حکایاتِ رومی چوہے اور مینڈک کی دوستی

حکایاتِ رومی چوہے اور مینڈک کی دوستی

اسپیشل فیچر

تحریر :


ایک چوہا اور مینڈک بڑے پکے دوست بلکہ پگڑی بدل بھائی بنے ہوئے تھے۔ ان کی گہری دوستی کو دیکھ کر دیکھنے والے کہتے تھے کہ وہ دو قالب ایک جان ہیں۔ ان میں اس قدر محبت تھی کہ وہ ہر وقت اکٹھے رہا کرتے تھے اور ایک لحظہ بھی جدائی گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دن چوہے نے کہا بھائی مینڈک! جب تو پانی میں چلاجاتا ہے تو میں کنارے پر کھڑا تجھے بلاتا رہتا ہوں، مگر میری آواز تجھے نہیں پہنچتی۔ میرا چلاتے چلاتے گلا بیٹھ جاتا ہے۔ جب تیری طرف سے کوئی جواب نہیں آتا تو میری جان کو بڑا عذاب ہوتا ہے۔ مجھے ایک تجویز سوجھی ہے، اگر تو بھی اسے پسند کرے ۔ وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز مل جائے، جس کے ایک سرے میں میری ٹانگ بندھی ہو اور دوسرے میں تیری۔ جب میں ملنا چاہوں تو ذرا سا اسے کھینچ دوں اور تو اشارہ پا کرباہر نکل آجائے۔مینڈک نے کہا: یہ تجویز معقول ہے۔ وہ دیکھ سامنے جولاہے کا گھر ہے۔ اس کے تانے سے ایک لمبا اور مضبوط تار کاٹ لا۔ اس سے ہم اپنی ایک ایک ٹانگ باندھ لیں گے۔ چوہا فوراً دوڑا گیا اور وہاں سے ایک تا رلے آیا۔ دونوں نے ٹانگیں باندھ لیں۔ چوہاتھ بل میں گھس گیا اور مینڈک پانی میں چلا گیا۔ایک کوا سب ماجرا دیکھ رہا تھا۔ وہ خوش ہوا کہ خوب تر مال ہاتھ لگا۔ وہ فوراً لپکا اور تار چونچ میں لے کر اوپر اڑا۔ اس سے دونوں اپنی جگہ سے کھنچے چلے آئے۔ دیکھنے والے تعجب کرتے تھے کہ کوے نے مینڈک کو پانی سے کس طرح نکال لیا۔ ایک دانا آدمی پاس کھڑا تھا۔ اس نے کہا :یار! اس کو ناجنس کی صحبت لے ڈوبی ہے۔ پانی میں رہنے والے نے خشکی کے جانور سے یارانہ گانٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جان گنوا بیٹھا۔ اب کوا اس کو بھی چوہے کے ساتھ نوچ نوچ کر کھانے لگا۔ اس واقعہ سے سبق حاصل کرو کہ ناجنس کی صحبت ہمیشہ ہلاکت اور نقصان کا موجب ہوتی ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔گھاس کا پولا اونٹ کے منہ میںایک اونٹ بیل اور دنبہ اکٹھے جا رہے تھے کہ انہیں راہ میں گھاس کا ایک پولاپڑا دکھائی دیا۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ اسے چٹ کر جائے، مگر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ دبنے نے کہا: بھائیو! اب زمانہ ایسا برا آ گیا ہے کہ جہاں خطرے کا مقام ہو، وہاں بڑوں کو آگے کر دیتے ہیں اور جہاں آرام ملتا ہے، وہاں خود آگے ہو جاتے ہیں مگر بزرگوںکا ارشاد ہے کہ بزرگوں کو مقدم رکھنا چاہیے ،پس ہم میں سے جو عمر میں بڑا ہو ،وہ یہ گھاس نوش جان کرے۔یہ شرط پیش کر کے دنبہ بولا :بھائیو! میں اپنی عمر کے متعلق کیا بتائوں مجھے صرف اس قدر یاد ہے کہ میں اس دنبے کے ساتھ چرا کرتا تھا جو حضرت اسماعیل ؑپر قربان ہوا تھا۔ بیل نے کہا: میں تم سے بھی بڑا ہوں۔ ارے میں تو اس بیل کا جوڑی دار ہوں جو حضرت آدم ؑکا ہل کھینچا کرتا تھا۔ اونٹ نے جب یہ سنا تو اس نے سر جھکا کر گھاس کا پولا منہ میں لے لیا اور چٹ کر گیا اور بولا: اتنے بڑے جسم اور بڑی گردن والے کو تاریخ بتانے کی حاجت نہیں۔ جس سے چاہو، پوچھ لو کہ میں تم سے چھوٹا نہیں۔ہر عقلمند یہی کہے گا کہ میں ہر حیثیت میں تم سے بڑا ہوں:جملگاں دانند کایں چرخ بلندہست صد جندانکہ ایں خاک نژند(مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومی سے ماخوذ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
جڑواں شہر

