عدیم ہاشمی

اسپیشل فیچر
عدیم ہاشمی کی شہزاد احمد کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ شہزاد احمد کے گھر میں ایک پورٹریٹ لگا تھا جو عدیم ہاشمی کی مصوری کا کمال تھا۔ اس پر شہزاد احمد کا مصرع آج بھی لکھا ہوا ہے۔ ’’میں اس لیے ہوں کہ اک شخص دیکھتا ہے مجھے‘‘۔ ان دنوں ان کا ڈرامہ ’آغوش‘ چل رہا تھا ’’کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے۔ تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے‘‘۔ وہ لاہور آتے توملاقات ہوتی۔ ہم دونوں پی ٹی وی سے شہزاد احمد کے گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں ہم ایک ریڑھی پر دہی بڑھے کھانے کے لیے رکے۔ کہنے لگے ’’یار میرا پیالہ مرچ کے بغیر ہوگا‘‘۔ میں نے ریڑھی والے سے کہا ’’ان کے حصے کی مرچیں میرے پیالے میں ڈال دینا‘‘۔ وہ میرا مذاق نہیں سمجھا۔ اس نے سچ مچ ایک پیالے میں ڈبل مرچیں ڈال دیں اور اس پر غضب یہ کیا کہ وہ پیالہ عدیم ہاشمی کو تھما دیا۔ انہوں نے ایک ہی چمچ منہ میں ڈالا تو بلبلا اٹھے اور سی سی کرنے لگے۔ خیر ہم نے پیالے بدل لیے۔عدیم ہاشمی بیمار پڑے تو حالت بگڑتی گئی۔ شیخ زید ہسپتال داخل ہوئے اور میں ان سے ملنے پہنچا۔ وہیں فاخرہ بتول اسلام آباد سے آئی ہوئی تھی۔ باتیں شروع ہو گئیں۔ مکالماتی غزل پر ان کا احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ کوئی اختلاف چل رہا تھا جس کے باعث عدیم ہاشمی نے منصورہ احمد کے خلاف ایک دیباچے میں منفی اظہارِ خیال کیا تھا۔ میں نے انہیں کہا ’’عدیم صاحب! آپ ایک سچے اور کھرے شاعر ہیں۔ آپ کو اس طرح سے ردعمل کرنا کسی بھی صورت زیب نہیں دیتا۔ آپ احمد ندیم قاسمی اور منصورہ احمد کے بارے میں یکسر خاموشی اختیار کرلیں وہ مسکراتے رہے۔ جب میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگے ’’یار سعد! کل پھر آنا کل بھی ہم ’بدکھوئیاں‘ کریں گے‘‘۔ میں نے کہا ’’آپ کی صحت کے لیے جو کچھ بھی مفید ہے میں وہ ضرور کروں گا‘‘۔ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ ساتھ ہی انہوں نے سرہانے کے پاس رکھا اپنا نیا شعری مجموعہ میرے نام لکھا۔ اس مجموعے میں ساری غزلیں معروف لوگوں کی زمینوں میں کہی گئی تھیں اور دوسروں کی زمینوں میں سخن کی ایسی فصل بوئی کہ خدا کی پناہ۔ ایک ہے میری انا ایک انا کس کی ہےکس نے دیوار اٹھا دی مری دیوار کے ساتھغم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میںآنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر عدیم صرف اقبال کی زمین میں کوئی بڑی غزل نہیں کہہ سکے۔ اقبال کی زمین میں کسی کی فصل اگتی ہی نہیں۔ اس کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ زیادہ بیمار ہوئے تو امریکہ چلے گئے۔ جہاں افتخار نسیم افتی نے ان کی دیکھ بھال کی مگر ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘۔ عدیم کے شعر انتخاب کرنے پر بھی بے شمار ہیں۔ چلیے دو تین شعر آپ کی نذر کر دیتا ہوں:بہت نزدیک آتے جا رہے ہوبچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیابچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپاڑا دئیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئےتمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کاپڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آوےاس کی مکالماتی غزل کا ایک خوبصورت شعر اور ہے کہ اس نے کہا عدیم مرا ہاتھ تھامناچاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہوگئے