خالد احمد حیرت انگیز شعری دنیا کے خالق
انہوں نے مغرب کی بعض ہیئتوں کو بھی انتہائی فنکارانہ مہارت سے استعمال کیا کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے بقول ضیا جالندھری وہ اپنی شاعری میں بیان نہیں دیتے، دلائل جمع نہیں کرتے، سپاٹ باتیں نہیں کرتے بلکہ وہ ہیئت اور الفاظ سے ایسا ماحول تیار کرتے ہیں جس میں تمام تجربے، احساسات مجتمع ہو کر ایک زندہ متحرک اکائی کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں
خالد احمد کی مختصر سوانح
خالد احمد 5 جون 1944 کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آ ئے۔ 1957میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے میٹرک کیا اور پھر دیال سنگھ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ فزکس میں ماسٹر ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی ۔ بعد ازاں واپڈا میں انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ وہ اسی محکمے سے ڈپٹی کنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ ادبی جریدے ’’فنون‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے اور کالم نگاری بھی کی ۔وہ ایک علمی اور ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اور خدیجہ مستور ، ہاجرہ مسرور اور توصیف احمد خان کے بھائی تھے۔ کئی برس تک ماہنامہ’’ بیاض‘‘ شائع کرتے رہے۔ان کی کتابوں میں ’’دراز پلکوں کے سائے سائے، ایک مٹھی ہوا، پہلی صدا پرندے کی، ہتھیلیوں پر چراغ، تشبیب، جدید تر پاکستانی ادب، نم گرفتہ اور کاجل گھرشامل ہیں۔ خالد احمد کی علمی و ادبی خدمات پر انہیں بے شمار ایوارڈز کے ساتھ ساتھ حکومتِ پاکستان نے تمغہء حسنِ کارگردگی سے بھی نوازا تھا۔ وہ 19 مارچ 2013 کو پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔
شاعری محض خیال یا خیال کے اظہار تک محدود نہیں، یہ پیرایۂ اظہار سے تجربے کو زندہ صورت دینے کا نام ہے۔ ایسی صورت جس سے ذہن اور روح کے دریچے کھلتے چلے جائیں۔ شعر میں لفظ اپنے لغوی معانی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنی صوت، اپنے آہنگ، اپنے سیاق و سباق، اپنی علامتی ندرت اور اپنی تہذیبی حیثیت سے زندہ انسانوں کی طرح سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور خالد احمد نے نہ صرف لفظ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا ہے بلکہ اسے پوری احتیاط اور کمال کے ساتھ برتا بھی۔ ان کی تحریریں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بقول ضیا جالندھری خالد احمد نے اپنے لئے جو شعر ی دنیا تخلیق کی وہ کئی وجوہ کی بنا پر حیرت انگیز ہے۔ انہیں فنِ شعر میں جو مہارت تامہ میسر آئی وہ کسی کسی خوش قسمت ہی کے ہاتھ آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فیضان بے پناہ ریاضت، خلوص اور انہماک کے بغیر ممکن نہ تھا۔ بلاشبہ خالد احمد ایک صاحب ِاسلوب شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقات کے مطالعے سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک فنانی الشعر تھے۔