جڑواں شہر

9 صدی عیسوی میں جڑواں شہروں یا سسٹر سٹی کا تصور موجود تھا ۔ تاریخی حوالوں میں بھی اس بین الاقوامی رابطوں کیلئے جڑواں شہروں کا ذکر ملتا ہے ۔'' ٹوئن سٹی‘‘ کے معاہدے کے تحت دوشہروں کی میونسپل کمیٹیوں کے درمیان تجارتی، ثقافتی اور وسائل کو باہمی طور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا جاتا ہے،دیگر انتظامی معاملات اور تعلقات بڑھانے کیلئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے۔ ایک ہی ملک کے دوشہروں کے درمیان بھی جڑواں شہروں کے معاہدے موجود ہیں جن میں جیسے کہ آسٹریلیا کے دو شہر البری اور ووٹوڈنگا کو بھی جڑواں شہروںکی حیثیت حاصل ہے حالانکہ یہ دونوں شہروں کا آپسی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں اسلام آباد اور روالپنڈی بھی جڑواں شہر کہلاتے ہیں ان دونوں شہروں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے جبکہ راولپنڈی صوبہ پنجاب کا شہر ہے۔اسی طرح دو ایسے شہرجو مختلف ممالک میں موجود ہیں ان کے درمیان بھی جڑواں شہروں کے معاہدے کئے گئے ہیں، جیسے کہ سویڈن کے شہر ہاپرنڈافن لینڈ کے شہر ٹورنیو ، کولمپیا کے شہر لیٹیشیااور برازیل کے شہور تبتینگا، ایسوٹنیا کے شہر یا والگا اور لٹویا کے شہرو والکا کے درمیان بھی جڑواںشہروں کا معاہدہ ہے۔برطانیہ میں''جڑواں شہر‘‘کی اصطلاح سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ''سسٹر سٹیز‘‘ کی اصطلاح عام طور پر امریکہ کے قصبوں اور شہروں کے ساتھ معاہدوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔مین لینڈ یورپ میں، سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات ''جڑواں شہر‘‘،''شراکت دار شہر‘‘، ''پارٹنر ٹاؤنز‘‘ اور ''فرینڈشپ ٹاؤنز‘‘ ہیں۔ یورپی کمیشن ''جڑواں شہر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور اس عمل کو''ٹاؤن ٹوئننگ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں کے دیگر ممالک کے شہروں کے ساتھ جڑواں شہروں کا معاہدہ کیا گیا ۔ شہر لاہور کا سب سے جڑواں شہروں کے ساتھ معاہدے موجود ہیں۔ شہر لاہو ر چین کے پانچ شہروں کا جڑواں شہر ہے جن میں ژیان، ینتھوئی، چینگڈو، جیانگ اور ہیکو شامل ہیں۔ ازبکستان کے دو شہر وں ثمرقند اور نامنگان، ایران کے دوشہروں اسفہان اور مشہاد، کوریا کے سریوون، تاجکستان کے شہر دوشنبے،امریکہ کے شہر شکاگو ، برطانیہ کے شہر گلاسکو ، ترکی کے شہر استنبول، موراکوکے شہر فیز، بیلجئم کے شہر کورترجک ، سپین کے شہر کورڈوبا اور بیلاروس کے موگیلیو شہر کے ساتھ جڑواں شہر ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دیگر ممالک کے16 شہروں کا جڑواں شہر ہے۔ ان شہروں میں چار شہر چین کے جن میں شنگھائی ،شنیانگ، تینجن،ارومکی ،لبنان کا شہر بیروت ، بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکہ ، ترکی کا شہر ازمٹ ، سعودی عرب کا شہر جدہ، ملائشیا کا شہر کولالمپور ، بحرین کا شہر منانما ، ایران کے دو شہر ماشاد اور قوم، مارشیئس کا شہر پورٹ لوئس ، کوسوو کا شہر پرسٹینا اور ازبکستان کا شہر تاشقند شامل ہیں۔پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد 8 شہروں کے ساتھ جڑواں شہر ہے جن میں چائنہ کے بیجنگ ، ہائیکوو اور تنجان، اردن کا شہر اومان ، ترکی کا شہر انقرہ، قازکستان کا شہر آسٹانا، انڈونیشیا کاشہر جکارتہ ، بیلا روس کا شہر منسک شامل ہیں۔ملتان چار ممالک کے شہروں کا جڑواں شہر ہے جن میں چین کے دوشہرو شہزوئیاور ژیان، ترکی کے شہر ٹنائے، ایران کے شہر راشٹ شامل ہیں۔پاکستان کے دیگر شہرپشاور انڈونیشیا کے شہر ماکاسارا اور چین کے شہر ارومکی ، ایبٹ آباد چین کے شہر کاشگاراور پیراگوئے کے شہر پورتو ویرس، فیصل آباد چین کے شہر قنگدوئی، گوجر خان برطانیہ کے شہر ریڈیچ ، گوادر چین کے شہر پیئنگ،حیدر آباد امریکی شہر ٹولیڈ، ساہیوال برطانیہ کے شہر روچڈیلے،سیالکوٹ امریکہ کے شہر بلنگ بروک اور سکردو اٹلی کے شہر کورٹینا ڈی امپوزے کا جڑواں شہر ہے۔ اسپین میںجڑواں شہروں کیلئے استعمال ہونے والی اصطلاح کا لفظی مطلب ''سسٹر سٹی‘‘ ہے۔ جرمنی، پولینڈ اور چیک ریپبلک میں جڑواں شہروں کی اصطلاح کیلئے پارٹنر سٹادٹ،جرمنی میں میاسٹو پارٹنرشی، جس کا لفظی مطلب ''پارٹنر ٹاؤن‘‘یا ''پارٹنر سٹی‘‘ ہوتا ہے۔  

