گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!

گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر امجد طفیل


مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا*********دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں گذشتہ ماہ کی سترہ تاریخ کو یہ خبر غم ناکی سے سُنی گئی کہ وہ جو ہمیں اپنی کہانیوں سے مسحور کرتا ہے، اب خود موت کے طلسم کا اسیر ہو چکا ۔مارکیز کے بارے میں ایک خبر کچھ عرصہ قبل بھی کان میں پڑی تھی ،تب سے افوا تھی جب کہ اب مصدقہ بات ۔مارکیز نے لاطینی امریکا کو شناخت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔دُنیا کا وہ خطہ جو شمالی امریکا کی چکا چوند کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اسے ہماری آنکھوں کے سامنے اتنا روشن کر دیا کہ کم از کم ادبی سطح پر بیسویں صدی میں شمالی امریکا کی روشنی ماند پڑ گئی۔مارکیز کا تخیل مجھے اُن داستان سنانے والوں کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے لفظوں سے طلسم تخلیق کرتے تھے اور سننے، پڑھنے والے اس طلسم میں کھو سے جاتے تھے۔طلسم کے معانی ہی یہ ہیں کہ سب کچھ نظر کا دھوکہ ہو، لیکن دیکھنے والے کو اس پر ایسا اعتبار آئے کہ فریب، حقیقت میں ڈھل جانے اور انسان اس میں ایسا اسیر ہو کہ اسے باہر نکلنے کا راستہ تک نہ مِلے ،مارکیز کے عظیم تخلیقی شاہکار ’’تنائی کے سو سال‘‘(One Hundred Year of solitude)پڑھتے ہوئے ،مجھے یہی گمان گزرا، جیسے میں ایک ایسی دُنیا میں داخل ہو چکا ہوں، جس میں انسان،روحیں ،چرند،پرند اور پودے سب ایک دوسرے میں گوندھے ہوئے ہیں۔مارکیز کے اس ناول کا آغاز لاطینی امریکا کے نو آبادیاتی بننے کے عمل سے شروع ہوتا ہے۔دو خاندانوں کے گرد گھومتا یہ ناول تین صدیوں کے سفر کو مختصر طور پر بیان کرتا’’اوسلا ‘‘اور’’بوئنڈیا ‘‘کی شادی کی خاندان کی طرف سے مخالفت کے عمل سے آغاز ہوتا ہے ۔وہ شادی تو کر لیتے ہیں، لیکن بددعا کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔اس سے بچنے کے لیے وہ ایک لمبے سفر پر نکلتے ہیں، اس سفر کا اختتام دو سال کے بعد ایک بے آباد علاقے میں دریا کے کنارے پر ہوتا ہے، جہاں وہ ایک نئے جہان ’’ماکوندو‘‘ (Marcondo)کی تخلیق کرتے ہیں ،وہ ایک بچے کی حیرت سے اس نئے جہان کو دیکھتے ہیں۔ ’’ماکوندو‘‘مارکیز کا خواب نگر(Dream Land) ہے، جو بار بار اس کے تخیل کو مہمیز لگتا ہے۔اس ناول میںمارکیز اپنی تخلیقی قوت ’’یاد ‘‘کے مظہر سے حاصل کرتا ہے، وہ یادیں جو اُس کے بچپن کے لاطینی امریکا اور خاص طور پر کولمبیا کے معاشرے میں موجود حقیقت کے بیان پر مبنی ہیں۔ یادیں ہی مارکیز کا وہ سرمایہ ہیں، جن سے وہ اپنی تخلیقات کی بنیادیںاستوار کرتا ہے اور پھر اپنے تخیل کی بے پناہ جوانی سے ایک طلسمی فضا تعمیر کرتا ہے۔مارکیز نے اپنے افسانوں اورناولوں میں جو کردار تراشے ہیں، وہ روز مرہ زندگی میں نظر آنے والے معمولی لوگ نہیں بل کہ غیر معمولی صلاحیتوں ،خوبیوں اور جسمانی خصائص کے حامل افراد ہیں۔ مارکیز کو غیر معمولی افراد اور واقعات اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اُن غیر معمولی کرداروں کو پیش کرنے کے لیے مارکیز جو فضا تیار کرتا ہے، وہ بھی غیر معمولی عناصر سے بھری ہوتی ہے۔مافوق الفطرت عناصر،انسان ،جانور ،پودے بے جان چیزیں اور مرد ے سب ایک دوسرے میں یوں گوندے ہیں کہ انھیں ایک دوسر ے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ اس سے اس مخصوص فضا کی تشکیل ہوتی ہے، جسے نقاد مارکیز کے حوالے سے طلسمی حقیقت نگاری (Magical Realism) کا نام دیتے ہیں۔مارکیز کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز 1950ء کے قریب ہوتا ہے، جب اُس نے تعلیم چھوڑ کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ابتدا میں اُس نے کہانیاں لکھیں اور اس کے ساتھ اپنے پہلے ناول’’ پتوں کا طوفان‘‘ (Leaf Storm)پر کام کرتا رہا۔1955ء میں ایک اخبار ’’ایل ایسپکیتا دور‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے اس نے یورپ کا سفر کیا۔فرانس میں اُس نے اپنے ناول ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘(No One Writes to The Colonel)کو مکمل کیا اوریہ ناول 1961ء میں شائع ہوا ۔اس کا ایک اور ناول’’ منحوس وقت‘‘(In Evil Hour) 1962ء میں چھپا۔ اس دوران مارکیز کی آٹھ کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ’’بڑی اماں کا جنازہ‘‘(Big Mama\'s Funeral)شائع ہو چکا تھا،تاہم مارکیز کے یہ ابتدائی ناول اور افسانوی مجموعے، اس کے لیے کوئی اہم ادبی مقام بنانے میں ناکام رہے۔مارکیز کا سب سے اہم مذکور ناول’’ تنہائی کے سو سال‘‘ 1967ء میں چھپا اور اس کے ساتھ ہی اُس کی عالم گیر شہرت کاآغاز ہو گیا ۔’’تنہائی کے سوسال ‘‘میں ہمیں وقت کی تباہ کاریاں اور تقدیر کا جبر بہت اہم موضوع کے طور پر ملتے ہیں۔اس ناول کا مرکزی کردار ’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان اپنی سو سال کی زندگی میں جگہ جگہ اپنے بزرگ کے کرموں کا پھل چھکتا ہے۔ مارکیز نے خود’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان کی تنہائی کا منبع،اس خاندان میں محبت کے فقدان کو قرار دیا ہے۔