گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!

گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر امجد طفیل


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا*********دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں گذشتہ ماہ کی سترہ تاریخ کو یہ خبر غم ناکی سے سُنی گئی کہ وہ جو ہمیں اپنی کہانیوں سے مسحور کرتا ہے، اب خود موت کے طلسم کا اسیر ہو چکا ۔مارکیز کے بارے میں ایک خبر کچھ عرصہ قبل بھی کان میں پڑی تھی ،تب سے افوا تھی جب کہ اب مصدقہ بات ۔مارکیز نے لاطینی امریکا کو شناخت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔دُنیا کا وہ خطہ جو شمالی امریکا کی چکا چوند کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اسے ہماری آنکھوں کے سامنے اتنا روشن کر دیا کہ کم از کم ادبی سطح پر بیسویں صدی میں شمالی امریکا کی روشنی ماند پڑ گئی۔مارکیز کا تخیل مجھے اُن داستان سنانے والوں کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے لفظوں سے طلسم تخلیق کرتے تھے اور سننے، پڑھنے والے اس طلسم میں کھو سے جاتے تھے۔طلسم کے معانی ہی یہ ہیں کہ سب کچھ نظر کا دھوکہ ہو، لیکن دیکھنے والے کو اس پر ایسا اعتبار آئے کہ فریب، حقیقت میں ڈھل جانے اور انسان اس میں ایسا اسیر ہو کہ اسے باہر نکلنے کا راستہ تک نہ مِلے ،مارکیز کے عظیم تخلیقی شاہکار ’’تنائی کے سو سال‘‘(One Hundred Year of solitude)پڑھتے ہوئے ،مجھے یہی گمان گزرا، جیسے میں ایک ایسی دُنیا میں داخل ہو چکا ہوں، جس میں انسان،روحیں ،چرند،پرند اور پودے سب ایک دوسرے میں گوندھے ہوئے ہیں۔مارکیز کے اس ناول کا آغاز لاطینی امریکا کے نو آبادیاتی بننے کے عمل سے شروع ہوتا ہے۔دو خاندانوں کے گرد گھومتا یہ ناول تین صدیوں کے سفر کو مختصر طور پر بیان کرتا’’اوسلا ‘‘اور’’بوئنڈیا ‘‘کی شادی کی خاندان کی طرف سے مخالفت کے عمل سے آغاز ہوتا ہے ۔وہ شادی تو کر لیتے ہیں، لیکن بددعا کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔اس سے بچنے کے لیے وہ ایک لمبے سفر پر نکلتے ہیں، اس سفر کا اختتام دو سال کے بعد ایک بے آباد علاقے میں دریا کے کنارے پر ہوتا ہے، جہاں وہ ایک نئے جہان ’’ماکوندو‘‘ (Marcondo)کی تخلیق کرتے ہیں ،وہ ایک بچے کی حیرت سے اس نئے جہان کو دیکھتے ہیں۔ ’’ماکوندو‘‘مارکیز کا خواب نگر(Dream Land) ہے، جو بار بار اس کے تخیل کو مہمیز لگتا ہے۔اس ناول میںمارکیز اپنی تخلیقی قوت ’’یاد ‘‘کے مظہر سے حاصل کرتا ہے، وہ یادیں جو اُس کے بچپن کے لاطینی امریکا اور خاص طور پر کولمبیا کے معاشرے میں موجود حقیقت کے بیان پر مبنی ہیں۔ یادیں ہی مارکیز کا وہ سرمایہ ہیں، جن سے وہ اپنی تخلیقات کی بنیادیںاستوار کرتا ہے اور پھر اپنے تخیل کی بے پناہ جوانی سے ایک طلسمی فضا تعمیر کرتا ہے۔مارکیز نے اپنے افسانوں اورناولوں میں جو کردار تراشے ہیں، وہ روز مرہ زندگی میں نظر آنے والے معمولی لوگ نہیں بل کہ غیر معمولی صلاحیتوں ،خوبیوں اور جسمانی خصائص کے حامل افراد ہیں۔ مارکیز کو غیر معمولی افراد اور واقعات اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اُن غیر معمولی کرداروں کو پیش کرنے کے لیے مارکیز جو فضا تیار کرتا ہے، وہ بھی غیر معمولی عناصر سے بھری ہوتی ہے۔مافوق الفطرت عناصر،انسان ،جانور ،پودے بے جان چیزیں اور مرد ے سب ایک دوسرے میں یوں گوندے ہیں کہ انھیں ایک دوسر ے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ اس سے اس مخصوص فضا کی تشکیل ہوتی ہے، جسے نقاد مارکیز کے حوالے سے طلسمی حقیقت نگاری (Magical Realism) کا نام دیتے ہیں۔مارکیز کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز 1950ء کے قریب ہوتا ہے، جب اُس نے تعلیم چھوڑ کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ابتدا میں اُس نے کہانیاں لکھیں اور اس کے ساتھ اپنے پہلے ناول’’ پتوں کا طوفان‘‘ (Leaf Storm)پر کام کرتا رہا۔1955ء میں ایک اخبار ’’ایل ایسپکیتا دور‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے اس نے یورپ کا سفر کیا۔فرانس میں اُس نے اپنے ناول ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘(No One Writes to The Colonel)کو مکمل کیا اوریہ ناول 1961ء میں شائع ہوا ۔اس کا ایک اور ناول’’ منحوس وقت‘‘(In Evil Hour) 1962ء میں چھپا۔ اس دوران مارکیز کی آٹھ کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ’’بڑی اماں کا جنازہ‘‘(Big Mama\'s Funeral)شائع ہو چکا تھا،تاہم مارکیز کے یہ ابتدائی ناول اور افسانوی مجموعے، اس کے لیے کوئی اہم ادبی مقام بنانے میں ناکام رہے۔مارکیز کا سب سے اہم مذکور ناول’’ تنہائی کے سو سال‘‘ 1967ء میں چھپا اور اس کے ساتھ ہی اُس کی عالم گیر شہرت کاآغاز ہو گیا ۔’’تنہائی کے سوسال ‘‘میں ہمیں وقت کی تباہ کاریاں اور تقدیر کا جبر بہت اہم موضوع کے طور پر ملتے ہیں۔اس ناول کا مرکزی کردار ’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان اپنی سو سال کی زندگی میں جگہ جگہ اپنے بزرگ کے کرموں کا پھل چھکتا ہے۔ مارکیز نے خود’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان کی تنہائی کا منبع،اس خاندان میں محبت کے فقدان کو قرار دیا ہے۔مارکیز کے ناولوں میں یادیں اُس کی اپنی ذات اور اپنے خاندان کی زندگی کی عکاس ہیں۔ اس کے ناولوں میں جہاں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ فلش بیک کی تکنیک سے وہ بار بار اپنے کرداروں کے ماضی کی طرف پلٹتا ہے ،وہاں بعض جگہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کر کے وہ تقدیر کی جبریت کو نمایاں کرتا ہے۔’’تنہائی کے سو سال‘‘ سے زیادہ اس موضوع پر اُس کی تخلیق ’’ ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘(Chronicile of a death foretold)میں ہمیں وضاحت سے اس کے نقطۂ نظر سے آگاہی دیتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مارکیز کے کم و بیش تمام ناولوں کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے ،جہاں ناول میں رونما ہونے والے واقعات پہلے ہی سے پیش آ چکے ہوتے ہیں۔مارکیز کے اُسلوب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ فرد کے خارج و باطن سماجی سیاسی اور شخصی سطحوں ایک دوسرے میں یوں گوندھتا ہے کہ ایک پیچیدہ متن تشکیل پا جاتا ہے ۔مارکیز کی فنی پختگی بیان پر اُس کی گرفت کو مضبوط رکھتی ہے ،جس سے مختلف فکری سطحیں ایک دوسرے میں یوں مدغم ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے امتیازات کو قائم بھی رکھتی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں ایک دوسرے میں تحلیل بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ فکشن کے فن کی معراج ہے اور مارکیز کے نام’’ تنہائی کے سوسال‘‘ اور’’ ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘(Love in the time of Cholera)اس کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔’’ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘ مارکیز کے پسندیدہ موضوعات ہی سے عبارت ہے۔وقت کی تباہ کاری غیر عقلی رویے اور محبت کی کہانی بقول مارکیز وہ محبت کی ایک ایسی کہانی لکھنا چاہتا تھا ،جس کا انجام طربیہ ہو۔ یہ کہانی مارکیز نے بہت کامیابی سے لکھی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں کتنے عاشق اس قدر خوش قسمت ہوسکتے ہیں کہ اُنھیں اپنی کامیابی کے لیے زندگی اکیاون سال نو ماہ اور چاردن کی مہلت دے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مارکیز نے جب 1984-85ء میں یہ ناول مکمل کیا، تو اس کی اپنی عمر بھی کم و بیش اکیاون ،باون سال ہی تھی ۔یوں ایک سطح پر یہ ناول مارکیز کی تخلیقی زندگی کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔مارکیزکے 1985ء کے بعد دو ناول(the General in his labyrinth) اور ’’ محبت اور دوسرے آسیب‘‘ (of love and other demons) اور کہانیوں کا ایک مجموعہ(The strange pilgrims) شائع ہوئے۔وہ اپنی قریباً 12 کہانیوں میں ہمیں اپنی یادوں سے باہر دکھائی دیتا ہے، جہاں وہ جدید زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔مثلاً’’خوابیدہ حسن اور ہوائی جہاز‘‘ ایک ایسے سفر کی روداد ہے، جو دُنیا کی خوبصورت ترین عورت کے پہلو میں بیٹھ کر کیا گیا ہے،لیکن آخر تک معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دُنیا حقیقت تھی یا خواب! اس مجموعے میں شامل کہانی’’ میَں صرف فون کرنے آتی تھی‘‘ میںایک عورت سب کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ پاگلوں کی بس میں اس لیے سوار ہوئی تھی کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور اسے فون کرنا تھا۔ اس افسانے میں حقیقت اور افسانے کی حدیں جگہ جگہ دھندلا جاتی ہیں۔ولی(The Saint)ایک ایسے کردار کو سامنے لاتی ہے، جو دُور درازکا سفر کر کے روم آتا ہے تاکہ یورپ کو ایک معجزے کے بارے میں بتائے، لیکن برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔بے انتہا مشکلات اور تکالیف برداشت کرنے اور اپنے مضبوط اعتقاد کے باعث افسانے کا کردار خود ولی کے رو پ میں ڈھل جاتا ہے۔’’محبت اور دوسرے آسیب‘‘ جنوبی امریکا کے ساحل پر نو آبادیاتی عہد میں جنم لینے والی کہانی ہے ۔ ’’سرویا ماریہ‘‘ (Sierva Maria)ایک معزز خاندان کی اکلوتی اولاد ہے، جو اپنے باپ کے مکان میں غلاموں کے کوارٹر میں پرورش پاتی ہے۔ ماریہ کا والد اس کو آسیب سے نجات دلانے کے لیے ایک مذہبی عبادت گاہ میں بھیج دیتا ہے ، جہاںپادری کالڑکا اُس کا آسیب نکالتے نکالتے خود محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنی عبادت ،نیکی اور پرہیز گاری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اس ناول میں مارکیزنے محبت کو ایک تحریبی قوت کے طور پر بیان کیا ہے، جو ایک آسیب کی طرح فرد کی شخصیت کے تاروپود بکھیر دیتی ہے۔الغرض مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا۔ اُس نے دُنیاکے ایک پسماندہ خطے سے تعلق رکھتے ہوئے مغربی معاشرے میں اپنے تخلیقی تجربوں سے بڑا مقام بنایا، وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں لیکن اُس کا خواب نگر’’ ماکوندو‘‘ قارئین کے دلوں میں آباد رہے گا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عمان کی خوبصوت مساجد