تاریخی حادثہ طوفانی رات میں کیپٹن پر کیا گزری؟

تاریخی حادثہ طوفانی رات میں کیپٹن پر کیا گزری؟

یہ انیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا واقعہ ہے۔ لوہے کے بحری جہاز نئے نئے بننے شروع ہوئے تھے۔ پہلے بحری جہازوں کی تعمیر میںصرف لکڑی استعمال کی جاتی تھی۔ برطانوی ڈیزائنرکیپٹن کوپرکولز( captain Cowper Phipps Coles) نے بالکل نئی طرز کا بحری جہاز ڈیزائن کیا جسیایک برطانوی فرم نے بنایا۔ اس جہاز میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے اوپر توپوں کا عرشہ متحرک بنایا گیا تھا جس پر توپیں چونکہ چاروں طرف حرکت کرسکتی تھیں۔ اس لئے نشانہ لینے میں آسانی رہتی تھی۔ کوپر کولز نے اس جہاز کو دیکھ کر اس کی بناوٹ میں بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ ان خامیوں کے فرق کو ظاہر کرنے کیلئے اس نے خود ایک جہاز بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس جہاز کا نام ''کیپٹن‘‘ رکھا۔ اس پر بھی متحرک توپوں کا عرشہ بنایا گیا۔ اس کے فری بورڈ کی چوڑائی صرف 9 فٹ تھی۔ اس کے علاوہ اس کی بیرونی دیواروں کی اونچائی بھی خاصی کم تھی۔ کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ جہاز طوفانی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جہاز پر موجودہ فالتو بادبان نصب تھے۔ کوپر کولز کے کہنے کے مطابق ان بادبانوں کا مقصد جہاز کے توازن کو برقرار رکھنا تھا لیکن ماہرین نے ان بادبانوں کو جہاز پر خطرناک بوجھ قرار دیا۔مکمل ہونے کے بعد'' کیپٹن‘‘ کو اس کے مد مقابل جہاز کے ساتھ ایک آزمائشی سفر پر روانہ کیا گیا۔ آزمائش کے دوران ''کیپٹن‘‘ نے دوسرے جہاز کے مقابلے میں اس قدر بہتر کارکردگی دکھائی کہ جہاز کی مخالف میں اٹھنے والی تمام آوازیں دب کر رہ گئیں۔ آخر کار اعلیٰ حکام نے مطمئن ہونے کے بعد ''کیپٹن‘‘ کو میڈی ٹرینین کے بحری بیڑے میں شامل کر دیا۔ اس بحری بیڑے کے ہمراہ کیپٹن 6 ستمبر1870ء کو سپین کے ساحل سے فوجی مشقوں کیلئے روانہ ہوا۔ ان فوجی مشقوں کا بنیادی مقصد لوہے کے بنے ہوئے جہازوں کی کارکردگی کا کھلے سمندر میں جائزہ لینا تھا۔پہلے ہی سفر میں طوفان، بارش اور سرکش موجوں نے بدقسمت جہاز پر یلغارکی اور حالات نہایت سنگین ہوگئے تو کپتان برجائن نے فوراً بادبان کھولنے کا حکم دیا لیکن اس سے بیشتر کہ باد بان کھولے جاتے ''کیپٹن‘‘ نے بھپرے ہوئے سمندر کے آگے سپر ڈال دی۔ ایک دیو قامت لہر آئی اور اس نے جہاز کو الٹا دیا۔ کپتان برجائن اور ڈیوٹی پر موجود دوسرے اہلکاروںنے چند لمحوں بعد خود کو کمر تک پانی میں ڈوبے ہوئے پایا۔ جہاز ایک طرف کو جھک گیا تھا لیکن ابھی پوری طرح الٹا نہیں تھا۔ اس بات کی تھوڑی امید تھی کہ شاید جہاز دوبارہ سیدھا ہوجائے لیکن طوفانی لہروں کے پے درپے ضربوں نے جہاز کو سیدھا ہونے کا موقع نہیں دیا۔کچھ دیر بعد جہاز پوری طرح الٹ گیا۔ سرکش لہریں جہاز کے اوپر چڑھ دوڑیں جہاز کی خالی جگہوں میں سمندر کا پانی تیز رفتاری سے داخل ہونے لگا اور ہرطرف چیخ و پکار بلند ہونے لگیں۔ جہاز کے نچلے حصوں میں موجود تمام افراد جہاز الٹنے کے صرف بیس سیکنڈ بعد ختم ہوگئے۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے رابرٹ ہرسٹ نامی ایک ملاح کا کہنا ہے جہاز الٹنے سے چند لمحے بیشتر ہی میںایک ستون کو تھامے کھڑا تھا۔ میری کوشش تھی کہ حتی الامکان اپنے حواس کو قابو میں رکھوں۔ جب جہاز سمندر میں الٹ گیا تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح سمندر میں گر پڑا۔ پھر میں جہاز کے ساتھ ہی سمندر کی تہہ میں بیٹھتا چلا گیا۔ کافی نیچے جانے کے بعد میں نے اپنی قوت جمع کی اور سطح پر آنے کیلئے ہاتھ پائوں مانے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں سطح سمندر پر تھا، مجھے قریب ہی ایک لکڑی تیرتی ہوئی نظر آئی میں نے کئی دفعہ لکڑی پر اپنی گرفت مضبوط کرنی چاہی لیکن بپھری ہوئی لہروں نے میری یہ کوشش ناکام بنادی۔ اتنی دیر میں مجھے ایک لانچ نظر آئی۔ یہ لانچ اوپر سے کینوس کے ساتھ ڈھکی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ ہوا کے رخ پر کھسک رہی تھی۔ طوفان اور تاریک سمندر میں یہ امید کی واحد روشن کرن تھی۔ میں نے اپنی رہی سہی طاقت کو جمع کیا اور تیرتا ہوا لانچ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لانچ کے ساتھ اور بھی کئی افراد چمٹے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں جہاز کی وہ کشتی نظر آئی جو جہاز کے الٹتے وقت اس کے عرشے سے جدا ہوکر سمندر میں گر گئی تھی۔ یہ کشتی اس وقت سمندر میں اوندھے منہ ہوچکی تھی لیکن تیر رہی تھی۔ کپتان برجائن سمیت چھ افراد اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے ان میں سے چار نے کشتی کو چھوڑ دیا اور تیرتے ہوئے لانچ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب کپتان برجائن اور مے نامی ایک ملاح کشتی کے ساتھ رہ گئے تھے۔ اتنے میں ایک بلند لہر آئی اور اس نے لانچ اور کشتی کو ایک دوسرے سے دور ہٹا دیا ۔ تھوڑی دیر بعد مے نے بھی کشتی کو چھوڑ دیا اور بڑی ہمت سے تیرتا ہوا لانچ تک پہنچ گیا۔ کچھ افراد نے کپتان کی طرف چپو پھینکنے کی کوشش کی لیکن کپتان برجائن نے زبردست ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں چپو پھینکنے سے منع کردیا۔ اس نے چلا کر کہا خدا کیلئے میری خاطر اپنی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالو۔ تمہیں چپوئوں کی سخت ضرورت ہے۔ اس نے اپنے طورپر تیر کر لانچ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن جونہی اس نے کشتی کو چھوڑا کشتی ایک جھٹکے کے ساتھ اس کے سر سے ٹکرائی ایک لمحے میں کپتان برجائن کی جدوجہد ختم ہوگئی اور اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیئے اور گہرے پانیوں میں اتر گیا۔ لانچ پرموجود افراد نے تھوڑی دیر بعد ایک بڑے جہاز کی روشنیاں دیکھیں یہ ان کا سٹینٹ نامی جہاز تھا۔ بہت چیخ و پکار کی لیکن جہاز تک ان کی آواز نہ پہنچ سکی۔ لانچ پر صرف 18 چپو موجود تھے جوصبح تک بپھری ہوئی لہروں کا مقابلہ کرتے رہے اور آخر کار کیوبن کی بندرگاہ کی روشنیاں دکھائی دیں۔ موت کے سمندر میں گھرے ہوئے قافلے نے زندگی کی دریافت کرلی۔ دوبارہ زندگی پانے کی خوش صرف اٹھارہ افراد کے حصے میں آئی تھی جبک '' کیپٹن ‘‘کے پانچ سو آفیسر اور جوان سمندر کی گہرائیوں میں کھو گئے تھے۔ جب اس حادثے کی خبر انگلینڈ پہنچی تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔

آج کا دن

آج کا دن

انڈونیشیا میں شدید زلزلہ2جولائی 2013ء کو انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں شدید زلزلہ آیا۔ زلزلے کی شدت6.1ریکارڈ کی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق اس حادثے میں تقریباً35افراد ہلاک جبکہ276زخمی ہوئے۔ جزیرے پر موجود تقریباً4ہزار300گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ زلزلے کے بعد آفٹر شاکس نے بھی کافی گھروں کو نقصان پہنچایا۔ مرکزی زلزلے کے بعد جو گھر تباہ نہیں ہوئے وہ آفٹر شاکس برداشت نہیں کر سکے اور زمیں بوس ہو گئے۔حالیہ تاریخ میں یہ انڈونیشیا میں آنے والا بدترین زلزلہ تھا جس نے سماٹرا جزیرے کو شدیدنقصان پہنچایا۔مسافربحری جہاز پر حملہایس ایس ایرونڈورا سٹار اصل میں بلیو سٹار لائن کا ایک برطانوی مسافر بحری جہاز تھا۔اسے1927ء میں ایک سمندری لائنر کارگو جہاز کے طور پر بنایا گیا تھا۔1929ء میں اس جہاز کو کروز جہاز میں تبدیل کر دیا گیا اور دوسری عالمی جنگ کے دوران اسے بطور فوجی دستہ بھی استعمال کیا گیا۔ جون1940ء کے آخر میں اسے اطالوی اور جرمن شہریوں کو جنگی قیدیوں کے ساتھ کینیڈا لے جانے کا کام سونپا گیا ۔ 2جولائی 1940ء کو آئر لینڈ کے ساحل پر ایک جرمن بوٹ نے اس پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میںیہ سمندر میںڈوب گیا۔ حادثے میں تقریباً800افراد ہلاک ہوئے ۔مارسٹن مور کی جنگمارسٹن مور کی جنگ 2 جولائی 1644ء کو تین ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران لڑی گئی تھی۔ یہ انگلستان میں ہونے والی خانہ جنگی کا دور تھا۔ لیون نے رائن کے پرنس روپرٹ اور نیو کیسل کے مارکیس کے زیر قیادت رائلسٹوں کو شکست دی۔موسم گرما کے دوران یارک کا گھیراؤ کیا گیا جس کے بعد اتحادی افواج نے شہر کو قبضے سے چھڑوانے کیلئے مخالف افواج کا مقابلہ کیا اور شہر کو آزادکروانے میں کامیاب ہو گئے۔ 

