قلعہ ملوٹ توڑ پھوڑکا شکار
ہیڈ رسول سے کلر کہار تک قدیم گزر گاہوں میں ہندوئوں کا مقدس مقام راج کٹاس اور بدھ دور کے آثار قدیمہ نند نالیاں کا تذکرہ البیرونی نے مشہور زمانہ کتاب الہند میں تحریر کیا ہے۔ یہ علاقہ سکندر اعظم کی گزر گاہ تھی۔اس علاقے میں قلعے اور مندر ٹوٹ پھوت کا شکار ہیں۔ خزانہ، سکے، نوادرات اور مورتیوں کی تلاش میں ان تاریخی عمارتوں کو جگہ جگہ سے توڑ دیا گیا ہے۔مقامی حکمران یہ قلعے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر تعمیر کرکے اپنے آپ کو کسی حد تک حملہ آوروں سے محفوظ خیال کیا کرتے۔ یہ قلعے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس دور میں انسان کتنا جفاکش اور مضبوط جسم کامالک ہوتا تھا۔ بلند سے بلند پہاڑ پر تعمیرات کا سامان لے کر چڑھ جاتا۔ کوہستان نمک کے ایسے ہی قلعوں میں قلعہ ملوٹ اور اس کے مندر کسی حد تک صحیح حالت میں ہیں۔ کلرکہار سے چند کلو میٹر کے فاضلے پر چواسیدن شاہ، کٹاس روڈ پر جلیبی چوک سے ایک سڑک ملوٹ گائوں کی طرف جاتی ہے۔ جلیبی چوک سے ملوٹ تقریباً چودہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ملوٹ گائوں سے تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے عین چوٹی پر قلعہ اور مندر تعمیر کیے گئے ہیں۔ سرخ پتھر تراش کر چاروں اطراف خوبصورتی پیدا کی گئی ہے۔ دو مندر تقریباً چھ سات فٹ بلند چبوترے پر تعمیر کیے گئے ہیں ۔ دیواروں پر مورتیاں بنائی گئی ہیں مورتیوں کے نیچے چھوٹی مورتیاں شیر اور دوسرے جانوروں کی شکلیں بنائی گئی ہیں۔ اس میں ریتلا پتھر استعمال ہوا ہے جو موسم کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے چنانچہ سنگ تراشی کے نمونے ریتلا پتھر ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں۔ اس کے بارے میں جنرل کنگھم کا کہنا ہے کہ یہ مندر اندر کی طرف 18 مربع فٹ تھا۔ مشرق کی طرف دروازے کے قریب ایک محرابی شکل کی عمارت تھی، باہر کی طرف چاروں کونے سجائے گئے تھے اور ایسے محراب جن پر آرائش و تزئین کی گئی تھی ہر مینارے پر دو زانوں شکل نظر آتی تھی۔ چبوترے کے ارد گرد نقوش کے آثار ملتے ہیں اس کا مجموعی تاثر شاندار اور خوبصورت ہے۔ البتہ زمانے نے اس کے قدیم حسن کو مجروح کر دیا ہے۔ اس کی بلندی 350 فٹ تک ہے۔ مندر کا داخلی حصہ سادہ نظر آتا ہے اور اس میں کسی بت کے آثار دکھائی نہیں دیتے روایت ہے کہ اس جگہ شیولنگ نصب تھا اور غالباً یہ روایت صحیح ہے کہ یہ بدھ کا مندر نہیں تھا۔ اس کا دروازہ مندر سے 58 فٹ مشرق کی طرف تھا یہ بڑی بھاری اور مضبوط عمارت ہے۔ 25 فٹx 22 فٹ اس میں دو کمرے8x15 کے ہیں ستون خالص کشمیری فن تعمیر کا نمونہ ہیں کشمیری مندروں کی نسبت ان پر یونانی فنی تعمیر کا زیادہ اثر ہے ستونوں کے ارد گرد نیم دائرے کی وسعت میں ابھرے ہوئے نقش بنے ہیں جو کسی زمانے میں بہت خوبصورت ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کو پانڈیوں نے تعمیر کیا تھا اور کشمیر کے مندروں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ اس قلعہ کی بلندی سطح سمندر سے تین ہزار دو سو فٹ ہے۔ اس قلعے کا طول مشرق سے مغرب کو دو ہزارفٹ اور عرض شمال سے جنوب میں ڈیڑھ ہزار فٹ ہے جنوب کی جانب اندر کوٹ ایک بلند سطح پر واقع ہے جس کی لمبائی بارہ سو فٹ اور چوڑائی باغ 100 فٹ ہے۔ جنوبی سمت کی ٹیکری پر عمارتوں کے آثار اور قلعہ کے کھنڈرات سے دو ہزار فٹ دور تک موجود ہیں۔ جنرل کنگھم کے اندازے کے مطابق قصبہ ملوٹ اور قلعہ ملوٹ اپنے زمانہ، عروج میں اڑھائی میل کے رقبے پر آباد تھے۔ جنرل ایبٹ اس کا نام شاہ گڑھ یا شاہی گڑھ بتاتا ہے لیکن جنجوعہ روایت کے مطابق اس کا نام راج گڑھ تھا۔ جہاں تک ملوٹ کے وجہ تسمیہ کا تعلق ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اساطیری روایت کے مطابق جنجوعہ راجپوتوں کے ایک مورث اعلیٰ کے نام ’’ملودیویا ملو‘‘ کی نسبت سے اس کا نام ملوٹ پڑا لیکن تاریخ راجپوتاں کے مصنف کے مطابق ملوٹ ملک کوٹ کا مخفف ہے۔ اس کے علاوہ گڈھوک راجپوتاں کی ایک قلمی تحریر کے مطابق اس قلعے کی تعمیر کا سن 980ء ہے پروفیسر احمد حسن دانی نے بھی اس قلعے کی تعمیر کا سن980ء ہی بتایا ہے۔ یہ تین اطراف سے عمودی چٹانوں سے گھرا ہوا جن کی بلندی سو فٹ سے تین سو فٹ تک ہے۔1888ء میں جب جنرل کنگھم یہاں آیا تو اس نے اس قلعے کو منہدم پایا۔1947ء سے قبل بانی ذات کے ہندو برہمن ان مندروں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔سالٹ رینج میں آثار قدیمہ اور صاحبزادہ سلطان علی کے مطابق بابر (1530-1526) نے دولت خان لودھی سے یہیں پر ہتھیار ڈلوائے تھے مہاراجہ رنجیت سنگھ1839ء تا1891ء کے والد مان سنگھ نے بھی یہاں ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کرادیا تھا۔ راجہ مل کو سلطان محمود غزنوی نے اپنے دوسرے حملے میں مسلمان کیا اور اس کا نام عبدالحکیم رکھا تھا۔٭…٭…٭