گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!
مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا*********دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں گذشتہ ماہ کی سترہ تاریخ کو یہ خبر غم ناکی سے سُنی گئی کہ وہ جو ہمیں اپنی کہانیوں سے مسحور کرتا ہے، اب خود موت کے طلسم کا اسیر ہو چکا ۔مارکیز کے بارے میں ایک خبر کچھ عرصہ قبل بھی کان میں پڑی تھی ،تب سے افوا تھی جب کہ اب مصدقہ بات ۔مارکیز نے لاطینی امریکا کو شناخت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔دُنیا کا وہ خطہ جو شمالی امریکا کی چکا چوند کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اسے ہماری آنکھوں کے سامنے اتنا روشن کر دیا کہ کم از کم ادبی سطح پر بیسویں صدی میں شمالی امریکا کی روشنی ماند پڑ گئی۔مارکیز کا تخیل مجھے اُن داستان سنانے والوں کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے لفظوں سے طلسم تخلیق کرتے تھے اور سننے، پڑھنے والے اس طلسم میں کھو سے جاتے تھے۔طلسم کے معانی ہی یہ ہیں کہ سب کچھ نظر کا دھوکہ ہو، لیکن دیکھنے والے کو اس پر ایسا اعتبار آئے کہ فریب، حقیقت میں ڈھل جانے اور انسان اس میں ایسا اسیر ہو کہ اسے باہر نکلنے کا راستہ تک نہ مِلے ،مارکیز کے عظیم تخلیقی شاہکار ’’تنائی کے سو سال‘‘(One Hundred Year of solitude)پڑھتے ہوئے ،مجھے یہی گمان گزرا، جیسے میں ایک ایسی دُنیا میں داخل ہو چکا ہوں، جس میں انسان،روحیں ،چرند،پرند اور پودے سب ایک دوسرے میں گوندھے ہوئے ہیں۔مارکیز کے اس ناول کا آغاز لاطینی امریکا کے نو آبادیاتی بننے کے عمل سے شروع ہوتا ہے۔دو خاندانوں کے گرد گھومتا یہ ناول تین صدیوں کے سفر کو مختصر طور پر بیان کرتا’’اوسلا ‘‘اور’’بوئنڈیا ‘‘کی شادی کی خاندان کی طرف سے مخالفت کے عمل سے آغاز ہوتا ہے ۔وہ شادی تو کر لیتے ہیں، لیکن بددعا کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔اس سے بچنے کے لیے وہ ایک لمبے سفر پر نکلتے ہیں، اس سفر کا اختتام دو سال کے بعد ایک بے آباد علاقے میں دریا کے کنارے پر ہوتا ہے، جہاں وہ ایک نئے جہان ’’ماکوندو‘‘ (Marcondo)کی تخلیق کرتے ہیں ،وہ ایک بچے کی حیرت سے اس نئے جہان کو دیکھتے ہیں۔ ’’ماکوندو‘‘مارکیز کا خواب نگر(Dream Land) ہے، جو بار بار اس کے تخیل کو مہمیز لگتا ہے۔اس ناول میںمارکیز اپنی تخلیقی قوت ’’یاد ‘‘کے مظہر سے حاصل کرتا ہے، وہ یادیں جو اُس کے بچپن کے لاطینی امریکا اور خاص طور پر کولمبیا کے معاشرے میں موجود حقیقت کے بیان پر مبنی ہیں۔ یادیں ہی مارکیز کا وہ سرمایہ ہیں، جن سے وہ اپنی تخلیقات کی بنیادیںاستوار کرتا ہے اور پھر اپنے تخیل کی بے پناہ جوانی سے ایک طلسمی فضا تعمیر کرتا ہے۔مارکیز نے اپنے افسانوں اورناولوں میں جو کردار تراشے ہیں، وہ روز مرہ زندگی میں نظر آنے والے معمولی لوگ نہیں بل کہ غیر معمولی صلاحیتوں ،خوبیوں اور جسمانی خصائص کے حامل افراد ہیں۔ مارکیز کو غیر معمولی افراد اور واقعات اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اُن غیر معمولی کرداروں کو پیش کرنے کے لیے مارکیز جو فضا تیار کرتا ہے، وہ بھی غیر معمولی عناصر سے بھری ہوتی ہے۔مافوق الفطرت عناصر،انسان ،جانور ،پودے بے جان چیزیں اور مرد ے سب ایک دوسرے میں یوں گوندے ہیں کہ انھیں ایک دوسر ے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ اس سے اس مخصوص فضا کی تشکیل ہوتی ہے، جسے نقاد مارکیز کے حوالے سے طلسمی حقیقت نگاری (Magical Realism) کا نام دیتے ہیں۔