گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!

گیبریل گارشیا مارکیز کا ,ماکوندو, آباد رہے گا ...!

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر امجد طفیل


مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا*********دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں گذشتہ ماہ کی سترہ تاریخ کو یہ خبر غم ناکی سے سُنی گئی کہ وہ جو ہمیں اپنی کہانیوں سے مسحور کرتا ہے، اب خود موت کے طلسم کا اسیر ہو چکا ۔مارکیز کے بارے میں ایک خبر کچھ عرصہ قبل بھی کان میں پڑی تھی ،تب سے افوا تھی جب کہ اب مصدقہ بات ۔مارکیز نے لاطینی امریکا کو شناخت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔دُنیا کا وہ خطہ جو شمالی امریکا کی چکا چوند کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اسے ہماری آنکھوں کے سامنے اتنا روشن کر دیا کہ کم از کم ادبی سطح پر بیسویں صدی میں شمالی امریکا کی روشنی ماند پڑ گئی۔مارکیز کا تخیل مجھے اُن داستان سنانے والوں کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے لفظوں سے طلسم تخلیق کرتے تھے اور سننے، پڑھنے والے اس طلسم میں کھو سے جاتے تھے۔طلسم کے معانی ہی یہ ہیں کہ سب کچھ نظر کا دھوکہ ہو، لیکن دیکھنے والے کو اس پر ایسا اعتبار آئے کہ فریب، حقیقت میں ڈھل جانے اور انسان اس میں ایسا اسیر ہو کہ اسے باہر نکلنے کا راستہ تک نہ مِلے ،مارکیز کے عظیم تخلیقی شاہکار ’’تنائی کے سو سال‘‘(One Hundred Year of solitude)پڑھتے ہوئے ،مجھے یہی گمان گزرا، جیسے میں ایک ایسی دُنیا میں داخل ہو چکا ہوں، جس میں انسان،روحیں ،چرند،پرند اور پودے سب ایک دوسرے میں گوندھے ہوئے ہیں۔مارکیز کے اس ناول کا آغاز لاطینی امریکا کے نو آبادیاتی بننے کے عمل سے شروع ہوتا ہے۔دو خاندانوں کے گرد گھومتا یہ ناول تین صدیوں کے سفر کو مختصر طور پر بیان کرتا’’اوسلا ‘‘اور’’بوئنڈیا ‘‘کی شادی کی خاندان کی طرف سے مخالفت کے عمل سے آغاز ہوتا ہے ۔وہ شادی تو کر لیتے ہیں، لیکن بددعا کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔اس سے بچنے کے لیے وہ ایک لمبے سفر پر نکلتے ہیں، اس سفر کا اختتام دو سال کے بعد ایک بے آباد علاقے میں دریا کے کنارے پر ہوتا ہے، جہاں وہ ایک نئے جہان ’’ماکوندو‘‘ (Marcondo)کی تخلیق کرتے ہیں ،وہ ایک بچے کی حیرت سے اس نئے جہان کو دیکھتے ہیں۔ ’’ماکوندو‘‘مارکیز کا خواب نگر(Dream Land) ہے، جو بار بار اس کے تخیل کو مہمیز لگتا ہے۔اس ناول میںمارکیز اپنی تخلیقی قوت ’’یاد ‘‘کے مظہر سے حاصل کرتا ہے، وہ یادیں جو اُس کے بچپن کے لاطینی امریکا اور خاص طور پر کولمبیا کے معاشرے میں موجود حقیقت کے بیان پر مبنی ہیں۔ یادیں ہی مارکیز کا وہ سرمایہ ہیں، جن سے وہ اپنی تخلیقات کی بنیادیںاستوار کرتا ہے اور پھر اپنے تخیل کی بے پناہ جوانی سے ایک طلسمی فضا تعمیر کرتا ہے۔مارکیز نے اپنے افسانوں اورناولوں میں جو کردار تراشے ہیں، وہ روز مرہ زندگی میں نظر آنے والے معمولی لوگ نہیں بل کہ غیر معمولی صلاحیتوں ،خوبیوں اور جسمانی خصائص کے حامل افراد ہیں۔ مارکیز کو غیر معمولی افراد اور واقعات اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اُن غیر معمولی کرداروں کو پیش کرنے کے لیے مارکیز جو فضا تیار کرتا ہے، وہ بھی غیر معمولی عناصر سے بھری ہوتی ہے۔مافوق الفطرت عناصر،انسان ،جانور ،پودے بے جان چیزیں اور مرد ے سب ایک دوسرے میں یوں گوندے ہیں کہ انھیں ایک دوسر ے سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ اس سے اس مخصوص فضا کی تشکیل ہوتی ہے، جسے نقاد مارکیز کے حوالے سے طلسمی حقیقت نگاری (Magical Realism) کا نام دیتے ہیں۔مارکیز کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز 1950ء کے قریب ہوتا ہے، جب اُس نے تعلیم چھوڑ کر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ابتدا میں اُس نے کہانیاں لکھیں اور اس کے ساتھ اپنے پہلے ناول’’ پتوں کا طوفان‘‘ (Leaf Storm)پر کام کرتا رہا۔1955ء میں ایک اخبار ’’ایل ایسپکیتا دور‘‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے اس نے یورپ کا سفر کیا۔فرانس میں اُس نے اپنے ناول ’’کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا‘‘(No One Writes to The Colonel)کو مکمل کیا اوریہ ناول 1961ء میں شائع ہوا ۔اس کا ایک اور ناول’’ منحوس وقت‘‘(In Evil Hour) 1962ء میں چھپا۔ اس دوران مارکیز کی آٹھ کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ’’بڑی اماں کا جنازہ‘‘(Big Mama\'s Funeral)شائع ہو چکا تھا،تاہم مارکیز کے یہ ابتدائی ناول اور افسانوی مجموعے، اس کے لیے کوئی اہم ادبی مقام بنانے میں ناکام رہے۔مارکیز کا سب سے اہم مذکور ناول’’ تنہائی کے سو سال‘‘ 1967ء میں چھپا اور اس کے ساتھ ہی اُس کی عالم گیر شہرت کاآغاز ہو گیا ۔’’تنہائی کے سوسال ‘‘میں ہمیں وقت کی تباہ کاریاں اور تقدیر کا جبر بہت اہم موضوع کے طور پر ملتے ہیں۔اس ناول کا مرکزی کردار ’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان اپنی سو سال کی زندگی میں جگہ جگہ اپنے بزرگ کے کرموں کا پھل چھکتا ہے۔ مارکیز نے خود’’بوئنڈیا ‘‘ خاندان کی تنہائی کا منبع،اس خاندان میں محبت کے فقدان کو قرار دیا ہے۔مارکیز کے ناولوں میں یادیں اُس کی اپنی ذات اور اپنے خاندان کی زندگی کی عکاس ہیں۔ اس کے ناولوں میں جہاں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ فلش بیک کی تکنیک سے وہ بار بار اپنے کرداروں کے ماضی کی طرف پلٹتا ہے ،وہاں بعض جگہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کر کے وہ تقدیر کی جبریت کو نمایاں کرتا ہے۔’’تنہائی کے سو سال‘‘ سے زیادہ اس موضوع پر اُس کی تخلیق ’’ ایک پیش گفتہ موت کی روداد‘‘(Chronicile of a death foretold)میں ہمیں وضاحت سے اس کے نقطۂ نظر سے آگاہی دیتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ مارکیز کے کم و بیش تمام ناولوں کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے ،جہاں ناول میں رونما ہونے والے واقعات پہلے ہی سے پیش آ چکے ہوتے ہیں۔مارکیز کے اُسلوب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ وہ فرد کے خارج و باطن سماجی سیاسی اور شخصی سطحوں ایک دوسرے میں یوں گوندھتا ہے کہ ایک پیچیدہ متن تشکیل پا جاتا ہے ۔مارکیز کی فنی پختگی بیان پر اُس کی گرفت کو مضبوط رکھتی ہے ،جس سے مختلف فکری سطحیں ایک دوسرے میں یوں مدغم ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے امتیازات کو قائم بھی رکھتی ہیں اور ایک بڑے دائرے میں ایک دوسرے میں تحلیل بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ فکشن کے فن کی معراج ہے اور مارکیز کے نام’’ تنہائی کے سوسال‘‘ اور’’ ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘(Love in the time of Cholera)اس کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔’’ہیضے کے دنوں میں محبت‘‘ مارکیز کے پسندیدہ موضوعات ہی سے عبارت ہے۔وقت کی تباہ کاری غیر عقلی رویے اور محبت کی کہانی بقول مارکیز وہ محبت کی ایک ایسی کہانی لکھنا چاہتا تھا ،جس کا انجام طربیہ ہو۔ یہ کہانی مارکیز نے بہت کامیابی سے لکھی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں کتنے عاشق اس قدر خوش قسمت ہوسکتے ہیں کہ اُنھیں اپنی کامیابی کے لیے زندگی اکیاون سال نو ماہ اور چاردن کی مہلت دے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مارکیز نے جب 1984-85ء میں یہ ناول مکمل کیا، تو اس کی اپنی عمر بھی کم و بیش اکیاون ،باون سال ہی تھی ۔یوں ایک سطح پر یہ ناول مارکیز کی تخلیقی زندگی کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔مارکیزکے 1985ء کے بعد دو ناول(the General in his labyrinth) اور ’’ محبت اور دوسرے آسیب‘‘ (of love and other demons) اور کہانیوں کا ایک مجموعہ(The strange pilgrims) شائع ہوئے۔وہ اپنی قریباً 12 کہانیوں میں ہمیں اپنی یادوں سے باہر دکھائی دیتا ہے، جہاں وہ جدید زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔مثلاً’’خوابیدہ حسن اور ہوائی جہاز‘‘ ایک ایسے سفر کی روداد ہے، جو دُنیا کی خوبصورت ترین عورت کے پہلو میں بیٹھ کر کیا گیا ہے،لیکن آخر تک معلوم نہیں ہوتا کہ یہ دُنیا حقیقت تھی یا خواب! اس مجموعے میں شامل کہانی’’ میَں صرف فون کرنے آتی تھی‘‘ میںایک عورت سب کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ پاگلوں کی بس میں اس لیے سوار ہوئی تھی کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور اسے فون کرنا تھا۔ اس افسانے میں حقیقت اور افسانے کی حدیں جگہ جگہ دھندلا جاتی ہیں۔ولی(The Saint)ایک ایسے کردار کو سامنے لاتی ہے، جو دُور درازکا سفر کر کے روم آتا ہے تاکہ یورپ کو ایک معجزے کے بارے میں بتائے، لیکن برسوں کی جدوجہد کے بعد بھی وہ کسی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ۔بے انتہا مشکلات اور تکالیف برداشت کرنے اور اپنے مضبوط اعتقاد کے باعث افسانے کا کردار خود ولی کے رو پ میں ڈھل جاتا ہے۔’’محبت اور دوسرے آسیب‘‘ جنوبی امریکا کے ساحل پر نو آبادیاتی عہد میں جنم لینے والی کہانی ہے ۔ ’’سرویا ماریہ‘‘ (Sierva Maria)ایک معزز خاندان کی اکلوتی اولاد ہے، جو اپنے باپ کے مکان میں غلاموں کے کوارٹر میں پرورش پاتی ہے۔ ماریہ کا والد اس کو آسیب سے نجات دلانے کے لیے ایک مذہبی عبادت گاہ میں بھیج دیتا ہے ، جہاںپادری کالڑکا اُس کا آسیب نکالتے نکالتے خود محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اپنی عبادت ،نیکی اور پرہیز گاری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اس ناول میں مارکیزنے محبت کو ایک تحریبی قوت کے طور پر بیان کیا ہے، جو ایک آسیب کی طرح فرد کی شخصیت کے تاروپود بکھیر دیتی ہے۔الغرض مارکیز عالمی سطح پر ایک ایسے ناول نگار کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے، جو ساری دُنیاکے ادیبوں اور قارئین کے لیے حیرتوں کے نئے جہان تخلیق کرتا رہا۔ اُس نے دُنیاکے ایک پسماندہ خطے سے تعلق رکھتے ہوئے مغربی معاشرے میں اپنے تخلیقی تجربوں سے بڑا مقام بنایا، وہ اگرچہ اب ہم میں نہیں لیکن اُس کا خواب نگر’’ ماکوندو‘‘ قارئین کے دلوں میں آباد رہے گا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
5اکتوبر: استاتذہ کا عالمی دن

5اکتوبر: استاتذہ کا عالمی دن

انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کیلئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھاتاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔ ہر سال 5 اکتوبر کو ''استاتذہ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1994ء میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ پاکستان میں 2007ء سے یہ دن ''سلام ٹیچرز‘‘ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔ اس سال استاتذہ کے عالمی دن کی تھیم اساتذہ کی آوازوں کو پہچاننے، ان کی تعریف کرنے اور تعلیم کیلئے ایک نئے سماجی معاہدے کیلئے کام کرنے کے بارے میں ہے۔ استاتذہ کی آواز میں ہی تعلیمی معیار اور اخلاقی تربیت کا راز چھپا ہوتا ہے۔ استاتذہ کرام کو تاریخی طور پر معاشرے کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا اثر کلاس روم سے باہر تک پھیلا ہوا ہے، استاد نہ صرف فکری صلاحیتوں کو بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی ڈھالتا ہے۔ ایک استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے، کہ طلباء تعلیمی لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرے کیلئے ایک مضبوط اخلاقی بنیاد بھی رکھیں۔ مُعَلّمِی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضورﷺ کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ''کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ''استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے‘‘۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں۔ جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں، کیونکہ ''ادب ایک درخت ہے اور علم اس کا پھل۔ اگر درخت ہی نہ ہو تو پھل کیسے لگے گا؟‘۔‘ میری نظر میں سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔ خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی ؓ نے فرمایا! ''جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے استادکا درجہ دیتا ہوں۔ ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں کہ !''عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کیلئے کھڑے ہو جاؤ‘‘ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو جاتا۔ درباریوں نے کہا کہ اس سے سلطنت کا رُعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے۔ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کیلئے امام اصمعیؒ کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً ان کے پاس جا پہنچا۔ دیکھا کہ اصمعیؒ اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرشید نے برہمی سے کہا میں نے تو اسے آپ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ آپ اس کو ادب سکھائیں گے۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے۔استاد : عظیم عالمی شخصیات کی نظر میںاستاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تخلیقی اظہار اور علم میں مسرت جگا دے۔ البرٹ آئن سٹائنتعلیم زندگی میں کامیابی کی بنیادی اکائی ہے اور استاد کا شاگردوں پر اثر آخر تک رہتا ہے۔ سولومن آرٹزمیں زندگی کے لئے اپنے باپ کا مشکور ہوں اور میں اچھی زندگی کے لئے اپنے استاد کا مشکور ہوں۔ سکندر اعظماچھا استاد امید جگاتا ہے اور سیکھنے کی لگن پیدا کرتا ہے۔ براڈ ہنریاچھا استاد جانتا ہے کہ شاگرد کے اندر کی صلاحیت کو باہر کیسے لانا ہے۔ چارلس کورالٹتمام علم کی صرف ایک علامت تدریس کی طاقت ہے۔ ارسطو 