مارکیز کے ناولوں میں یادیں اُس کی اپنی ذات اور اپنے خاندان کی زندگی کی عکاس ہیں۔ اس کے ناولوں میں جہاں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ فلش بیک کی تکنیک سے وہ بار بار اپنے کرداروں کے ماضی کی طرف پلٹتا ہے ،وہاں بعض جگہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کر کے وہ تقدیر کی جبریت کو نمایاں کرتا ہے۔’’تنہائی کے سو سال‘‘ سے زیادہ اس موضوع پر اُس کی تخلیق ’’ ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘(Chronicile of a death foretold)میں ہمیں وضاحت سے اس کے نقطۂ نظر سے آگاہی دیتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مارکیز کے کم و بیش تمام ناولوں کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے ،جہاں ناول میں رونما ہونے والے واقعات پہلے ہی سے پیش آ چکے ہوتے ہیں۔مارکیز کے اُسلوب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ فرد کے خارج و باطن سماجی سیاسی اور شخصی سطحوں ایک دوسرے میں یوں گوندھتا ہے کہ ایک پیچیدہ متن تشکیل پا جاتا ہے ۔مارکیز کی فنی پختگی بیان پر اُس کی گرفت کو مضبوط رکھتی ہے ،جس سے مختلف فکری سطحیں ایک دوسرے میں یوں مدغم ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے امتیازات کو قائم بھی رکھتی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں ایک دوسرے میں تحلیل بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ فکشن کے فن کی معراج ہے اور مارکیز کے نام’’ تنہائی کے سوسال‘‘ اور’’ ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘(Love in the time of Cholera)اس کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔’’ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘ مارکیز کے پسندیدہ موضوعات ہی سے عبارت ہے۔وقت کی تباہ کاری غیر عقلی رویے اور محبت کی کہانی بقول مارکیز وہ محبت کی ایک ایسی کہانی لکھنا چاہتا تھا ،جس کا انجام طربیہ ہو۔ یہ کہانی مارکیز نے بہت کامیابی سے لکھی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں کتنے عاشق اس قدر خوش قسمت ہوسکتے ہیں کہ اُنھیں اپنی کامیابی کے لیے زندگی اکیاون سال نو ماہ اور چاردن کی مہلت دے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مارکیز نے جب 1984-85ء میں یہ ناول مکمل کیا، تو اس کی اپنی عمر بھی کم و بیش اکیاون ،باون سال ہی تھی ۔یوں ایک سطح پر یہ ناول مارکیز کی تخلیقی زندگی کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔مارکیزکے 1985ء کے بعد دو ناول(the General in his labyrinth) اور ’’ محبت اور دوسرے آسیب‘‘ (of love and other demons) اور کہانیوں کا ایک مجموعہ(The strange pilgrims) شائع ہوئے۔وہ اپنی قریباً 12 کہانیوں میں ہمیں اپنی یادوں سے باہر دکھائی دیتا ہے، جہاں وہ جدید زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔مثلاً’’خوابیدہ حسن اور ہوائی جہاز‘‘ ایک ایسے سفر کی روداد ہے، جو دُنیا کی خوبصورت ترین عورت کے پہلو میں بیٹھ کر کیا گیا ہے،لیکن آخر تک معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دُنیا حقیقت تھی یا خواب! اس مجموعے میں شامل کہانی’’ میَں صرف فون کرنے آتی تھی‘‘ میںایک عورت سب کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ پاگلوں کی بس میں اس لیے سوار ہوئی تھی کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور اسے فون کرنا تھا۔ اس افسانے میں حقیقت اور افسانے کی حدیں جگہ جگہ دھندلا جاتی ہیں۔ولی(The Saint)ایک ایسے کردار کو سامنے لاتی ہے، جو دُور درازکا سفر کر کے روم آتا ہے تاکہ یورپ کو ایک معجزے کے بارے میں بتائے، لیکن برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔بے انتہا مشکلات اور تکالیف برداشت کرنے اور اپنے مضبوط اعتقاد کے باعث افسانے کا کردار خود ولی کے رو پ میں ڈھل جاتا ہے۔’’محبت اور دوسرے آسیب‘‘ جنوبی امریکا کے ساحل پر نو آبادیاتی عہد میں جنم لینے والی کہانی ہے ۔ ’’سرویا ماریہ‘‘ (Sierva Maria)ایک معزز خاندان کی اکلوتی اولاد ہے، جو اپنے باپ کے مکان میں غلاموں کے کوارٹر میں پرورش پاتی ہے۔ ماریہ کا والد اس کو آسیب سے نجات دلانے کے لیے ایک مذہبی عبادت گاہ میں بھیج دیتا ہے ، جہاںپادری کالڑکا اُس کا آسیب نکالتے نکالتے خود محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنی عبادت ،نیکی اور پرہیز گاری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اس ناول میں مارکیزنے محبت کو ایک تحریبی قوت کے طور پر بیان کیا ہے، جو ایک آسیب کی طرح فرد کی شخصیت کے تاروپود بکھیر دیتی ہے۔الغرض مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا۔ اُس نے دُنیاکے ایک پسماندہ خطے سے تعلق رکھتے ہوئے مغربی معاشرے میں اپنے تخلیقی تجربوں سے بڑا مقام بنایا، وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں لیکن اُس کا خواب نگر’’ ماکوندو‘‘ قارئین کے دلوں میں آباد رہے گا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
طوفان کب ، کیسے اور کیوں آتے ہیں !

