صبا اکبر آبادی غزل کو روایت کی مظبوط چار دیواری میں رکھنے والے: 34ویں برسی

تحریر : سعید واثق


مختصر سوانح: نام خواجہ محمد امیر، صبا کے تخلص سے شہرت پائی۔14اگست1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز1920ء سے ہوا ۔ اپنے عربی، فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ 1930ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔

بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔1961ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکرٹری رہے۔ جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں 1973ء تک کام کرتے رہے۔ قادر الکلام شاعر تھے۔غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔  مجموعہ ہائے کلام’’اوراقِ گل‘‘ اور ’’چراغِ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ دیوانِ غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی بارہ سو رباعیات کو اُردو رباعی میں ترجمہ کیا جس کا انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوا۔ان کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ صبا صاحب کے مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ 29اکتوبر1991ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

 

صبا اکبر آبادی کا تعلق اس سرزمین سے ہے جہاں کی مٹی فنون لطیفہ کیلئے زرخیز مانی جاتی ہے ۔ یہ وہی سرزمین ہے جس نے فن تعمیر کی بہترین اور لاثانی مثال تاج محل اور فن شاعری کی بے نظیر مثال غزلیات غالب دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ تاج محل اگر دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے تو دیوان غالب بقول بجنوری اردو کی سب سے بڑی کی کتاب ہے۔ اسی مٹی سے میر تقی میر اور عوامی شاعری کے بلند مرتبت شاعر نظیر اکبر آبادی کا بھی تعلق تھا۔ میر، غالب اور نظیر کے علاوہ سیماب اکبر آبادی، میکش اکبر آبادی، اختر اکبر آبادی، صبا اکبر آبادی، مغیث الدین فرید یاور معین فرید ی وغیرہ کا تعلق بھی آگرہ کی ہی سرزمین سے ہے ۔

صبا اکبر آبادی کی شاعری پر بے شمار ادیبوں، شاعروں اور ناقدوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی، مجنوں گورکھ پوری، پروفیسر قرار حسین اور پروفیسر سید موسیٰ رضا کے نام اہم ہیں لیکن ان تمام حضرات نے ان کی شاعری سے صرف ایک پہلو کو موضوع بحث بنایا ہے کہ صبا اکبر آبادی نے  غزل کی روایت کو برقرار رکھا اور غزل کی قدیم روایت کو آگے بڑھایا۔

 ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’ثبات‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’صبا صاحب نے اردو غزل کی تاریخ میں جو کچھ کیا ہے وہ اردو غزل کی روایت سے پوری طرح وابستہ رہ کر کیا ہے ۔ انہوں نے بعض شاعروں کی طرح روایت سے دامن بچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ روایت میں عصر حاضر کے مزاج کو شامل کر کے اسے بدلا بھی ہے اور وسیع بھی کیا ہے۔ اس میں نئی حسیت کو بھی تخلیق کا حصہ بنایا ہے اور اپنے تجربات اور مشاہدات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ اس لئے صبا صاحب کی غزل ایک باشعور شاعر کے جذبات کا زندہ اظہار ہے اور اسی لئے ان کے شعر ہمارے دلوں کی ترجمانی کر کے ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ماضی بھی محفوظ ہے اور حال بھی لیکن حال ماضی بن کر نہیں بلکہ ماضی حال بن کر محفوظ ہے‘‘۔