اونٹ رے اونٹ

اونٹ رے اونٹ

انسان اور اونٹ کا ساتھ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ مستند شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے لگ بھگ تین ہزار سال قبل اونٹ کو سدھارنا اور باربرداری کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک انسانی باربرداری اور سفر کیلئے بڑے پیمانے پر اونٹ ہی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو تجارتی قافلوں میں اونٹ ہی استعمال ہوا کرتے تھے جو شمالی افریقہ کے صحراؤں سے لے کر جزیرہ نما عرب تک سفر کرتے تھے۔اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ قدرت کی کوئی تخلیق بلا جواز نہیں ہوتی۔اونٹ ہی کی مثال لیں جو اپنی مخصوص جسمانی ساخت اور پیروں کی بناوٹ کے اعتبار سے اپنے چوڑے اور چپٹے پاؤں کی بدولت ریگستان میں کئی کئی میل بغیر رکے چلنے کی صلاحیت سے مالا مال جانور ہے۔یہی وجہ ہے کہ اونٹ ریگستانی جانور سمجھا جاتا ہے۔ زمانے بدلے سفر اور باربرداری کا ذمہ ٹیکنالوجی نے لے لیا تو انسان نے اونٹ کو اپنی تفریح طبع کیلئے استعمال میں لانا شروع کر دیا۔ برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ اونٹ کی بیشتر خصلتیں انسان سے ملتی جلتی ہیں۔ بظاہر اونٹ ایک مسکین جانور ہے۔ یہ ڈھول کی تھاپ پے ناچتا بھی ہے، اگر غصے میں ہو تو دھاڑتا بھی ہے ، اگر اسے مشتعل کیا جائے تو یہ لڑائی پر بھی اتر آتا ہے۔ انسان نے اپنی تفریح طبع کیلئے جہاںاس کے دوڑ کے مقابلے کرانے شروع کر دئیے ہیں، وہیں اس کے لڑانے کے مقابلے بھی ہو رہے ہیں،دنیا کے بیشترممالک میں اونٹوں کا''مقابلہ حسن‘‘ بھی ہر سال باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دور جدید میں اونٹ سے اب کیا کیا کام لئے جا رہے ہیں۔ اونٹوں کی دوڑ قدیم روایات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ''اونٹ دوڑ‘‘کی شروعات سعودی عرب میں قبل از اسلام سے چلی آ رہی ہیں۔ شواہد سے پتہ چلا ہے کہ اس دور میں بھی اونٹ دوڑ کے بڑے بڑے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اونٹ دوڑ کا تسلسل برقرار رہا اور پھر رفتہ رفتہ متحدہ عرب امارات میں بھی اس کے مقابلے منعقد ہونا شروع ہوئے۔ ان ممالک کے علاوہ اونٹ دوڑ کے مقابلے اب مغربی ایشیا، شمالی افریقہ ، پاکستان، منگولیا، آسٹریلیا اور سال گزشتہ سے اب فرانس بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔جزیرہ نما عرب کا خطہ زمانہ قدیم سے ہی اونٹوں کی افزائش کیلئے مشہور ہے۔سعودی عرب میں اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے حال ہی میں ایک الیکٹرانک پلیٹ فارم کی شروعات کی ہے جس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو ڈی این اے کی تفصیلات کی مدد سے محفوظ کرنا ہے۔ وہاں پر اب ہر اونٹ کا شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اونٹوں کی نسلوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنا اور اس کی نسل کا شجرہ ترتیب دینا ہے۔ ذہن میں رہے کہ سعودیہ اور عرب امارات میں اونٹوں کی قیمت پاکستانی کرنسی میں کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے تک جاتی ہے۔ سعودی عرب میں زمانہ قدیم سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ''اونٹ خریدتے وقت اونٹ کی ماں کو ضرور دیکھو‘‘۔ شاید اسی وجہ سے اونٹوں کے شجرے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہو گا۔اونٹ ریس چونکہ اشرافیہ کا شوق ہے اس لئے دوڑنے والے اونٹوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے کئی کئی ملازم رکھنے پڑتے ہیں۔ ایک عمانی ایک ٹی وی انٹرویو میں بتا رہا تھا کہ دوڑنے والے ایک اونٹ کی صرف خوراک کا ماہانہ خرچ 1000 پاونڈ (تقریباً پونے چار لاکھ پاکستانی روپے) سے زیادہ ہوتا ہے۔ جس میں شہد، بادام ، دودھ ، تازہ کھجوریں اور مختلف وٹامنز شامل ہیں۔ اسی انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں یہی عمانی جو دبئی میں اپنے اونٹ کو ریس میں شرکت کیلئے لایا تھا کہہ رہا تھا ''ریس کیلئے سدھائے اونٹ کی قیمت 50لاکھ ڈالر سے لے کر ایک کروڑ ڈالر (تقریباً پونے تین ارب روپے پاکستانی) تک ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال سعودی عرب میں اونٹوں کی، دنیا کی سب سے بڑی ریس کا انعقاد الائولی صحرا میں کیا گیا تھا۔ جس میں جیتنے والے اونٹوں کے مالکان کو 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر (تقریباً 5 ارب 75 کروڑ پاکستانی روپے) انعامی رقم تقسیم کی گئی۔ اونٹوں کا مقابلہ حسن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین خوبصورت نظر آنے کیلئے میک اپ کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ جدید طریقہ علاج، جس میں بوٹوکس، سرجریاں اور کاسمیٹکس پروسیجرز شامل ہیں، کراتی ہیں۔لیکن سعودی عرب اور متحدہ امارات سمیت بہت سارے ممالک میں اب اونٹوں کے درمیان مقابلہ حسن کا انعقاد بھی ہونے لگ گیا ہے۔ اس سلسلے میں تشویشناک بات تیزی سے بڑھتا اونٹوں کا مصنوعی اور عارضی علاج ہوتا ہے۔ جس کیلئے بوٹوکس کے انجیکشن اونٹوں کے ہونٹوں ، ناک، جبڑے اور سر کے مختلف حصوں پر لگا کر پٹھوں کو نرم کیا جاتا ہے۔ ہونٹوں اور ناک میں کلوجن بھرا جاتا ہے اور پٹھوں کو موٹا کرنے کیلئے ہارمونز کا استعمال کیاجاتاہے۔ ہر سال چالیس سے پچاس اونٹ اس ''حرکت‘‘ کے باعث نہ صرف اس مقابلے سے خارج کردیئے جاتے ہیں بلکہ انہیں بھاری جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے ایک سو کلومیٹر کی دوری پر 32 مربع کلومیٹر پر پھیلے ایک میدان میں اونٹوں کا دنیا کا سب سے بڑا ''شاہ عبدالعزیز کیمل فیسٹیول‘‘ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے جو چالیس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس سال بھی اس میلے میں ایک لاکھ سے زیادہ شائقین روزانہ شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس عالمی میلے میں امریکہ ، فرانس، روس، سمیت دنیا کے چالیس سے زیادہ ممالک کے اونٹوں نے شرکت کی ۔ میلے کے اختتام پر فاتحین کو 66 ملین ڈالر ( 17 ارب 80 کروڑ پاکستانی روپے ) کی خطیر رقم انعام میں دی گئی۔ اونٹوں کی خوبصورتی کا معیار کیا ہے ؟ اونٹوں میں خوبصورتی کا معیار لٹکے ہونٹ، بڑی ناک، خم کھاتی متوازن کوہان تو ہے ہی لیکن یہ بعد کے مراحل ہیں۔سب سے پہلے ایک کمیٹی اونٹوں کی ظاہری شکل اور چلنے کے انداز کا بغور جائزہ لیتی ہے جس کا ایک خاص معیار مقرر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں اونٹوں کی خوبصورتی میں مصنوعی طریقوں سے اضافہ تو نہیں کیا گیا۔اس کیلئے جدید ایکسرے کی مدد سے 3 ڈی الٹرا ساؤنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اونٹوں کا سر ، گردن ، دھڑ کے عکس لئے جاتے ہیں اور ان اونٹوں سے حاصل شدہ نمونوں کو جینیاتی معائنے کیلئے لیبارٹری بھیجا جاتا ہے۔اونٹوں کی لڑائیاونٹوں کی لڑائی بنیادی طور پر زمانہ جہالیت سے چلی آ رہی ہے کیونکہ اس دور میں کھیل اور تفریح کے مواقع محدود ہوا کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ جب مہذب معاشرے کی شروعات ہوئی تو لوگوں نے اسے ایک ظالمانہ کھیل کا درجہ دے ڈالا اور یوں حکومتوں کو اس کھیل پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ پاکستان اور بھارت میں اب بھی دیہی علاقوں میں اس کے باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں جنہیں دنگل کا نام دیا جاتا ہے۔ اونٹوں کے دنگل کا انعقاد ایک ٹھیکے دار کرتا ہے۔ یہ ایک غیر جانبدار شخص ہوتا ہے۔میدان میں ایک ڈھولک والا ، ریفری اور لڑنے والے اونٹوں کے مالک ہوتے ہیں ۔ریفری کا کام اونٹوں کی لڑائی کو نتیجہ خیز بنانا اور فاتح کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