طوفان کب ، کیسے اور کیوں آتے ہیں !

طوفان کیا ہوتا ہے ؟ اسے سمجھنے کے لیے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ جس طرح ایک دریا کی سطح پر اگر خلاف معمول کوئی اونچ نیچ واقع ہو جائے تو پانی کی روانی میں خلل پڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ بھنور یا گردباد بننا شروع ہو جاتے ہیں،بالکل اسی طرح کرہ ہوائی میں بھی جب ہوائیں چلتی ہیں تو فضا میں مختلف مقامات پر ہوا کے دبائو میں فرق پڑ جاتا ہے۔جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر ہوا کی روانی میں رکاوٹ واقع ہو کر فضا میں بھنور پیدا ہونے لگتے ہیں۔ نتیجتاً ہر سمت ہوائیں اپنا رخ بدل لیتی ہیں اور چاروں طرف سے کم دباو کے مرکز کی طرف بھنور کی شکل میں چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ ہواؤں کے اس بھنور کوطوفان کہا جاتا ہے۔ گئے دنوں میں اگرچہ اس کیفیت کو صرف طوفان ہی کہاجاتا تھا لیکن اب سائنس دانوں نے طوفان کو بھی بالحاظ ساخت اور شدت مختلف ناموں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ویسے تو ''سائیکلون‘‘ اور ''ہریکین‘‘طوفان کی دو مرکزی اقسام ہیں تاہم '' ٹائی فون‘‘ اور ''ٹور نیڈو‘‘ بھی طوفان کی ہی اقسام ہیں۔سائنسی نقطۂ نظر سے طوفان کی ابتدائی شکل کو ''سائیکلون‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی شدت کو ''ہریکین‘‘ کہا جاتا ہے۔ طوفان کیوں اور کیسے آتے ہیں ؟بعض ماحولیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صنعتی آلودگی، گرین ہائوس گیسوں کے بے دریغ اخراج کے سبب زمینی درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے نے کرہ ارض کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس کی وجہ سے طوفانوں اور قدرتی آفات میں خلاف معمول اضافہ ہو گیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان ایم بسٹر اور کے اے عما کے بقول ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل سمندروں کی سطح پر درجۂ حرارت میں پچھلے پچاس سالوں کے دوران 0.2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ماہرین ماحولیات کہتے ہیں، ٹراپیکل طوفان خط استوا کے قریب گرم سمندری پانیوں پر بنتے ہیں۔جب یہ گرم ہوا اوپر کی جانب اٹھتی ہے تو ہوا کے کم دباؤ والا ایک مقام بنتا ہے۔جوں جوں ہوا دوبارہ ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے، اسے نیچے سے اٹھنے والی مزید گرم ہوا ایک طرف دھکیل دیتی ہے اور یہ عمل تیز ہواؤں اور بارش کا سبب بنتا ہے۔جب اس عمل کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ایک استوائی یا ٹراپیکل طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عام طور پر 63 کلومیٹر کی رفتار سے آنے والا طوفان استوائی یا ٹراپیکل طوفان کہلاتا ہے جبکہ یہی ہوائیں اگر 119 کلومیٹر کی رفتار کو چھونے لگیں تو یہ طوفان، سائیکلون، ٹائفون یا ہریکین کہلاتے ہیں۔ سمندری طوفانوں میں ہریکین زمین پر تباہی مچانے والے طوفانوں میں سے ایک ہیں اور اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ طوفان پہلے سے زیادہ طاقت ور اور تباہ کن ہو رہے ہیں۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہریکین کیسے بنتے ہیں اور موسمی تبدیلی ان پر کیا اثر ڈال رہی ہے ؟۔ہریکین کیسے بنتے ہیں ؟ہریکین کی شروعات بحر کے اوپر چھوٹے طوفانوں کے طور پر ہوتی ہے۔ سمندر کا درجۂ حرارت جب 27 ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے تو سمندری طوفان کے بادل تعداد اور سائز میں بڑھنے لگتے ہیں۔ہوائیں دائرے کی شکل میں اوپر کی طرف اٹھنے لگتی ہیں، ایسے میں زمین کی گردش ان ہواؤں کو اور زیادہ تیز کر کے گھومنے میں مدد دیتی ہے۔ہوا کی اوسط رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے تو طوفان کا درمیان کا حصہ جنم لے کر ہریکین کی شکل دھار لیتا ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر طوفان ہریکین نہیں ہوتا ۔ کیٹیگری 5 کے طوفان زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ان کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ مستقبل میں طوفان بارے خدشاتاقوام متحدہ کے آب و ہوا کے ادارے ''آئی پی سی سی‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے عالمی درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے ، اس بات کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ دنیا میں بارشوں کی شرح اور ہوا کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ طوفانوں کا زیادہ تناسب سب سے شدید زمروں یعنی چار اور پانچ تک پہنچ جائے گا۔ بالفاظ دیگر جتنا زیادہ عالمی درجۂ حرارت بڑھے گا ان تبدیلیوں کی شدت میں اضافہ اتنا زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے آئی پی سی سی کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت 1.5ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رہے تو کیٹیگری چار اور پانچ تک پہنچنے والے استوائی طوفانوں کے تناسب میں لگ بھگ 10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ درجۂ حرارت میں یہ اضافہ 2 سنٹی گریڈ تک پہنچنے کی صورت میں یہ تناسب 13 فیصد اور درجۂ حرارت 4 ڈگری سنٹی گریڈ پر یہ اضافہ 20 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے تباہ کن طوفان بھولا سائیکلون 1970 میں بھولا سائیکلون جو 13 نومبر کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش )کے علاقے بھولا میں آیا تھا، اس میں 10 لاکھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں صرف بھولا کے علاقے میں ایک لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ اسی وجہ سے اس طوفان کو '' بھولا سائیکلون ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ طوفان تاریخ کا بدترین طوفان کہلاتا ہے۔ ملٹن ہریکین رواں سال اکتوبر میں امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے ملٹن میں آنے والا ہریکین طوفان رواں صدی کا ایک تباہ کن طوفان تھا۔200کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والا یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ پورے علاقے کی زندگی معطل ہو کر رہ گئی تھی۔ 15 لاکھ سے زائد افراد بجلی سے محروم ہو گئے۔33 لاکھ کے قریب لوگوں کو اس علاقے سے انخلا کرنا پڑا۔ اس طوفان میں230 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔   

