انتخاب کلامِ میر:میر شناسی کی روایت کا نقش اول

تحریر : ڈاکٹر شازیہ عنبرین


مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی رسالہ ’’اردو‘‘ میں ’’بادہ کہن‘‘ کے عنوان سے اردو کے قدیم شعراکے کلام کا انتخابی سلسلہ شروع کیا تھا جس میں شعرا کے کلام پر تبصرہ بھی کیا جاتا تھا۔

 اس سلسلہ کے تحت مولوی عبدالحق نے آبرو،آشفتہ، میراثر ، مرزا علی نقی ایجاد، لالہ ٹیک چند بہار، میر حسن، سعادت یار خان رنگین ، عبد الحکیم سوز ، نرائن شفیق اورنگ آبادی،غواصی ، مصحفی ، مرزا مظہر جان جاناں کی شاعری کے مختصر انتخابات شائع کیے۔ ان کے علاوہ شیخ قیام الدین قائم کے تذکرے’’ مخزن نکات‘‘ کی تدوین کرتے ہوئے مولوی عبدالحق نے تذکرے کے مقدمے میں قائمؔ کے کلام کا انتخاب بھی پیش کیا، لیکن ان میں سے کوئی انتخاب بھی الگ سے کتابی شکل میں منظر عام پر نہ آسکا۔ البتہ میری تقی میر اور داغ دہلوی کے کلام کا جو انتخاب مولوی عبد الحق نے کیا وہ کتابی شکل میں شائع کیا۔

نواب فصیح الملک مرزا داغ دہلوی کے کلام کا انتخاب بابائے اردو مولوی عبدالحق نے 1946ء میں مرتب کیا۔ یہ انتخاب ردیف وار ہے جو 453 غزلوں، پانچ قطعات اور پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں چار صفحات پرمشتمل بابائے اردو کا مقدمہ ہے جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے حصے میں مرزا داغ دہلوی کی پیدائش سے وفات تک حالاتِ زندگی پر ایک اجمالی نظر ڈالی گئی ہے اور دوسرے حصے میں ان کی شاعری کے موضوعات اور اسالیب کا سرسری جائزہ پیش کیا گیا ہے، جس پر توصیفی رنگ غالب ہے۔

ان کے کلام کا بانکپن و بے ساختہ پن، ظرافت اور شوخی، بول چال کا لطف اور خاص انداز بیان ہے۔ بعض اوقات گہرے مضامین اپنے خاص انداز اور شستہ زبان میں اس صفائی کے ساتھ بیان کرتے جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ وہ غزل کے شاعرتھے اور غزل میں جو رنگ ان کا تھا وہ انھی پر ختم تھا۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مقدمے میں مرزا داغ دہلوی کے چار دیوان اور ایک مثنوی فریاد داغ کا ذکر کیا ہے،لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ منتخب کلام انہوں نے کسی دیوان سے لیا۔ حواشی و تعلیقات ، فرہنگ اور اشاریہ کا التزام بھی نہیں کیا گیا۔

انتخاب کلام میر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے 1921ء میں مرتب کر کے انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد سے شائع کیا۔  مولوی عبدالحق کے چالیس صفحات پر مشتمل طویل مقدمے کے ساتھ اس انتخاب میں غزلیات اور قطعات، فردیات، رباعیات، مستزاد، مخمسات (در شہر کا ما) شہر آشوب اور مثنویات (جھوٹ، گھر کا مال، در ہجو خانۂ مودی، جوش عشق، دنیا، مناجات، در تعریف عشق ، خواب و خیال ) شامل ہیں۔ غزلوں کا انتخاب ردیف وار ہے۔ اشعار کا انتخاب کرتے ہو ئے مولوی عبد الحق نے میر کے سہل اور عام فہم اشعار کو فوقیت دی ہے لیکن مقدمے میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ انتخاب کلام میرکے لیے اشعار منتخب کرتے ہوئے معیار کا کونسا پیمانہ انہوں نے مد نظر رکھا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اشعار کا انتخاب کلیات میرکے کسی نسخے سے کیا گیا ہے اور یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ اشعار کا انتخاب کرتے ہوئے کلیات میر کے کسی ایک خاص نسخے کو انہوں نے بنیاد بنایا یا تمام دستیاب نسخوں کو اپنے پیش نظر رکھا۔ انتخاب کلام میر میں مثنوی ’جوش عشق ‘کے اس شعر

آہ و فغاں ہے اس کے لب پر

روز نئی اک آفت شب پر

کے دوسرے مصرع کے لیے مولوی صاحب نے حاشیے میں لکھا ہے کہ کلیات میر ، مطبوعہ منشی نولکشور کانپور میں یہ مصرع اس طرح لکھا ہے ’روز نئی اک آفت سب پر‘۔ مولوی صاحب کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخاب اشعار کے وقت کلیات میں مطبوعہ منشی نولکشور کانپور کا نسخہ بھی مولوی عبدالحق کے پیش نظر رہا لیکن اس نسخے کو انہوں نے بنیادی نسخہ نہیں بنایاکیونکہ اس کے اختلاف حواشی میں درج ہیں یعنی اس نسخے کو بنیادی متن کا حصہ نہیں بنایا۔ کلیات میر کے جس نسخے کو مولوی صاحب نے بنیاد بنایا اور جس کے اشعار متن میں درج کیے اس کی نشاندہی کہیں نہیں کی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