حضرت بہاء الدین زکریا ملتا نیؒ ولادت... 565 ھ (ملتان) وفات .... 666ھ (ملتان)
اسپیشل فیچر
ایک بار کسی مرید یا عقیدت مند نے حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتا نیؒ سے عرض کیا :شیخ ! آپ اپنے مجاہدے کا کوئی واقعہ بیان فرمائیے۔خادم کی بات سن کر حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے گریز ا ختیار کیا مگر جب اس شخص کا اصرار بہت زیادہ بڑھا تو آپؒ نے فرمایا:فقیر کے لئے اپنے مجاہدے اور ریاضت کی کیفیت بیان کرنا مناسب نہیں کہ ایک طرف اس سے غرور کا اظہار ہوتا ہے اور دوسری طرف طالب کو خوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کی محنت برباد نہ ہو جائے… مگر پھر بھی اتنا سمجھ لو کہ یہ فقیر بیس سال تک ایک پیالہ پانی اور ایک چھٹانک غذا پر روزہ افطار کرتا ہے… اور یہ ایک اونیٰ مجاہدہ ہے کہ جسے ہر مبتدی اپنی طبیعت اور نفس پر غلبہ پانے کے لئے آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد میں حج کی نیت سے ارضِ پاک کی طرف روانہ ہوا۔ایک اور موقع پر حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ اپنے مجاہدات کے بارے میں فرماتے ہیں: میں نے یہ تمام تر مشقت اور ریاضت ربِ کعبہ کی رضا جوئی کے لئے کی۔ یہاں تک کہ ارضِ مقدس میں جا پہنچا ،حج کیا اور عرفات کی پہاڑی پر حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوا۔ خداوند کریم کے فضل و احسان سے اس دوران میں نے بڑا فیض حاصل کیا۔ اس کے بعد نیا احرام باندھ کر سرورِ کونین حضور اکرمﷺ کے روضئہ اقدس پر حاضر ہوا۔ پانچ سا ل مدینہ منورہ میں رہ کر رسالت پناہ ﷺ کے قدموں کی خاک ِپاک کے صدقے میں انوارِ الٰہی کا ظاہری اور باطنی مشاہدہ کیا۔حامد بن فضل اللہ جمالی ؒ کا بیان ہے کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ پانچ سال تک مدینہ منورہ میں قیام فرما رہے۔ اس زمانے میں حضرت مولانا کمال الدین محمد یمنی ؒ جو اپنے وقت کے بہت بڑے محدث تھے، حرمِ نبوی ﷺ میں حدیث کا درس دیا کرتے تھے، حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ ان کے حلقۂ ــدرس میں شامل ہو گئے اور طلباء کی اگلی صف میں استاد کے ساتھ بیٹھ کر حدیثِ پاک کا درس لینے لگے۔ حضرت شیخ ؒ، مولانا یمنیؒ کے ساتھ ہر سال حج پر جاتے تھے اور پھر مدینہ منورہ حاضر ہو جاتے۔ جب حدیث شریف کا سبق تمام ہو چکا تو رسمِ زمانہ کے مطابق حضرت مولانا کمال الدین محمد یمنیؒ نے آپ ؒ کو حدیثِ رسول ﷺ پڑھانے کی سند عطا کی۔ اس کے بعد آپؒ اپنے اُستادِ گرامی کی دعائوں کے سائے میں بیت المقدس کی طرف روانہ ہو گئے۔مدینہ منورہ کے قیام کے دوران حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ روضئہ مبارک کے دائیں جانب ایک خاص مقام پر معتکب رہا کرتے تھے، جو بعد میں آپؒ کے نام سے منسوب ہو گیا تھا چنانچہ جب مشہور صوفی شاعر حضرت مولانا عبدالرحمن جامیؒ دیارِ رسولﷺ میں حاضر ہوئے، تو آپؒ نے بھی اسی مقام کو عبادت و ذکر کے لئے پسند فرمایا۔ حضرت جامیؒ کے بقول؛مجھے اس جگہ بیٹھ کر عجیب روحانی لذت کا احساس ہوا اور میں نے بہت فیض حاصل کیا۔تمام معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مدینہ منورہ سے رخصت ہو کر حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ بیت المقدس میں حاضر ہوئے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور تمام انبیائے پاک علیہ السلام کے مزارات ِاقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ اس کے بعد آپؒ دمشق تشریف لے گئے۔دمشق میں شہر کے باہر ایک خوفناک اژدھا رہتا تھا ،جو بہت سے لوگوں کو ہلاک کر چکا تھا۔ مقامی باشندوں نے اژدھے کو مارنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ ہر بار نا کام رہے تھے۔آخر مجبور ہو کر لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا تھا، پھر بھی اگر کوئی اجنبی مسافر اس راستے پر آنکلتا تو وہ اس خون آشام اژدھے کی خوراک بن جاتا ۔ وہ دراصل ایک غار میں روپوش رہتا تھا، پھر جیسے ہی اسے کسی انسان کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوتی، وہ تیزی سے باہر آتا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آدم زاد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ مقامی لوگوں نے کئی مرتبہ اس غار کو بند کرنے کی بھی کوشش کی، مگر اژدھے نے ان کی یہ تدبیر بھی نا کام بنا دی تھی۔ایک روزحضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کا گزر اسی غار کی طرف سے ہوا۔ اژدھا حسبِ معمول اپنے شکار کا منتظر تھا۔ آپؒ کے قدموں کی آہٹ سنتے ہی غار سے باہر نکلا اور پوری شدت کے ساتھ آپؒ پر حملہ آور ہوا۔ حضرت شیخ بہا ء الدین زکریا ملتانیؒ نے ایک نظر اس موذی کی طرف دیکھا اور اطمینان کے ساتھ اپنی چادر اژدھے پر ڈال دی۔ پھر آپؒ آگے بڑھ گئے اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ اژدھے کا کیا حال ہوا؟ کچھ دیر بعد جب دُور سے گزرنے والوں نے غار کی طرف دیکھا، تو وہاں ایک چادر موجود تھی اور اژدھا مرا پڑا تھا۔ لوگ ڈرتے ڈرتے اسکے قریب گئے ،مگر جب اس کے جسم میں برائے نام بھی حرکت نہیں پائی تو دمشق کے نواحی علاقے میں ایک شور سامچ گیا۔ مقامی باشندے گروہ درگر وہ غار کے سامنے جمع ہو کر اژدھے کی موت پر خدا کا شکر ادا کرنے لگے، پھر لوگوں کو جستجو ہوئی کہ یہ کس بزرگ کی چادر ہے کہ جس کے اثر سے اژدھے کی موت واقع ہوئی ہے۔ آخر کئی دن کی جستجو اور تحقیق کے بعد یہ راز کھلا کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ اس راستے سے گزرے تھے۔ پھر یہ خبر سینہ بہ سینہ چلی اور شہرتِ عام تک پہنچی، تو ہزاروں لوگ حضرت شیخ ؒؒ کے لئے اس مکان کے گرد جمع ہو گئے جہاں آپؒ ایک طویل عرصے سے سکونت پذیر تھے۔حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے پانچ سال تک دمشق میں قیام فرمایا۔ اس دوران بڑے بڑے مشائخ حاضرِ خدمت ہوئے اورآپؒ کی وسعتِ علم سے استفادہ کیا۔دمشق میں قیام کے دوران ہی حضرت شیخؒ پر ایک عجیب سا اضطراب طاری رہنے لگا۔ آ پؒ اپنی طویل دعائوں میں یہ دعا بھی خصوصیت کے ساتھ مانگا کرتے تھے:’’اے مالک ِکون و مکاں! اے بے پناہ دینے والے! تُو نے اپنے بندے بہاء الدین کو اتنا دیا کہ اس کا دامن تنگ ہو گیا۔ عقل کی پیاس بجھ گئی مگر قلب اور روح کی پیاس اسی شدت سے بھڑک رہی ہے۔ اب اپنی بارشِ کرم سے اس پیاس کو بھی بجھا دے کہ تیری ذاتِ بے نیا ز بخشش و عطا کے ہر زاویے پر قادر ہے۔‘‘دراصل واقعہ یہ تھا کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ بہت دنوں سے کسی مرشدِ روحانی کی تلاش میں تھے۔آپؒ جس بزرگ کی شہرت سنتے، اس کی خدمت میں حاضر ہو تے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے بے شمار بزرگوں کے روحانی دربار میں حاضری دی، مگر کسی آستانے پر پہنچ کر آپؒ کے دل سے یہ آواز نہیں آئی کہ یہی وہ مقام ہے۔ بس یہیں ٹھہر جا ! عام لوگ تو اسے اتفاق ہی سمجھیں گے، مگر تصوف کی دنیا میں اتفاقات اور حادثات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ کاتبِ تقدیر نے جس طرح عام انسانوں کی تقدیریں لکھی ہیں، اسی طرح بزرگانِ دین کی قسمت کے فیصلے بھی تحریر کئے ہیں۔ یہ اسی قادرِ مطلق کا قائم کیا ہوا اندازہ ہے، جو عالمِ اسباب میں ہمیں صاف نظر آتا ہے۔ جس طرح ہر شخص انتہائی کوشش کے باوجود شہنشاہیت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح ہر انسان شدید ریاضت کے بعد بھی منصبِ ولایت پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس ذیل میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر طالبِ معرفت کو ہر بزرگ سے فیضِ روحانی نہیں ہو سکتا۔ اسی کلیے کے مطابق حضرت شیخ بہا ء الدین زکریا ملتانیؒ بھی ابھی اس مردِ کامل کی کی خانقاہ تک نہیں پہنچے تھے، جس کے دروازے سے آپؒ کی روحانی تقدیر وابستہ کر دی گئی تھی۔(نوٹ:خاندانی نام :بہاء الدین … والدِ محترم کا اسمِ گرامی: کمال الدین علی شا ہؒ ۔ آپؒ کا تعلق قریش کے قبیلے ’’ہبای اسد‘‘ سے ہے۔ یہ قبیلہ دوسری صدی ہجری میں مکہ معظّمہ سے ہجرت کر کے پہلے خوار زم آیا، پھر مستقل طور پر ملتان میں سکونت پذیر ہو گیا۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ نہایت عالم و فاضل بزرگ تھے۔ آپ ؒ ہی کے دم سے برصغیر پاک و ہند میں سلسلۂ سہر ورد یہ کو لازوال شہرت حاصل ہوئی)٭…٭…٭