خالد احمد نے جب شعر کہنا شروع کیا تو اس وقت ترقی پسند ادب کی تحریک کا اور جدید ادب کے مدرسۂ فکر کا زور و شور کچھ مدھم پڑ چکا تھا۔ ان تحریکوں کے بعد بھی اردو ادب میں کچھ دوسری تحریکیں نمودار ہوتی رہیں مگر انہوں نے وہ اہمیت حاصل نہ کی جو ان دو تحریکوں کو اپنے زمانے میں ملی تھی۔ خالد احمد ان تحریکوں سے کما حقہ آگاہ بھی تھے اور انہوں نے ان تحریکوں سے استفادہ بھی کیا مگر وہ ان میں سے کسی ایک کے ہو کر نہیں رہے۔انہوں نے اپنی الگ انفرادیت قائم کی۔ وہ اپنی سرزمین اور اپنے کلاسیکی رویوں میں اتنے رچے بسے تھے کہ باہر سے آئی ہوئی کوئی تحریک انہیں بہا کر نہ لے جا سکتی تھی۔ ان کی شاعری کے کئی رنگ اور اس کی کئی پرتیں ہیں جن میں سب سے نمایاں رنگ وہ ہے جو اس علاقے کے تصوف سے ابھرتا ہے جس میں انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں، جس رنگ کو ان کی حبِ خدا اور حبِ رسول ﷺ نے نکھار دیا۔ یہاں کی اسلامی روایات اور تہذیب کو انہوںنے اپنی تخلیقات کا مرکزی نکتہ بنا لیا۔انہوں نے 60ء کی دہائی میں شعر کہنا شروع کیا ۔ابتدائی دس بارہ برس میں جو کلام تخلیق کیا وہ ’’ ہتھیلیوں پہ چراغ‘‘ میں موجود ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب سب سے پہلے شائع نہیں کی حالانکہ اس میں 1964ء سے 1975ء تک کی کہی ہوئی نظمیں ہیں۔ انہوںنے سب سے پہلے 1984ء میں اپنا ایک شعری مجموعہ ’’ تشبیب‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اشاعت کے اس تقدم و تاخر کا ذکر اس لئے مقصودہے کہ تشبیب کے پہلے شائع کئے جانے کے پیچھے ایک واضح سوچ ہے۔ تشبیب میں صرف تین نظمیں ہیں ،انہیں نظمیں کہنا بھی پوری طرح درست نہیں،وہ دراصل قصیدے کی ہیئت میں نعتیں ہیں۔ یہ طویل نعتیں ہیں۔ ان میں سے ایک نعت تین سو سے زیادہ شعروں پر مشتمل ہے۔ دوسری دو نعتیں بھی سو اور سوا سو اشعار سے کم نہیں۔ اس کتاب کو پہلے چھپوانے کا سبب یہ نظر آتا ہے کہ خالد احمد اپنی پہچان پہلے ایک نعت گو کی حیثیت سے کروانا چاہتے تھے اور انہیں جو عقیدت رسول اللہ ﷺسے تھی، اس کو اولیت کا مقام دینا چاہتے تھے۔ اس بات پر خیال آیا کہ اقبال ؒ نے بھی سب سے پہلے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ شائع کی تھی حالانکہ اس وقت ’’بانگ درا‘‘ کا بیشتر کلام لکھا چکا تھا۔ اقبال ؒ بھی قوم کو پہلے اپنے فلسفہ حیات، خودی سے آشنا کرنا چاہتے تھے اور بعد میں اپنے دوسرے کلام سے۔ خالد احمد نے اپنی اس پہلی ہی کتاب میں اپنی قدرتِ کلام کا ثبوت دیا۔ اتنی پابند ہیئت میں جہاں چھوٹی بحر کے نہایت مختصر مصرعوں میں، جن میں تین الفاظ بھی بہ مشکل سماتے ہوں، قافیوں کا اتنا کڑا اہتمام اور وہ بھی سینکڑوں شعروں تک ایک مہم سے کم نہ تھا، جسے خالد احمد نے بڑی خوبی سے سر ہی نہیں کیا بلکہ اس میں اول سے آخر تک ایک حسی جمال بھی قائم رکھا۔
