چینی کے بعد روٹی بھی مہنگی
ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف شہروں میں بھی بارشیں ہورہی ہیں لیکن حیدرآباد میں پیر کو آدھا گھنٹے ہونے والی شدید بارش نے تقریباً پورے شہر کو ڈبو دیا۔
سڑکیں اور گلیاں تالاب بن چکی تھیں اور نشیبی علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہوگیا۔ اس دوران شہر کے 152میں سے 140کے قریب فیڈرز بھی ٹرپ کر گئے اور بجلی چلی گئی جو رات گئے بحال ہونا شروع ہوئی۔ انتظامیہ کو دہری مصیبت کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو بدحال شہر کا مزید برُا حال ہوگیا، رہی سہی کسر بجلی نہ ہونے نے پوری کردی۔ پانی نکالنے کے لیے موٹریں چلانا تھیں لیکن موٹریں چلتیں کیسے، شہر میں بجلی ہی نہیں تھی اور جنریٹروں کے انتظام کا شاید انتظامیہ کو خیال ہی نہیں آیا حالانکہ شدید بارش کا الرٹ پہلے ہی جاری کیا جا چکا تھا۔ یہ بھی سب کو پتا تھا کہ اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے۔ منگل کو شہر کے کچھ علاقے سے تو پانی نکال دیا گیا لیکن نشیبی علاقے پانی میں ڈوبے رہے۔ شہریوں نے شکوہ کیا کہ انتظامیہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ سینئر وزیر شرجیل میمن بولے کہ پانی نہ نکلنے کی اصل وجہ حیسکو یعنی بجلی سپلائی کا محکمہ ہے۔ بجلی ہوتی تو موٹریں چلتیں اور پانی کا نکاس کیا جاسکتا۔ حیدرآباد کو سندھ کا دوسرا بڑا شہر کہا جاتا ہے، جو اچھا خاصا بڑا کاروباری مرکز ہے اور صوبے بھر سے لوگ یہاں کاروبار کے لیے آتے ہیں،مگر جب بھی بارش ہوتی ہے یہ شہر ڈوب جاتا ہے۔ یہ لاکھوں کی آبادی کا شہر ہے، فنڈز بھی اسی طرح ملتے ہوں گے، تو ان کا درست استعمال کیوں نہیں ہوتا؟ سب کو معلوم ہے کہ بارش کا چھینٹا پڑتے ہی پاکستان میں بجلی غائب ہوجاتی ہے تو پھر موٹروں کے لیے جنریٹروں کا انتظام کیوں نہ کیا گیا؟ کیا انتظامیہ کے پاس جنریٹر کرائے پر لینے اور ڈیزل کے لیے بھی پیسے نہیں ؟ یقیناً ہوں گے لیکن اصل مسئلہ سنجیدگی، ذمہ داری اور عوام کی اہمیت کا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حیدرآباد سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن سندھ اسمبلی صابر قائم خانی نے بھی اسی نکتے کو بنیاد بنا کر شہر کی انتظامیہ پر تنقید کی اور بولے کہ پیپلز پارٹی نے پورے صوبے کو تباہ کردیا ہے، بارش کی پیشگوئی تھی تو انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟ حکومت عوامی خدمت کے صرف دعوے کرتی ہے، زمین پر کام نظر نہیں آتا۔
ادھر کراچی میں بھی شدید بارشوں کا خدشہ ہے؛چنانچہ میئر مرتضیٰ وہاب ان دنوں متحرک نظر آتے ہیں، شہر کے مختلف ٹاؤنز میں جماعت اسلامی بھی موجود ہے عوام کو امید ہے کہ اگر حیدرآباد کی طرح کی شدید بارش ہوئی تو کراچی کو اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، سب مل کر شہر کو سنبھال لیں گے۔اگرچہ بعض شہریوں نے اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔
ان دنوں عوام کے سر پر دو اور مصیبتیں آپڑی ہیں، ایک چینی کی قیمت میں تیزی سے ہونے والا اضافہ اور دوسری پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جو مسلسل دوسری بار بڑھائی گئی ہیں۔ چینی کی قیمت 190روپے سے 200روپے تک جاپہنچی ہے حالانکہ حکومت اور چینی مل مالکان کے درمیان یہ طے ہوچکا تھا کہ چینی کی قیمت 165روپے تک رہے گی۔ ادھر ڈیزل کی قیمت میں 16جولائی سے 11روپے سے زیادہ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ نئی قیمت 284روپے 35پیسے ہوگئی ہے جبکہ پٹرول کی فی لیٹر قیمت بڑھ کر 272روپے 15پیسے کردی گئی ہے۔ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تاجروں اور دکانداروں کو چینی سمیت دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھانے کا ایک اور جواز مل گیا ہے۔ان کے لیے یہ کہنا آسان ہے کہ کرایہ بڑھ گیا ہے اس لیے چیزیں مہنگی ہوں گی۔ صرف یہی نہیں کراچی میں بہت سے تندور والوں نے بھی ایک بار پھر سلنڈر کی قیمت میں اضافے کو جواب بنا کر روٹی 25روپے کی کردی ہے، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو ابھی تک اس کی خبر نہیں ہوئی۔ پنجاب میں’ پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے نام سے ایک ادارہ شروع کیا گیاہے جو منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور تجاوزات کے خلاف کارروائی کرے گی۔ کہا جارہا ہے کہ اسے دسمبر تک فعال کر دیا جائے گا۔ حکومت سندھ کو بھی ایسی کسی باقاعدہ فورس کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ سندھ میں پرائس کنٹرول کا ادارہ بالکل ناکام ہوچکا ہے۔ جس دکاندار یا تاجر کی جب مرضی کرتی ہے دام بڑھا دیتا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ عوام بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ اگر وہ یہ دیکھیں کہ کوئی مہنگی اشیا بیچ رہا ہے تو انہیں انتظامیہ کو فوری اطلاع دینی چاہیے تاکہ کارروائی ہوسکے۔ اگر کارروائی نہ ہو تو پھر تنقید جائز بھی لگتی ہے۔
کراچی میں چند روز قبل ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش اُن کے فلیٹ سے ملی۔ پولیس کے مطابق حمیرا اصغر کی موت اکتوبر 2024ء میں واقع ہوچکی تھی۔ پولیس نے مختلف پہلوؤں سے تفتیش شروع کر رکھی ہے۔ میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ وہ شدید مالی مشکلات کا شکار تھیں،اہل خانہ بھی اُن سے ناراض تھے۔ مرحومہ کی بھابھی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حمیرا اصغر نے خودکشی نہیں کی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ حمیرا کو قتل کیا گیا۔ پولیس تفتیش کر رہی ہے اور حقائق جلد سامنے آجائیں گے لیکن اہم بات یہ ہے کہ حمیرا اصغر کی موت کو سوشل میڈیا یا دیگر جگہوں پر جس طرح موضوع بحث بنایا جارہا ہے وہ کربناک ہے۔ ایک انسان اپنی جان سے گیا اور یہ لوگ باتیں بنا رہے ہیں۔