فتح جنگ

فتح جنگ

اسپیشل فیچر

تحریر :


ضلع اٹک کا شہر اور ایک تحصیل۔ یہ قصبہ راولپنڈی کوہاٹ ریلوے لائن پر راولپنڈی سے 48کلومیٹر اور اور اٹک سے45 کلومیٹر کے فاصلے پر کالا چٹا پہاڑ کے دامن میں ایک سر سبز و شاداب کُھلی وادی میں آباد ہے۔ یہاں سے پنڈی سلطان ، ڈھلیان اور اٹک کو پختہ سڑکیں جاتی ہیں۔ روایت کے مطابق راجہ اِندر نامی کسی قدیم ہندو راجہ نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا، جس کی وجہ سے یہ آبادی اِندر کوٹ کے نام سے پہچانی جانے لگی، تاہم اس کا موجودہ نام یہاں کے جدید آبادکاروں کے کسی بزرگ سے منسوب ہے جنہوں نے کئی جنگیں لڑیں اور ہمیشہ فتح پائی۔ اِس شہر کے محلہ اِندر کوٹ میں آج بھی پرانے وقتوں کی ایک مسجد موجود ہے۔ اس کے طرزِ تعمیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسجد سینکڑوں سال قدیم ہے۔ یہ مسجد پتھر، چھوٹی اینٹ اور چونے گچ سے تعمیر شدہ ہے۔ اپنی اصلی حالت میں تین گنبد والی یہ مسجد ایک ایوان پر مشتمل ہے۔ درمیان والا گنبد کسی وقت شہید ہو گیا تھاچنانچہ اسے از سرِ نو تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مسجد اُن آثار قدیمہ میں سے ہے جنہیں ملکی قانون کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔سکھوں کے دَور میں علاقائی جاگیردار مقامی حاکم رہے اور سکھ حکومت کو مالیہ ادا کرتے رہے۔ انگریزی عہد میں فتح جنگ راولپنڈی کی تحصیل بنی، پھر 1940ء میں اٹک ضلع بنا ،تو اس میں شامل کر دیا گیا۔ اس وقت تحصیل میں203 دیہات شامل تھے اور یہ 1393مربع کلومیٹر پر مشتمل تھی۔1891ء میں اس تحصیل کی آبادی 113041 افراد پر مشتمل تھی۔ اس کے شمال میں کالا چٹا کا کچھ میدانی علاقہ، جنوب میں خیری مور ت کی شاداب وادی جبکہ ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں مشرق کی سمت تنگ اور مغرب کی طرف کھلا میدانی علاقہ ہے۔ فروری1910ء میں فتح جنگ کو نوٹیفائیڈ ایریا قرار دیا گیا جبکہ جنوری1924ء میں سمال ٹائون کمیٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ بعد ازاں ٹائون کمیٹی اور پھر میونسپلٹی کا درجہ ملا۔ آجکل تحصیل فتح جنگ14 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔1919 ء کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں پولیس اسٹیشن، تحصیل دفاتر، پوسٹ آفس، ریلوے اسٹیشن اور ڈسپنسری موجود تھے۔اب یہاں طلبا و طالبات کے ڈگری کالجز، کامرس کالج ، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال، متعدد سرکاری و غیر سرکاری سکول اور ایک بڑی غلہ منڈی موجود ہیں۔ یہاں لڑکوں کا کالج1976 ء میں انٹر سطح پر بنا تھا جبکہ گرلز کالج 1983ء میں قائم ہوا۔ 2004 ء میں اپنی نئی عمارت میں منتقل ہوا۔2007 ء میں ڈگری کا درجہ حاصل ہوا غلہ منڈی والی مسجد کا نامـ ’’ــمشہورمسجد‘‘ہے۔ مسجد کے ساتھ ایک دینی مدرسہ بھی ہے۔ انگریزوں کے عہد میں فوجی ضروریات کے لیے یہاں ایک چھوٹا ہوائی اڈہ قائم کیا گیا تھا۔ اب یہ پاک فضائیہ کی تحویل میں ہے اور ٹریننگ سنٹر کے طور پر کام آتا ہے۔ فتح جنگ کی لکڑی کی بنائی ہوئی چھوٹی بڑی کنگھیاں پورے پاکستان میں مشہور ہیں، یہاں وولن انڈسٹری بھی ہے جبکہ مونگ پھلی کی کاشت عام ہوتی ہے۔ فتح جنگ میں گھیبہ، الپیال، اعوان، بھٹی، گُجر، ملیار اور مغل قوموں کے افراد آباد ہیں۔ جنرل (ر) محمد شریف اور جنرل (ر) محمد اقبال کا تعلق یہیں سے تھا۔ محمد ریاض کاوش یہاں کے شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔فتح جنگ میاں والی روڈ پر15کلومیٹر کے فاصلے پر گلی جاگیر کا مقام ہے۔ یہاں سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کا مکسنگ پلانٹ ہے اور یہاں سے پنجاب کے کئی شہروں کو گیس فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سکھوال کے مقام پر مشہور آئل اینڈ گیس فیلڈ ہے۔ یہاں سے گیس 1980ء میںدریافت ہوئی اور یہ مقام فتح جنگ سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ( اعزاز فضیلت پانے والے لکھاری اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
 ہماری محبت کے منتظر سماج کے دھتکارے لوگ