وقت کے ساتھ دوسرے رنگوں کی شاعری کے ساتھ ساتھ خالد احمد کے یہاں یہ رنگ نکھرتا چلا گی یعنی حبِ خدا اور حبِ رسول ﷺ میں حمد و نعت اور تصوف سے لگائو بڑھتا گیا اور اس کے پیرایۂ اظہار میں خالد احمد زینہ بہ زینہ عروج تک پہنچ گئے۔ شاید اس سلسلے کی خوبصورت ترین نظم ’’مادھول لال حسین کیلئے‘‘ ہے۔ خالد احمد نے پنجاب کے صوفیوں کے کلام کی تہ میں اُتر کر اس کی کیفیت کو کلی طور پر محسوس کرکے بلکہ اپنا کر ایسی زبان اور ہیئت میں اس نظم کو تخلیق کیا تھا جس کی اردو میں مثال نہیں ملتی۔ اس نظم میں جا بہ جا پنجابی زبان کے لفظ اس طرح استعمال کئے گئے تھے کہ وہ نظم کے تاثر کو جلا دیتے تھے اور اس مخصوص تصوف کی کیفیت کو اور نکھار دیتے تھے جو پنجاب کے بزرگ صوفی شعرا کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ خالد احمد کا یہ انداز جس میں انہوں نے پنجابی زبان کے الفاظ اس خوبی سے جگہ جگہ نگینوں کی طرح جڑے ہیں، اس کا عام انداز نہیں ہے۔
30ء کی دہائی میں مغرب کی پیروی میں اردو ادب میں جو نئی تحریکیں نمودار ہوئیں ان میں نظم آزاد بھی تھی۔ ملک کی آزادی تک یہ ہیئت اپنا ایک مستقل مقام حاصل کر چکی تھی مگر اس زمانے کے بعض جدید شعرا ایسے بھی تھے جو ان تحریکوں سے منسلک ہوتے ہوئے بھی کلاسیکی زبان اور روایتی ہیئت سے تعلق منقطع کرنے پر تیار نہیں تھے۔وہ نظم آزاد کے مخالف نہیں تھے، انہوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں مگر زیادہ تر وہ پابند ہیئتوں میں تجربے کرتے رہے جیسے احمد ندیم قاسمی، مختار صدیقی، اختر الایمان اورقیوم نظر وغیرہ۔ آزادی کے بعد اچانک ان تحریکوں کو ٹھہرائو سا آ گیا اور بہت سے لکھنے والوں نے غزل اور دوسری کلاسیکی ہیئتوں کی طرف ز سر نو توجہ دی۔ خالد احمد کی شاعری میں صورتحال اس سے بالکل مختلف نظر آتی ہے ۔ضیا جالندھری کہتے ہیں کہ خالد احمد اپنی نظموں میں بیان نہیں دیتے، دلائل جمع نہیں کرتے، سپاٹ باتیں نہیں کرتے بلکہ وہ نظم کی ہیئت اور الفاظ سے ایک ایسا ماحول تیار کرتے ہیں جس میں وہ تمام تجربے، احساسات مجتمع ہو کر ایک زندہ متحرک اکائی کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔اُنہوں نے بہت سے دوستوں، شاعروں اور دیگر اشخاص پر نظمیں کہی ہیں۔ شاید ہی کسی اور شاعر نے اتنے بہت سے لوگوں کو نظموں میں خراج محبت پیش کیا ہو جتنا خالد احمد نے کیا ہے، یہ اور بات ہے کہ فیض اور میرا جی کے سلسلے میں وہ وفورِ اشتیاق نظر نہیں آتا جو بعض دوسرے اشخاص خصوصاً احمد ندیم قاسمی کیلئے نظموں میں نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ بھی ہے۔ خود احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں ’’ خالد احمد ہی کو لیجئے کہ میرا بھائی بھی ہے، میرا بیٹا بھی ہے اور میرا دوست بھی ہے، اس حقیقت کو ایک دنیا جانتی ہے، کیونکہ ماضی میں خالد احمد کے منہ سے جو بھی جملہ صادر ہوا یا خالد احمد کے قلم نے جو بھی فقرہ لکھا اسے دنیا نے مجھ سے منسوب کر دیا۔حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خالد کی شاعری نے احمد ندیم قاسمی کی شاعری کے اثرات قبول نہیں کئے۔ انہوں نے اپنی شعری دنیا خود تخلیق کی ہے۔اپنے شعری ورثے سے پوری طرح آگاہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے رستے خود چنے بلکہ خود بنائے ۔ وہ اپنے عصر کے سب اثرات قبول کرتے ہیں، وہ اپنے عہد کی آواز ہیں۔ سب کے ساتھ مگر سب سے الگ۔