بچوں کی ہائپر ایکٹیو عادات اور موبائل فون کا استعمال

بچوں کی ہائپر ایکٹیو عادات اور موبائل فون کا استعمال

موبائل کا بے دریغ استعمال بھی اس کیفیت کو جنم دینے کی ایک وجہ ہےہائپر ایکٹیو (Hyperactive) ایک ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جس میں بچے یا بالغ افراد غیر معمولی طور پر زیادہ متحرک، بے چین، اور توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایسے افراد مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور عام طور پر ان کی سرگرمیاں بے ترتیب اور بے قابو ہو سکتی ہیں۔ یہ رویہ خاص طور پر بچوں میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے، جہاں وہ ضرورت سے زیادہ شور مچاتے، دوڑتے اور والدین کو تنگ کرتے ہیں، حتیٰ کہ ایسی جگہوں پر بھی جہاں پرسکون رہنا ضروری ہو۔ ہائپر ایکٹیویٹی اکثر توجہ کی کمی کے عارضے (ADHD) کا ایک حصہ ہوتی ہے، لیکن یہ تناؤ، نیند کی کمی، یا غذائی عادات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ آج کے دور میں اس کی اہم وجہ بچوں میں موبائل کا بے دریغ استعمال بھی اس کیفیت کو جنم دے رہا ہے۔ بچوں کا ہائپر ایکٹیو ہونا اور موبائل فون کی عادت ایک اہم سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کی تعلیم اور تربیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور بچوں کو مثبت انداز میں زندگی کے درست راستے پر گامزن کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنائیں۔بچوں کی غیر معمولی توانائی کو مثبت سمت میں استعمال کرنا بے حد ضروری ہے۔ انہیں کھلی فضاء میں لے جا کر مختلف کھیلوں میں شامل کریں جیسے کرکٹ، فٹ بال، یا تیراکی۔ ان سرگرمیوں سے بچوں کی توانائی مثبت طور پر استعمال ہوگی اور ان کا رویہ بھی بہتر ہو گا۔ تخلیقی سرگرمیاں جیسے ڈرائنگ، پینٹنگ وغیرہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں مصروف رکھتی ہیں۔موبائل فون کا بے جا استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اسکرین ٹائم کے لیے ایک خاص وقت مقرر کریں۔ مثال کے طور پر، صرف تعلیمی کاموں یا کارآمد مواد کے لیے موبائل استعمال کی محدود اجازت دیں۔ کوشش یہی کریں بچوں کو موبائل کے متبادل فراہم کریں، جیسے کہ پزل گیمز، کتابیں یا لیگو جیسے کھیل، جو نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ بچوں کے ذہنی ارتقاء کے لیے بھی مفید ہیں۔فیملی کے ساتھ وقت گزارنا بچوں کی جذباتی تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ بچوں کے ساتھ بات چیت کریں، سیرت النبی ﷺ سے واقعات نکال کر بچوں کو سنائیں، انبیاء کرام کی کہانیاں سنائیں، بچوں کے ساتھ مل کر تفریحی کھیل کھیلیں۔ یہ نہ صرف بچوں کو خوش رکھے گا بلکہ ان کی موبائل فون کی عادت کو کم کرنے میں بھی مددگار ہوگا۔ کھانے کے دوران موبائل فون استعمال کرنے کی سخت ممانعت کریں تاکہ فیملی بانڈنگ کا وقت متاثر نہ ہو۔بچوں کی نیند کا خاص خیال رکھیں۔ ایک مقررہ وقت پر سونے اور جاگنے کی عادت انہیں ہائپر ایکٹیو ہونے سے روکتی ہے۔ نیند کی کمی اکثر بچوں کے رویے پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ اسی طرح متوازن غذا بھی بچوں کی عادتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ چینی اور جنک فوڈ کی بجائے پھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا فراہم کریں تاکہ ان کی توانائی کا لیول متوازن رہے۔ اگر ان تمام کوششوں کے باوجود بچے کا رویہ قابو میں نہ آئے تو کسی ماہر نفسیات یا چائلڈ سائیکالوجسٹ سے مشورہ کریں۔ وہ بچے کے رویے کی گہرائی میں جا کر اس مسئلے کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔بچوں کو تربیت دینے کے لیے والدین کو مستقل مزاج اور محبت بھرا رویہ اپنانا ہوگا۔ بچوں کی عادات کو فوری طور پر تبدیل کرنا ممکن نہیں لیکن صبر، شفقت، اور مثبت انداز سے ان کے رویے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا تمام حکمت عملیاں نہ صرف بچوں کی ہائپر ایکٹیو عادات کو قابو میں رکھنے میں مدد کریں گی بلکہ ان کے ذہنی اور جسمانی نشوئونما کے لیے بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔ والدین اور اساتذہ کی توجہ اور مستقل محنت بچوں کی شخصیت کو نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