 مجنوں گورکھپوری نے لکھا ہے : ’’صبا اکبر آبادی کی غزل میں ہمیں ان کی شخصیت، تجربے اور زمانے کی روح بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ اور غزل کے حوالے سے صبا کی شخصیت کو دیکھیں تو تہذیب کے تمام عناصر صبا کی ذات میں مجتمع نظر آئیں گے ۔ صبا اکبر آبادی کی شاعری میں تغزل کے ساتھ خوبصورت زبان اور تازگی بھی ملتی ہے ۔ عصر موجود کا شعور بھی اور مستقبل کا امکان بھی۔اگر یہ کہا جائے تو شاید میرا بیان مکمل ہو کہ صبا صاحب کی شخصیت infinite pastیعنی لامتناہی ماضی کی روح اور اس کی سب خوبیوں کو اپنے اندر سمیٹے اور سموئے اور ساتھ ہی اپنے دور کی خصوصیت اور عصر موجود کی روح کو بھی سمیٹے ہوئے اور سب کو ایک آہنگ یعنی Harmony  بنائے ہوئے ہے ‘‘۔ صبا اکبر آبادی مشرقی تہذیب اور فنکاری کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں، انہوں نے اپنی فطرت اور کائنات کی فطرت کو اپنے آپ میں اس طرح مدغم کیا کہ اس نے مل کر ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے، غزل، مرثیہ نظم، رباعی ہر صنف میں وہ صفِ اول سے آگے کے شاعر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں کئی رنگوں میں کرنوں کی طرح پھوٹ کر نکل آنے والا احساسِ جمال بھی ہے، فکر کی بوقلمونی بھی اور بیان کی بھرپور طاقت بھی۔ان کی تخلیق ’’رباعیاتِ غالب ‘‘کو ہی دیکھیں، غالب ایک ایسا شاعر ہے جس کی عظمت کے بارے میں دورائے نہیں، اردو کو اس نے رشکِ فارسی بنا دیا۔صبا اکبر آبادی نے اپنی غزل کو روایت کی بے پناہ مضبوط چار دیواری میں رکھنے اور غالب کی عظمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھی اپنی غزل کو معنی و مطالب کی اس بیکراں وسعت سے متعارف کرایا ہے جس کا اندازہ کوئی صاحب دل اور صاحب نظر اور صاحب علم ہی کر سکتا ہے۔

پروفیسر کرار حسین اپنے مضمون’’ ایک سچا شاعر‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’صبا صاحب نے زنداں، صحرا، بہار، خزاں قفس، آشیاں، بلبل گل و خار، ساقی، میخانہ، حسن، عشق، جنون، گریباں ۔ غرض غزل کی روایتی علامتوں سے کام لے کر آپ بیتی کو جگ بیتی بنایا ہے ۔ روایتی علامتوں کے استعمال پر کسی صاحب کو ’’ گل و بلبل‘‘ کی شاعری کہہ کر ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں ۔ آج کل روایت کے نام سے ایک چڑ سی ہوگئی ہے اور جدت بہر نوع ایک مستحسن صنف شمار کی جاتی ہے لیکن ایک جدت قدرتی ہوتی ہے جو اپنے عہد سے قوت نمو حاصل کرتی ہے اور ایک مصنوعی جدت ہوتی ہے۔ صبا روایت کے تسلسل کے ساتھ جب شاعری میں آگے کا سفر کرتے ہیں اور اپنے عہد کا المیہ بیان کرتے ہیں تو ان کی شاعری اعلیٰ شاعری کی طرح جدید اور قدیم کی تقسیم سے بے نیاز ہو کر سچی شاعری کے منصب پر نظر آتی ہے ‘‘۔

 جیسا کہ بیان کیا گیا صبا اکبر آبادی آگرے کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں ایک شاعر کی حیثیت سے اپنا الگ مقام بنا کر ادبی دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کر چکے تھے لیکن اپنے آبائی وطن کی یاد انہیں ہمیشہ ستاتی رہی۔ پاکستان میں انہیں ہر پل آگرہ یاد آ تا رہاجس کا ذکر انہوں اپنے اشعار میں کیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ شعر دیکھئے۔

کسے پکاریئے ان اجنبی فضائوں میں

نظر اُٹھے تو نظر آشنا نہیں ملتا

صبا کی شاعری میں غالب کے فکرو خیال کی چھوٹ موجود ہے، بالکل اس طرح سے جیسے مرزا یگانہ، جو اپنے آپ کو غالب شکن کہلوانے کے باوجود فکرِ غالب کی حدود سے باہر نہیں نکلے یا جس طرح غالب کی تقلید کا اعلان کئے بغیر فانی بدایونی نے غالب کی فکر سے اپنے کلام کو روشن کیا اور زیادہ دور جانے کی بات نہیں فیض صاحب نے غالب کا جتنا اثر قبول کیا ہے اس کا اعتراف کئے بغیر اپنے تقریباً تمام قابل ذکر مجموعوں کے نام بھی غالب کی تراکیب سے اخذ کئے ہیں۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں،سچ تو یہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے اور ہماری شاعری میں جو چراغاں ہے اس کا سبب یہی ہے۔ اس کے برعکس صبا صاحب کی اولین پسند غالب اور غالب کی شاعری رہی ہے۔ یہ بظاہر غالب کی تقلید کے زمرے میں نہیں آتی لیکن ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے مکمل دیوانِ غالب کی مکمل تضمین 1938ء میں کرلی تھی اور پھر غالب کی فارسی رباعیات کو اردو رباعی کے قالب میں 1981ء میں ڈھال دیا تھا۔