ہمارے یہاں شاعروں کے نوحے لکھنے کی روایت پرانی ہے مگر خالد احمد نے اس میں بھی اپنی الگ راہ نکالی ہے۔ انہوں نے اختر حسین جعفری کا نوحہ اپنے مخصوص انداز میں لکھا۔ ایک نوحہ فیض احمد فیض پر بھی ہے۔ اس نوحے میں خالد احمد نے جدت یہ کی ہے کہ شاعر پر مختلف افراد کی طرف سے رائے کا اظہار کیا ہے۔فیض احمد فیض کے نوحے سے زیادہ زندگی میں سیاسی اور شعری رویوں پر تبصرہ ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سیاست دان کس طرح فوری ذاتی فائدے کیلئے دائمی اقدار کی قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں جبکہ شاعر اس خلا کو پرُ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو سیاست دان انسانوں کے درمیان پیدا کر دیتے ہیں۔
منتخب اشعار
ربط کس سے تھا کسے، کس کا شناسا کون تھا
شہر بھر تنہا تھا، لیکن مجھ سا تنہا کون تھا
ذات آخر ذات تھی، شہکار پھر شہکار تھے
کس کے فن کے واسطے سے، کس کو سمجھا کون تھا
……………
ہر عکس خطوط ریزہ ریزہ
ہر نقش، دماغ جل رہے ہیں
……………
باندھا گیا ہے جسم کے پتھر سے کیوں مجھے
نفرت ہے آپ اپنے ہی پیکر سے کیوں مجھے
……………
رچ بس چکا ہوں صورت خوشبو فضائوں میں
کوئی جدا کرے گلِ منظر سے کیوں مجھے
……………
منتخب غزلیں
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو، نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو، نہ میں
حالات کے طلسم نے پتھرا دیا، مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو، نہ میں
ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو، نہ میں
نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہو سکے
کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو، نہ میں
جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
برگشتہ آسمان سے گویا نہ تو، نہ میں
……………
زمیں کو پھول، فضا کو گھٹائیں دیتا ہے
مجھے فلک سے وہ اب تک صدائیں دیتا ہے
وہی نواگرِ عالم، خدائے صوت و صدا
وہی ہوا کو فقط سائیں سائیں دیتا ہے
وہی کہیں گلِ نغمہ ، کہیں گلِ نوحہ
وہی غموں کو سروں کی قبائیں دیتا ہے
وہ کوہسار تحیر، وہ آبشار ندا
خموشیوں کو بھی کیا کیا ندائیں دیتا ہے
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
مری زباں پہ کوئی لفظ اس کے حق میں نہیں
مگر یہ دل کہ اُسی کو دعائیں دیتا ہے
……………
وقت کے ساتھ تقاضوں کو بدل جانا تھا
تجھ کو اے صبحِ ستم! شام کو ڈھل جانا تھا
بے جہت فکر کے ہاتھوں میں کماں کیوں دی تھی
اب ہدف تو ہے تو کیا؟ تیر تو چل جانا تھا
پھیر قسمت کا بتا، حسنِ تدبر نہ جتا
تجھ کو بہلانا تھا، لوگوں کو بہل جانا تھا
بات کیا، لوگ تو تحریر سے پھر جاتے ہیں
تو نے کیوں میرا ہر اک لفظ اٹل جانا تھا
آگ بھی شور ہے،چیخیں بھی لویں ہیں خالد
سر ملے یا نہ ملے’روم‘ تو جل جانا تھا
……………
ارادتوں کے تقاضے تہ ارادہ رہے
سمٹ سمٹ کے بھی بازو میرے کشادہ رہے
چہکتی بولتی قوسیں، اداس اداس آنکھیں
کرشمہ ہائے نمائش پس لبادہ رہے
وہ قربتوں کی مسافت، وہ چور چور بدن
کہ ٹوٹ کر بھی تو شیشوں میں عکسِ بادہ رہے
یہ تیری رُت ہے مرے گھر پہ رُک، برس نہ برس
بس ایک ربط رہے کم رہے زیادہ رہے
ہر ایک رات تری صبح سے عبارت ہو
کتابِ عمر میں ایک باب کا اعادہ رہے
……………