اخراجات پر کنٹرول کس طرح ممکن!

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت (زندگی گزارنے کا طریقہ) ہے( البیہقی) ’جب کسی پر کچھ خرچ کریں تو احسان نہ جتلائیں، اور ریاکاری سے خرچ نہ کیاجائے(سورۃ البقرہ)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت (زندگی گزارنے کا طریقہ) ہے‘‘ (البیہقی)۔

اچھی نیت سے، نیک مقصد کیلئے دنیا کی دولت حلال ذریعہ سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جو شخص دنیا کی دولت حلال طریقے سے حاصل کرے اور اس مقصد کیلئے حاصل کرے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، دوسروں سے مانگنے سے بچا رہے، اپنے اہل وعیال کیلئے روزی اور آرام وآسائش کا سامان مہیا کرسکے اور اپنے ہمسائیوں کے ساتھ بھی احسان اور اچھا سلوک کرسکے تو ایسا شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس شان کے ساتھ حاضر ہو گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا اور روشن ہوگا‘‘۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص دنیا کی دولت حلال طریقے ہی سے حاصل کرے لیکن اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ بہت بڑا مالدار ہو جائے اور اس دولت مندی کی وجہ سے دوسروں کے مقابلہ میں اپنی شان اونچی کر سکے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کیلئے دولت حاصل کرے ُتو ایسا شخص قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوں گے۔

مال ودولت کی حرص عام انسانوں کی فطرت میں داخل ہوتی ہے۔ اگر دولت سے ان کا گھر تو کیا جنگل کے جنگل اور صحرا بھی بھرے ہوئے ہوں تب بھی اس انسان کادل قناعت نہیں کرتا۔ یہ انسان اس میں اضافہ اور زیادتی چاہتاہے زندگی کے آخری سانس تک اس کی ہوس کا یہی حال رہتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ رسول اکرم ﷺکا ارشاد نقل فرماتے ہیں: ’’اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو یہ تیسری بھی چاہے گا اور آدمی کا پیٹ کوئی چیز بھی نہیں بھرسکتی سوائے قبر کی مٹی کے‘‘۔

دولت کی ہوس جہاں انسان کیلئے دنیا کی بربادی کا نشان ہے، وہاں آخرت کی ناکامی ہے۔ یہی دنیا اور اس کی دولت اللہ کے احکام کے مطابق استعمال کی جائے تو وہ عبادت بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺنے جواحکامات دولت کے بارے میں عطا فرمائے ہیں ان کا تعلق اعتدال اور میانہ روی سے ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: ’’جومیانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا‘‘۔ اگر انسان دولت کو حقوق پورا کرنے میں بھی صرف نہیں کرتا تو اس سے بخل پیدا ہوتا ہے اور ایسے شخص کو بخیل کہاجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ بخل اور ایمان کسی مومن بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ اگر انسان بے جا خرچ کرنا شروع کردے تو اسے اسراف اور فضول خرچی کہتے ہیں، جس سے اللہ رب العزت نے منع فرمایا:کھاؤپیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔

معلوم ہوا کہ اگر مناسب جگہ بھی نہ خرچ کیاجائے تو بخل ہے اور اگر بے جا خرچ کیاجائے تو فضول خرچی ہے۔ ان دو کے درمیان انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے اور یہی خرچ کرنے کا صحیح طریقہ ہے۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ’’ایک دینار تم نے اللہ کے راستہ میں خرچ کیا ، ایک دینار کسی غلام کوآزاد کرنے میں خرچ کیا، ایک دینار مسکینوں پر خرچ کیا اور ایک دینار گھروالوں پر خرچ کیا۔ تو وہ دینار جو گھر والوں پر خرچ کیا اس کا درجہ سب سے زیادہ ہے‘‘۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی فرمایا: تم اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اگر اپنی بیوی کو ایک لقمہ بھی کھلاؤ گے اللہ اس کا بھی اجر دے گا اور وہ صدقہ ہے۔یہ بات درست ہے کہ سادگی ایمان ہی کا حصہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب نصیب فرمائے اور وسعت و گنجائش ہوتو بدحال اور میلے کچیلے کپڑوں میں رہنا درست نہیں۔

ابوالاحوص تابعی اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں بہت معمولی اور گھٹیا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ مال ودولت ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں اللہ کا فضل ہے۔ آپﷺ نے پوچھا کس قسم کا مال ہے۔ میں نے عرض کیا مجھے اللہ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے۔ اونٹ ، گائے، بیل، بھیڑبکریاں غلام باندیاں بھی ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازا ہے تو پھر اللہ کے انعام واحسان کا اثر تمہارے اوپر ضرور نظر آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جب بندہ کو دے بندہ اسے جائز خرچ کرے، چاہے اپنی ذات پر خرچ کرے، اللہ اسے پسند فرماتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے : ’’یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اپنے بندہ پر اپنی دی ہوئی نعمت کا اثر دیکھے۔‘‘