منتخب کلام 

یگانہ بن کے ہو جائے وہ بیگانہ تو کیا ہوگا

جو پہچانا تو کیا ہوگا نہ پہچانا تو کیا ہوگا

کسی کو کیا خبر آنسو ہیں کیوں چشمِ محبت میں

فغاں سے گونج اٹھے گا جو ویرانہ تو کیا ہوگا

ہماری سی محبت تم کو ہم سے ہو تو کیا گزرے

بنا دے شمع کو بھی عشق پروانہ تو کیا ہوگا

یہی ہوگا کہ دنیا عقل کا انجام دیکھے گی

حدِ وحشت سے بڑھ جائے گا دیوانہ تو کیا ہوگا

تعصب درمیاں سے آپ کو واپس نہ لے آئے

حرم کی راہ میں نکلا صنم خانہ تو کیا ہوگا

لہو کے داغ بڑھ جائیں گے کچھ دیوارِ زنداں پر

خفا ہو جائے گا زنداں سے دیوانہ تو کیا ہوگا

مداوا ہو نہیں سکتا ہے دل پر چوٹ کھانے کا

مرے قدموں پہ رکھ دو تاج شاہانہ تو کیا ہوگا

صبا جو زندگی بھیگی ہوئی ہے بارش گل سے

بلائے گا کسی دن اس کو ویرانہ تو کیا ہوگا

منتخب اشعار 

طے کر چکی سفر مرے حصے کی روشنی

اس شمع انجمن سے چراغ مزار تک

…………

بتا دیا ہے یہ جوہر شناس نظروں نے

کہ ایک ذرے میں ہوتی ہیں قوتیں کیا کیا

…………

ماسوا ڈھونڈ کے آئے تری دنیا والے

تیری دنیا کو کوئی تیرے سوا بھی نہ ملا

…………

دنیا کو دیکھ کر انہیں کیا دیکھتے صبا

گم ہو گیا صفات میں احساس، ذات کا

…………

عجب ہیں بھول بھلیاں جہانِ جلوہ کی

بھٹکتے رہتے ہیں اور راستہ نہیں ملتا

…………

دل کو ہر اک قدم پہ طلسماتِ نو ملے

کیا امتحان قسمتِ انساں میں آ گئے

…………

ہم بے خبر ہیں اور وہ اتنے قریب ہیں

دل سے جواب آئے پکاریں کہیں سے ہم

…………………

غزل

جو ہمارے سفر کا قصہ ہے

وہ تری رہ گزر کا قصہ ہے

صبح تک ختم ہو ہی جائے گا

زندگی رات بھر کا قصہ ہے

دل کی باتیں زباں پہ کیوں لاؤ

گھر میں رہنے دو گھر کا قصہ ہے

کوئی تلوار کیا بتائے گی

دوش کا اور سر کا قصہ ہے

ہوش آ جائے تو سناؤں گا

چشم دیوانہ گر کا قصہ ہے

چلتے رہنا تو کوئی بات نہ تھی

صرف سمت سفر کا قصہ ہے

شام کو ہم سنائیں گے تم کو

شب غم کی سحر کا قصہ ہے

تیرے نقش قدم کی بات نہیں

صرف شمس و قمر کا قصہ ہے

چند تنکے نہ تھے نشیمن کے

باغ و شاخ و شجر کا قصہ ہے

حلق میں چبھ رہے ہیں کانٹے سے

لب پہ گل ہائے تر کا قصہ ہے

میری بربادیوں کا حال نہ پوچھ

ایک نیچی نظر کا قصہ ہے

اسی بیداد گر سے کہہ دے صبا

اسی بیداد گر کا قصہ ہے

٭٭٭

اجالا کر کے ظلمت میں گھرا ہوں

چراغ رہ گزر تھا بجھ گیا ہوں

تری تصویر کیسے بن سکے گی

ہر اک سادہ ورق کو دیکھتا ہوں

مجھے طوفان سے شکوہ نہیں ہے

ہلاکِ بے رخیٔ ناخدا ہوں

ترے تیروں کا اندازہ کروں گا

ابھی تو زخم دل کے گن گا رہا ہوں

تمہیں سورج نظر آئیں گے اپنے

میں آئینہ ہوں اور ٹوٹا ہوا ہوں

صبا آہستہ آہستہ اڑوں گا

میں دستِ ناز کا رنگ ِحنا ہوں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