ہماری محبت کے منتظر سماج کے دھتکارے لوگ

معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر دنیا بھر میں ہر سال 3 دسمبر کو معذوری کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد معذور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں معذور افراد کو روزمرہ زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں وسائل کی کمی اور سماجی رویے ان کیلئے مزید رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 80 فیصد ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد 14 ملین کے قریب ہے، جس میں بچے خاصی بڑی تعداد میں شامل ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود، معذوری کو ہمارے ہاں اکثر ایک نظرانداز شدہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں معذوری کے حوالے سے مختلف اعداد و شمار اور حقائق سامنے آتے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق، ملک میں معذور افراد کی شرح 2.5 فیصد ہے۔ اگرچہ یہ شرح بظاہر کم معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں معذور افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں معذوری کے اعداد و شمار درست طور پر جمع نہیں کیے گئے۔ صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب میں معذور افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جبکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی یہ شرح قابل ذکر ہے۔پاکستان میں معذوری کی اقسام میں جسمانی معذوری سب سے زیادہ عام ہے، جو کل معذور افراد کا 33 فیصد ہے۔ اس کے بعد ذہنی معذوری 21 فیصد، بصری معذوری 15 فیصد، اور سماعتی معذوری 9 فیصد ہے۔ کثیرالجہتی معذوری بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جو 19 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ان معذوریوں کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت، جینیاتی عوامل، جنگی حالات، اور قدرتی آفات شامل ہیں۔پاکستان میں معذور افراد کے مسائل اور چیلنجز بے شمار ہیں۔ تعلیم، روزگار اور صحت کی سہولیات میں عدم دستیابی ان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ خصوصی تعلیمی اداروں کی کمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر رسائی معذور افراد کو روزمرہ زندگی میں مشکلات کا شکار بناتی ہے۔ ان مسائل کی شدت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب سماجی رویے معذور افراد کو بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔حکومتی سطح پر معذور افراد کیلئے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن ان کی عملی حیثیت اور اثرات محدود ہیں۔ 1981ء میں معذور افراد کیلئے ملازمت میں 1 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا۔ 2002ء میں معذور افراد کیلئے ایک قومی پالیسی متعارف کرائی گئی، جس کا مقصد تعلیم، بحالی اور شمولیت کے ذریعے معذور افراد کی حالت بہتر بنانا تھا۔ اس کے علاوہ، ضیاء الحق کے دور حکومت میں معذور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف اقدامات کیے گئے۔ ان کی صاحبزادی کی معذوری کی وجہ سے اس مسئلے پر خاصی توجہ دی گئی۔ اس دور میں میڈیا کو معذوری کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور خصوصی ادارے قائم کیے گئے۔آج کل پاکستان میں معذور افراد کیلئے مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں تعلیم، صحت، اور بحالی کے میدان میں معذور افراد کو مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس حوالے سے کئی نجی ادارے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ تاہم، ان تنظیموں کے وسائل محدود ہیں اور ان کے کام میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جن میں حکومتی تعاون کی کمی اور مالی وسائل کی قلت شامل ہیں۔اگرچہ پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اب بھی معاشرے کے بڑے حصے میں معذوری کو ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ معذور بچوں کے والدین انہیں اکثر سماجی تقریبات میں لے جانے سے گریز کرتے ہیں، اور انہیں عام بچوں کے ساتھ شامل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہ رویے معذور افراد کی نفسیاتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور ان کیلئے معاشرتی زندگی میں شمولیت کو مشکل بنا سکتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت، نجی شعبے، اور معاشرے کے تمام افراد کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ معذور افراد کو مساوی مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ درج ذیل تجاویز اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں:1)معذوری کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔2 )معذور افراد کیلئے مفت یا سبسڈی پر طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔3 )تعلیمی اداروں میں خصوصی انتظامات کیے جائیں تاکہ معذور طلباء کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔4 )پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات کو معذور افراد کیلئے قابل رسائی بنایا جائے۔5 )معذور افراد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے خصوصی تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے۔حکومت پنجاب اس حوالے سے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس حوالے سے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں معذور افراد کیلئے ہمت کارڈز کا اجرا اورپہلے آٹزم سکول کاقیام ہے۔پاکستان میں معذور افراد کے مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور انہیں معاشرے کا فعال حصہ بننے کا موقع دیں تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان میں معذوری کی اقسام٭... جسمانی معذوری سب سے زیادہ عام ہے، جو کل معذور افراد کا 33فیصد ہے۔٭... ذہنی معذوری 21 فیصد، بصری معذوری 15 فیصد، سماعتی معذوری 9 فیصد ہے۔٭... کثیرالجہتی معذوری بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جو 19 فیصد افراد کو متاثر کرتی ہے۔وجوہات: معذوریوں کی بنیادی وجوہات میں غذائی قلت، جینیاتی عوامل، جنگی حالات اور قدرتی آفات شامل ہیں۔ 