پتھر کا زمانہ:لوگ کیا کھاتے تھے؟

پتھر کا زمانہ:لوگ کیا کھاتے تھے؟

آج کے مشینی دور میں جہاں انسان نے پیدل چلنا، سادہ غذا کھانا، وقت پر سونا،جاگنا اور کھانا تقریباً ترک کر دیا ہے ۔وہیں اس کی صحت کے مسائل بھی دن بدن اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔جہاں تک نوجوان نسل کی ایک جماعت کا تعلق ہے وہ بیک وقت دو کشتیوں میں پیر پھنسائے نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ سمارٹ ہونے کیلئے بے تاب ہیں جبکہ دوسری طرف وہ مرغن غذائوں اور فاسٹ فوڈ کو چھوڑنے پر بھی آمادہ نہیں۔دراصل آج کے نوجوانوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ایک طرف وہ سمارٹ اور خوبصورت نظر آنے کے چکر میں جم بھی باقاعدگی سے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف مضحکہ خیز طور پر وہ جم سے سیدھا فاسٹ فوڈکھانے چل پڑتے ہیں ۔ عام طور پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک سنجیدہ اور دوسرے غیر سنجیدہ۔ بدقسمتی سے دور حاضر میں خوراک کے استعمال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے جو صرف زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں جبکہ دوسرا طبقہ جو زندہ ہی صرف کھانے کیلئے ہے ان کی گواہی گلی گلی کھلے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس ہیں۔ کھانے کے معاملے میں جہاں تک غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے طبقے کا تعلق ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے صحت کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔جہاں تک اس کے برعکس دوسرے طبقے کا تعلق ہے ، اگرچہ وہ کل ملکی آبادی کا بمشکل ایک یا دو فیصد ہو گا لیکن اس طبقے کو ہر وقت اپنی صحت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ چنانچہ یہ اپنی استطاعت کے مطابق حکیموں اور ڈاکٹروں سے رابطے میں رہتا ہے جبکہ صاحب ثروت حضرات اپنی خوراک بارے ماہر غذائیات (نیوٹریشنسٹ ) سے باقاعدہ طور پر ڈائیٹ چارٹ بنوا کر اپنی خوراک کا صحیح تعین کرتے رہتے ہیں۔ آج سے دو تین عشرے قبل یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ مارکیٹ میں دستیاب سبزیاں ، پھل اور دیگر اشیائے خور و نوش غیر نامیاتی ہوتی ہیں کیونکہ ان کی تیاری میں مصنوعی کھاد سے لے کر کیڑے مار مصنوعی ادویات استعمال کی جاتی ہیں ، جو انسانی صحت کیلئے مضر ہیں جبکہ نامیاتی (آرگینک) اجناس چونکہ قدرتی طریقوں سے پروان چڑھتی ہیں اس لئے یہ انسانی صحت کیلئے مفید اور بے ضرر ہوتی ہیں۔ ایک طرف نامیاتی اجناس کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا تو دوسری طرف ان کی قیمتیں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ نتیجتاً غیر نامیاتی اشیاء کو بھی نامیاتی ظاہر کر کے بیچا جانے لگا تو لوگوں کا رفتہ رفتہ نامیاتی اور غیر نامیاتی اجناس سے بھی اعتقاد اٹھ گیا۔کچھ عرصہ پہلے انسان کو جب تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلا کہ پتھر کے زمانے یعنی ''پیلیو لتھک‘‘ ( Paleolithic )دورکا انسان صحت مند ، انتھک اور زیادہ محنت کرنے والا تھا۔ تو اسے تجسس ہوا کہ آخر اس کی صحت مندی کا راز کیا تھا ؟۔ خوراک کے بارے محتاط افراد کے تجسس میں جب اضافہ بڑھا تو ذرخیز ذہنوں نے اس کا سبب اس دور کے انسانوں کی خوراک کو بتایا۔ اپنی خوراک بارے محتاط رویہ رکھنے والوں نے یہ کھوج لگانا شروع کیا کہ '' پیلیو غذائیں‘‘ یعنی ''پیلیولتھک‘‘ دور میں ہمارے آبائو اجداد کی خوراک آخر کن کن اشیا پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ (ماہرین اور تاریخ دان 25 لاکھ سال سے لے کر آج سے 10 ہزار سال پہلے تک کے دور کو ''پیلیو لتھک‘‘ دور شمار کرتے ہیں)بادی النظر میں اگرچہ یہ تحقیق مشکل تھی کیونکہ یہ دور، تاریخ نویسی سے بھی پہلے کا دور تھا۔ لیکن معلوم تاریخی حوالوں اوربعض روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس دور کا انسان پہلے پہل جڑی بوٹیوں اور درختوں سے اپنی غذا حاصل کرتا رہا اور پھر جب اس نے اپنی حفاظت کیلئے جنگلی جانوروں کا شکار کرنا شروع کیا تو اسے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شکار کی شکل میں اسے ایک نئی خوراک کا ذریعہ مل چکا تھا۔