دریائے میکونگ کا قتل عامدریائے میکونگ کا قتل عام 5 اکتوبر 2011ء کی صبح ہوا، دو مال بردار چینی جہازوں پر لاکھوں ایمفیٹا مائن گولیوں کے ساتھ گولڈن ٹرائی اینگل کے علاقے میں دریائے میکونگ میں حملہ کیا گیا۔دونوں بحری جہازوں پر موجود13افراد کو ہلاک کرنے کے بعد دریا میں پھینک دیا گیا۔یہ بیرون ملک چینی باشندوں پر ہونے والا سب سے مہلک حملہ تھا۔اس حادثے کے بعد چین نے عارضی طور پر دریائے میکونگ میں جہاز رانی کو معطل کر دیا اور میانمار،تھائی لینڈ اور لاؤس کے ساتھ مشترکہ طور پر دریا پر گشت کرنے کا معاہدہ کیا۔اس معاہدے کے بعد سکیورٹی کے حالات کافی حد تک بہتر ہو گئے اور کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ لاڈ بروک ریل حادثہلاڈ بروک گروو ریل حادثہ جسے پیڈنگٹن ریل کریش بھی کہا جاتا ہے، ایک خوفناک حادثہ تھا جو 5 اکتوبر 1999ء کو لندن، انگلینڈ کے لاڈ بروک گروو میں پیش آیا۔دو مسافر ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں جبکہ دونوں میں سے صرف ایک ٹرین نے خطرے کا سگنل پاس کیا۔ اس حادثے میں 31افراد ہلاک اور 417شدید زخمی ہوئے۔یہ برطانیہ میں بیسویں صدی میں ہونے والے بدترین حادثات میں سے ایک ہے۔دو سال کے عرصے میں گریٹ ویسٹرن مین لائن پر ہونے والا یہ دوسرا بڑا حادثہ تھا۔آپریشنل آٹومیٹک ٹرین پروٹیکشن سسٹم کی مدد سے ان دونوں حادثات کو روکا جا سکتا تھا لیکن اس کی وسیع فٹنگ کی لاگت کی وجہ سے اسے نصب کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔اس حادثے کے بعد برطانیہ کے نجی ریلوے سسٹم اورانتظامات کے ضابطے پر عوام کے اعتماد کو شدیدٹھیس پہنچی۔ گلڈ فورڈ دھماکے 5 اکتوبر 1974ء کوگلڈ فورڈ پب میںبم دھماکے ہوئے۔پروویژنل آئرش ریپبلکن آرمی نے گلڈ فورڈ، سرے، انگلینڈ میں دو پبوں میں 6 پاؤنڈ کے دو جیلنائٹ بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ پب کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہاں پربرائٹ بیرکوں میں تعینات برطانوی فوجی بہت زیاد ہ تعداد میں آیا کرتے تھے۔ان دھماکوں میں چار فوجی جبکہ ایک عام شہری ہلاک ہوا اور 65افراد زخمی ہوئے۔دھماکوں نے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا دیا اور پولیس کو عوام کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ آئرش ریپبلکن آرمی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہالی ووڈ ہنگامےہالی ووڈ بلیک فرائیڈے وہ نام ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مزدوروں کی یاد میں 5 اکتوبر 1945ء کو دیا گیا ۔سیٹ ڈیزائنرز کی جانب سے چھ ماہ سے طویل ہڑتال جاری تھی کہ اچانک اس میں شدت اختیار ہونے لگی اور آخر کار یہ ہڑتال 5اکتوبر کو وارنر برادرز سٹوڈیو کے دروازے پر ایک خونی ہنگامے میں تبدیل ہو گئی۔اس حادثے کے بعد 1947ء میں ٹافٹ ہارٹلی نامی ایک ایکٹ منظور ہواجس کے بعدانٹرنیشنل الائنس آف تھیٹر یکل اسٹیج ایمپلائز کی قیادت کی تنظیم نو کی بنیاد رکھی گئی۔ 