معلومات کی ترسیل اور تصدیق کا فقدان

معلومات کی ترسیل اور تصدیق کا فقدان

ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹر موجودہ دور میں معلومات کی ترسیل کا اہم ترین ذریعہ بن چکے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات لوگوں کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں مگریو نیسکو کے ایک سروے کے اعدادوشمار حیران کر دینے والے ہیں کہ دنیا بھر کے 62 فیصد ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹر انٹرنیٹ پر معلومات شیئر کرنے سے پہلے اپنے مواد کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس سروے میں 45 ممالک سے 500 تخلیق کاروں سے بات کی گئی اور اس عمل میں امریکہ کی بولنگ گرین سٹیٹ یونیورسٹی سے محققین کی ٹیم بھی شامل تھی۔ سروے کے نتائج کچھ یوں ہیں کہ 42 فیصد لوگ سوشل میڈیا پر پوسٹ کے لائیک اور شیئر کی تعداد کو اس کی صداقت کا اہم معیار سمجھتے ہیں جبکہ 21 فیصد لوگ اپنے دوستوں کے شیئر کئے گئے مواد پر بھروسا کرتے ہوئے اسے اپنے اکاؤنٹس پر ڈال دیتے ہیں۔ 19فیصد تخلیق کاروں کا یہ کہنا تھا کہ وہ معلومات کے اصل مصنف کی شہرت کی بنیاد پر اس کی سچائی کو پرکھتے ہیں۔73 فیصد تخلیق کاروں نے معلومات کی تصدیق کرنے کی مہارت کو سیکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ اس ضمن میں صحافی ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کے اہم معاون ثابت ہو سکتے ہیں، مگر ان دونوں پیشوں میں تاحال کوئی گہرا تعلق قائم نہیں ہو سکا۔ عام میڈیا اب بھی ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کیلئے معلومات کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے اور وہ زیادہ تر میڈیا کی معلومات کے بجائے اپنے تجربات اور' تحقیق‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 59 فیصد ڈیجیٹل تخلیق کار اپنے حقوق اور بین الاقوامی قوانین سے لاعلم ہیں۔ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز میں سے صرف 56فیصد ایسے پروگرامز کے بارے میں جانتے ہیں جو ان کی تربیت کیلئے بنائے گئے ہیں اور ان میں سے بھی صرف 13.9 فیصد نے ایسے کسی تربیتی پروگرام میں شرکت کی ہے۔ یہ لاعلمی انہیں قانونی خطرات سے دوچار کرتی ہے اور ان کے حقوق کے دفاع میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔تقریباً 32 فیصد تخلیق کاروں نے بتایا کہ انہیں نفرت انگیز مواد کا سامنا ہوا لیکن صرف 20 فیصد نے اس کے خلاف شکایت درج کی۔ یونیسکو نے اس خلا کو پُر کرنے کیلئے حال ہی میں دنیا کا پہلا عالمی تربیتی کورس شروع کیا ہے جس میں 160 ممالک کے نو ہزار افراد حصہ لے رہے ہیں۔ یہ کورس تخلیق کاروں کو معلومات کی تصدیق، مستند مواد کی تشہیر اور غلط معلومات کی نشاندہی کی تربیت فراہم کرے گا۔یونیسکو کے مطابق یہ کورس ڈیجیٹل دنیا میں تخلیق کاروں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور عالمی سطح پر معلومات کی شفافیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔''Behind The Screens‘‘ کے عنوان سے اس عالمی سروے کے نتائج دنیا بھر میں ڈیجیٹل مواد کے تخلیق کاروں کو معلومات کے حوالے سے بہتر تعلیم اور تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل کانٹنٹ کرییٹرز کی جانب سے حقائق کی جانچ میں کمی ان کیلئے غلط معلومات کی تشہیر کے خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔ مزید برآں تنقیدی سوچ کے بغیر یہ تخلیق کار حکومتوں اور برانڈز سمیت مختلف اداروں کی ہیرا پھیری کا شکار ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پراپنے تیار کردہ مواد میں صداقت اور ساکھ سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور یہ خطرات عوامی خیالات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی معیار اور قانونی ڈھانچوں کے بارے آگاہی کی کمی کی وجہ سے ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کو پیش آنے والے چیلنجز بڑھ چکے ہیں۔ یہ خلا نہ صرف انہیں اپنے مواد کے حقائق کاذمہ داری سے سامنا کرنے سے روک دیتا ہے بلکہ انہیں ممکنہ قانونی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ میڈیا اور معلوماتی خواندگی کی تربیت کو مستحکم کرنے سے ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز اظہارِ رائے کی آزادی کے حامی اور محافظ بن سکتے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے معاصر منظرنامے میں صحافیوں اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کے درمیان مضبوط تعاون ضروری ہے۔ جیسے جیسے روایتی صحافت اور ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے کے درمیان سرحدیں مدھم ہوتی جا رہی ہیں دونوں گروپوں کے پاس ایک دوسرے سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔باہمی تعاون کو فروغ دے کر ہم آن لائن شیئر کی گئی معلومات کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں اور چیلنجز کا اجتماعی طور پر سامنا کرتے ہوئے ڈیجیٹل سپیس میں سامعین کا اعتماد جیت سکتے ہیں۔اس کے لیے دنیا بھر میں ڈیجیٹل کانٹینٹ کرییٹرز کیلئے میڈیا اور معلومات کی خواندگی کو بہتر بنایا جانا ضروری ہے۔ مزید برآں تنقیدی سوچ کی مہارتوں کے بغیر یہ تخلیق کار مختلف اداروں ، حکومتوں اور برانڈز کے ذریعہ ' گمراہ‘ ہو سکتے ہیں اور یہ ان کی سچائی اور ان کے تیار کردہ مواد کی ساکھ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ خطرات عوامی سوچ پرنمایاں اثر ڈال سکتے ہیں اور ان پر اعتماد کو کمزور کر سکتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ہایا بوسا2 ''ہایا بوسا 2‘‘ جاپانی ریاستی خلائی ایجنسی کی جانب سے چلایا جانے والا ایک مشن تھا جسے 3دسمبر 2014ء کو لانچ کیا گیا اور اس نے ڈیڑھ سال تک ایسٹرائیڈز کے نمونے اکٹھے کئے۔ ''ہایا بوسا 2‘‘ نومبر 2019ء میں ایسٹرائیڈ سے الگ ہوا اور 5دسمبر 2020ء کو اس کے جمع کئے جانے والے نمونے زمین تک پہنچائے۔ اس مشن کو اب2031ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔''ہایا بوساٹو‘‘ میں ریموٹ سینسنگ اور سیمپلنگ کیلئے متعدد سائنس پے لوڈز شامل تھے۔ سیارچے کی سطح کی چھان بین کرنے اور جمع کیے گئے نمونوں کے ماحولیاتی اور ارضیاتی سیاق و سباق کا تجزیہ کرنے کیلئے چار چھوٹے روور بھی اس کا حصہ ہیں۔''ہو کنسرٹ حادثہ‘‘ ''ہو کنسرٹ حادثہ‘‘ ہجوم کی وجہ سے پیش آیا۔ 3دسمبر1979ء کو ایک انگریزی راک بینڈ ''دی ہو‘‘نے سنسناٹی،اوہائیو،ریاستہائے متحدہ امریکہ میں واقع ریور فرنٹ کولیزیم جسے اب ہیریٹیج بینک سینٹر کہا جاتا ہے میں فارم کیا۔لوگوں کی بہت بڑی تعداد کنسرٹ کے احاطے میں داخل ہونے کیلئے انتظار کر رہی تھی۔اندر داخل ہونے کی کوشش میں ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجے میں 11افراد ہلاک ہوئے۔مالٹا سمٹ ''مالٹا سمٹ‘‘ امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور سوویت جنرل سکریٹری میخائل گورباچوف کے درمیان ایک ملاقات تھی جو دیوار برلن کے گرنے کے چند ہفتے بعد 3 دسمبر 1989ء کو ہوئی ۔ دسمبر 1988ء میں نیویارک میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد یہ ان کی دوسری ملاقات تھی جس میں رونالڈ ریگن بھی شامل تھے۔ سربراہی اجلاس کے دوران، بش اور گورباچوف نے سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا، حالانکہ یہ واقعی ایسا تھا یا نہیں، یہ بحث کا موضوع ہے۔ اس وقت کی خبروں میں مالٹا سمٹ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے اہم قرار دیا گیا، جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل، سوویت جنرل سیکرٹری جوزف اسٹالن اور امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے یورپ کے لیے جنگ کے بعد کے منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ مارس پولر لینڈر''مارس پولر لینڈر‘‘ جسے ''مارس سروئیر98لینڈر‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے3جنوری1999ء کو امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے مریخ پر جنوبی قطب کے قریب واقع علاقے پلانم آسٹریل کی مٹی اور آب و ہوا کا مطالعہ کرنے کیلئے لانچ کیا گیا تھا ۔ اس روبوٹ کا وزن تقریباً290کلو گرام تھا۔یہ مارس سروئیر 98 مشن کا حصہ تھا۔ 3دسمبر1999ء میںاسے مارس پر لینڈ کرنا تھا لیکن یہ لینڈنگ سے کچھ وقت قبل ہی ناسا کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہا۔ 