عمان کی خوبصوت مساجد

عمان اردن کا دارالحکومت ہے۔ اس کی آبادی12لاکھ ہے۔ بائبل میں اسے عمون کہا گیا ہے۔ یونانی دور میں یہ یونانیوں کے دس بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا اور اسے فلاڈلفیا کہا جاتا تھا۔ یہ ڈیلفی سے موسوم تھا جو کہ یونان میں اپالو دیوتا سے منسوب مندر تھا۔ بعد میں عمان انباط عرب کی سلطنت کا اہم شہر ٹھہرا۔31ق م میں اس پر رومیوں نے قبضہ کر لیا۔ آخر کار 14ھ، 635ء میں مسلمانوں نے اسے فتح کر لیا۔ یہاں رومی ایمفی تھیٹر کے آثار ہیں۔ یہ اردن کا ثقافتی، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے یہاں پارچہ بافی اور اغذیہ کے کارخانے ہیں۔قاقوت جموی معجم البلدان میں لکھتا ہے ''عمان ارض بلقاء کا ایک قصبہ ہے۔ ترمذی میں اس کا ذکر ''من عدن الیٰ اعمان البلقاء‘‘ کے الفاظ میں آیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ عمان ہی وقیانوس( رومی بادشاہ) کا شہر ہے اور اس کے قریب الکہف (اصحاب کہف کا غار) اور الرقیم اہل ملک میں مصروف ہیں۔ عمان میں اوریاء نبی کی قبر قصرِ جالوت پہاڑی پر ہے۔ یہیں سلیمان علیہ السلام کی مسجد و ملعب ہے‘‘۔(معجم البلدان 151/4)ابودرویش مسجدابو درویش مسجد عمان میں جبلِ اشرافیہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ جبل اشرافیہ عمان کی سات خوبصورت پہاڑیوں میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد 1961ء میں تعمیر ہوئی اور اس کا کل رقبہ 26911مربع فٹ ہے۔ مسجد کے چھ چھوٹے گنبد اور ایک بڑا گنبد ہے۔ اس مسجد کے واحد مینار کی بلندی 118 فٹ ہے۔ مسجد کی تعمیر میں سفید اور سیاہ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا ڈیزائن اس مسجد کی زمین کے مالک مصطفی حسن نے خود تیار کیا جو کہ خود ایک ماہر ڈیزائن تھے۔ ابو درویش مصطفی حسن کی کنیت تھی اور اسی نام سے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد میں 7ہزار سے زیادہ نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔مصطفی حسن ابو درویش قفقاز میں پیدا ہوئے، ان کو شروع ہی سے شامی طرز تعمیر سے بہت دلچسپی تھی۔ عمان شہر کے جبل اشرافیہ پر پہلے سے کوئی مسجد نہیں تھی۔ لہٰذا انہوں نے یہاں ایک مسجد کا ڈیزائن تیار کرکے تعمیر شروع کر دی۔ ابو درویش نے اس کے تمام تعمیری اخراجات خود برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 2500 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کے برابر ایک لائبریری اور ایک مدرسہ بھی بنایا گیا ہے۔ لائبریری میں اسلامی اور دینی کتب کی تعداد 3ہزارسے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی اسلامی میوزیم بھی موجود ہے۔ اس مسجد کا شمار دنیا کی چوٹی کی دس خوبصورت مساجد میں کیا جاتا ہے۔1978ء سے ابو درویش مسجد سے ایک مشترکہ اذان دی جاتی ہے جو ایک ریڈیو سسٹم کے تحت شہر کی تمام 42مساجد میں بیک وقت نشر کی جاتی ہے۔ اس اذان کے پہلے مؤذن ابو اسفار ہیں۔ اس مسجد کے انتظامی امور کی ذمہ داری ایک کمیٹی کے سپرد ہے جو محکمہ انصاف کے سربراہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔ غیر مسلموں کا اسکے اندر داخلہ ممنوع ہے۔شاہ حسین بن طلال مسجدیہ اردن کے دارالحکومت عمان کی سب سے بڑی اور بہت خوبصورت مسجد ہے۔ اس کی تعمیر 2003ء میں شروع کی گئی اور تکمیل کے بعد مسجد کا افتتاح شاہ عبداللہ نے 11اپریل 2006ء بمطابق بارہ ربیع الاول 1427ھ کو کیا۔ شاہ عبداللہ نے یہ مسجد اپنے والد شاہ حسین کی یاد میں تعمیر کروائی۔ اس مسجد کو ملک کی قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ اس مسجد سے جمعے کا خطبہ براہ راست سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتا ہے۔ یہ چار میناروں والی مسجد جو اسلامی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے، بنو امیہ کے طرز تعمیر کی عکاس ہے۔ اس کی محراب ایک نہایت قیمتی کمیاب لکڑی سے تیار کی گئی جس کا استعمال گزشتہ تین صدیوں سے متروک ہو چکا تھا۔ مسجد میں 5500 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے جبکہ 500خواتین بھی علیحدہ نماز ادا کر سکتی ہیں۔ مسجد سے ملحقہ دفتر، لائبریری اور لیکچر ہال ہیں۔ نیز ایک میوزیم ہے جس میں آنحضرت ﷺ سے منسوب چند اشیاء کے علاوہ خط بھی موجود ہے جو آپ ﷺ نے باز نطینی سلطنت کے قیصر ہر قل کو اسلام کے ابتدائی دنوں میں تحریر کروا کر بھیجا تھا۔ جس میں آپ ﷺ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔اس مسجد کا ڈیزائن ایک مصرف ماہر تعمیرات ڈاکٹر خالد اعظم نے تیار کیا تھا بلا شبہ یہ مسجد مشرقی وسطیٰ کی ایک نہایت خوبصورت مسجد ہے۔

ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر

ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر

ناصر کاظمی ایک ہفت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں عام طور پر غزل کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ وہ صرف غزل کے ہی شاعر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔ ان کی غزلیں ان کے عصر کا آئینہ ہیں، تقسیم اور ہجرت کا نوحہ ہیں اور معصوم و مقدس عشقیہ جذبات و خیالات کی ترجمان بھی ہیں۔ ان کی نظمیں جہاں ایک طرف ان کی فن کاری اور زبان دانی کی دلیل ہیں، وہیں ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ ناصر کاظمی کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ اس میدان میں ان کے ہنر کا لوہا منوانے کیلئے کافی ہے۔ ان کی نعتیں، سلام اور رباعیات ان کے مذہبی عقائد کے ترجمان ہیں اور ان کی فکری بلند پروازی کا بین ثبوت بھی، ناصر نے نثر نگاری میں بھی کمال کر دیا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری انگریزی اور اردو زبان پر ان کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے۔ ناصر کاظمی کی کلیات کا مطالعہ کریں اور ان کی تمام تر ادبی خدمات کا جائزہ لیں تو وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ انہوں نے جس نازک دور میں غزل کے سر پر دست شفقت رکھا وہ انتہائی نازک دور تھا۔ انہوں نے ناصرف غزل کا دفاع کیا بلکہ اس کی آبیاری بھی کی اور نوک پلک بھی سنواری۔ ناصر نے غزل کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ لوگوں کو اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوئی۔ ناصر کاظمی کی نظمیں ان کی حب الوطنی کی مرہون منت ہیں۔ ہندوپاک کی 17روزہ جنگ کے دوران انہوں نے اپنے وطن کے تئیں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے اور اپنے ملک کے محافظوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے روز ایک ترانہ کہا۔ ترانوں کے علاوہ ان کی دیگر نظموں میں بھی حب الوطنی کا عنصر غالب ہے۔ ناصر بھلے ہی کامیاب نظم نگار نہ کہلائے جا سکتے ہوں لیکن ان کی نظموں کا نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ ان کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ ان کے ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہونے کی دلیل ہے۔چوں کہ تقسیم اور ہجرت ناصر کے ادب کا مرکزی خیال ہیں اس لئے ان کے منظوم ڈرامے میں بھی ان عناصر کا کارفرمائی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ ناصر نے بارگاہ نبی آخری الزماںﷺ میں نعتیں بھی کہی ہیںاور حضرت حسینؓ اور ان کے اہل خانہ نیز جملہ اصحاب کی خدمت میں سلام بھی پیش کیا ہے۔ نعت وسلام کے معاملے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ ناصر کاظمی کی نثر انتہائی عمدہ ہے۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثر یوں تو خالص ادبی نوعیت کی ہے لیکن تقسیم اور ہجرت کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اپنے ملک کے داخلی، سیاسی اور خارجی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔انہوں نے ناصرف اپنے ملک کے مسائل کو اپنی نثر کا موضوع بنایا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کی نثر میں کہیں خاکہ نگاری کا رنگ ہے، کہیں انشائیہ نگاری کا، کہیں منظر نگاری کا تو کہیں سفر نامے کا۔ ان کی نثر کے مطالعے کے بعد کوئی بھی ان کے ایک باکمال نثر نگار ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ناصر کاظمی کی ترجمہ نگاری بھی قابل توجہ ہے۔ ان کے ترجموں سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اردوکے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔وہ 8دسمبر1925ء کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انبالہ اور شملہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی، پھر اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1945ء میں وہ واپس انبالہ چلے گئے، تاہم کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان چلے آئے۔ ناصرکاظمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر بھی تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ انہوں نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں ''برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، کے علاوہ''سُر کی چھایا‘‘ (منظوم ڈراما کتھا)، ''خشک چشمے کے کنارے‘‘(نثر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ''ناصر کاظمی کی ڈائری‘‘ شامل ہیں۔ آخر میں قارئین کیلئے ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ دل دھڑکنے کا سبب یاد آیاوہ تیری یاد تھی اب یاد آیا یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہوترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیاکس طرح سے کٹے گا کڑی دھوپ کا سفرسر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیںوقت اچھا بھی آئے گا ناصرغم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھینئے کپڑے بدل کر جائوں کہاںاور بال بنائوں کس کیلئےوہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جائوں کس کیلئے دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی دل تو میرا اُداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی دل تو میرا اُداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

