فتنہ الہندوستان کا نہتے لوگوں پہ وار

تحریر : عرفان سعید


لورالائی اور موسیٰ خیل کے درمیان این70 قومی شاہراہ پر پیش آنے والا واقعہ جس میں 9 مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا، انسانیت کے خلاف جرم ہے اور حکومتی رٹ اور سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی کئی سوالات اٹھاتا ہے۔

 مسلح افراد نے گزشتہ ہفتے لورالائی کے قریب سرہ ڈکئی کے مقام پر مسافر بسوں کو روکااور شناختی کارڈ چیک کرکے مسافروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ مقتولین کا تعلق پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔ ملک کی حساس ترین اور سکیورٹی کے لحاظ سے ہائی الرٹ سمجھی جانے والی شاہراہ پر اس طرح کا واقعہ کئی سوال پیدا کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد نہ صرف منظم ہیں بلکہ انہیں مقامی سطح پر سہولت کاری بھی حاصل ہے۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اس واقعے کو فتنہ الہندوستان سے جوڑا ہے اور اسے ملکی سالمیت اور یکجہتی پر حملہ قرار دیا۔ اگر یہ واقعی بیرونی سازش ہے تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے اس سازش کو روکنے میں کیوں ناکام رہے؟ اگر یہ مقامی دہشت گرد گروہ کی کارروائی تھی تو اس کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ ان سوالات کے جواب دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ 9 مسافروں کا شناخت کے بعد سفاکانہ قتل کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے الفاظ کہ یہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی سنگین کوشش ہے، صورتحال کی سنگینی کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے محض اجلاس اور اعلانات کافی نہیں عملی اقدامات اور نتائج درکار ہیں۔ضروری ہے کہ وزیر اعلیٰ کے یہ الفاظ کہ بلوچستان دشمنوں کے لیے قبرستان بنے گا‘محض نعرہ نہ رہیں بلکہ عملی اقدامات ثابت ہوں۔ 

رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں تیزی رہی۔ دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد جبکہ آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں 100فیصد اضافہ ہوا۔محکمہ داخلہ بلوچستان کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران صوبے میں دہشت گردی کے 501 واقعات میں 133 اہلکاروں سمیت 257 افراد جاں بحق جبکہ 238 اہلکاروں سمیت 492 افراد زخمی ہوئے۔رواں سال غیر مقامی افراد پر 14 حملے ہوئے جن میں 52 افراد جان سے گئے جبکہ 11 زخمی ہوئے۔دستی بم اور بارودی سرنگ کے دھماکوں اور راکٹ فائر کے مجموعی طور پر 81 واقعات ہوئے جن میں 26افرادجاں بحق اور 112 افراد زخمی ہوئے۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران عام شہریوں پر حملوں کے 39 واقعات میں 11 افراد جاں بحق جبکہ 29 زخمی ہوئے، اسی عرصے کے دوران ٹرین پر دو حملوں میں 29 افراد جاں بحق ہوئے۔اس کے علاوہ پولیو ورکز پر ہونے والے ایک حملے میں ایک ورکر جان سے گیا جبکہ موبائل فون ٹاورز پر حملے کے نو واقعات میں دو افراد زخمی ہوئے۔ 

دوسری جانب ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کوئٹہ اعتزاز احمد گورائیہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اغواہونے والے بچے مصور خان کاکڑ کے اغوا میں ملوث بعض ملزمان کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس کی کارروائی اپنی جگہ مگر یہ تب ہی بامعنی ہوتی ہیں جب بروقت ہوں اور انسانی جان کا تحفظ یقینی بنائیں۔ اس واقعے میں ریاستی مشینری کی جانب سے کی گئی کاوشیں اپنی جگہ مگر یہ امر باعث افسوس ہے کہ بچے کو بحفاظت بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ اغوامیں ملوث ملزم افغانستان سے تعلق رکھتا تھا اور افغانستان ہی سے اسلحہ لایا گیا، گاڑیاں استعمال ہوئیں، مقامی رہائشگاہیں کرایہ پر لی گئیں، یہاں تک کہ مصور کے گھر اور دکان کی ریکی کی گئی۔ یہ سب کچھ اگر ہوا تو ریاستی اداروں کی نگرانی اور انٹیلی جنس پر بھی سوال اٹھتا ہے۔کیا سکیورٹی کے اقدامات صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہیں یا پورے بلوچستان میں یکساں معیار کے ہیں؟

ایک ایسے وقت میں جب صوبہ بدترین بدامنی، معاشی پسماندگی اور سیاسی بے یقینی سے دوچار ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے کوئٹہ میں ایک سیمینار منعقد کروایا گیا ہے جس میں سردار اختر مینگل سمیت مختلف رہنماؤں نے بلوچستان کے سلگتے مسائل پر اظہار خیال کیا۔ سردار اختر مینگل کی تقریر میں بلوچستان کے نوجوانوں کی محرومی کا کرب نمایاں تھا۔ ان کا یہ سوال بجا ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھوں سے قلم کس نے چھینا؟ جب بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور سیاسی شراکت سے محروم رکھا جائے گا تو ریاست سے ان کا تعلق کیسے مضبوط ہوگا؟ ان کا یہ انتباہ کہ مشرقی پاکستان والے حالات بلوچستان میں پیدا کیے جا رہے ہیں‘ چشم کشا ہے، جس پر وفاق اور مقتدر حلقوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔سیمینار میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں کی گئی ترمیم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ثنا بلوچ کی جانب سے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جانب سے اس ایکٹ کی عدم منظوری کا حوالہ یہ واضح کرتا ہے کہ بلوچستان میں اس ایکٹ کو غیر جمہوری طریقے سے تھوپنے کی کوشش کی گئی۔احمد جان، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر نائل،جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا ہدایت الرحمن اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے صوبے میں بد امنی،پانی کی قلت، زراعت کی تباہی اور بھاری ٹیکسز جیسے مسائل پر بات کی گئی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اجتماعی طور پر ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔سیمینار میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان کئی مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر آمادگی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ بلوچستان میں وسیع سیاسی اتحاد کی فضا بن رہی ہے۔اس سیمینار کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ مختلف نظریاتی و سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں اور بلوچستان کے مسائل پر متفقہ مؤقف اپنایا۔ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، نیشنل پارٹی، پی کے میپ،جے یو آئی نظریاتی اور دیگر جماعتوں کی شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کسی ایک جماعت یا قوم کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔

 گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نوابزادہ جمال رئیسانی نے اپنے والد نوابزادہ سراج رئیسانی شہید کی ساتویں برسی کے موقع پربلوچستان کی صورتحال پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا نوجوان غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں سیاسی نظام سے لاتعلق ہوتا جارہا ہے جس کا فائدہ دشمن طاقتیں اٹھا رہی ہیں، بلوچستان کے حوالے سے وفاق کو اپنی پالیسیوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے، گورننس کی بہتری اور صوبے میں کرپشن کی روک تھام حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ حالات کو درست کرنے کیلئے مذاکرات کا راستہ کھلا رکھنے کی ضرورت ہے، نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، انہیں غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا حکومت کے ساتھ ساتھ صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