مار اے لاگو اور دو کروڑ کا کتا

مار اے لاگو اور دو کروڑ کا کتا

دنیا بھر کے سربراہان مملکت سمیت نامور شخصیات کی رہائش گاہوں کو مخصوص ناموں سے تاریخ میں ہمیشہ بڑی اہمیت رہی ہے۔جیسے فرانسیسی صدر کی رہائش گاہ '' ایلیسی محل‘‘ ،چین کے صدارتی محل کو ''ژونگ نان ہائے‘‘، برطانوی ملکہ کی رہائش گاہ ''بکنگھم پیلس‘‘ جبکہ برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ''ٹن ڈائوننگ سٹریٹ‘‘ ، کراچی کا مہٹہ پیلس جو محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے باعث ''فاطمہ پیلس‘‘کہلایا جانے لگا۔ امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کو '' وائٹ ہاوس‘‘کی شہرت حاصل ہے۔دنیا کی بعض نامور شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی ذاتی رہائش گاہوں کو بھی تاریخی شہرت حاصل ہوئی، جیسے علامہ اقبالؒ کی ذاتی رہائش گاہ کو ''جاوید منزل‘‘ ، امریکی صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ کی ذاتی پرتعیش رہائش گاہ کو ''مار اے لاگو ‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس لحاظ سے شاید خوش قسمت تصور ہوں گے کہ امریکی تاریخ میں وہ دوسرے صدر ہیں جو ایک سو بیس(120) سال قبل گروور کلیولینڈ کے بعد دو بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے صدر ہی نہیں بلکہ ذاتی زندگی میں ایک سیاست دان ، میڈیا پرسن اور پراپرٹی ٹائیکون بھی ہیں۔دولت مند ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت جہاں ان کی جارحانہ طبیعت کی شہرت رکھتی ہے، وہیں ان کا شاہانہ طرز زندگی بھی اکثر موضوع بحث بنا رہتا ہے۔ فلوریڈا کے '' پام بیچ‘‘پر واقع ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ وسیع و عریض گھر '' مار اے لاگو‘‘ جو ایک کلب پر بھی مشتمل ہے ، ہر اس سہولت سے آراستہ ہے جس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ قلعہ نما یہ ریزورٹ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1980ء میں اس وقت خریدا تھا جب یہ ایک گمنام مالدار شخصیت تھے لیکن اتنے بھی مالدار نہ تھے جتنے اب ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد فلوریڈا میں واقع ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ رہائش گاہ سیاسی طور پر عالمی طاقت کا ایک نیا مرکز بن چکی ہے۔امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ دو بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ان پر پہلا حملہ رواں سال جولائی میں امریکی ریاست پینسلونیا میں ان کی انتخابی مہم کی ریلی کے دوران ہوا تھا جبکہ تقریباً دو ماہ بعد ان پر دوسرا حملہ مارا ے لاگو کے گولف کورس میں ہوا تھا۔واضح رہے کہ ان قاتلانہ حملوں کے بعد سے امریکی حکومت نے انہیں خصوصی سکیورٹی دینا شروع کر دی ہے اور وہ ہمیشہ ہائی الرٹ رہتے ہیں۔ جنوری 2005ء کے بعد اقتدار سنبھالنے کے بعد یقینی طور پر ان کی سکیورٹی میں ممکنہ حد تک مزید اضافہ بھی کر دیا جائے گا۔ حال ہی میں دنیا بھر کے میڈیا ہاوسز سمیت معروف برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے جہاں ''مار اے لاگو‘‘ کے سیاسی اجتماعات کی دلچسپ انداز میں لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی فتح کے بعد نئی انتظامیہ کا حصہ بننے کے خواہشمندوں سمیت امریکہ کی بااثر ترین شخصیات اس وقت مار اے لاگو کے گرد منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ اسی کے ساتھ مبصرین اور محققین اپنے ناظرین اور سامعین کو یہ یاد کراتے بھی نظر آتے ہیں کہ یہ وہی پررونق مقام ہے جہاں ٹھیک دوسال پہلے امریکی ایف بی آئی نے چھاپہ مارا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اسے یہاں سے جوہری ہتھیاروں سمیت جاسوسی سیٹلائٹ سے متعلق حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات ملی ہیں۔ سکیورٹی انتظامات اور روبوٹ کتا مار اے لاگو کے سکیورٹی انتظامات اگرچہ ایک قلعہ کی مانند ہیں تاہم امریکی انتظامیہ اس مرتبہ مستقبل قریب کے اپنے ایک صدر کی سکیورٹی پر کسی قسم کی کوتاہی پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی۔اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندانی ذرائع کے بقول ''صدر ٹرمپ مسند صدارت سنبھالنے کے بعد طاقت کا مرکز مار اے لاگو نہیں چھوڑیں گے بلکہ وہ دوسرے دور صدارت میں زیادہ وقت فلوریڈا کے اس ریزورٹ میں گزارنا پسند کریں گے‘‘۔ اس دفعہ امریکی سیکرٹ سروس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے سکیورٹی کے انتظامات کو ترجیح دیتے ہوئے روبوٹ کتے بنانے والی کمپنی ''بوسٹن ڈائنامکس‘‘کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کمپنی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سکیورٹی کیلئے '' سپوٹ‘‘ نامی ایک خصوصی روبوٹ کتا تیار کیا ہے۔اس سلسلے میں سکیورٹی اینڈ رسک مینجمنٹ کمپنی ''ٹیلون کمپنیز ‘‘ کے سی ای او رون ولیمز کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملوں کے بعد سیکرٹ سروس ایجنسی کو محسوس ہوا کہ اسے ٹیکنالوجی کو مزید جدید اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہونے والے حملوں بارے پتہ لگایا جا سکے اور بروقت ان پر قابو بھی پایا جا سکے۔رون ولیمز نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ انسانوں کے مقابلے میں یہ روبورٹ کتے ایک وسیع رقبے پر بہتر انداز میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ مستقبل قریب میں یہ کتے بیشتر اہم مقامات پر سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے نظر آئیں گے۔ رون ولیمز نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ روبوٹ کتے پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ افواج میں بھی کامیابی سے سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں جبکہ نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی سال گزشتہ سے ان کتوں کو اپنی فورس میں شامل کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے پام بیچ میں، مار اے لاگو ریزورٹ کے آس پاس گشت کرتا یہ منفرد کتا اور کشتیوں پر گشت کرتے چاق و چوبند مسلح محافظ پچھلے کچھ عرصہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔75 ہزار ڈالر یعنی 2 کروڑ روپے مالیت کا ''سپوٹ‘‘ نامی یہ روبوٹ کتا متعدد کیمروں اور تھرمل سینسرز سے آراستہ ہے۔یہ روبوٹ کتا سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے، اتر بھی سکتا ہے، تنگ جگہوں سے گزرنے کی صلاحیت کے علاوہ یہ بند دروازوں کو کھول بھی سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ عام انسانوں کی مانند رسپانس بھی دیتا ہے۔ یہ کتا عام کتوں سے زیادہ تیز رفتار ، پھرتیلا اور چوکس ہے۔اس کتے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ سکیورٹی کیمروں سے لیس یہ کتا اپنے ارد گرد کے تھری ڈی نقشے بھی بنا سکتا ہے۔ اس منفرد اور قلعہ بند سکیورٹی انتظامات کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ عالمی طاقت کے اس نئے مرکز میں ان دنوں دنیا کی بڑی بڑی شخصیات بھی قیام پذیر ہیں، جن میں دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا سمیت ''ایکس‘‘ کے مالک ایلون مسک ،امریکہ کے ایک بڑے سیاسی خاندان کی شخصیت رابرٹ کینیڈی، بل گیٹس اور ایل گور سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کے متعدد دوست بھی مار اے لاگو میں یا تو رہائش پذیر ہیں یا ان کا طاقت کے اس مرکز میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔ یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سکیورٹی جیسے حساس مسئلے کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی ، انسانی روائتی طریقوں سے کس حد تک بہتر ہے۔