رمضان کے پکوان:سموسہ چاٹ

رمضان کے پکوان:سموسہ چاٹ

اجزاء(سموسے کیلئے): میدہ دو کپ، اجوائن ایک چوتھائی چائے کا چمچ، نمک آدھا چائے کا چمچ، گھی دو کھانے کے چمچ، پانی گوندھنے کیلئےفلنگ کیلئے: آلو دو عدد ، ہری مرچ دو عدد ، ہرا دھنیا ایک کھانے کا چمچ (کٹا ہوا)، لال مرچ (کٹی ہوئی)آدھا چائے کا چمچ، چاٹ مصالحہ آدھا چائے کا چمچ، نمک ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔چاٹ بنانے کیلئے: سموسے دو عدد، چنے آدھا کپ (ابلے ہوئے)، دہی آدھا کپ (پھینٹا ہوا)، لال مرچ آدھا چائے کا چمچ (پسی ہوئی)، چاٹ مصالحہ آدھا چائے کا چمچ، پیاز دو کھانے کے چمچ (کٹی ہوئی)، ہرے دھنیے کی چٹنی دو کھانے کے چمچ، املی کی چٹنی چار کھانے کے چمچ۔ترکیب: سموسے کیلئے: ایک پیالے میں میدہ، نمک، اجوائن اور گھی ڈال کر پانی کے ساتھ گوندھ لیں اور ڈھک کر تیس منٹ کیلئے چھوڑ دیں۔ پھر اس کے پیڑے بنائیں۔ اب ہر پیڑے کو لمبائی میں بیل کر درمیان سے دو ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ فلنگ کیلئے:ابلے آلو ، کٹی ہری مرچ، کٹا ہرا دھنیا، کٹی لال مرچ، چاٹ مصالحہ اور نمک کو آپس میں ملا کر فلنگ تیار کرلیں۔ پھر ہر ٹکڑے میں فلنگ بھر کے سموسے کی طرح فولڈ کرلیں۔ اب یہ سموسے گرم تیل میں ہلکی آنچ پر گولڈن فرائی کرلیں۔ چاٹ بنانے کیلئے: ایک پلیٹ میں دو عدد سموسے ڈالیں۔ ہر سموسے کو آہستہ سے دبائیں کہ یہ ٹوٹ جائیں۔ اس پر ابلے چنے اور تھوڑی سی دہی ڈالیں۔ پھر اس پر لال مرچ اور چاٹ مصالحہ بھی چھڑک دیں۔ اس کے بعد ہرے دھنیے کی چٹنی اور املی کی چٹنی  سے گارنش کرکے پیش کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

سوٹس نہر تنازع حل ہوا 2مارچ 1988ء کو استنبول میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں یورپی ممالک نے شرکت کی۔اس کانفرس کے اختتام پر یہ فیصلہ ہوا کہ تمام ممالک سوئس نہر کو بلا معاوضہ ایک گزرگاہ کے طور پر استعمال کریں گے۔ بلوچ ثقافت آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں بلوچ ثقافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ بلوچ ثقافت میں ان کے مخصوس لباس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔گھیرے والی شلوار، پگڑی اور چووٹ بلوچی ثقافت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔بلوچی رقص بھی ان کی ثقافت کا اہم حصہ ہے کسی بھی خوشی کے موقع پر اس رقص کے بغیر تقریب کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔نیلسن منڈیلا02مارچ 1990ء کو افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے افریقن نیشنل کانگریس کے صدر کا انتخاب جیتااور وہ 1999ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔1994ء میں نیلسن منڈیلا کو افریقی عوام نے اپنا صدر منتخب کیا۔ انہیں دنیا کے عظیم لیڈروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