سانتا ماریا سکول قتل عامسانتا ماریا قتل عام در اصل ہڑتال کرنے والے کارکنوں کا قتل عام تھا۔ چلی کی افواج نے 21 دسمبر1907ء کو چلی کے ایکویک میں تقریباً 2ہزار کان کنوں کا قتل عام کیا۔کچھ رپورٹس کے مطابق قتل کئے جانے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔اس کے بعد اقعہ کے حقائق کو کئی سال تک سرکاری طور پر دبایا جاتا رہا لیکن2007ء میں حکومت نے اس کی صد سالہ یادگاری تقریب کا انعقاد کیا۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا، جہاں چلی کے دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کارکن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔پین ایم فلائٹ103حادثہ''پین ایم فلائٹ نمبر103‘‘فرینکفرٹ سے ڈیٹرائٹ کیلئے لند ن میں ایک سٹاپ اوور کے ساتھ نیو یارک سٹی میں ایک طے شدہ پرواز تھی۔21دسمبر1988ء کو جب ہوائی جہاز سکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے اوپر پرواز کر رہا تھا اس میں اچانک ایک دھماکا ہواجو جہاز میں نصب کئے گئے بم کا تھا۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افراد ہلاک ہوئے۔دھماکے کے بعد جہاز کے بڑے حصے رہائشی علاقے میں گرے جس کی وجہ سے11رہائشی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشتگردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلی مرتبہ معاہدہ1921ء میں زیر بحث آیا اور اس حتمی معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا ۔نیپال 1921ء میں ہی خود کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھناچاہتا تھا۔ اس لئے اسی برس برطانیہ کے ساتھ اس بحث کا آغاز کر دیا گیا تھا کہ نیپال کی آزادی کو تسلیم کیا جائے۔اینٹونوو این225 کی پہلی پروازاینٹونوو این 225ایک سٹریٹجک ائیر لفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کے لئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

یادرفتگاں:گائے کی دنیا گیت میرے۔۔۔ رشید عطرے نغموں کو امر کرنے والا موسیقار

یادرفتگاں:گائے کی دنیا گیت میرے۔۔۔ رشید عطرے نغموں کو امر کرنے والا موسیقار

پاکستان فلم انڈسٹری کو کئی یادگار گیت دینے والے برصغیر کے نامور موسیقار رشید عطرے کی آج 57ویں برسی ہے۔ 15فروری 1919ء کو امرتسر میں جنم لینے والے رشید عطرے کا پورا نام عبدالرشید عطرے تھا۔ ان کے والد خوشی محمد بھی گلو کاری اور موسیقی کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اشفاق حسین سے حاصل کی۔ رشید عطرے نے جلد ہی موسیقی کے تمام آلات کا درست استعمال سیکھ لیا اور ان میں مہارت حاصل کرلی۔ خاص طور پر انہوں نے طبلہ بجانے میں کمال حاصل کیا۔رشید عطرے پاکستان کی فلمی تاریخ میں اردو فلموںکے پہلے کامیاب ترین موسیقار تھے، جنھوں نے بہت بڑی تعداد میں سپر ہٹ گیت تخلیق کیے۔ 40 ء کی دہائی کے شروع میں رشید عطرے دنیائے موسیقی میں قدم رکھا۔ انہوں نے ماہی شوریٰ پکچرز لاہور کی فلم ''پگلی‘‘ کے دو گیتوں کی موسیقی دے کر فنی کریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے باقی نغمات کا میوزک استاد جھنڈے خان نے ترتیب دیا۔ 1947ء میں بمبئے ٹاکیز کی فلم ''نتیجہ‘‘ کی موسیقی رشید عطرے نے مرتب کی۔ اس کی ایک غزل ''کہاں میں اور کہاں دینِ حرم کی کشمکش‘‘بہت مقبول ہوئی۔ ان کی مرتب کردہ موسیقی سے سجی فلم ''وعدہ‘‘ کا کلاسیکی گیت ''بار بار ترسیں مورے نین، مورے نیناں‘‘سن کر دل جھوم اٹھتا ہے۔ اس گیت کو کوثر پروین اور شرافت علی خان نے گایا تھا۔اس کا ایک اور لافانی گیت ملاحظہ کریں:تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوںجب ترے شہر سے گزرتا ہوںڈبلیو زیڈ احمد کی شہرہ آفاق فلم ''وعدہ‘‘ کے سارے نغمات بڑے ہٹ ہوئے اور رشید عطرے نے اپنی فنی عظمت کا لوہا منوایا۔ رشید عطرے نے اس فلم کے علاوہ بھی دیگر کئی فلموں کی شاندار موسیقی دی اور اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ رشید عطرے قیام پاکستان سے پہلے بھارت میں بھی اپنے فن کے چراغ روشن کرتے رہے۔ 1948ء میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ ابتدائی دور میں وہ نور جہاں کی گائیکی سے فائدہ نہ اٹھا سکے کیونکہ ان دنوں نورجہاں صرف اس فلم کیلئے نغمات گاتی تھیں جس میں وہ خود ہیروئن کے طور پر کام کر رہی ہوتیں۔ یہی سبب تھا کہ رشید عطرے نے اپنے کریئر کے ابتدائی برسوں میں زبیدہ خانم اور نسیم بیگم سے گیت گوائے۔ بعد میں جب میڈم نور جہاں نے جب اپنی روایت کی زنجیر توڑی تو پھر رشید عطرے کو موقع ملا کہ وہ میڈم کی آواز کو اپنی دلکش موسیقی کا لباس پہنائیں۔ یہ سلسلہ 1967ء تک جاری رہا۔ رشید عطرے نے ریاض شاہد کی یاد گار فلم ''شہید‘‘ کے گیتوں کی موسیقی دی۔ اس سے پہلے وہ ''شہری بابو‘‘ اور ''چن ماہی‘‘ کی موسیقی دے کر زبردست شہرت حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے گیتوں کا شاندار میوزک دے سکتے ہیں۔1956-57ء اور پھر 1958ء میں انہوں نے ''سرفروش‘‘، ''وعدہ‘‘ اور'' انارکلی‘‘ کی موسیقی دی۔ ان تینوں فلموں کی موسیقی نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس کے بعد مکھڑا، گلفام، فرنگی، سوال، مرزا جٹ، بائو جی اور زرقا کے گیتوں کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ فلم ''قیدی‘‘میں فیض احمد کی نظم ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ رشید عطرے کی موسیقی میں میڈم نور جہاں نے گائی۔ اسی طرح ''فرنگی‘‘ کی یہ غزل''گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے‘‘ مہدی حسن نے رشید عطرے کی موسیقی میں گائی۔1962ء میں فلم ''موسیقار‘‘ کے نغمات بھی بہت مقبول ہوئے۔ بھارت میں انہوں نے جن فلموں کی موسیقی دی ان میںممتا، پگلی، پنا، شیریں، فرہاد، کمرہ نمبر9، نتیجہ، پارو اور شکایت شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی مشہور فلموں میں''شہری بابو‘‘، ''چن ماہی‘‘، ''سرفروش‘‘، ''وعدہ‘‘، ''سات لاکھ‘‘، ''مکھڑا‘‘، ''انارکلی‘‘، ''نیند‘‘، ''سلمیٰ‘‘، ''شہید‘‘، ''قیدی‘‘، '' موسیقار‘‘، ''فرنگی‘‘ ، ''جی دار‘‘،'' سوال‘‘، ''بائو جی‘‘ اور'' زرقا‘‘ نمایاں ہیں۔رشید عطرے نے اپنے17 سالہ فلمی کریئر میں 60 کے قریب فلموں میں گیت کمپوز کیے۔ ان میں سے 50 سے زائد اردو فلموں میں ساڑھے تین سو کے لگ بھگ گیت تھے جبکہ چھ پنجابی فلموں میں پچاس سے زائد گیت تھے۔ گلوکارہ نسیم بیگم نے ان کے سب سے زیادہ گیت گائے، جن کی تعداد 94 ہے جبکہ زبیدہ خانم کے 72 ، میڈم نورجہاں کے 66 ، مالا کے 46 اور آئرن پروین کے 20 گیت تھے۔1969ء میں رشید عطرے نے ریاض شاہد کی فلم ''زرقا‘‘ کے نغمات کی جو دھنیں بنائیں وہ آج بھی شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اہل موسیقی رشید عطرے کے سنگیت کو پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ قرار دیتے ہیں۔18دسمبر 1967ء کو رشید عطرے اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔  رشید عطرے کے ناقابل فراموش گیت1-بھاگاں والیو............ فلم شہری بابو2-چٹھیے سنجیاں دیئے......... چن ماہی3-تیری الفت میں صنم......... سرفروش4-جب ترے شہر سے گزرتا ہوں...وعدہ5-بار بار ترسیں مورے نین......وعدہ6-دِلا ٹھہر جا یار دا............ مکھڑا7- بانوری چکوری کرے...... انارکلی8-تیرے در پہ صنم چلے آئے...... نیند9-زندگی ہے یا کسی کا انتظار... ...سلمیٰ10-اس بے وفا کا شہر ہے...... شہید11-گائے کی دنیا گیت میرے...موسیقار12-گلوں میں رنگ بھرے...... فرنگی13-لٹ الجھی سلجھا جارے بالم......سوال14-آئے موسم رنگیلے سہانے... سات لاکھ15-یارو مجھے معاف رکھو...... سات لاکھ16-سنجے دل والے بوُئے......مرزا جٹ17-رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے...زرقا18-ہمیں یقیں ہے ڈھلے گی اک دن...رزقا19-نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن...شہید 

