فورٹ ولیم کالج کے مقاصد

فورٹ ولیم کالج کے مقاصد

اسپیشل فیچر

تحریر : وردہ بلوچ


مغلیہ حکومت کے کمزور ہونے سے ملک میں انگریزوں کے قدم جمنے لگے اور ملک کا نظم و نسق عملاً ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں آ گیا تو انگلستان سے افسر بھی یہاں آنے لگے۔ جو نوجوان انگلستان سے بھرتی ہو کر ہندوستان آتے تھے وہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناتربیت یافتہ بھی ہوتے تھے۔ برصغیر کی زبانوں اور یہاں کے طور طریقوں سے انہیں ذرا بھی واقفیت نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی انہیں بڑے بڑے منصب عطا کر دیے جاتے۔ ان کی اس کمزوری کو دور کرنے کی غرض سے 10 جولائی 1800ء کو فورٹ ولیم کالج قائم کر دیا گیا، لیکن اس کے افتتاح کی تاریخ چار مئی لکھی گئی، جو ٹیپو سلطان کی شکست اور انگریزوں کی فتح (چار مئی 1799ئ) کی پہلی سالگرہ تھی۔ فورٹ ولیم کالج میں اردو زبان کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا، مگر یہاں درسی ضروریات کے مطابق کتابیں دستیاب نہ تھیں۔ لہٰذا اس مقصد کی تکمیل کے لیے سر رشتۂ تالیف و ترجمہ قائم کیا گیا اور ملک کے اطراف و جوانب سے قابل افراد کو چن کر ان سے اردو کی کتابیں لکھوائی گئیں۔ ان ادیبوں نے جو کارنامے انجام دیے وہ اردو ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تمام تصنیفی و تالیفی سرگرمیاں درسی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر سرانجام دی جا رہی تھیں، لہٰذا سادگی یہاں کی سب تصانیف و تراجم میں پائی جاتی ہے۔ اس کالج کے روح رواں ڈاکٹر جان گلکرسٹ تھے۔ انہوں نے نہ صرف خود تصنیفی و تالیفی خدمات انجام دیں بلکہ اردو کے مصنفین سے معیاری کتابیں تالیف و ترجمہ بھی کروائیں۔ اس طرح متعدد کتابیں ترجمہ ہوئیں جن سے اردو نثر کا ایک اسلوب قائم ہوا۔ اگرچہ فورٹ ولیم کالج سے باہر یہاں کی لکھی ہوئی کتابوں کے اثرات زیادہ مرتب نہ ہو سکے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ بعد میں ان تصانیف کا اسلوب جدید اردو نثر کا پسندیدہ اور مقبول اسلوب بن گیا۔ یہاں زیادہ تر کتابیں داستان سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ کے موضوعات پر بھی کچھ کتابیں لکھی گئیں اور کچھ مذہبی اور اخلاقی کتابوں کے بھی تراجم ہوئے۔ میرامن نے قصہ چہار درویش کو ’’باغ و بہار‘‘ کے نام سے لکھا۔ ’’باغ و بہار‘‘ اپنی سادہ اور دلکش نثر کی وجہ سے ایک شاہکار کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’گنجِ خوبی‘‘ کا ترجمہ کیا۔ حیدر بخش حیدری نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں قصہ ’’مہرو ماہ، توتا کہانی اور آرائشِ محفل‘‘ قابل ذکر ہیں۔ میر شیر علی افسوس نے سعدیؒ کی کتاب ’’گلستان‘‘ کا ترجمہ ’’باغِ اردو‘‘ کے نام سے کیا۔ منشی سجان رائے کی تاریخی کتاب خلاصۃ التواریخ کو ’’آرائشِ محفل‘‘ کے نام سے اردو میں پیش کیا۔ میر بہادر علی حسینی نے ’’نثرِ بے نظیر، اخلاقِ ہندی، تاریخ آسام، اور قواعدِ زبان اردو‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں۔ خلیل علی خاں اشکؔ نے بھی کئی کتابیں لکھیں مگر بیشتر غیر مطبوعہ رہ گئیں۔ انہوں نے ’’قصہ امیر حمزہ‘‘ کو اردو قالب عطا کیا۔ ان کی دوسری تصانیف میں ’’رسالہ کائنات جو، اور قصہ گلزارِ چین‘‘ بھی ہیں۔ مظہر علی خاں ولاؔ نے ’’مادھونل اور کام کنڈلا، ہفت گلشن، اور بیتال پچیسی‘‘ کے ترجمے کیے۔ شیخ حفظ الدین نے ’’خرد افروز‘‘ لکھی جو ’’عیارِدانش‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کاظم علی جوانؔزیادہ تر مصنفین کو ان کی تالیفات کی تکمیل میں مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی دو کتابیں لکھیں۔ ایک شکنتلا اور دوسری تاریخِ فرشتہ کے بڑے حصے کا ترجمہ۔ مرزا علی لطفؔ نے ’’گلشنِ ہند‘‘ کے نام سے شعرائے اردو کا ایک تذکرہ لکھا۔ امانت اللہ نے اپنی عربی کتاب ’’ہدایت الاسلام‘‘ کو اردو میں منتقل کیا۔ بینی نرائین نے چار گلشن، دیوانِ جہاں، اور شاہ رفیع الدین کی کتاب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ کے ترجمے کیے۔ یہ کالج انگریزوں کی سیاسی اور انتظامی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا تھا مگر اس کا غیرشعوری طور پر اردو زبان کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس کالج نے جس طرح سادہ نگاری پر زور دیا اور اس کے عملی نمونے پیش کیے، اس نے اردو نثر کے اسلوب میں جدید رنگ اور آہنگ پیدا کر دیا۔ اس کالج کی کتابوں کی تصنیف کی غرض و غایت نووارد انگریزوں کو اردو سکھانا تھا۔ اس سے انہوں نے سادگی اور صفائی کے ساتھ ادائے مطلب کا خاص طور پر خیال رکھا۔ اس کالج کے تقریباً تمام مصنفین ایک دو مثالوں کے سوا، سادہ نویسی کے علم بردار تھے۔ سادگی ان مصنفین کی مشترکہ خصوصیت تھی۔ اسی کے ساتھ یہاں ایسے گونا گوں اسالیب سامنے آتے ہیں جن پر اردو کے آئندہ اسالیب کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف میرامن اور شیر علی افسوس دہلی کے روزمرہ اور محاوروں پر اپنی تصانیف کی عمارت کھڑی کرتے ہیں وہیں دوسری طرف مولوی اکرام علی، حیدر علی اور مرزاعلی لطف وغیرہ زبان سنجیدہ اور علمی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو مقامی اثرات سے پاک ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو کے دوسرے مصنفین کو کس طرح متاثر کیا۔ اس سلسلے میں محققین کا یہ کہنا ہے کہ کالج کی کتابوں کا دائرہ اثر اس لیے محدود تھا کہ یہ درسی ضروریات کے تحت لکھی گئی تھیں اور کالج سے باہر ان کی پذیرائی نہیں ہو پاتی تھی۔ ان کتابوں کی باہر کے لوگوں تک رسائی مشکل تھی۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کا اسلوب نگارش کالج کے باہر زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ لیکن بعد کے زمانہ میں یہی اسلوب اردو نثر کا بنیادی اسلوب قرار پایا۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
اسماعیل تارا:ایک منفرد اداکار