ثابت بن قرہ حرانی علم ہیئت کا ماہر،فلسفی اور طبیب

ثابت بن قرہ حرانی علم ہیئت کا ماہر،فلسفی اور طبیب

تعارف: ثابت بن قرہ حرانی ہیئت کا ماہر اور فن طب میں علم تشریح الابدان میں باکمال فلسفی اور طبیب تھا۔ علم الاعداد میں موافق عددوں کے درمیان استخراج کے اہم کلیہ دریافت کئے اور موافق عددوں کے جوڑے معلوم کرنے کے لئے ایک کلیہ اور اصول قائم کیا۔ اجزائے ضربی اور اجزائے مرکبہ کے فرق کو بتایا۔اس ماہر ہیئت داں نے رصد گاہ بھی تعمیر کر لیا تھا۔ بیت الحکمۃ کے طرز پر علمی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ حکومت وقت نے علم ہیئت سے متعلق اداروں کا اسے نگراں مقرر کیا تھا۔ اپنی زندگی میں اس نے بہت سے اچھے اچھے کام کئے اور علوم و فنون کو ترقی دی۔ ابتدائی زندگی‘ تعلیم و تربیت ثابت بن قرہ حرانی اچھا طبیب اور علم تشریح الابدان کا ماہر تھا۔ علم ریاضی میں اس نے کئی نئے کلیے (قاعدہ، اصول) دریافت کئے۔ثابت حران کا باشندہ تھا۔ حران شمالی عراق میں ایک مردم خیزعلاقہ تھا۔ یہاں کے باشندوں میں بعض بہت مشہور اور قابل لوگ گزرے ہیں۔ ثابت کا خاندان بھی علمی خاندان تھا۔ ثابت عرب خاندان سے تھا۔ اس کا آبائی پیشہ صرانی تھا۔ ثابت نے تعلیم اپنے ہی وطن میں حاصل کی اور مطالعے کے ذریعے اپنی قابلیت میں اضافہ کیا۔محمد بن موسیٰ شاکر جب کسی جنگ سے واپس آ رہا تھا تو مقام حران میں فوج نے پڑائو کیا۔ یہاں اس کی ملاقات نوجوان ثابت بن قرہ سے ہوئی۔ محمد سمجھ گیا کہ یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ محمد نے ثابت کو اپنے ساتھ بغداد چلنے پر آمادہ کیا اور ساتھ لایا۔ بغداد میں محمد نے ثابت کی بڑی قدرومنزلت کی، ثابت میں علمی تحقیق کی بڑی لگن تھی۔ چنانچہ محمد بن موسیٰ اور ثابت دونوں نے مل کر ایک علمی ادارہ قائم کیا۔ اس علمی ادارہ میں بہت سے قابل لوگ شریک ہوئے اور کام شروع ہو گیا۔ یہ علمی ادارہ بیت الحکمۃ کے طرز پر تھا۔ اس نئے ادارے نے بہت سے علمی کام کئے۔ یہ 855ء کے بعد کے واقعات ہیں۔ ثابت نے علمی کاموں کی وجہ سے خاصی عزت پیدا کرلی۔علمی خدمات اور کارنامے ثابت علم ہیئت کا ماہر تھا۔ حکومت نے اسے علم ہیئت کے شعبے میں نگران مقرر کیا۔ اس نے کئی نئے نئے انکشافات کئے۔ رصد گاہ (Observatory) کے انتظامات کی اس نے اصلاح کی۔ علم تشریح الابدان میں وہ کمال رکھتا تھا اور اس نے فن یعنی علم تشریح الابدان میں نئی نئی تحقیقات کر کے اس حصے میں اہم اضافے کئے۔ اس نے اس موضوع پر ایک اچھی کتاب بھی تصنیف کی۔علم ہندسہ (جیومیٹری) میں بھی اس نے بعض شکلوں سے متعلق ایسے مسائل اور کلیات دریافت کئے جو اس سے پہلے معلوم نہ تھے۔ علم الاعداد میں ثابت نے موافق عددوں (Amicable Number) کے ایک ایسے اہم کلیے کا استخراج کیا جس کے ذریعہ کوئی مرکب عدد ان چھوٹے عددوں پر باری باری سے پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے اوروہ چھوٹے عدد اس مرکب عدد کے ''اجزائے مرکبہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ مثلاً 20 ایک مرکب عدد ہے جسے باری باری سے 1,2,4,5 اور 10 پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ سب عدد (20) کے اجزائے مرکب ہیں۔ یاد رکھئے! اجزائے مرکب اور اجزائے ضربی میں فرق ہے۔ اجزائے ضربی مفرد ہوتے ہیں۔ مثلاً 1,2 اور 5 مفرد ہیں مگر 4 اور 10 مرکب عدد ہیں۔ثابت نے موافق عدد کے بارے میں بتایا کہ دو مرکب عدد ایسے ہوں کہ پہلے عدد اجزائے مرکبہ کا مجموعہ دوسرے عدد کے برابر ہو جائے اوردوسرے عدد کے اجزائے مرکبہ کا مجموعہ پہلے عدد کے برابر ہو جائے تو یہ دونوں عدد آپس میں موافق عدد کہلاتے ہیں۔ ثابت نے موافق عددوں کے جوڑے کیلئے ایک کلیہ اور اصول معلوم کیا۔