لینن گراڈفن تعمیر کی شاہکار عمارتوں والا روس کا اہم ترین شہر

لینن گراڈفن تعمیر کی شاہکار عمارتوں والا روس کا اہم ترین شہر

لینن گراڈ، روس کا ایک اہم شہر ہے جو خلیج فن لینڈ پر دریائے نیوا کے کنارے پر واقع ہے۔ اس کا پرانا نام سینٹ پیٹرز برگ تھا کیونکہ اس کا سنگ بنیاد 1730ء میں زار روس پیٹر اعظم نے رکھا تھا،بعدازاں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس شہر کا شمار دنیا کے حسین ترین شہروں میں ہوتا ہے۔17ویں صدی عیسوی میں روس کا شمار یورپ کی چند پسماندہ اقوام میں ہوتا تھا۔اس وقت تک یہاں مغربی اثرات آنا شروع ہو چکے تھے جب 1689ء میں پیٹراعظم روس کا حکمران بنا۔ وہ پہلا روسی حکمران تھا جس نے غیر ممالک کا دورہ کیا۔1697ء میں انگلینڈ، فرانس اور ہالینڈ کا دورہ کرکے واپسی پر اس نے مصمم ارادہ کر لیا تھاکہ وہ روس کو جدید ممالک کی صف میں کھڑا کرے گا۔ اس کے پروگرام کا ایک اہم حصہ بندرگاہ بنا کر روسی بحریہ کو مضبوط تر بنانا تھا اور اس کے ساتھ ایک نیا شہر بھی بسانے کا منصوبہ تھا۔بحریہ کی ضروریات کے نقطہ نظر سے خلیج فن لینڈ میں نیواڈیلٹا کا دلدلی علاقہ اس شہر کی تعمیر کیلئے منتخب کیا گیا۔ اس شہر کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ 1712ء میں کیا گیا۔ یہ شہر ادب و فنون کا بہت بڑا مرکز بنا اور اس پر مغربی تہذیب کا گہرا اثر پڑا۔ اس شہر کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کے بعد زار پیٹر کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کس قسم کا شہر تعمیر کروایا جائے۔1725ء میں پیٹراعظم کی موت کے بعد بھی اس شہر کی شاندار عمارات کی تعمیر جاری رہی۔ ان عمارتوں میں قلعہ پیٹرپال، مین شیکو پیلس، سمر پیلس اور ونٹر پیلس شامل ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ اہل روس اور بہت سے غیر ملکیوں کی کوششوں سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ تاجروں اور مختلف ماہر فنون کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہاں اپنے گھر تعمیر کریں۔ چونکہ اس علاقہ میں پتھر نہیں تھے اس لئے شہر میں داخل ہونے والی ہر سواری یا گاڑی میں تین پتھر ، ہر کشتی میں پتھر اور ہر بحری جہاز میں کم از کم 30پتھر لدے ہوتے تھے۔سینٹ پیٹرز برگ میں اتنے تعمیراتی سٹائل نظر آتے ہیں کہ یہ شہر فن تعمیر کی سمفنی (symphony)نظر آتا ہے۔ دو سٹائل خاص طور پر چھائے ہوئے ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ کی شاندار عمارتوں کے ساتھ اس شہر کا کشادہ لے آئوٹ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا کی ایک سب سے بڑی سڑک سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک دریائے نیوا کے کنارے واقع ایڈمائی رہائی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سڑک کا اپنا ایک منفرد حسن ہے۔ اس کے اطراف میں باوقار اور شاندار عمارتیں بنی ہیں جن میں سٹروگونوف اور ارچ کوف محلات، شودالوف اسٹیٹ اور کرزن کیتھڈرل شامل ہیں۔جس عمارت میں سینٹ پیٹرز برگ کی مکمل تاریخ جمع ہے وہ یہاں کا سرمائی محل ہے، جسے 1711ء میں بنایا گیا تھا۔ اس محل میں پانچ مرتبہ تبدیلیاں کی گئیں۔ آخری چھٹا سرمائی محل ریسٹ ایلی نے ڈیزائن کیا جو 1760ء میں مکمل ہوا۔ اس محل کا تناسب اتنا شاندار ہے کہ اس کی چاروں سمتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس عمارت کے سامنے کے حصے میں ایک کے اوپر ایک رکھے ہوئے ستون زمین سے لے کر چھت تک چلے گئے ہیں۔ اس کے اوپر کانسی کے بنے بڑے بڑے ایسے مجسمے لگے ہیں جو اصل میں خاکدان ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ ان خاکدانوں میں مردے کی راکھ رکھا کرتے تھے۔ اس محل کی 3منزلوں میں 1500 کمرے ہیں۔ سب سے نچلی منزل میں محل کے ملازمین رہتے تھے۔ دوسری منزل پر سرکاری دفاتر تھے۔تیسری منزل پر بیڈ رومز اور درباریوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ 1837ء میں اس سرمائی محل کو ایک آگ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا لیکن اسے جلد ہی ماہر تعمیرات نے دوبارہ درست کردیا۔1917ء میں جب روس میں بالشویک انقلاب آیا تو اسی سرمائی محل میں زار روس نکولس دوئم کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن افواج نے لینن گراڈ کا900دن تک محاصرہ کئے رکھا اس وقت بھی اس محل کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ اس کے بعد شہر کی دیگر عمارتوں کی طرح اس عمارت کی مرمت بھی بڑی احتیاط اور توجہ سے کی گئی۔ آج کل اس عمارت کا ایک بہت بڑا حصہ آرٹ کے نادر نمونوں کو جمع کرنے کیلئے وقف ہے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران میں سینٹ پیٹرز برگ کا نام تبدیل کرکے پیٹرو گراڈ رکھ دیا گیا۔1845ء کے انقلاب سے لے کر 1917ء کے بالشویکی انقلاب تک یہ شہر بڑی انقلابی تحریکوں کا مرکز رہا۔  

