جون ایلیا:23ویں برسی
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کے کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، خلوت پسند، انجمن ساز، اپنی طرز کا اکلوتا شاعر شاعر کے سلسلے میں ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعر کی تین آواز یں ہوتی ہیں ‘پہلی وہ جس میں شاعر خود کو مخاطب کرتا ہے، دوسری وہ جس میں دوسروں کو مخاطب کرتا ہے اور تیسری وہ جس میں وہ کسی شخص ِ غیر کی زبان میں گفتگو کرتا ہے
مختصر سوانخ
جون ایلیا اترپردیش کے شہر امروہہ کے ایک علمی گھرانے میں1931ء میں پیدا ہوئے۔ والد سید شفیق حسن ایلیاؔ ایک شاعر اور عالم تھے،نامور شاعر رئیس امروہوی اورصحافی سید محمد تقی جون ایلیا کے بھائی جبکہ معروف خطاط و مصور صادقین اور فلم ساز کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدارس میں ہوئی جہاں انہوں نے اردو ،عربی اور فارسی سیکھی۔ اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انگریزی، پہلوی ، عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے تھے۔تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان چلے آئے تو والدہ اور والد کے انتقال کے بعد جون ایلیا بھی 1956ء میں پاکستان آ گئے۔ جون ایلیا کی شخصیت کا نقشہ ان کے دوست قمر رضی نے اس طرح پیش کیا ہے ’’ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، ایک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، ایک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، ایک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔‘‘ 8 نومبر 2002 ء کو یہ اپنی طرز کا اکلوتا شاعر دارِ فانی سے رخصت ہوا۔
جون ایلیا پر بات کرتے ہوئے عرفان ستار نے کہا تھا ’’ جون ایلیا تقسیم ہند کے بعدسے آج تک کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں‘‘۔ عرفان ستار بذات خود معتبر شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں اسی لئے جونؔ پر ان کے بیان کو محض جذبات کی فراوانی کا اثر یا تاثراتی نہج کا بیان ہر گز نہیں کہہ سکتے۔ مذکورہ بیان کو ذہن میں رکھتے ہوئے جونؔ کا مطالعہ کریںتوجو چیز ہمارے ہاتھ لگتی ہے اس کا سرا غالب تک جاتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دیگر شعرا کی طرح جونؔ کے یہاں مافیہ کے اظہار کے لیے مرور ایام کے ساتھ اسلوبیاتی سطح پر کوئی بڑی اور واضح تبدیلی نظر نہیں آتی۔ غالب کی طرح انہوں نے بھی اپنا بہتر ین اسلوب (کم از کم نظموں میں) اپنی شاعری کی ابتدا ہی میں پالیا تھا۔ جہاں تک موضوعات کے انتخاب اور مضامین کے برتنے کا سوال ہے ابتدائی زمانے کی تیرہ نظموں میں ’’دو آوازیں‘‘ ، ’’عہد زنداں‘‘ ، ’’داغ سینہ‘‘، ’’وقت‘‘وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کو کسی نو وارد ادب کی نو مشقی بالکل بھی نہیں کہا جا سکتا۔
شاعر کے سلسلے میں ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعر کی تین آواز یں ہوتی ہیں۔ پہلی وہ جس میں شاعر خود کو مخاطب کرتا ہے، دوسری وہ جس میں دوسروں کو مخاطب کرتا ہے اور تیسری وہ جس میں وہ کسی شخص ِ غیر کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ اگر کسی شاعر کے کلام میں تیسری آواز محسوس کی جائے یعنی کسی شخص غیر کی زبانی موضوع آگے بڑھے اور یہ شخص غیر الگ الگ نظموں میں اپنی شخصیت کو بدلے یعنی جس شخصِ غیر کی زبانی شاعر گفتگو کر رہا ہے وہ کوئی ایک فرد نہ ہو بلکہ موضوعات کے اعتبار سے الگ الگ کردار ہوں تو شاعری میں یہ عمل ڈرامائی خود کلامی کہلاتا ہے۔ جون کے یہاں ڈرامائی خود کلامی کااحساس بہت کم ہوتا ہے۔ ان کے یہاں ایلیٹ کی پہلی اور دوسری آوازوں کی باز گشت ہی محسوس کی جاتی ہے۔ ان کی نظموں میں جو فرد ابھرتا ہے وہ ایک ہی فرد ہے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ یہ فرد اپنا تشخص تبدیل کرتا ہے لیکن جہاں کہیں بھی جون کا فرد تبدیلی کے مرحلے سے گزرتا ہے وہاں متن میں ڈرامائی خود کلامی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