کنگ آف کامیڈی عمر شریف یادوں میں آج بھی زندہ

کنگ آف کامیڈی عمر شریف یادوں میں آج بھی زندہ

پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں عمر شریف بہت دراز قد کے مالک تھے۔ انڈسٹری کے ہر حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگ عمر شریف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔2021ء میں ہمیں چھوڑ جانے والے عمر شریف آج بھی ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔وہ اپنی شاندار کامیڈی سے لوگوں کو ہنساتے ہنساتے لوٹ پوٹ کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ عمر شریف کی اداکاری سے بے ساختہ قہقہوں کا طوفان سا آجاتا تھا۔ وہ شوبز کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ فلم، ٹی اور اسٹیج کے اداکار، فلم ڈائریکٹر، موسیقار، شاعر، مصنف، پروڈیوسر اور ایک بہتریں میزبان تھے۔ اسٹیج کی تاریخ عمر شریف کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے نہ صرف ملک میں بلکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ عمر شریف کو جنوبی ایشیا کے ''کنگ آف کامیڈی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ کراچی کے مشہور علاقے لیاقت آباد میں 19 اپریل 1960ء کو محمد عمر نامی بچے نے جنم لیا بعدازاں وہ بچہ کامیڈی کنگ عمر شریف کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ 4سال کی عمر میں یتیم ہوجانے والے عمر شریف نے 14 برس کی عمر میں اسٹیج ڈراموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کامیابی کی سیڑھیاں کچھ اس انداز میں چڑھنا شروع کیں کہ پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ عمر شریف نے اسٹیج، فلم اور ٹی وی میں اپنی جاندار اور بے مثال اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن ان کی بنیادی وجہ شہرت مزاحیہ اسٹیج ڈرامے ہیں۔کامیڈی کنگ کا اصل نام محمد عمر تھا لیکن انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں کام کا آغاز کرنے کے بعد نام عمر ظریف رکھ لیا۔عمر شریف منور ظریف کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ منور ظریف سے اتنا متاثر تھے کہ کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ '' میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد جس شخص سے میری ملاقات ہو وہ منور ظریف ہوں‘‘۔ بعدازاں ہالی وڈ فلم ''لارنس آف عریبیہ‘‘ میں ہالی وڈ کے مصری اداکار عمر شریف کی اداکاری سے اس قدر متاثر ہوئے کے اپنے نام کے ساتھ شریف لگا لیا۔اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ نے 1980ء میں آڈیو کیسٹ پر اسٹیج ڈرامے ریلیز کرنے کا ٹرینڈ متعارف کرایا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی کافی مقبول ہوئے۔ عمر شریف نے 50سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا۔ان کے مقبول ڈراموں میں 1989ء میں ریلیز ہونے والا مشہور مزاحیہ ڈرامہ ''بکرا قسطو ں پر‘‘، ''بڈھا گھر پر ہے‘‘، ''میری بھی تو عید کرا دے‘‘، ''ماموں مذاق مت کرو‘‘ نمایاں ہیں۔ڈرامہ ''بکرا قسطوں پر‘‘ سے انہیں بے پناہ شہرت ملی۔ اس ڈرامے کے پانچ پارٹ پیش کئے گئے۔ اس ڈرامہ نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ قائم کئے ۔پاکستان کے اس عظیم سپوت کو کئی بھارتی کامیڈینز اپنا استاد مانتے تھے جنہوں نے اس بات کا اظہاربھی کیا کہ وہ عمر شریف سے متاثر ہیں۔ کئی بھارتی فنکاروں نے ان کے انداز کو کاپی کرنے کی بھی کوشش کی۔ اداکار گووندا پاکستانی عظیم اداکار عمر شریف کی کامیڈی اور اداکاری کے نہ صرف معترف تھے بلکہ ایک انٹرویو میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ فلم ''قلی نمبر ون‘‘ میں عمر شریف کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی۔ بھارتی کامیڈین جانی لیور اور راجو شری واستو، عمر شریف سے بہت متاثر تھے اور انہیں برصغیر کا ''کامیڈی کنگ ‘‘ مانتے تھے۔ عمر شریف نے بھارت میں کئی ایوارڈ شوز کی میزبانی کی۔عمر شریف بے ساختگی، برجستگی اور بے باکی میں کمال رکھتے تھے۔ وہ بلا کے ذہین تھے اور بات سے بات نکالنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ 2009ء میں انہوں نے اپنے لیٹ نائٹ ٹاک شو ''دی شریف شو‘‘ کا آغاز کیا اور متعدد فنکاروں، گلوکار اور سیاست دانوں کے انٹرویوز کیے۔عمر شریف اپنے ایک اسٹیج ڈرامہ کی وجہ سے تنازع کا شکار بھی رہے، پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی پر پیش کئے گئے اسٹیج ڈرامہ ''عمر شریف حاضر ہو‘‘ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو عدالت میں بلایا جاتا تھا اورکٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ انہوں نے آج تک پاکستان کیلئے کیاخدمات انجام دی ہیں۔ اس ڈرامے کی وجہ سے وکلا نے عمر شریف پر مقدمہ کردیا تھا۔ عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیوی کا نام دیبا عمر تھا۔ دوسری شادی اداکارہ شکیلہ قریشی سے ہوئی جو 80ء کی دہائی کی معروف ٹیلی ویژن اداکارہ تھیں۔ تیسری شادی سٹیج اداکارہ زریں غزل سے 2005ء میں کی۔صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ کامیڈی کنگ اداکاری کی دنیا میں شہرت حاصل کرنے کے باوجود انسانیت کے جذبے سے سرشار تھے، انہوں نے 2006ء میں عمر شریف ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا جس کے تحت ''ماں‘‘ کے نام سے ہسپتال کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔عمر شریف دل کے عارضے میں مبتلا تھے، ایک بار دل کا بائی پاس بھی کروا چکے تھے لیکن زندگی کے آخری دنوں میں انہیں گردوں کی بیماری نے بھی آ لیا تھا۔عمرشریف کی اپیل کے بعد حکومت سندھ نے ان کاعلاج حکومتی سرپرستی میں کروانے کا اعلان کیااور انہیں امریکہ لے جانے کیلئے ایک ایئر ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ امریکہ کے راستے میں ان کا پہلا سٹاپ جرمنی تھا جہاں ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے ان کو ایئر ایمبولینس سے اتار لیا گیا اور ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں دونسلوں کو اپنی مزاحیہ اداکاری سے محظوظ کرنے والا فنکار اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔ عمر شریف نے اپنی معیاری اداکاری اور فیملی کامیڈی پر کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ 5دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے عمر شریف کو حکومت پاکستان کی جانب سے فن کی دنیا میں بے مثل خدمات سر انجام دینے اور بین الااقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے پر ''تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔عمر شریف کا فلمی کریئرعمر شریف کے کریڈٹ پر 35 فلمیں ہیں۔پہلی فلم ''مسٹر 420‘‘ 1992ء میں ریلیز ہوئی۔ وہ اس فلم کے ہیرو، ڈائریکٹر اور مصنف تھے۔وہ ایک ہی سال میں چار مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے واحد فنکار ہیں۔ان کی دیگر مقبول فلموں میں ''مسٹر چارلی‘‘، ''بہروپیہ‘‘، ''چلتی کا نام گاڑی‘‘، ''چاند بابو‘‘، ''کھوٹے سکے‘‘، ''ہتھکڑی‘‘، ''لاٹ صاحب‘‘، ''پھول اور مالی‘‘،''جھوٹے رئیس‘‘، ''پیدا گیر‘‘، ''ڈاکو چور سپاہی‘‘، ''خاندان‘‘، ''نہلے پہ دہلا‘‘، ''مس فتنہ‘‘، ''غنڈا راج‘‘، ''سب سے بڑا روپیہ‘‘ شامل ہیں۔فلمی کریئر میں عمر شریف نے 3 بار گریجویٹ ایوارڈ حاصل کیا۔  