آج کا دن

آج کا دن

دنیا کا پہلا کمرشل سیٹلائٹ''سکور‘‘کمرشل استعمال کیلئے بنایا گیا دنیا کا پہلا مواصلاتی سیٹلائٹ تھا۔ اسے18 دسمبر 1958ء کو امریکن اٹلس سیٹلائٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا ۔ سیٹلائٹ نشریات کا آغاز اس پروگرام کا پہلا کامیاب استعمال تھا۔سیٹلائٹ کے آن بورڈ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کے کرسمس پیغام کو نشر کر کے اس نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ اسے ''دی ٹاکنگ اٹلس‘‘کا نام بھی دیا گیا تھا۔''سکور‘‘ ایک جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے طور پر امریکہ کو سوویت یونین کے برابر تکنیکی سہولت فراہم کرتا تھا۔اس سیٹلائٹ کو براڈکاسٹنگ کی دنیا میں انقلاب بھی کہا جاسکتا ہے۔جنوب مشرقی سیلابی سلسلہ2006-07ء میں جنوب مشرقی سیلاب ایک سیلابی سلسلہ تھا جس کا آغاز 18دسمبر 2006ء سے ہوا ۔ملائشیا اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور 13 جنوری 2007ء تک اس سیلاب نے ملائشیا کے ایک بڑے حصے میں تباہی مچائی۔اسی طوفان کی وجہ سے انڈونیشیا اور سنگا پور میں بھی سیلاب آیا۔سیلاب اس وقت شروع ہوا جب کئی روز سے جاری بارش نے ندیوں اور ڈیموں کو اوور فلو کر دیا۔ موسمی حکام نے سیلاب کو اس علاقے میں اس صدی میں بدترین سیلاب قرار دیا۔ سیلاب کے نتیجے میں تقریباً6ہزار افراد کو موت واقع ہوئی۔ٹرانس سروس ائیر لفٹ حادثہٹرانس سروس ائیر لفٹ لاک ہیڈ حادثہ18دسمبر1995ء کو پیش آیا۔ جہاز انگولا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس میں سوار تمام141افراد ہلاک ہو گئے۔ جہاز کافی پرانا تھا، اس کو 1959ء میں بنایا گیا تھا، کافی عرصہ سروس کے بعد اسے 1992ء میں TSAکو فروخت کر دیا گیا تھا۔ حادثے کے دن جہاز ایک چارٹر فلائٹ پر تھا۔ جہاز میں وز ن ضرورت سے زیادہ تھا۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پرواز کے دوران جہاز کے پچھلے حصے میں کارگو سامان اپنی جگہ سے پھسل گیا جس سے جہاز کا توازن خراب ہوا اور حادثہ پیش آیا۔کیلونگ کا زلزلہ18دسمبر1867ء کو تائیوان کے شمال ساحل پر 7.0شدت کا زلزلہ آیا جسے کیلونگ کا زلزلہ بھی کہا جاتا ہے۔اس زلزلے نے شدید ہلچل پیدا کی جس کے نتیجے میں کیلونگ اور تائی پے کے شہروں کو شدید نقصان پہنچا۔ ایک سونامی بھی آیا جسے تائیوان میں اپنی نوعیت کا واحد تباہ کن سونامی تصور کیا جاتا ہے۔ اس سونامی میں سینکڑوں افراد ڈوب گئے ، اس کی بلندی 15 میٹر سے بھی زیادہ تھی۔زلزلے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سونامی کی وجہ سے تقریباً600افرا ہلاک ہوئے،جبکہ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔زلزلے کے بعد آفٹر شاکس بھی آئے جو ایک دن میں تقریباًدس مرتبہ محسوس کئے گئے۔