جون کو میں نے پہلے بھی انکار ی شاعر کہا ہے۔ وہ ہر کائناتی مظہرکا ضد کی حد تک انکاری ہیں۔ غزلوں میں یہ انکار شدید تر جھنجھلاہٹ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن نظموں میں کسی وجود و شے سے انکار کی یہ شکل برجستہ نہیں ہوتی بلکہ جون پہلے فضا تیار کرتے ہیں اس کے بعد اپنے ا نکار کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ظاہر ہے غزل جیسی ایمائیت اور رمزیت سے بھرپور صنف میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شاعر کسی شے کے انکار کے لئے تفصیلی جواز فراہم کرسکے۔ جون کے ’’بنیادی انکار‘‘ کے سلسلے میں خود ان کے الفاظ دیکھئے : ’’میں اپنے مزاج میں شروع ہی سے ایک نفی پسند (Nihilist) اور Anarchist تھا۔ میں کسی بھی ضابطے اور قاعدے کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ یہ بھی تھی کہ تمام ضابطے اور قاعدے انگریز سرکار اور اس کے دلال جاگیرداروں، تعلقہ داروں، رائے صاحبوں، خان بہادروں اور سبک سر ،سروں کو راس آتے تھے۔‘‘ یہ جون کا ابتدائی انکار ہے جو برطانوی حکومت کے خلاف تھا لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں ان کے یہاں جس انکار نے سراٹھایا اس کی وجہ وہ نظام ہے جسے سماج نے ہی خلق کیا تھا۔ وہ کسی بھی طرح کے دکھاوے یا ریا کاری کے موکل نہیں تھے۔ سماج جن ریاکاریوں کا عادی بن چکا تھا وہ اس سے بیزار تھے۔ ریاکاری میں ہمارا گمان ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو حقیقت سے دور رکھ رہے ہیں لیکن معاملہ اس کے بر خلاف ہے ریاکاری سے انسان دوسروں کو کم اور خود کو زیادہ دھوکے میں رکھتا ہے۔ جونؔ چونکہ ایک حقیقت پرست شاعر ہیں اسی لیے وہ ریاکاری سے گریزاں اور نالاں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں حقیقتوں کا برملا اظہار کسی مصلحت پسندی کی نذر نہیں ہوتا۔ وہ زندگی کے حسن و قبح سے خوب واقف ہیں چونکہ حسین تجربات کا بیان دوسروں کے یہاں آسانی سے دستیاب ہے اسی لیے انہوں نے زندگی کی قبا کو چاک کر کے اس کے کریہہ اور قبیح پہلوئوں کو اجاگر کرنے میں خود کو معمور رکھا۔ زندگی کے قبیح پہلوئوں کا بیان بھی دراصل ان کے بنیادی انکار کا ہی منتج ہے جس کی رو سے زندگی کے حسین مناظر اور طرب آمیز لمحات خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ایک بات یہاں عرض کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جون کے جس بنیادی انکار کو ہم ’’شاید‘‘ میں دیکھتے ہیں وہ ان کے دیگر مجموعوں تک آتے آتے ماند پڑنے لگتا ہے حتیٰ کہ ’’لیکن‘‘ اور ’’ گویا‘‘ میں صرف ایک ایک نظم باالترتیب ’’بے معنی‘‘ اور ’’ زمان‘‘ ہی ملتی ہیں جنہیں ہم جون کے بنیادی انکار کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔
جون ایلیا ایک تعقل پسند شاعر ہیں۔ ہر نظام کو وہ عقل کی میزان پر تولتے ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ کسی معاملے میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ وہ بلراج کومل کی طرح جذباتی نہیں ہیں جو صبح اٹھ کر بارش کے جمے ہوئے پانی میں بچے کی کشتی دیکھ کر جذبات سے مغلوب ہو جائیں یا کسی ’’ننھا شہ سوار‘‘ کو اپنی پشت پر بٹھا کر رشتوں کی انبساط میں کھو جائیں۔ وہ اپنی نظموں میں ہمیں چونکاتے بھی نہیں ہیں (چونکنے کی لذت سے وہ اپنے قارئین کو اپنی غزلوں میں آشناکراتے ہیں) وہ فیضؔ کی طرح اپنے قارئین کو ایک نرم اور نیم گرم فضا میں بھی نہیں لے جاتے۔ ان کا طریقہ مختلف ہے۔ وہ اپنی منزل سے باخبر ہیں منزل تک پہنچنے کا راستہ بھی ان کا دیکھا بھالا ہے۔ نجی زندگی کے معمولی تجربات انہیں اس حد تک متحرک نہیں کر سکتے کہ وہ ان تجربات کی تحریک سے ایک نظم کہہ ڈالیں۔ حالاں کہ زندگی کے عام واقعات سے شاعری کے مضامین کشید کرنا کوئی عیب ہرگز نہیں ہے۔ وہ جب غزل کہتے ہیں تو خوب سمجھتے ہیں کہ انہیں کن موضوعات کو بیان کرنا ہے اور ان موضوعات کے لیے انہیں کس طرح کے اسلوب کی ضرورت ہے۔ وہ جب نظموں کی طرف آتے ہیں تو ان کا اسلوب ، موضوعات کے اعتبار سے زبان کا استعمال اور شاعرانہ اظہار کے تمام وسیلے یکسر بدل جاتے ہیں۔ جون کی نظمیں ہمیں جذباتی کم اور تعقلاتی سطح پر زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ مضمون آفرینی کی تلاش کے سلسلے میں آپ غزل کے جون اور نظم کے جون کو ایک سمجھ سکتے ہیں لیکن اظہار ِ بیان یا زبان کے خلاقانہ استعمال کے سلسلے میں ہمیں نظم کا جون غزل کے جون سے زیادہ قابل اور تجربہ کوش نظرآتا ہے۔ ’’زبان کے خلاقانہ استعمال‘‘ سے آپ پرہرگز یہ گمان نہ گزرنا چاہیے کہ میں عربی، فارسی و ترکی کے ادق الفاظ اور عسیر الفہم تراکیب سے مرعوب ہو کر جون کے سلسلے میں اس طرح کی رائے قائم کر رہا ہوں۔ بات صرف اتنی ہے کہ جس طرح کے تاریخی اور فلسفیانہ مضامین کو جون باندھ رہے تھے اس کے لیے زبان و بیان کے سیاہ و سفید سے مکمل واقفیت انتہائی ضروری تھی۔
ہر چند جونؔ نے اپنے مضامین کی آبیاری روایتی سرمایے سے کی ہے تاہم آخری تجزیے کے طور پر ہم یہ کہیں گے کہ بحیثیت مجموعی ان کی نظموں کو مضامین کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی وہ قسم ہے جس میں انہوں نے عشقیہ تجربے کو بیان کیا ہے۔ دوسری وہ جس میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر نظمیں خلق کی گئی ہیں ( حالانکہ اس قبیل کی نظموں کی تعداد کم ہے) اور تیسری وہ جس میں کسی تاریخی واقعہ یا کسی فلسفے سے متاثر نظمیں ملتی ہیں۔ ان تینوں قسموں میں آخر الذکر کی نظموں کو کھول پانا بہت مشکل ہے۔ جونؔ کی بعض نظموں کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ E.E.Cummings کے اس خیال سے بہت متاثر ہیں کہ ’’ نظم کی زبان یعنی الفاظ کے آگے جو کچھ ہے(معنی، کیفیت وغیرہ) وہاں تک پہنچنے میں قاری کو دیر لگائی جائے۔‘‘ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شاعر کا علم نقاد کے علم سے بہت آگے ہوتا ہے۔
غزل
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
تیرے وصال کیلئے اپنے کمال کے لیے
حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
بعد بھی تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی آپ سے
آپ کے شہر وصل میں لذت ہجر بھی گئی
صحن خیال یار میں کی نہ بسر شب فراق
جب سے وہ چاندنا گیا جب سے وہ چاندنی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاک آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
منتخب کلام
اے شخص میں تیری جستجو سے
بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
………
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
………
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
………
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
………
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
………
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
………
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے