’لوگ کیا کہیں گے‘سماجی دباؤ کے اثرات سے کیسے نمٹیں

تحریر : عروج فاطمہ


ہر عورت کی زندگی میں کئی روپ ہوتے ہیں ، بیٹی، بہن، بیوی، ماں، پروفیشن، اور سب سے بڑھ کر ایک انسان۔ مگر ان سب کرداروں کے درمیان ایک سوال اکثر اس کے قدم روک دیتا ہے: ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

 یہ جملہ بظاہر مختصر ہے مگر اس کا اثر عورت کی سوچ اور خوداعتمادی پر گہرا ہوتا ہے۔سماجی دباؤ دراصل وہ ذہنی دباؤ ہے جو معاشرتی توقعات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں وہی کرنے پر مجبور کرتا ہے جو دوسروں کو پسند آئے ۔ چاہے دل اس سے متفق نہ ہو۔ بچپن سے ہی لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اونچا نہ ہنسو، اونچی آواز میں بات نہ کرو، کپڑوں کا خیال رکھو، رشتہ دار کیا کہیں گے، محلے والے کیا سوچیں گے۔ یوں وقت کے ساتھ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ ایک جملہ نہیں بلکہ ایک نفسیاتی زنجیر بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے سماجی دباؤ کئی شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ اکثر لڑکیوں کی پسند کا مضمون یا کیریئر صرف اس لیے بدل دیا جاتا ہے کہ خاندان میں کسی کو پسند نہیں۔کسی عورت کی تاخیر سے شادی یا علیحدگی کی صورت میں سماج کی زبان اس کے لیے چھری بن جاتی ہے۔ملازمت کرنے والی عورت اگر کامیاب ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’’اس نے گھر پر توجہ نہیں دی‘‘ اور اگر ملازمت چھوڑ دے تو کہا جاتا ہے ’’شاید سنبھال نہیں پائی‘‘۔یوں عورت چاہے کچھ بھی کرے سماجی توقعات کا ترازو ہمیشہ اس کے خلاف جھکا رہتا ہے۔

خوداعتمادی کیسے متاثر ہوتی ہے؟

خوداعتمادی کا مطلب ہے خود پر یقین اور یہ احساس کہ میں جو ہوں وہی کافی ہوں، لیکن جب ہر فیصلہ اس خوف میں کیا جائے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ تو یہ یقین متزلزل ہو جاتا ہے۔عورت چاہے گھریلو زندگی گزار رہی ہو یا کسی ادارے میں کام کر رہی ہو اگر اس کے اردگرد کے لوگ اس کی ہر بات پر تنقید کریں تو وہ خود پر شک کرنے لگتی ہے۔ یہی کیفیت آہستہ آہستہ احساسِ کمتری، خوف اور خاموشی میں بدل جاتی ہے۔اکثر خواتین دوسروں کی رائے کے خوف سے اپنے خواب ترک کر دیتی ہیں۔ کوئی لکھنا چاہتی ہے مگر کہتی ہے ’’لوگ ہنسیں گے‘‘ کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے مگر سوچتی ہے ’’اگر ناکامی ہوئی تو کیا ہوگا‘‘۔ اسی سوچ کی زنجیر انہیں آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔

نفسیاتی اثرات

سماجی دباؤ کے زیرِ اثر رہنے والی خواتین اکثر اضطراب، ذہنی تھکن اور خوداعتمادی کی کمی کا  شکار ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ عورت اپنے اصل جذبات چھپانے لگتی ہے۔ وہ وہی بولتی ہے جو لوگ سننا چاہتے ہیں، وہی کرتی ہے جو ’’درست‘‘ سمجھا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنی اصل شخصیت کھو بیٹھتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ظاہری طور پر مسکراتی ہوئی عورت اندر سے خوف، بے چینی اور احساسِ کمزوری میں مبتلا رہتی ہے۔ اگرچہ سماجی دباؤ سے مکمل نجات ممکن نہیں لیکن اس کے اثرات کم کیے جا سکتے ہیں،اس کے لیے چند عملی طریقے مددگار ہو سکتے ہیں ، جیسا کہ:

 ہر فیصلہ کرنے سے پہلے خود سے پوچھیں ’’میری خوشی کس میں ہے؟‘‘

خود کو دوسروں سے نہ تولیں، ہر آدمی کی زندگی کا سفر مختلف ہے۔

 ان لوگوں کے قریب رہیں جو آپ کو حوصلہ دیں، تنقید نہیں۔

اپنے لیے وقت نکالیں۔روزانہ چند لمحے خود کے ساتھ گزاریں ۔ کتاب، چہل قدمی، عبادت یا خاموشی میں۔اگر دباؤ بہت بڑھ جائے تو کسی ماہرِ نفسیات سے بات کرنے میں عیب نہیں۔

ہمارے اردگرد بے شمار ایسی خواتین ہیں جنہوں نے ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کا خوف توڑ کر اپنی راہیں خود بنائیں۔ کسی نے کاروبار شروع کیا، کسی نے اکیلے بچوں کی پرورش کی، کسی نے تعلیم کی عمر گزرنے کے بعد دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔یہی وہ خواتین ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں  کہ اصل کامیابی تب ملتی ہے جب انسان اپنے فیصلوں کی ذمہ داری خود قبول کرے۔ اپنی رائے پر یقین رکھیں ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کا جملہ ہمارے گھروں اور دماغوں میں نسلوں سے بسا ہوا ہے،مگر وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ نیا جملہ سیکھیں کہ ’’میں کیا سوچتی ہوں؟‘‘جب عورت خود  سے سوال کرنا اور خود پر یقین رکھنا سیکھ لے گی  تو سماجی دباؤ کا اثر کم ہوتا جائے گا۔ خوداعتمادی وہ روشنی ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے، اور اگر یہ روشنی عورت کے اندر جلتی رہے تو کوئی بھی ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ اسے بجھا نہیں سکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