مارکیز کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز 1950ء کے قریب ہوتا ہے، جب اُس نے تعلیم چھوڑ کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ابتدا میں اُس نے کہانیاں لکھیں اور اس کے ساتھ اپنے پہلے ناول’’ پتوں کا طوفان‘‘ (Leaf Storm)پر کام کرتا رہا۔1955ء میں ایک اخبار ’’ایل ایسپکیتا دور‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے اس نے یورپ کا سفر کیا۔فرانس میں اُس نے اپنے ناول ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘(No One Writes to The Colonel)کو مکمل کیا اوریہ ناول 1961ء میں شائع ہوا ۔اس کا ایک اور ناول’’ منحوس وقت‘‘(In Evil Hour) 1962ء میں چھپا۔ اس دوران مارکیز کی آٹھ کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ’’بڑی اماں کا جنازہ‘‘(Big Mama\'s Funeral)شائع ہو چکا تھا،تاہم مارکیز کے یہ ابتدائی ناول اور افسانوی مجموعے، اس کے لیے کوئی اہم ادبی مقام بنانے میں ناکام رہے۔مارکیز کا سب سے اہم مذکور ناول’’ تنہائی کے سو سال‘‘ 1967ء میں چھپا اور اس کے ساتھ ہی اُس کی عالم گیر شہرت کاآغاز ہو گیا ۔’’تنہائی کے سوسال ‘‘میں ہمیں وقت کی تباہ کاریاں اور تقدیر کا جبر بہت اہم موضوع کے طور پر ملتے ہیں۔اس ناول کا مرکزی کردار ’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان اپنی سو سال کی زندگی میں جگہ جگہ اپنے بزرگ کے کرموں کا پھل چھکتا ہے۔ مارکیز نے خود’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان کی تنہائی کا منبع،اس خاندان میں محبت کے فقدان کو قرار دیا ہے۔مارکیز کے ناولوں میں یادیں اُس کی اپنی ذات اور اپنے خاندان کی زندگی کی عکاس ہیں۔ اس کے ناولوں میں جہاں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ فلش بیک کی تکنیک سے وہ بار بار اپنے کرداروں کے ماضی کی طرف پلٹتا ہے ،وہاں بعض جگہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کر کے وہ تقدیر کی جبریت کو نمایاں کرتا ہے۔’’تنہائی کے سو سال‘‘ سے زیادہ اس موضوع پر اُس کی تخلیق ’’ ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘(Chronicile of a death foretold)میں ہمیں وضاحت سے اس کے نقطۂ نظر سے آگاہی دیتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مارکیز کے کم و بیش تمام ناولوں کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے ،جہاں ناول میں رونما ہونے والے واقعات پہلے ہی سے پیش آ چکے ہوتے ہیں۔مارکیز کے اُسلوب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ فرد کے خارج و باطن سماجی سیاسی اور شخصی سطحوں ایک دوسرے میں یوں گوندھتا ہے کہ ایک پیچیدہ متن تشکیل پا جاتا ہے ۔مارکیز کی فنی پختگی بیان پر اُس کی گرفت کو مضبوط رکھتی ہے ،جس سے مختلف فکری سطحیں ایک دوسرے میں یوں مدغم ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے امتیازات کو قائم بھی رکھتی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں ایک دوسرے میں تحلیل بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ فکشن کے فن کی معراج ہے اور مارکیز کے نام’’ تنہائی کے سوسال‘‘ اور’’ ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘(Love in the time of Cholera)اس کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔’’ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘ مارکیز کے پسندیدہ موضوعات ہی سے عبارت ہے۔وقت کی تباہ کاری غیر عقلی رویے اور محبت کی کہانی بقول مارکیز وہ محبت کی ایک ایسی کہانی لکھنا چاہتا تھا ،جس کا انجام طربیہ ہو۔ یہ کہانی مارکیز نے بہت کامیابی سے لکھی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں کتنے عاشق اس قدر خوش قسمت ہوسکتے ہیں کہ اُنھیں اپنی کامیابی کے لیے زندگی اکیاون سال نو ماہ اور چاردن کی مہلت دے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مارکیز نے جب 1984-85ء میں یہ ناول مکمل کیا، تو اس کی اپنی عمر بھی کم و بیش اکیاون ،باون سال ہی تھی ۔یوں ایک سطح پر یہ ناول مارکیز کی تخلیقی زندگی کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔مارکیزکے 1985ء کے بعد دو ناول(the General in his labyrinth) اور ’’ محبت اور دوسرے آسیب‘‘ (of love and other demons) اور کہانیوں کا ایک مجموعہ(The strange pilgrims) شائع ہوئے۔وہ اپنی قریباً 12 کہانیوں میں ہمیں اپنی یادوں سے باہر دکھائی دیتا ہے، جہاں وہ جدید زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔مثلاً’’خوابیدہ حسن اور ہوائی جہاز‘‘ ایک ایسے سفر کی روداد ہے، جو دُنیا کی خوبصورت ترین عورت کے پہلو میں بیٹھ کر کیا گیا ہے،لیکن آخر تک معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دُنیا حقیقت تھی یا خواب! اس مجموعے میں شامل کہانی’’ میَں صرف فون کرنے آتی تھی‘‘ میںایک عورت سب کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ پاگلوں کی بس میں اس لیے سوار ہوئی تھی کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور اسے فون کرنا تھا۔ اس افسانے میں حقیقت اور افسانے کی حدیں جگہ جگہ دھندلا جاتی ہیں۔ولی(The Saint)ایک ایسے کردار کو سامنے لاتی ہے، جو دُور درازکا سفر کر کے روم آتا ہے تاکہ یورپ کو ایک معجزے کے بارے میں بتائے، لیکن برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔بے انتہا مشکلات اور تکالیف برداشت کرنے اور اپنے مضبوط اعتقاد کے باعث افسانے کا کردار خود ولی کے رو پ میں ڈھل جاتا ہے۔’’محبت اور دوسرے آسیب‘‘ جنوبی امریکا کے ساحل پر نو آبادیاتی عہد میں جنم لینے والی کہانی ہے ۔ ’’سرویا ماریہ‘‘ (Sierva Maria)ایک معزز خاندان کی اکلوتی اولاد ہے، جو اپنے باپ کے مکان میں غلاموں کے کوارٹر میں پرورش پاتی ہے۔ ماریہ کا والد اس کو آسیب سے نجات دلانے کے لیے ایک مذہبی عبادت گاہ میں بھیج دیتا ہے ، جہاںپادری کالڑکا اُس کا آسیب نکالتے نکالتے خود محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنی عبادت ،نیکی اور پرہیز گاری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اس ناول میں مارکیزنے محبت کو ایک تحریبی قوت کے طور پر بیان کیا ہے، جو ایک آسیب کی طرح فرد کی شخصیت کے تاروپود بکھیر دیتی ہے۔الغرض مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا۔ اُس نے دُنیاکے ایک پسماندہ خطے سے تعلق رکھتے ہوئے مغربی معاشرے میں اپنے تخلیقی تجربوں سے بڑا مقام بنایا، وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں لیکن اُس کا خواب نگر’’ ماکوندو‘‘ قارئین کے دلوں میں آباد رہے گا۔٭…٭…٭