گرین لینڈ کی برف اگر پگھل گئی تو؟

گرین لینڈ کی برف اگر پگھل گئی تو؟

کچھ عرصہ سے سائنس دانوں نے شدت سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کر رکھا ہے کہ اس کرۂ ارض پر گلوبل وارمنگ کے سبب زمینی درجۂ حرارت جس رفتار سے مسلسل بڑھ رہا ہے اگر کسی مرحلے پر 22 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ جس کے 85 فیصد حصے کو برف نے ڈھانپ رکھا ہے پورے کا پورا پگھل گیا تو دنیا کا نقشہ کیسا ہو گا؟ قدرتی طور پر سائنس دانوں کی اس منطق بارے انسان یہ سوچتا ہے کہ آخر ایسے وہ کونسے حالات ہیں جو سائنس دانوں کو اس خدشے کا اظہار کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟۔گلوبل وارمنگ کے سبب بڑھتے درجۂ حرارت نے جہاں پوری دنیا کے نظام کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے وہیں 85 فیصد برف سے ڈھکے ملک، گرین لینڈ کیلئے بھی اسے خطرے کی گھنٹی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گرین لینڈ کا 85 فیصد حصہ برف اور باقی 15 فیصد حصہ پہاڑیوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کو عالمی سطح پر شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ سائنس دان ایک عرصہ سے اس خطے کی بدلتی موسمی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے لیکن یہ صورت حال اس وقت عالمی سائنس دانوں کیلئے زیادہ تشویش کا باعث بنی جب انہوں نے گرین لینڈ کی برف کو معمول سے ہٹ کر تیزی سے پگھلتے ہوئے پایا۔ اس موقع پر سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ 2003ء اور 2010ء کے درمیان گرین لینڈ میں برف پگھلنے کی رفتار بیسویں صدی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ نوٹ کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گرین لینڈ کی برف ہر ایک گھنٹے میں تقریباً تین کروڑ ٹن پگھل رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک اور رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، گرین لینڈ کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں کیونکہ یہاں کا درجہ حرارت باقی دنیا کی نسبت چار گنا زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سائنس دان کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران گرین لینڈ کے سمندر کی برف کی مقدار متواتر کم ہو رہی ہے جس کی واحد وجہ یہاں کا درجہ حرارت ہے جس کے سبب یہاں کے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ''ورلڈ میٹرولوجسٹ آرگنائزیشن‘‘ نے تو 2015ء ہی میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرین لینڈ میں برف پگھلنے کے باعث پچھلے گیارہ سالوں کے دوران سطح سمندر میں 25سے 30 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک خدشے کا اظہار معروف بین الاقوامی جریدے ''کلائمٹ چینج‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی ان الفاظ میں کیا گیا ہے ''گرین لینڈ کی تمام برف پگھلنے سے دنیا کے سمندروں کی سطح کم سے کم 30 انچ تک اونچی ہو جائے گی۔جس سے نہ صرف ساحلی علاقے زیر آب آ جائیں گے بلکہ سمندروں میں جہاز رانی بھی مشکل ہو جائے گی۔ دوسری طرف برف اور پانی کا توازن قائم نہ رہ سکنے کی بدولت موسموں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا جو بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔گلیشیئرز کے علوم کے ایک ماہر سائنس دان ولیم کولون کے بقول ''گلوبل وارمنگ کے سبب تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کے تناظر کی روشنی میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ رواں صدی کے آخر یا اگلی صدی کے وسط تک ممکنہ حد تک گرین لینڈ کی تمام برف پگھل چکی ہو گی۔ ولیم کولون اپنے قیاس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت موسموں کی کیفیت یا شدت کیسی ہو گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ آج کے دور میں ہمارا واسطہ جن شدید طوفانوں اور سیلابوں سے پڑتا ہے، پچھلے پچاس سالوں میں ان کی شدت اس قدر شدید نہیں ہوا کرتی تھی ‘‘۔ سائنس دان گلیشئرز پگھلنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلیشیئرز کا حدت سے پگھلنا ایک قدرتی عمل ہے ، پھر جب برف باری شروع ہوتی ہے تو انہی پگھلے ہوئے حصوں پر دوبارہ برف جم جاتی ہے جس سے ایک توازن برقرار رہتا ہے۔ لیکن وہ حصے جو گلیشیئرز سے الگ ہو کر ٹوٹ پھوٹ کرگرتے رہتے ہیں وہ دوبارہ گلیشیئرز کا حصہ نہیں بنتے بلکہ وہ پانی کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ لیکن اب اس فطری عمل میں انسانی سرگرمیوں نے اس نظام کو غیر متوازن اور غیر محفوظ بنا ڈالا ہے۔ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال اور کاربن گیسوں کے اندھا دھند اخراج میں بے جا اضافے نے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس سے گرین لینڈ سمیت دنیا بھر کی پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیئرز پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں۔ یوں قطب شمالی کا بہت بڑا حصہ برف کے پگھلنے کے باعث ایک سمندر کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ ایک جانب گرین لینڈ کی برف پانی میں ڈھلتی جارہی ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کی نظریں یہاں کی برف کے نیچے دبے قدرتی خزانوں پر ہیں۔ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گرین لینڈ کی برف کے نیچے تیل ، گیس اور معدنیات کے بہت بڑے خزانے دفن ہیں، جن میں سونا، یورینیم، لوہا ، ایلومینیم، پلاٹینم ، تانبا اور قیمتی پتھر دفن ہیں۔جیسے جیسے قطب شمالی میں برف پگھل رہی ہے اور ممکنہ بحری راستے بن رہے ہیں اس خطے میں امریکہ ، روس اور چین کی بڑھتی دلچسپیاں جہاں ایک طرف دفاعی نقطہ نظر سے اہم ہیں وہیں یقیناً گرین لینڈ کی تہوں میں پوشیدہ معدنیات کے خزانے بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے ؟ آخر میں گرین لینڈ کا مختصر سا تاریخی اور جغرافیائی تعارف۔ جغرافیائی صورتحال شمالی بحیرہ اوقیانوس اور بحر قطب شمالی کے درمیان واقع جزیرہ گرین لینڈ بنیادی طور پر 1953ء تک ڈنمارک کی ایک کالونی تھا جسے بعدازاں 1979ء میں ڈنمارک کے زیر انتظام نیم خود مختار جزیرے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ گرین لینڈ کا نام سکینڈے نیویا کے آباد کاروں نے متعارف کرایا تھا۔ 2009ء سے یہاں کا زیادہ تر انتظام یہاں کی مقامی حکومت کے پاس ہے جبکہ اس کی خارجہ پالیسی، مالیاتی امور اور دفاعی امور کے فیصلے اب بھی ڈنمارک حکومت کے زیر انتظام طے پاتے ہیں۔ تاہم اس کی معیشت کا دارومدار ڈنمارک پر ہی ہے۔ گرین لینڈ، دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کا اعزاز بھی رکھتا ہے جو بڑے بڑے گلیشیئرز پر مشتمل ہے جبکہ برف کی یہ دیو ہیکل پرتیں پانچ ہزار سے دس ہزار فٹ موٹی ہیں۔لگ بھگ 22 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے باوجود اس کی آبادی صرف 57ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس جزیرے کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کا تقریباً 85 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔ گرین لینڈ کا دارالحکومت نووک ہے۔ گرین لینڈ جغرافیائی طور پر ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی نسبت نیویارک کے زیادہ قریب ہے۔  