کافی موسم سرما کا  فرحت انگیز  مشروب

کافی موسم سرما کا فرحت انگیز مشروب

ہماری دنیا اور آج کے اس جدید میں زیادہ تر لوگوں کیلئے کافی ایک پسندیدہ ترین چیز ہے۔ آپ کے جاننے والے تقریباً سبھی لوگ تھوڑی مقدار میں یا زیادہ مقدار میں کافی پیتے ہوں گے، لیکن ہم سب کو اس فرحت انگیز مشروب کے بارے میں کتنا پتہ ہے؟ اس تحریر میں ایسی دلچسپ باتیں شامل ہیں جو آپ کو شاید پہلے معلوم نہیں ہوں گی۔کافی کی دانے دار پھلیاں اصل میں کافی کے بیج: کافی کی پھلیاں درحقیقت پھلیاں نہیں ہیں بلکہ یہ کافی کے بیج ہی ہیں جن سے کافی کے نئے پودے اگائے جا سکتے ہیں۔کافی کی پھلیوں کی الگ الگ شکل کی وجہ سے انہیں کافی بینز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کافی کے بیجوں کیلئے یہی نام مشہور ہے۔ کافی کی تاریخ:لاکھوں لوگوں کے اس پسندیدہ مشروب یعنی کافی کی ابتداء سے متعلق بہت ساری کہانیاں مشہور ہیں، لیکن سب سے مشہور کہانی نویں صدی میں ایتھوپیا کے ایک بکریوں کے چرواہے کے بارے میں ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نوجوان چرواہے نے کئی بار مشاہدہ کیا کہ مقامی پودوں کو لگنے والی ان پھلیوں کو کھانے کے بعد اس کی بکریاں کتنی زیادہ متحرک اور فعال ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ان چیری نما پھلیوں کو گھر لے آیا اور خود انہیں آزمایا۔ جس کے بعد کافی کو مشروب کی طرح پینے کی ابتدا ہوئی۔ ایسپریسو کافی: دنیا میں کافی کا شوقین شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے یہ نہ پتہ ہو کہ ایسپریسو کافی دنیا بھر میں بہترین مانی جاتی ہے، مگر یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ ایسپریسو مشینوں کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہوا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح دراصل اطالوی ہے اور اس سے کسی چیز پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی سے مراد لی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسپریو مشین نیچے موجود کافی بینز کو پانی سے دباتی ہے اور اس سے کافی کی تھوڑی تھوڑی مقدار لیتی رہتی ہے تاکہ کافی کے باریک ذرات کے ذریعے زیادہ گاڑھا اور مزیدار مشروب تیار کیا جاسکے۔کافی طویل زندگی کی ضامن:کافی کے بارے میں آپ نے جو بھی سنا ہو، مگر حقیقت میں کافی پینے کیلئے صحت بخش مشروبات میں سے ایک ہے جس میں بڑی مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں۔جب آپ اپنے روز مرہ معمولات میں صحتمند غذا کو شامل رکھتے ہیں اور ساتھ میں کافی سے بھی لطف اندوز ہوں تو اس بات کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے کہ کافی آپ کو ایک طویل عرصہ تک زندہ رہنے میں مدد دے سکتی ہے۔کافی کی اقسام:کافی کے کاشت کار دو طرح کی کافی عربیبا اور روبستا اگاتے ہیں۔ اس میں پہلی قسم جو کہ عربیہ کافی ہے دنیا بھر میں پائی جانے والی کافی کی دیگر اقسام سے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے اور اسے کافی کے شوقین خواتین و حضرات بہت پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ حقیقت میں روبستا کافی کاشتکاروں میں کم مقبول ہے۔ سب سے زیادہ کافی پیدا کرنے والا ملک:برازیل میں دنیا کو فراہم کی جانے والی کافی کا ایک تہائی حصہ تیار ہوتا ہے اور اس طرح برازیل دنیا کو کافی فراہم کرنے والے ممالک سے دگنی مقدار میں کافی پروڈیوس کرتا ہے۔