پیلیو خوراک کی جانکاری کے تجسس نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو شکاریوں کے اور قریب کر دیا تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ آخر شکاری قبائل کیا کھاتے تھے؟۔ ان ہی سائنس دانوں میں امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے شعبہ بشریات و عالمی صحت کے ایک پروفیسر ڈیوک پونٹرز بھی تھے جنہوں نے تنزانیہ کے ایک قدیم ترین شکاری قبیلے '' ہڈ زابی‘‘ کے لوگوں کے ساتھ دس سال کا طویل عرصہ گزارا ۔ایک ہزار نفوس پر مشتمل ''ہڈزابی‘‘ (Hadzabe) نامی قبیلہ دور حاضر میں شاید واحد قبیلہ ہے جس نے ابھی تک غاروں کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔مورخین اس قبیلے کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ قبیلہ ممکنہ طور پر پتھر کے زمانے کا تسلسل ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ صدیاں بیت گئیں لیکن اس شکاری قبیلے نے نہ تو اپنا طرز زندگی بدلا اور نہ ہی اپنی خوراک۔ پروفیسر پونٹرز کہتے ہیں ''ہڈ زابی‘‘ قبیلے کے لوگ فصلیں اُگانے یا جانور پالنے کی بجائے عمومی طور پر حالت سفر میں رہتے ہیں۔ وہ دن میں اوسطاً دس کلومیٹر کا پیدل، ننگے پائوں سفر کرتے ہیں، جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں،جڑوں والی سبزیاں کھاتے ہیں، شہد اکٹھا کرتے ہیں، بیر اور پانی جمع کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے ٹھکانوں پر آ جاتے ہیں۔''پیلیو غذا ‘‘اصل میں ہے کیا ؟ ''پیلیو غذا‘‘ بنیادی طور پر پتھر کے زمانے کے ہمارے آبائواجداد کی خوراک کو کہتے ہیں۔ اس دور کے لوگوں کو شکار کر کے یا جنگلی جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے اپنی خوراک جمع کرنا پڑتی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روایات اور دستیاب شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ''پیلیو غذا‘‘ گوشت ، مچھلی، پھل، شہد اور گری دار میوے پرمشتمل ہواکرتی تھی۔ چونکہ یہ دور زراعت کی ترقی سے پہلے کا دور تھا اس لیے اس میں مختلف اجناس، پھلیاں اور ڈیری شامل نہیں ہواکرتا تھا۔دور جدید میں اس خوراک کے پس پردہ دراصل یہ سوچ کارفرما ہے کہ غار میں رہنے والے انسان کی طرح کھائیں اور اپنا وزن گھٹائیں۔ وہ لوگ جو پتھر کے زمانے کی طرح خوراک کھاتے ہیں ان کا یہ پختہ یقین ہے کہ یہ خوراک انہیں صحت مند بناتی ہے۔یہاں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ پیلیو خوراک لیتے کیسے ہیں ؟ کیونکہ اس خوراک میں پھل، سبزیاں، بغیر چربی گوشت، مچھلی، انڈے، میوے اور اجناس شامل ہیں۔ اس خوراک کے حامی، تمام اجناس، ڈیری مصنوعات اور مصنوعی شکر سے اجتناب برتنے کی تلقین کرتے ہیں۔''پیلیو غذا ‘‘بارے عالمی رد عملماضی قریب میں تیزی سے مقبول ہونے والی ''پیلیو ڈائٹ‘‘ بارے اب بھی لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ ماضی کے برعکس انہیں دور جدید میں استعمال کرنا سود مند ہے یا نہیں ؟۔ پیلیو غذا اور روائتی امریکی غذا بارے سان فرانسسکو میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں اس غذا کے کچھ فوائد بھی ہیں مثلاً تیزی سے وزن کم کرنے، بلڈ پریشر اوربلڈ شوگر کی سطح کو معمول پر لانے میں یہ غذا مدد گار ثابت ہوئی ہے۔سویڈن کے سائنس دانوں نے ایک تحقیق میں روائتی ہائی کاربوہائیڈریٹ اسکنڈ ینیوین غذا کے مقابلے میں پیلیو غذا کو بہتر پایا، بالخصوض ٹرائی گلیسٹرائیڈز اور لپڈس کی خون کی سطح میں یہ تیزی سے کمی کا باعث بنتی ہیں۔ سویڈن ہی کی یونیورسٹی آف اومی کی پروفیسر، کیرولین میلبرگ کا کہنا ہے کہ ہاں پیلیو خوراک کی یہ بات اچھی ہے کہ یہ تمام غیر صحت مند غذائوں کی نفی کرتی ہے ، خاص طور پر زیادہ کیلوریز والے ''جنک فوڈز‘‘ کی جبکہ کچھ ماہر غذائیات کے مطابق ڈیری مصنوعات، پھلیاں اور اناج سے پرہیز کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جبکہ سویڈن میںکینسر سینٹر کی کلینکل نیوٹریشنسٹ سٹیفنی میکسن کہتی ہیں ، ان غذائوں میں (اجناس اور ڈیری مصنوعات ) اہم غذائی اجزا شامل ہوتے ہیں جو کئی بار ثابت ہو چکے ہیں۔