 جنگ عظیم اوّل لاکیٹائو اور گوئز کی لڑائیاں

جنگ عظیم اوّل لاکیٹائو اور گوئز کی لڑائیاں

مولٹک کی 27اگست کی جاری شدہ ہدایات کے مطابق پیش قدمی کرتے ہوئے جرمنی کی دوسری آرمی کو فرانس کی پانچویں آرمی سے خاصی مزاحمت کا سامنا تھا۔ گو کہ فرانس کی پانچویں آرمی پسپا ہو رہی تھی کہ پسپائی کی متوقع رفتار نہ تھی اور مزاحمت بھی انتہائی شدید تھی۔ دوسری طرف جرمنی کی پہلی آرمی جنرل کلاک کی قیادت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند برطانوی افواج کو تیزی سے پسپا کئے جا رہی تھی۔لاکیٹائو کی لڑائیجرمن پہلی آرمی کا جنرل کلاک برطانوی افواج کو مغربی پہلو سے کمزور کرتے ہوئے انہیں ایک دائرے میں لینا چاہتا تھا اور مسلسل حملے کرتے ہوئے برطانوی دوسرے کور کو اپنے بیس سے علیحدہ کرنے کیلئے جدوجہد کر رہا تھا۔ دوسرے کور کے تھکے ہارے فوجی تین دن اور تین رات سے مسلسل حالت جنگ میں تھے اور جرمنی کی کوہ شکن افواج کے پے درپے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے چلے جا رہے تھے۔ تیسرے روز دوسرے کور کی مدد کیلئے پہلے کور کو بھیجا گیا۔ یہ کور اب تک جنگ کی شدت سے محفوظ اور تازہ دم تھا۔ یہ لاکیٹائو کے مقام پر دوسرے کور سے ملا جہاں جرمن افواج بہت نزدیک تھیں۔دوسرے کور کے جنرل سمتھ ڈورن نے اپنی فوج کے مکمل طور پر تھکے ہونے کی بنا پر فیصلہ کیا کہ وہ فوری طور پر پسپا ہو جائے اور اس کی جگہ پہلے کور کی تازہ دم افواج لے لیں۔ لیکن جرمن پہلی آرمی کے ہر اوّل دستے پیش قدمی کرتے ہوئے دوسرے کور سے مزاحم ہو گئے۔ دوسری طرف پہلے کور کے جنرل ہیگ نے بھی اپنی افواج کو پسپا ہوتے ہوئے اپنے قدم جمانے کی ہدایت کی۔ اس طرح دوسرے کور کا دائیاںپہلو دشمن کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور دوسرے کور کو مشرق اور شمال ہر دو طرف سے دشمن کی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔مقدمۃ الجیش( مرکزی فوج) مضبوط ہونے کے باوجود دوسرا کور اپنے دائیں پہلو اور سامنے سے دشمن کے نرغے میں آ گیا اور ہتھیار ڈال دیئے۔ اس صورتحال سے دوسرے کور کا بائیاں پہلو اور مرکز مکمل طور پر جرمنی افواج کے نرغے میں آ گئے اور برطانوی افواج کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔اس سے پہلے کہ دوسرا کور مکمل طور پر تباہ برباد ہو جاتا برطانوی توپ خانے نے جنوب مغربی جانب سے جرمن افواج پر حملہ کرکے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی اور دوسرے کور کے بچے کھچے سپاہیوں کو مکمل طور پر پسپائی کا موقعہ مل گیا۔دوسری طرف فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کو روکنے کیلئے سردھڑکی بازی لگا رہی تھی۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جرمنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی افواج کی رفتار کو آہستہ کیا جائے۔ اس طرح فرانس کی پانچویں آرمی قربانیوں کے عظیم سلسلے کے باوجود دشمن کی فرتار کو بہت حد تک سست کرنے میں کامیاب رہی تھی جبکہ اس کا نقصان 20فیصد رہا تھا۔اسی دوران جنرل جوفر کو برطانوی حکام کی جانب سے مدد کی اپیل کی گئی۔ اسے بتایا گیا کہ برطانوی افواج کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور وہ مکمل طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ انہیں تباہی سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ فرانس کی افواج ان کی مدد کو آئیں اور جرمنی کی افواج کو اپنی طرف متوجہ کرکے برطانوی افواج کو سنبھلنے کا موقع دیں۔اس اطلاع پر جنرل جوفر نے پانچویں آرمی کو ہدایت کی کہ وہ جنوب کی جانب سے جرمن پہلی آرمی کے پہلو پر حملہ آور ہوں تاکہ پہلی آرمی کی توجہ سامنے موجود برطانوی افواج سے ہٹ جائے۔ جنرل چارلس کی پانچویں آرمی پہلے ہی اپنے سے دوگنا طاقتور اور لیس دشمن کی دوسری آرمی کی پیش قدمی روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ اب نئے احکامات کی روشنی میں اسے جنوب کی طرف پیش قدمی کرنے پر اپنے دائیں پہلو کو جنرل پولو کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا لہٰذا اس نے اپنی آرمی کے دو کور جنوب کی جانب پیش قدمی کرنے کیلئے روانہ کئے۔ ایک کور جنرل بولو کے مقابلے کیلئے جبکہ ایک کور کو بطور محافظ فوج رہنے دیا۔فرانس کی افواج کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ برطانوی افواج سے آپریشن کے دوران معاونت کریں جبکہ برطانوی افواج شمال کی جانب تھوڑی سی پیش قدمی کرکے آنے والے دو کوروں کو اپنے قدم جمانے کا موقع دیں۔ لیکن برطانوی افواج نے فرانس کی تجویز مسترد کر دی۔ اس طرح پہلے سے تنائو کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا اور فرانسیسی افواج جو اپنی جانب سے برطانوی افواج کی مدد کیلئے آئی تھیں سخت بدّل ہوئیں۔29اگست کو جنرل بوُلو کی دوسری آرمی نے شمال کی جانب سے حملہ کردیا۔ جنرل چارلس کی پانچویں آرمی کا مغربی جانب سے کیا گیا حملہ بھی ناکام ہو چکا تھا۔ کیونکہ شمال کی جانب دو کور ہٹ جانے کے باعث مرکزی کورکا کمانڈر دائیں طرف سے مکمل طور پر دشمن کے نرغے میں آ چکا تھا اور دن کے پیچھے پہر پسپا ہوتے ہوئے دریائے اوئز کے دوسری طرف جا کر قدم جائے۔پانچویں آرمی کے بالکل سامنے شمال کی سمت ایک بہت بڑی جنگ ہوئی۔ یہاں جرمنی کے دوکور فرانس کی افواج کو بری طرح دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ فرانس کی جانب سے محفوظ فوج کا پہلا کور بطور کمک پانچویں آرمی کی مدد کو آیا۔ اس کمک سے فرانس کی افواج کے اُکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور تھوڑی ہی دیر میں فرانس کی جانب سے جوابی حملہ کیا گیا اور جرمنی افواج کو اندھیرا ہونے تک پیچھے دھکیل دیا گیا۔گو کہ جنگ سے جنرل جوفر کے متوقع نتائج 100فیصد حاصل نہ ہوئے تھے۔ تاہم وہ بہت حد تک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ ایک بڑی وجہ جرمنی کی پہلی آرمی کی جنوب مغرب کی جانب پیش قدمی بھی تھی جو اسے اس محاذ سے کسی قدر دور کر رہی تھی۔اس مختصر کامیابی نے فرانس کی افواج کے حوصلے بلند کردیئے۔ حالانکہ پانچویں آرمی کا جنوب کی جانب حملہ بری طرح ناکام ہو گیا تھا مگر شمال سے جرمنی کے بڑھتے ہوئے قدم روک لئے گئے تھے۔ جنرل چارلس نے ہیڈ کوارٹر سے اپنے کوروں کی واپسی کے احکامات لے لئے تھے اور بڑی تیزی سے اپنی آرمی کو مجتمع کرتے ہوئے از سر نو صف آراء کر لیا تھا۔ جنرل بوُلو کی آرمی دشمن کی جانب سے ہونے والی شدید مزاحمت سے سخت خائف تھی اور ڈیڑھ دن تک برطانوی افواج اور ان کے ساتھ فرانس کی افواج کو بلا روک ٹوک پسپا ہونے میں کوئی مزاحمت نہ کر سکی۔