ایفائے عہد
اسپیشل فیچر
حضوراکرم ؐکی حیات طیبہ سے ایفائے عہد کی عظیم مثالیں ملتی ہیں آپؐ دشمنوں سے کیے گئے وعدے بھی پورے فرماتے تھے*****ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’اورعہدپوراکروبے شک عہدسے متعلق سوال ہوناہے ‘‘۔(سورۃ بنی اسرائیل34)ایفاء کے معنی ہیں پوراکرنا،مکمل کرنا،عہدایسے قول اورمعاملے کوکہاجاتاہے جوکہ طے ہویعنی کہ ایفائے عہد’’وعدہ پوراکرنا‘‘اپنے قول کونبھانا، اس پرقائم رہنا ہیں ۔وعدہ اورعہدکی پابندی کرناایفائے عہدمیں شامل ہے ۔ایفائے عہدنہ کرنے سے آدمی کااعتباراُٹھ جاتا ہے۔ اعتباراور اعتماد کے بغیر خوشگوار معاشرتی زندگی محال ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’وہ جو اللہ کا عہدپورا کرتے ہیں اور قول باندھ کرپھرتے نہیں ‘‘ ۔ (سورۃ الرعد)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضوراکرم نورمجسمؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا!تین اشخاص سے میں قیامت کے دن جھگڑا کروں گاایک وہ شخص جس نے میرے نام پروعدہ کیااورپھروعدہ خلافی کی اور ایک وہ شخص جس نے کسی آزادانسان کوبیچا اور پھر اس کی قیمت کھاگیااورایک وہ شخص جس نے کسی سے اُجرت پرکام کرایااس نے کام توپورالے لیا لیکن اُجرت ادانہ کی ‘‘۔(بخاری)حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریمؐ نے ارشادفرمایا’’چارخصلتیں جس شخص میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندران میں سے ایک خصلت موجود ہو اس کے اندرنفا ق کی ایک خصلت موجودہے حتیٰ کہ وہ اس کو ترک کر دے جب اس کو امانت سونپی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے ۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔جب عہدکرے توعہدشکنی کرے اور جب جھگڑاکرے توبیہودہ بکواس کرے‘‘۔ (بخاری ومسلم ) حضرت ابوسعیدخدریؓ سے مروی ہے کہ حضورؐنے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن ہر وعدہ خلافی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا ہو گا جسے اس کی وعدہ خلافی کی مناسبت سے بلند کیا جائے گا۔ خبردار کوئی وعدہ خلاف اپنی وعدہ خلافی میں (عہد شکن) امیرِ عمومی کی وعدہ خلافی سے بڑھ کرنہ ہو گا۔(مسلم شریف)حضوراکرم نورمجسم ؐکی حیات طیبہ سے ایفائے عہدکے بے شمارایمان افروزواقعات کی مثالیں ملتی ہیں ۔رحمۃ اللعالمینؐ اپنے تو اپنے دشمنوں سے کیے گئے وعدے بھی پورے فرماتے تھے ۔ چاہے ایسا کرنے میں نقصان کا اندیشہ ہی کیوں نہ ہوتا۔جس وقت غزوہ بدرمیں مسلمانوں کی تعداد کافروں کے مقابلے میں بہت کم تھی ۔اس موقع پر دو صحابی رسولؐ حضرت حذیفہ بن الیمان ؓاور ابوجبلؓ کفار کے ہاتھ لگ گئے ۔اس وقت مسلمانوں کو ایک ایک آدمی کا ضرورت تھی کیونکہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ۔کفار نے ان دونوں کو اس شرط پر رہا کیا کہ وہ کفارکے خلاف مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہوکر جنگ میں شریک نہ ہوں گے ۔ انہوں نے واپس آ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سارا واقعہ سنا دیا۔ اور عرض کیا یارسولؐ اللہ ہم نے یہ عہد مجبوری کی حالت میں کیا تھا۔ہم کفار کے خلاف ضرورل ڑیں گے ۔تو آپؐ نے فرمایا’’ہرگز نہیں تم اپنا وعدہ پورا کرو اور لڑائی کے میدان سے واپس چلے جائو، ہم مسلمان ہر حال میں وعدہ پوراکریں گے ۔ہمیں صرف خدا کی مدد کی ضرورت ہے‘‘۔ حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ سے ایفائے عہد کا ایک خوبصورت واقعہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جوشرائط طے پائی تھیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ مکرمہ سے بھاگ کر مدینہ منور آ جائے تو اسے مدینہ منورہ والوں نے واپس کرنا ہو گا۔صلح کے بعد مکہ سے ایک نوجوان مسلمان حضرت ابوجندلؓ اس حالت میں بھاگ کر آئے کہ ان کے پائوں زنجیرں سے بندھے ہوئے تھے ۔انہوں نے حضورؐ سے التجا کی کہ مجھے اپنے ہمراہ لے چلیں لیکن آپؐ تو وعدہ کر چکے تھے ۔اس لئے آپؐ نے اسے پورا کیا اور انہیں قریش کے حوالے کر دیا۔ اس منظرکو دیکھ کر صحابہ کرام ؓ رونے لگے لیکن آپؐ نے معاہدے کی خلاف ورزی گوارہ نہیں کی ۔آج کے پُرفتن دور میں ہم وعدہ تو کرتے ہیں پر اس وعدہ کو پورا نہیں کرتے ۔ہمارے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ وعدہ پورانہ کیاتوکیاہوگا۔پر ہمیںیہ معلوم نہیں کہ وعدہ پورانہ کرنے سے دنیاوالے بھی اعتبار کرناچھوڑدیتے ہیں اورقیامت کے دن بھی اس کی بازپُرس ہوگی جس سے ہم کونجات نہ ہوگی ۔توہمیں ایساوعدہ نہیںکرنا چاہیے جس کوہم پایہ تکمیل تک پہنچانہیں سکتے ۔ہمیںاپنی چادردیکھ کرپائوں پھیلانے چاہییں ۔بلندوبانگ دعوئوں سے بازرہیں ۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’اوراللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھواورقسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کواپنے اوپرضامن کرچکے ہوبے شک اللہ تمہارے کام جانتاہے ‘‘۔(سورۃ النحل91 )حضرت عبداللہ بن مبارک ایک مرتبہ جہادمیں ایک کافرسے برسرپیکارتھے ۔کہ نمازکاوقت ہو گیا آپ نے کافرسے اجازت چاہی اورنمازادا کر لی۔ پھرجب اس کافر کی عبادت کا وقت ہوا تو اس نے بھی اجازت چاہی ۔ اور اپنے بت کی جانب متوجہ ہوا۔ تو حضرت عبداللہ بن مبارک کے دل میں اس کوقتل کردینے کی خواہش پیداہوئی ۔چنانچہ آپ نے تلوار کھینچی اور اس پر حملہ کرنے کی خاطراس کافرکے قریب پہنچے ہی تھے کہ ندائے غیبی آئی کہ ہماری اس آیت مبارکہ کے مطابق ’’وَاَوْفُوْبالعھدان العھدکان مسئولا‘‘یعنی’’ تم سے قیامت میں عہدشکنی کی بازپرس ہوگی لہٰذااپنے قصدسے بازآجائو‘‘یہ ندا سنتے ہی آپؒ روپڑے۔کافرکوخیال آیاکہ جوخدااپنے دشمن کی وجہ سے اپنے دوست پرناراض ہواس کی اطاعت نہ کرنابزدلی ہے اوراس خیال کے ساتھ ہی وہ سچے دل سے مسلمان ہوگیا۔ (تذکرۃ الاولیاء)ایک دن حضرت عمرفاروقؓ کا دربارِ خلافت سرگرم انصاف وعدل تھا۔اکابرصحابہ کرامؓ موجود تھے ۔ اچانک ایک شخص کودو نوجوان پکڑے ہوئے لائے اورفریادکی ’’اس ظالم سے ہمارا حق دلوائیے اس لئے کہ اس نے ہمارے بوڑھے باپ کومارڈالاہے ‘‘۔حضرت عمرفاروقؓ نے اس نوجوان کی طرف دیکھ کرفرمایا’’ہاں دونوں کادعویٰ توسن چکا‘اب بتا تیرا کیا جواب ہے ؟‘‘ اس نوجوان نے نہایت ہی فصاحت وبلاغت سے پوراواقعہ بیان کیاجس کا خلاصہ یہ تھاکہ ہاں مجھ سے یہ جرم ضرورہواہے اور میں نے طیش میں آ کر ایک پتھرکھینچ ماراجس کی ضرب سے ان کا بوڑھا باپ مرگیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا’’تجھے اعتراف ہے تواب قصاص کا عمل لازمی ہو گیا اور اسکے عوض تجھے اپنی جان دینی ہوگی‘‘ ۔جوان نے سرجھکاکرعرض کیا۔ مجھے شریعت کافتویٰ ماننے میں کوئی عذرنہیں لیکن ایک درخواست ہے ۔آپؓ نے فرمایا کیا درخواست ہے ۔ اس شخص نے عرض کیا میراایک چھوٹانابالغ بھائی ہے۔ جس کے لئے والدمرحوم نے کچھ سونامیرے سپرد کیا تھا کہ وہ بالغ ہوتواس کے سپردکروں میں نے اس سونے کوایک جگہ زمین میں دفن کردیا۔ اوراس کاحال سوائے میرے کسی کومعلوم نہیں اگروہ سونااس کو نہ پہنچاتو قیامت کے دن میں ذمہ دارہوں گا۔ اس لئے اتنا چاہتا ہوں کہ تین دن کے لئے مجھے ضمانت پر چھوڑ دیا جائے ۔ حضرت عمرؓ نے ذرا غور فرمایا اور پھر ارشاد کیا ’’اچھاکون ضمانت کرتاہے کہ تین دن کے بعدتکمیل قصاص کے لئے تو واپس آجائے گا‘‘ ۔ اس ارشاد پر اس شخص نے چاروں طرف دیکھا اور حاضرین کے چہروں پر ایک نظر ڈال کرحضرت ابو ذر غفاریؓ کی طرف اشارہ کرکے عرض کیا یہ میری ضمانت دیں گے ۔ حضرت عمرؓنے پوچھا۔’’اے ابوذر!کیاتم اس کی ضمانت دیتے ہو‘‘۔ حضرت ابوذرؓنے فرمایا ’’بے شک اس کی میں ضمانت دیتاہوں کہ یہ نوجوان تین دن بعدتکمیل قصاص کے لئے آپؓ کے پاس حاضرہوجائے گا‘‘۔یہ ایسے جلیل القدرصحابی رسولؐکی ضمانت تھی کہ حضرت عمرؓ بھی راضی ہوگئے ۔ان دونوں مدعی نوجوانوں نے بھی اپنی رضامندی ظاہرکی اوروہ شخص چھوڑدیاگیا۔جب تیسرادن آیا۔ تمام جلیل القدرصحابہؓ جمع ہوئے ۔وہ دونوں نوعمرمدعی اورحضرت ابوذرغفاریؓ بھی تشریف لے آئے ۔مجرم کاانتظارہونے لگا،وقت گزرتاجارہاتھا ۔صحابہ کرامؓ میں حضرت ابوذرؓ!کی نسبت تشویش پیداہوگئی ۔ دونوں نوجوانوں نے بڑھ کرکہا۔اے ابو ذرؓ ! ہمارا مجرم کہاں ہے ؟آپؓ نے کمال ِاستقلال اورثابت قدمی سے ان کوجواب دیاکہ’’ اگرتیسرے دن کا وقت مقررگزرگیااوروہ نہ آیا۔تواللہ کی قسم!میں اپنی ضمانت پوری کروں گا‘‘۔ حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا ’’اگروہ نہ آیاتوحضرت ابوذرؓ کی نسبت وہی کاروائی کی جائے گی جوشریعت اسلامی کاتقاضاہے‘‘ ۔یہ سنتے ہی صحابہ کرام ؓ میں تشویش پیداہوگئی بعض کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے ۔لوگوں نے مدعیوں سے کہنا شروع کیاکہ’’تم خوں بہاقبول کر لو‘‘۔ان نوجوانوں نے قطعی انکارکیاکہ ہم خون کے بدلے خون ہی چاہتے ہیں ۔لوگ اسی پریشانی میں تھے کہ ناگہاںوہ مجرم نمودار ہوا۔ حالت یہ کہ پسینے میں ڈوبا ہوا اور سانس پھولی ہوئی تھی۔وہ آتے ہی خلیفہ ؓکے سامنے آیا۔سلام کیااورعرض کیا۔’’ میں اس بچے کواس کے ماموں کے سپرد کر آیا ہوں اوراسی کی جائیدادبھی انہیں بتادی ہے ۔اب آپؓ اللہ اوراس کے رسولؐ کا حکم بجا لائیں‘‘۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے عرض کیا ’’ اللہ کی قسم!میں جانتا بھی نہ تھاکہ یہ کون اورکہاں کا رہنے والا ہے؟ نہ اس روزسے پہلے کبھی اس کی صورت دیکھی مگر سب کوچھوڑکرمجھے اس نے اپنا ضامن بنایا تو مجھے انکار مروت کے خلاف معلوم ہوا اور اسکے اعتمادنے یقین دلایاکہ یہ شخص عہدمیں سچاہوگااس لیے میں نے اس کی ضمانت قبول کرلی تھی‘‘۔اس کے آپہنچنے سے حاضرین میں ایساغیر معمولی جوش پیداہوگیاکہ دونوں مدعی نوجوانوں نے خوشی میں آکرعرض کیا۔’’ ہم نے اپنے باپ کاخون معاف کردیا‘‘۔ حاضرین مجلس نے نعرہ بلندکیا اور حضرت عمرفاروقؓ کاچہرہ مسرت سے چمکنے لگا اور فرمایا۔’’ تمہارے باپ کا خون بہا میں بیت المال سے اداکروں گا۔اورتم اپنی اسی نیک نفسی کے ساتھ فائدہ اٹھائوگے‘‘ ۔ انہوں نے عرض کیا،ہم اس حق کوخالص اللہ رب العالمین کی رضاوخوشنودی کے لئے معاف کرچکے ہیں لہٰذا اب ہمیں کچھ لینے کاحق نہیں اورنہ ہی لیں گے ۔ دعاگُوہوں کہ اللہ پاک ہم سب کووعدے کا پابندبنائے ،اپنی بندگی اور مخلوق کی خدمت کی توفیق عطافرمائے، بروز محشر آقاؐ کی شفاعت نصیب فرمائے وطن عزیزپاکستان کوامن وسلامتی کا گہوارہ بنائے۔ مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے ۔آمین٭…٭…٭