ30 لاکھ سے اوپر نہیں جاتا۔ اس سے قبل وزرائے اعظم کی موجودگی میں ان کا سٹاف ماہانہ ایک سرکاری گاڑی کے پٹرول کی مد میں پانچ سے بارہ، بارہ لاکھ روپے لے اڑتا جبکہ گزشتہ دنوں اسی وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ایک ملازم نے 42 لیٹر پٹرول کا بل پیش کیا جو جعلی ثابت ہوا تو اُسے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں حاضر کر کے اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔حکومتی کفایت شعاری کے اثرات پورے آزاد جموں وکشمیر کے سرکاری دفاتر میں نظر آنے لگے۔ یوں پچاس سال سے آزاد جموں و کشمیر میں جاری سرکاری سطح پر شاہ خرچیوں کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں چور دروازے سے سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ کا خاتمہ موجودہ حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ آزاد جموں و کشمیر جہاں 20 سے 25 ہزار سرکاری ملازمین سے بہترین نظام چلایا جا سکتا ہے وہاں اس وقت ایک لاکھ ساٹھ ہزار سرکاری ملازمین ہیں، جن میں سے بیشتر کی تعلیمی اسناد مبینہ طور پر جعلی ہیں جبکہ گھوسٹ سکولوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہے اور ایک اندازے کے مطابق 200 سے زائد تعلیمی اداروں میں طلبا سے زیادہ تعداد میں اساتذہ اور نائب قاصد تعینات ہیں۔
وزیر اعظم چوہدری انوار الحق جب برسر اقتدار آئے تھے تو خزانے میں بارہ ارب روپے تھے، اب اس میں ایک سو ارب روپے بچت کی رقم بھی موجود ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران آٹا 2000 روپے من اور بجلی پانچ روپے یونٹ صارفین کو فروخت کرنے کے باوجود دو سال میں 82 ارب روپے اضافی ریونیو کی مد میں جمع کئے گئے اور صرف گزشتہ مالی سال کے دوران 70 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کیا گیا۔ موجودہ حکومت کی اس کارکردگی کو وفاق میں بھی سراہا جاتا ہے۔
منگل کے روز دار الحکومت مظفرآباد میں چار سینئر صحافیوں کے گروپ کے ساتھ ملاقات میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کا کہنا تھا کہ ان کے حلف کے چوبیس گھنٹے کے بعد ہی انہیں وزار ت اعظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لیے کچھ سیاسی پارٹیوں نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئیے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ دو سال سے وہ ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن جب تک اللہ انہیں اقتدار میں رکھنا چاہے تو انہیں دنیا کی کوئی طاقت حکومت سے الگ نہیں کر سکتی ہے۔ تاہم وہ اب بھی اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اپوزیشن 27 اراکین اسمبلی کو اکٹھا کرلے تو وہ اسی وقت استعفیٰ دے دیں گے۔ الیکشن کمشنر کی تقرری کے حوالے سے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ یہ آئینی ضرورت ہے اور بہت جلد اس اہم عہدے کو پُر کیا جائے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آنے والے الیکشن میں وہ بطور آزاد امیدوار حصہ لیں گے یا اپنی الگ سیاسی جماعت بنائیں گے تو وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ فارورڈ بلاک کے دوستوں سے مشاورت کے بعد وہ اگلے انتخابات آزاد لڑنے، یا نئی سیاسی جماعت بنانے یا نہ بنانے کا فیصلہ کریں گے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ الیکشن میں جائیں گے۔ دوسری جماعتوں میں جانے والے اراکین اسمبلی کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ جانے والوں کو جانے اور آنے والوں کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ادھر مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے اپنے دورہ ٔبرطانیہ کے دوران کہا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی سے کہا کہ وہ میدان میں آئیں اور الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اصل طاقت عوام کا ووٹ ہے اور الیکشن کے دن پتہ چلے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں اور کس کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں۔ (ن) لیگ آزاد جموں و کشمیر کے صدر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پیپلزپارٹی کے پاس آزاد کشمیر میں مطلوبہ امیدوار ہی نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کشمیریوں کے ووٹ سے اقتدار میں آکر جہاں آزاد جموں و کشمیر کے لوگوں کی خدمت کرے گی اور اسلام آباد اور مظفرآباد کے درمیان تعلق اور رشتوں کو اور مضبوط کرے گی۔