خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن پی ٹی آئی کیا سوچ رہی ہے ؟

تحریر : عابد حمید


پاکستان تحریک انصاف بظاہر ایک بار پھر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس جماعت کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی لیکن مخصوص نشستیں مسلم لیگ(ن) ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو دئیے جانے کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا۔

مخصوص نشستیں آئینی بینچ کے فیصلے کے تحت ان جماعتوں کو دی گئی ہیں جس سے یوں تو سبھی کو فائدہ پہنچا ہے مگر سب سے زیادہ جمعیت علمائے اسلام کو۔پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں کھو جانے سے دو نقصانات ہوئے ہیں، ایک تو اس جماعت کی ایوان میں فیصلہ کن برتری ختم ہوگئی تو دوسری جانب سینیٹ میں بھی پی ٹی آئی کی عددی طاقت بڑھنے کا امکان دم توڑ گیا ہے۔پی ٹی آئی کو ایسا کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آرہا کہ کیسے اپوزیشن کو یہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے سے روکے۔وقتی طور پر مخصوص نشستوں پر ایوان میں آنے والوں سے حلف نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلئے اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا جارہا، جبکہ اپوزیشن کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں کہ وہ اجلاس کے لیے ریکوزیشن کر سکے۔ایسے میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جس میں اپوزیشن کے ساتھ حکومت بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی حکومت کی کوشش ہے کہ جتنا ہوسکے سینیٹ الیکشن کو ملتوی کروایا جائے، جس کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن نے 21 جولائی کی تاریخ دی ہے۔یہ معاملات اس لئے بھی الجھن کا شکار ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں بھی مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔اے این پی،مسلم لیگ( ن) اور پی ٹی آئی پی نے جے یو آئی کوزائد نشستیں دئیے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کررکھا ہے۔اپوزیشن جماعتیں شدید اختلافات کی شکار ہیں اور تاحال وہ سینیٹ انتخاب کی صورت میں زائد نشستیں نکالنے کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام ہیں۔ ذرائع کے مطابق جے یوآئی چاہتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مخصوص نشستوں کے خلاف کئے گئے مقدمات واپس لیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے۔ پارٹی کا اندرونی خلفشار بڑھتا جارہا ہے۔ سینیٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بھی پارٹی قیادت اختلافات کا شکار ہے۔ جن افراد کے نام سامنے آئے ہیں ان پر پارٹی کارکنوں کی جانب سے اعتراضات کا اظہار کیا گیاہے۔ خیبر پختونخوا کے بجٹ کی منظوری کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ علی امین گنڈا پور سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں پر تنقید کی جارہی ہے۔

خیبرپختو نخوا میں سینیٹ الیکشن ہمیشہ سے ہی متنازع رہے ہیں اور مبینہ چمک کی بازگشت ہمیشہ سنائی دیتی ہے۔ پارٹیاں چاہے ایوان میں جتنی بھی عددی برتری رکھتی ہوں وہ ایوان بالا کیلئے تگڑے امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں جو نہ صرف ان کے اپنے ممبر بلکہ اپوزیشن کو بھی چمک کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کرے۔ ماضی میں یہ بھی دیکھا گیاہے کہ حکومت نے اپنے ہی ارکان اسمبلی کو پھسلنے سے بچانے کیلئے نوازا۔خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا انتخاب علی امین گنڈاپور کی حکومت کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے کہ وہ کیسے اپنے اراکین اسمبلی کو قابو میں رکھتے ہیں۔صوبائی حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تاحال کوئی اجلاس نہیں بلایا جاسکا، نہ ہی ارکانِ اسمبلی کے گروپ بنائے گئے ہیں کہ کس گروپ نے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو ابھی تک سینیٹ امیدواروں کے حتمی نام بھی معلوم نہیں ہوسکے۔ بظاہر یوں لگ رہاہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور سمیت پی ٹی آئی قیادت اس انتظار میں ہے کہ شاید 21 جولائی کو ہونے والا سینیٹ الیکشن ایک بار پھر ملتوی ہوجائے۔ اس کیلئے ارکان اسمبلی سے حلف نہ لینے کے علاوہ دیگر قانونی آپشنز پر بھی غور کیا جارہا ہے، لیکن اس کے برعکس اپوزیشن 21 جولائی کو انتخاب کروانے کیلئے پرعزم ہے۔اس حوالے سے گورنر خیبر پختونخوا نے ایک خط بھی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو لکھا ہے جس میں ا نہیں جلد سے جلد صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا کہا گیا ہے۔

ادھر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے حالیہ دورہ لاہور پر بھی پارٹی کے اندر شدید تنقید ہورہی ہے۔یہ کہا جارہاہے کہ یہ دورہ صرف ایک تگڑے امیدوار کو نوازنے کیلئے کیاگیا۔ اس دورے کے دوران ایک بڑا دعویٰ بھی علی امین گنڈاپور کی جانب سے سامنے آیاہے جس میں انہوں نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ اس بار بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے نوے دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ نوے دن کے اندر بانی پی ٹی آئی کو رہا نہ کرواسکے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔اس سے پہلے بھی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے ایسے دعوے کئے گئے تھے اور یوں لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر پارٹی کارکنوں کو نوے دن کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا ہے۔ 

پی ٹی آئی کی قیادت پر اس حوالے سے دن بدن دباؤ بڑھتا جارہا ہے اسی دباؤ کے باعث پارٹی قیادت ذہنی خلجان کی سی صورتحال میں مبتلا ہے۔مرکزی رہنما ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔عاطف خان،اسد قیصر اور علی امین کے مابین اختلافات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں بانی پی ٹی آئی کی تین ماہ میں رہائی کا دعویٰ محض کارکنوں کو مطمئن کرنے کیلئے ایک نعرہ ہی لگ رہا ہے۔

سیاست کے ساتھ ساتھ امن وامان کے حوالے سے بھی صوبائی حکومت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں لیکن اس طرف توجہ ہی نہیں دی جارہی۔باجوڑ میں اے این کے رہنما مولانا خانزیب کی شہادت نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ مولانا خانزیب کی شہادت پر نہ صرف اے این پی بلکہ مقامی لوگوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ اسی طرح چند روز قبل اسسٹنٹ کمشنر ناواگئی اور تحصیلدار کو بھی باجوڑ میں دہشت گرد حملے میں شہید کیا گیا۔باجوڑ میں اس حوالے سے امن پاسون کاگزشتہ روز انعقاد کیا گیاجس کے بعد قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگے نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی جس میں فوج کے سینئر افسروں سمیت اعلیٰ سول افسران بھی شریک تھے۔ اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ مصدقہ اطلاع پرانٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے جائیں گے۔دہشت گردی کی یہ جنگ اب پوری قبائلی پٹی میں پھیل گئی ہے جسے عوامی تعاون کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