 معلوم ہوا کہ بخل اور کنجوسی کی وجہ سے یا صرف طبیعت کے گنوار پن کی وجہ سے صاحب استطاعت ہونے کے باوجود گھٹیا حالت میں رہنا درست نہیں۔ اللہ کی دی ہوئی نعمت اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر خرچ کرنا یہ بھی شکر کا ایک انداز ہے۔انسان کو کس حد تک خرچ کرنا چاہئے وہ حدود اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے متعین فرمادی ہیں۔ فرمایا : ’’یعنی کھاؤ پیو اور خیرات کرو، اور کپڑے بنا کر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر اور تکبر نہ ہو‘‘۔رسول اکرمﷺ بذات خود عام طور پر معمولی سوتی قسم کے کپڑے پہنتے تھے۔ بسا اوقات ان میں کئی کئی پیوند بھی ہوتے تھے لیکن جب وسعت ہوئی تو دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے قیمتی جبے بھی پہن لیتے تھے۔ کئی کئی روز فاقہ سے بھی گزرتے تھے، دو دو ماہ تک آپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور جب کھانے میسر ہوتے تو عمدہ کھانے بھی تناول فرمالیتے۔ 

خرچ کرنے کا صحیح اور اسلامی انداز واضح ہونے کے بعد آج عام معاشرہ کی طرف دیکھنا ہو گا۔ جہاں یہ انسان عام شادی بیاہ رچاتا ہے‘ ہزاروں روپے آتش بازی کی نذر کردیتا ہے‘ گھروں اور دیواروں کو روشنیوں سے جگمگانے پر سینکڑوں روپے بہادیتا ہے، مہمانوں سے کئی گنازیادہ کھانا پکاتاہے۔ یہ تمام کام یہ انسان صرف اپنی ناک اپنی عزت کی خاطر کرتا ہے یہی وہ غلط انداز ہے جہاں ایک لڑکی کی شادی کرتا ہے اتنی ہی رقم میں عمدہ طریقے سے دس لڑکیوں کی شادی کرسکتا تھا۔ گھر میں چند بلبوں اور ٹیوب لائٹوں سے گزارا ہوسکتا ہے، یہ انسان ایک کمرے میں کئی بلب روشن کرتا ہے۔ چند کمروں میں چند افراد رہتے ہیں لیکن ہر کمرے میں ایئرکنڈیشنڈ چل رہاہے یہی پیسے کے خرچ کرنے کا غلط انداز ہے۔

اسلام نے خرچ کرنے کی جگہیں بھی بالکل واضح طور پر سامنے رکھی ہیں۔ اپنے گھر والوں پر اپنی ذات پر ہمسائیوں پر رشتہ داروں پر خرچ کیجئے۔ بقدر ضرورت اور بقدر حق اور زکوٰۃ و صدقات جو اللہ نے بندہ پر حکما ًجاری فرمائے ہیں ان کیلئے خدائے برتر نے جگہیں مقرر فرمادی ہیں، جن میں غرباء مساکین ، قرض دار، مسافر وغیرہ شامل ہیں لیکن آج کے معاشرہ میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن حکیم نشاندہی فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کو پہچان کر ان کی مدد کرنا اعلیٰ ترین اخلاقی خوبی ہے فرمایا: ’’یعنی ایسے لوگ جنہیں ناواقف، مالدار سمجھتے ہیں لیکن آپ ان کو نشانیوں سے پہچان سکتے ہیں یہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر سوال نہیں کرتے‘‘۔ان لوگوں کو ہمارے معاشرہ میں سفید پوش کہاجاتا ہے جو کسی بھی حالت میں مانگنا گوارا نہیں کرتے حتیٰ کہ انہیں یہ بھی اندازہ ہوجائے کہ دینے والا غریب سمجھ کرد ے رہا ہے تولینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہدیے اور تحفوں اور اشیاء ضرورت کو پیش کرکے ان پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ جب انسان کسی پر خرچ کرے تو خرچ کرنے کے ان آداب کو ضرور ملحوظ رکھے جو اللہ رب العزت نے فرمائے۔سورۃ البقرہ کی آیت 262میں اللہ رب العزت نے خرچ کرنے کے یہ آداب بیان فرمائے کہ ’’جب کسی پر کچھ خرچ کریں تو احسان نہ جتلائیں اور رقم خرچ کرکے اسے دکھ نہ دیں، اور ریاکاری سے خرچ نہ کیاجائے اگر دکھاوے کیلئے خرچ کیا تو اللہ کے یہاں اس کا کوئی اجر نہیں‘‘۔

اللہ رب العزت ہمیں رزق حلال حاصل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، اور ہمارے رزق میں برکت نصیب فرمائے، اور پھر اسے خرچ کرنے کا سلیقہ بھی عطاء فرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