کیو گارڈن

کیو گارڈن

لندن شہر کے جنوب مغربی سمت ایک ایسا باغ جو نباتات کے تحفظ اور تحقیق کی غرض سے بنایا گیا ہے، اسے ''کیو گارڈن‘‘(Kew Garden)) کہا جاتا ہے۔ کیوگارڈن کا قیام 1759ء میں عمل میں آیا۔ اس کا رقبہ 330 ایکڑ ہے اور یہ باغ شاہی(رائل) پارکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا صحیح نام ''کیو رائل بوٹانک گارڈن‘‘ ہے۔ اس باغ میں موجود چھوٹے بڑے درختوں کی تعداد 27ہزار اور جڑی بوٹیوں والے پودوں اور پھولوں کی تعداد 85لاکھ ہے۔ یہ باغ نہ صرف سیرو تفریح کیلئے ایک بے مثال جگہ ہے بلکہ ساری دنیا سے تحقیق کرنے والے طلباء کیلئے یہ ایک بہت بڑا مرکز ہے۔ یہاں پر موجود پودوں اور درختوں کی تحقیق بارے ایک لائبریری بھی موجود ہے، جس کا قیام1841ء میں ہوا۔ لائبریری میں تین لاکھ کتب اور رسائل موجود ہیں۔ اس باغ کی اہمیت اس بات سے عیاں ہو جاتی ہے کہ کیو گارڈن کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 2003ء میں عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔ اس باغ کی 260ویں سالگرہ2019ء میں منائی گئی۔ شاہ جارج سوم کی والدہ شہزادی آگسٹا نے 1759ء میں کیو گارڈن کی بنیاد رکھی تھی۔کیو گارڈن کو دیکھنے والوں کی تعداد 21 لاکھ سالانہ ہے۔ اس میں17ہزار نایاب اقسام کے پودے بھی موجود ہیں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جاتی۔ کیو گارڈن میں شیشے کے گلاس ہائوس بھی بنائے گئے ہیں جن میں پودوں کو فطرتی ماحول اور مخصوص درجہ حرارت میں نشوؤنما پانے کا موقع میسر ہے۔ اس ماحول میں برطانیہ کی سخت سردی یا کسی قسم کی گرمی کا پودوں پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ ایسے شیشے کے گھروں کو ملکہ وکٹوریہ کے دور میں 1863ء میں بنایا گیا تھا۔ دنیا کے ہر خطہ سے پودوں کو یہاں لاکر اکٹھا کیا گیا ہے۔اس وقت تقریباً 300 سائنسدان یہاں پر موجود ہیں جو پودوں، پھولوں اور درختوں کی تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ کیو گارڈن میں تقریباً1500سے زائد افراد کام کر رہے ہیں، جن میں700سٹاف، 300 سائنسدان، 100تحقیق کنندہ، 100 طلبا کے علاوہ350رضا کار ہیں۔کیو گارڈن میں ایک ایسا پودا بھی موجود ہے جو گملے کی طرح برتن میں محفوظ ہے۔ یہ پودا ایک نایاب پودوں کے متلاشی فرانسس میسن نے مشہور جہازراں کیپٹن کک کے ہمراہ سفر میں 1775ء میں جنوبی افریقہ سے حاصل کیا تھا۔کیو پیلسکیو گارڈن میں ایک ''کیو پیلس‘‘ بھی موجود ہے جو شاہ جارج سوم کی جاگیر سمجھی جاتی تھی۔ اس پیلس کو نئے سرے سے تزئین و آرائش کے بعد2006ء میں عوام کیلئے کھولا گیا۔ یہ محل برطانیہ کے شاہی محلات میں سب سے چھوٹا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ نے 1837ء میں یہ عوام کیلئے تحفتاً عنایت کیا تھا۔پولیس فورسکیو گارڈن کی اپنی پولیس فورس بھی ہے جس کا قیام178 سال قبل1845ء میں عمل میں آیا۔ یہ پولیس فورس کیو گارڈن کی حفاظت پر مامور ہے۔ اس پولیس میں دو سارجنٹ اور 12آفیسر ہیں۔ اس پولیس کے پاس وہی اختیارات ہیں جو شہر کی پولیس کے پاس ہیں۔یادگاری سکےکیو گارڈن نے اپنی 250 ویں سالگرہ2009ء میں منائی۔ اس تقریب کو یادگار رکھنے کیلئے رائل منٹ نے 50 پنس کی مالیت کے دو لاکھ دس ہزار (210,000)سکے جاری کئے۔ آج بھی ان یادگاری سکوں کی قیمت ان کی ذاتی قدر سے100گناہے۔گریٹ پاگوڈاکیو گارڈن میں ایک چینی طرز کا مندر بھی موجود ہے۔ اس مندر کو 1762ء میں6ماہ کے عرصہ میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی دس منزلیں اور سیڑھی کے 253 قدم ہیں۔ یہ مندر 164 فٹ بلند اور اس کا قطر49فٹ ہے۔ یہ مندر بھورے رنگ کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مندر دور ہی سے سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے۔کیو گارڈن کی سیر ہر عمر کے افراد کیلئے نہایت دلچسپ اور نباتات کے تحقیق کے شوقین افراد کیلئے گراں قدر علمی اضافے کا باعث ہے۔کیو گارڈن کے چار داخلی دروازے ہیں۔ مغربی سمت الزبتھ گیٹ ہے جو مین گیٹ کہلاتا ہے۔ برینٹ فورڈ گیٹ دریائے ٹیمز کی جانب واقع ہے۔ وکٹوریہ گیٹ اور لائن گیٹ کیو روڈ کی جانب ہیں۔ لندن کی مقامی بسیں وکٹوریہ گیٹ اور لائن گیٹ کے پاس رکتی ہیں۔ گارڈن میں300گاڑیوں کیلئے پارکنگ بھی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

بیت المقدس فتح ہوا2اکتوبر 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور فرانک سلطنت ختم کی۔ 88 سالہ صلیبی دور کا خاتمہ کرتے ہوئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوںکے قبضے سے واگزار کرایا تھا۔ بلاشبہ یہ سلطان کی بہت بڑی فتح تھی جس کی بنا پر اس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں بہت جلی حروف میں کیا جاتا ہے۔ فٹ بال ٹیم کا ہوائی حادثہ2اکتوبر1970ء کو ایک چارٹڈ مارٹن ہوائی جہاز ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ یہ گولڈن ایگل ایوی ایشن کے ذریعے چلائے جانے والا جڑواں انجن والا جہاز تھا۔ 20افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ دو افراد طبی امداد کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ یہ ان دو طیاروں میں سے ایک تھا جو 1970ء کی ویچیٹا اسٹیٹ فٹ بال ٹیم کو لوگان، یوٹاہ لے کر جا رہا تھا۔ گونزالز کی جنگگونزالز کی جنگ ٹیکساس کے انقلاب کی پہلی فوجی کارروائی تھی۔ یہ لڑائی 2اکتوبر 1835ء کو ٹیکساس ،گونزالز کے قریب باغی ٹیکسیائی آباد کاروں اور میکسیکو کے فوجیوں کے دستے کے درمیان لڑئی گئی۔ 1831ء میں، میکسیکو کے حکام نے گونزالز کے آباد کاروں کو ایک چھوٹی توپ دی تاکہ انہیں کومانچے کے چھاپوں سے بچنے میں مدد ملے۔ 1835ء میںبغاوت کا آغاز ہوا اور حکام نے ان سے توپ واپس مانگ لی لیکن باشندوں نے انکار کر دیاجس پر توپ کی بازیابی کیلئے ڈریگن فورس کے اہلکار بھیجے گئے۔ویسٹ نکل مائنز سکول پر حملہ2اکتوبر2006ء کو پنسلوینیا کے ایک گاؤں میں امیشن کمیونٹی کے ویسٹ نکل مائنز سکول میں فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا۔ حملہ آور چارلس کارل رابرٹس نے سکول کی طالبات کو یرغمال بنا لیا اور اس کے بعد انہیں گولی مار کر قتل کر دیا۔ حملے کے بعد حملہ آور نے گرفتاری کے ڈر سے خودکشی کر لی۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد سکول کو منہدم کر دیا گیا اور اسی سکول کو کسی دوسری جگہ تعمیر کیا گیا۔کارانڈیرو کا قتل عامکارانڈیرو کا قتل عام 2 اکتوبر 1992ء کو برازیل کے ساؤ پالو میں کارانڈیرو میں اس وقت ہوا جب فوجی پولیس نے جیل میں ہونے والے فسادات کے بعد قید خانے پر دھاوا بول دیا۔ اس قتل عام میں 111 قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی تھی۔اس واقعہ کا آغاز قیدیوں کی بغاوت کے بعد ہوا۔جیل میں فٹ بال کے کھیل کے دوران دو گروہوں میںلڑائی ہوئی اور اسی لڑائی نے ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