’سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا‘ عدیم ہاشمی نے جدید غزل پر انمٹ نقوش چھوڑے

اسپیشل فیچر
60اور 70کی دہائی میں پاکستان میں جدید غزل کے رجحانات منظرِعام پر آئے اور کئی ایک شعرا نے اس میدان میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ظفر اقبال کا نام اس سلسلے میں اہم ترین ہے۔ ان کے علاوہ خالد احمد‘ نجیب احمد‘ صابر ظفر‘ جاوید شاہین‘ سلیم شاہد اور کئی دوسروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس فہرست میں اگر ایک نام شامل نہ کیا جائے تو یہ فہرست ہر لحاظ سے نامکمل رہے گی۔ اس کا نام ہے عدیم ہاشمی۔عدیم ہاشمی یکم اگست 1946ء کو ڈلہوزی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ انہوں نے فیصل آباد میں جنم لیا۔ ان کا اصلی نام فصیح الدین ہاشمی تھا۔ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ان کی شعری صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئیں۔ بعد میں وہ جدید غزل کے اہم شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے ٹی وی کیلئے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ انہوں نے سرکاری ٹی وی کیلئے ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ لکھی اور اس میدان میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو منوایا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ بڑا زبردست ڈرامائی شعور رکھتے ہیں۔ وہ اداکار تو نہیں تھے لیکن اداکاری کے اسرارو رموز سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے ہم عصر شاعر یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عدیم ہاشمی جدید غزل کے بڑے اہم شاعر ہیں۔ لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انہیں بھی نظرانداز کیا گیا۔ عدیم ہاشمی بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے لیکن انہوں نے رومانوی شاعری کو نئی سمتوں سے روشناس کرایا۔ چھوٹی بحر میں لکھی گئیں ان کی غزلیں خاص طور پر بہت مشہور ہوئیں۔ کبھی کبھی ان کی شاعری میں اداسیوں کی مہک بھی محسوس ہوتی ہے۔ مہک اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اداسیوں میں بھی خوشبو ڈھونڈ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قنوطی نہیں تھے بلکہ رجائیت پسند تھے۔ ان کی شاعری میں ہمیں حیات افروز رجائیت ملتی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک اور اہم پہلو نکتہ آفرینی ہے۔ وہ ایسے نکات نکالتے تھے کہ قاری ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا تھا۔ شاعری میں ایک اور بڑی اہم چیز ہوتی ہے جسے قوت متخیلہ (Power of Imagination) کہتے ہیں۔ عدیم ہاشمی کی شاعری میں یہ وصف بھی بڑی آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔جدید غزل کے حوالے سے کچھ باتیں بڑی ضروری ہیں۔ جدید غزل کے لئے ایک تو جدید طرز احساس ضروری ہے اور دوسرا مختلف انداز بیاں۔ یہ دونوں عوامل مل کر جدید غزل کی تشکیل کرتے ہیں۔ باقی رہا شعری طرز احساس تو وہ کسی بھی اچھے شعر کی بنیادی ضرورت ہے۔ عدیم ہاشمی کو کلاسیکل شاعری کا مکمل ادراک تھا۔ کہنا یوں چاہیے کہ بعض جگہ انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج سے بڑے خوبصورت اشعار تخلیق کیے۔کچھ نقادوں کی رائے ہے کہ عدیم ہاشمی کی غزل کا کینوس محدود ہے کیونکہ انہوں نے اپنے لیے گنے چنے موضوعات کا انتخاب کیا ہواتھا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ عدیم ہاشمی کی شاعری میں ہمیں عصری کرب کا بھی عکس ملتا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاعر معروضی صورت حال سے بے خبر رہے۔ اگر وہ جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے تو اس کی کسی صورت تحسین نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے دانش ورانہ بددیانتی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مرحوم عارف عبدالمتین کہا کرتے تھے کہ کوئی شاعر جان بوجھ کر معروضی صورتحال کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ معروضی حقائق (Objective realities) کو شعر کی زبان دینا شاعر کی ذمہ داری ہے اور اسے بہرحال اس ذمہ داری کو نبھانا چاہئے۔ رومانوی شاعر ہونے کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ آپ حقیقت پسندی کو ایک طرف رکھ دیں۔ یہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور شاعر اگر چاہے بھی تو ان عوامل کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔عدیم ہاشمی نے کئی شعری مجموعے تخلیق کیے جن میں ’’ترکش‘ مکالمہ‘ فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ وصال‘ مجھے تم سے محبت ہے‘ چہرا تمہارا یاد رہتا ہے‘ کہو کتنی محبت ہے اور بہت نزدیک آتے جا رہے ہو‘‘ شامل ہیں۔ جس غزل نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا وہ تھی ’’فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا‘‘۔ ہم عدیم ہاشمی کی غزلوں کے کچھ اشعار قارئین کی نذر کریں گے جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی شاعری کتنے خوبصورت پہلوئوں کی حامل تھی۔فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھاسامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھاوہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھاتو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیںکٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئےتیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئےغم کے ہر ایک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیاوہ مرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیااسے پانا تھا اس کو کھونا تھایہ بھی ہونا تھا وہ بھی ہونا تھادریا سے کوہسار سے پہلے کی بات ہےانساں ہر اعتبار سے پہلے کی بات ہےاس کی نظر کو داد دو جس نے یہ حال کر دیامیرا کمال کچھ نہیں اس نے کمال کر دیاکیوں اداس ہیں شجر اے عدیم ہاشمیکون لے گیا ثمر اے عدیم ہاشمیاب اسے چاہا تو چاہا ہر طرح کے حال میںہر طرح کا حسن دیکھا اس کے خدوخال میں5نومبر 2001ء کو عدیم ہاشمی 55سال کی عمر میں راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کا انتقال شکاگو (امریکہ) میں ہوا اور وہ وہیں آسودۂ خاک ہیں…جدید غزل کے حوالے سے ان کا نام بھلایا نہیں جا سکتا۔٭…٭…٭