آگرہ کے تاریخی مقامات

آگرہ کے تاریخی مقامات

آگرہ ایک عظیم تاریخ کا حامل شہر ہے۔ آگرہ بذات خود ایک خوبصورت لفظ ہے جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہ شہر ان شہروں میں سے ہیں جسے مغلوں سے پہلے افغانوں نے آباد کیا۔ ستیا چندرا مکھر جی کی کتاب جو 1882ء میں شائع ہوئی میں درج ہے کہ ابراہیم لودھی کے والد سکندر لودھی نے 1504ء میں اپنا پایہ تخت دلی سے یہاں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے کی تاریخ کا کسی کو صحیح علم نہیں ہے۔ مکھر جی نے لکھا ہے ایک یونانی سیاح جو دوسری صدی میں یہاں پر آیا اس نے شہر کا تذکرہ آگرہ کے نام سے کیا ہے۔ مہا بھارت میں بھی اس کا ذکر ''آگراوانہ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔محمود غزنوی کے حملوں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ یہ ایک غیر آباد گائوں تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی۔ مکھر جی کے مطابق محمود غزنوی کے وقت یہ ایک بہت چھوٹا سا گائوں تھا اور اس کے پانچ سو سال بعد ابراہیم لودھی نے اسے آباد کرنا شروع کیا اور جب مغلوں نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو آگرہ کی حیثیت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔اس تاریخی شہر میں سیاحوں کیلئے کئی یادگاریں موجود ہیں۔ پڑھئے آگرہ کے چند تاریخی مقامات کے بارے میں۔آگرہ کا قلعہجب بابر نے پانی پت میں لودھی کو شکست دی تو اس نے دلی میں رہنے کی بجائے آگرہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت یہاں پر بہت زیادہ عمارتیں موجود نہیں تھیں۔ بابر نے اپنی ضرورت کے مطابق کچھ عمارات تعمیر کیں لیکن انھیں قلعے کی بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ قلعے کی شکل و صورت اکبر کے دور میں بنی۔ بابر کے بعد ہمایوں کو جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی وفات کے بعد جب اکبر کو بادشاہت ملی تو اس نے آگرہ میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔1638ء تک یہ قلعہ مغلیہ سلطنت کی رہائش گاہ تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت کو آگرہ سے دہلی منتقل کردیا گیا۔ آگرہ کے قلعے کا شماریونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ یہ تاج محل سے 5 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس قلعہ میں جہانگیری محل اور موتی مسجد بھی واقع ہے۔ آگرہ قلعے کے سامنے آگرہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ سیاحوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہے۔تاج محل1632ء میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے تعمیر کرنے میں 22 سال لگے تھے۔ تاج محل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے مشہور تاریخی مقام ہے۔ پوری عمارت کو سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہندوستان کو تاج محل کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اتنا مقبول ہے کہ دبئی میں تاج محل کی طرز کا شاپنگ کمپلیکس اور ہوٹل بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہوٹل اصل تاج محل سے4 گنا بڑا ہوگا۔ہمایوں کا مقبرہ ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کا شاہکار ہمایوں کا مقبرہ ملک کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ایک لحاظ سے ہمایوں کا مقبرہ وہ پہلی بڑی عمارت تھی جو مغلوں نے ہندوستان میں بنائی۔ اس عمارت کی تعمیر میں پہلی بار سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا۔ یہ مقبرہ اور اس سے ملحقہ باغات، ہمایوں کی بیوی حاجن بیگہ بیگم نے اپنے شوہر کی یاد میں بنوائی تھی۔ پھر اس کے بعد بہت ساری بیگمات نے اپنے شوہروں اور بہت سارے شوہروں نے اپنی بیگمات کے مزارات بنوائے، جیسے لاہور میں جہانگیر کا مقبرہ اس کی بیگم نے بنوایا۔ اسی طرح سے تاج محل، ممتاز محل کے خاوند شاہجہاں نے بنوایا اور یوں مغلوں میں یہ رواج عام ہو گیا۔مغلوں نے مقبرے کو صرف مقبرہ ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے اردگرد اتنے خوبصورت باغات بنوائے کہ وہ باقاعدہ تفریحی مقامات بن گئے۔اعتمادالدولہ کا مقبرہآگرہ کے قلعے سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر اعتمادالدولہ کا مقبرہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کی دیگر عمارتوں سے اس کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ اسے جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والدغیاث الدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تاج محل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ اکبر کا مقبرہ یہ عمارت آگرہ کے مضافات سکندر میں ہے۔ یہ آگرہ شہر سے8 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی مزار ہے۔ اسے شہنشاہ اکبر ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروالیتے تھے۔ تاہم، اکبر کے بیٹے جہانگیر نے والد کی موت کے بعد اس کا تعمیراتی کام مکمل کروایا تھا۔ یہ عمارت ایک بڑے پتھر پر استادہ ہے۔

