حکایاتِ رومی چوہے اور مینڈک کی دوستی
ایک چوہا اور مینڈک بڑے پکے دوست بلکہ پگڑی بدل بھائی بنے ہوئے تھے۔ ان کی گہری دوستی کو دیکھ کر دیکھنے والے کہتے تھے کہ وہ دو قالب ایک جان ہیں۔ ان میں اس قدر محبت تھی کہ وہ ہر وقت اکٹھے رہا کرتے تھے اور ایک لحظہ بھی جدائی گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دن چوہے نے کہا بھائی مینڈک! جب تو پانی میں چلاجاتا ہے تو میں کنارے پر کھڑا تجھے بلاتا رہتا ہوں، مگر میری آواز تجھے نہیں پہنچتی۔ میرا چلاتے چلاتے گلا بیٹھ جاتا ہے۔ جب تیری طرف سے کوئی جواب نہیں آتا تو میری جان کو بڑا عذاب ہوتا ہے۔ مجھے ایک تجویز سوجھی ہے، اگر تو بھی اسے پسند کرے ۔ وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز مل جائے، جس کے ایک سرے میں میری ٹانگ بندھی ہو اور دوسرے میں تیری۔ جب میں ملنا چاہوں تو ذرا سا اسے کھینچ دوں اور تو اشارہ پا کرباہر نکل آجائے۔مینڈک نے کہا: یہ تجویز معقول ہے۔ وہ دیکھ سامنے جولاہے کا گھر ہے۔ اس کے تانے سے ایک لمبا اور مضبوط تار کاٹ لا۔ اس سے ہم اپنی ایک ایک ٹانگ باندھ لیں گے۔ چوہا فوراً دوڑا گیا اور وہاں سے ایک تا رلے آیا۔ دونوں نے ٹانگیں باندھ لیں۔ چوہاتھ بل میں گھس گیا اور مینڈک پانی میں چلا گیا۔ایک کوا سب ماجرا دیکھ رہا تھا۔ وہ خوش ہوا کہ خوب تر مال ہاتھ لگا۔ وہ فوراً لپکا اور تار چونچ میں لے کر اوپر اڑا۔ اس سے دونوں اپنی جگہ سے کھنچے چلے آئے۔ دیکھنے والے تعجب کرتے تھے کہ کوے نے مینڈک کو پانی سے کس طرح نکال لیا۔ ایک دانا آدمی پاس کھڑا تھا۔ اس نے کہا :یار! اس کو ناجنس کی صحبت لے ڈوبی ہے۔ پانی میں رہنے والے نے خشکی کے جانور سے یارانہ گانٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جان گنوا بیٹھا۔ اب کوا اس کو بھی چوہے کے ساتھ نوچ نوچ کر کھانے لگا۔ اس واقعہ سے سبق حاصل کرو کہ ناجنس کی صحبت ہمیشہ ہلاکت اور نقصان کا موجب ہوتی ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔گھاس کا پولا اونٹ کے منہ میںایک اونٹ بیل اور دنبہ اکٹھے جا رہے تھے کہ انہیں راہ میں گھاس کا ایک پولاپڑا دکھائی دیا۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ اسے چٹ کر جائے، مگر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ دبنے نے کہا: بھائیو! اب زمانہ ایسا برا آ گیا ہے کہ جہاں خطرے کا مقام ہو، وہاں بڑوں کو آگے کر دیتے ہیں اور جہاں آرام ملتا ہے، وہاں خود آگے ہو جاتے ہیں مگر بزرگوںکا ارشاد ہے کہ بزرگوں کو مقدم رکھنا چاہیے ،پس ہم میں سے جو عمر میں بڑا ہو ،وہ یہ گھاس نوش جان کرے۔یہ شرط پیش کر کے دنبہ بولا :بھائیو! میں اپنی عمر کے متعلق کیا بتائوں مجھے صرف اس قدر یاد ہے کہ میں اس دنبے کے ساتھ چرا کرتا تھا جو حضرت اسماعیل ؑپر قربان ہوا تھا۔ بیل نے کہا: میں تم سے بھی بڑا ہوں۔ ارے میں تو اس بیل کا جوڑی دار ہوں جو حضرت آدم ؑکا ہل کھینچا کرتا تھا۔ اونٹ نے جب یہ سنا تو اس نے سر جھکا کر گھاس کا پولا منہ میں لے لیا اور چٹ کر گیا اور بولا: اتنے بڑے جسم اور بڑی گردن والے کو تاریخ بتانے کی حاجت نہیں۔ جس سے چاہو، پوچھ لو کہ میں تم سے چھوٹا نہیں۔ہر عقلمند یہی کہے گا کہ میں ہر حیثیت میں تم سے بڑا ہوں:جملگاں دانند کایں چرخ بلندہست صد جندانکہ ایں خاک نژند(مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومی سے ماخوذ)