ریڈ بیچ: مہاجر پرندوں کی آماجگاہ

ریڈ بیچ: مہاجر پرندوں کی آماجگاہ

ہر خزاں میں چین میں خلیج بوہائی کے شمال مشرق میں واقع پانجن ریڈ بیچ ہجرت کرنے والے پرندوں سے بھر جاتا ہے۔ تقریباً 100 طرح کے نایاب پرندے، بشمول سرخ تاج والی کونجیں، سفید کونجیں، مشرقی سفید سارس، جنگلی ہنس اور بطخیں، دلدلی علاقے میں قیام، آرام اورسرما میں اپنے سفر جنوب کیلئے طاقت بحال کرتے ہیں۔مقامی ماحولیات میں بہتری کے ساتھ، کہیں زیادہ پرندے سردیاں گزارنے کیلئے اسے منتخب کر چکے ہیں، جس سے یہ علاقہ پرندوں کی جنت بن چکا ہے۔ یہ شمال میں سب سے دور مقام ہے جہاں جنگلی سرخ تاج والی کونجیں موسم سرما گزارتی ہیں۔ یہ اپنے نام کی طرح ریتیلا ساحل نہیں ہے، ریڈ بیچ دنیا میں سب سے زیادہ عمدگی سے محفوظ کیا گیا دلدلی علاقہ ہے اور حیاتی تنوّع اور مرطوب مقام کے تحفظ پر تحقیق میں ایک عمدہ مقام رکھتا ہے۔ تقریباً 287 قسم کے پرندے، بشمول سفید ہنس، ایگرٹ، ہیرون، گرگانے اور سوان گوس جیسے بگلوں اور بطخوں پر مشتمل نایاب سمندری پرندوں کی درجنوں اقسام، اس زمین پر سکونت اختیار کرتی ہیں۔ یہ سانڈرز کی مرغابیوں اور فوکا لارگھا پلاس کی افزائش نسل کا مقام بھی ہے۔چین کے سیاحتی اداروں کی جانب سے کی گئی درجہ بندی میں پانجن ریڈ بیچ کو مرطوب مقامات کی سیاحت کے لیے مثالی مقامات کی پہلی فہرست میں درج کیا گیا ہے۔ 3,149 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا یہ دنیا کا سب سے بڑا مرطوب مقام ہے۔قرمزی سرخ رنگ کی گھاس جو سالانہ 50 میٹر سمندر کی طرح پھیلتی ہے، یہ مرطوب علاقہ مثالی خوبصورتی کا حامل ہے، کیونکہ دنیا بھر میں ساحلی علاقوں کی گھاس عموماً سبز ہوتی ہے۔ مقامی افراد اس زمین کو فطرت کا خزانہ سمجھتے ہیں۔خزاں کے اواخر میں اس کے ساحلوں پر بننے والی سخت دلدل شوخ سرخ رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ ریڈ بیچ کے سفر کا بہترین وقت مئی سے اکتوبر کے درمیان کے مہینے ہے۔ مختلف رنگوں کا یہ منظر آنکھوں کیلئے بہت پرلطف ہوتا ہے۔ سرخ دلدلی علاقے کے علاوہ سبز سرکنڈے، سیاہ خام تیل، نیلا سمندر، دھان کے سنہرے دانے، سرمئی کیکڑے اور سفید سمندری بگلے ہیں۔ آکسیجن سے بھرپور شفاف ہوا تازہ دم کر دینے والی ہے۔پانجن شہر نے سیاحت کیلئے اس مقام پر کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان سہولیات میں گرم چشمے، مہمان خانے، عجائب گھر اور ریستوران ہیں جن تک رسائی بہت آسان ہے۔