اسماعیل تارا:ایک منفرد اداکار

اسماعیل تارا مزاحیہ اداکاری میں منفرد مقام رکھتے تھے، مزاح کو آرٹ کی ایک صنف کے طور پر مقبول کرانے میں ان کا اہم کردار رہا۔ناظرین کے ذہنوں پر ان کی اداکاری کے انمٹ نقوش ہیں۔2022ء میں 24نومبر کو دنیا چھوڑ جانے والے اسمعیل تارا کی آج دوسری برسی ہے ۔ پاکستانی شوبز پر ایک نگاہ ڈالی جائے، تو مزاحیہ کرداروں کو امر کرنے والے اداکاروں کی ایک جامع فہرست ہمارے سامنے ہے، جن میں سے ایک معتبر نام اسمٰعیل تارا کا ہے، جنہوں نے 4 دہائیوں تک لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔انہوں نے اپنی اداکاری کی ابتدا بچپن میں گلی محلوں میں ہونے والے ناٹکوں سے کی اور تقریباتی نوعیت کی سرگرمیوں میں مزاحیہ اداکاری کرتے کرتے سنجیدگی سے اس شعبے میں داخل ہو گئے۔ 1964ء میں اسٹیج سے کریئر کا آغاز کیا۔ وہ نو عمری سے ہی خود کو مختلف کرداروں میں ڈھالنے کے ماہر تھے، نقالی بہت اچھی کرتے تھے اور اسی خوبی کی وجہ سے وہ اپنے حلقہ احباب اور آگے چل کر شوبز میں نمایاں ہو گئے۔ان کی حقیقی شہرت 1979ء سے 1981ء تک جاری رہنے والے، سرکاری ٹی وی کے پروگرام ''ففٹی ففٹی‘ سے ہوئی۔ مزاحیہ خاکوں پر مبنی اس پروگرام میں وہ اپنے ساتھی اداکاروں ماجد جہانگیراور زیبا شہناز کے ساتھ مختلف کرداروں کو نبھایا کرتے۔ وہ ایسے مزاح کو پیش کرتے جس میں تفریح کے ساتھ ساتھ کوئی سبق بھی شامل ہوتا۔ان کا حقیقی اور مکمل نام اسمٰعیل مرچنٹ تھا۔ ان کو خاندان کی طرف سے شوبز میں آنے کیلئے مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی، لیکن وہ طے کرچکے تھے کہ وہ ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر ہی کام کریں گے۔ ایک بار ان کے بھائی نے ان کو گنجا کروا دیا تاکہ وہ اداکاری سے توبہ کرلیں، مگر ان کا ارادہ متزلل نہ ہوا۔ اداکاری کیلئے انہوں نے کس طرح استقامت دکھائی اس کو بتانے کیلئے یہی ایک قصہ کافی ہوگا کہ ایک بار جب وہ ایک اسٹیج ڈرامے میں کام کر رہے تھے تو ان کو اطلاع دی گئی کہ ان کے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے، اس خبر کو سننے کے بعد انہوں نے خود پر قابو رکھا، اس چلتے ہوئے ڈرامے میں اپنا کام ختم کیا اور پھر بیٹے کی تدفین کیلئے روانہ ہوئے۔ ''ففٹی ففٹی‘‘ میں انہوں نے اداکار ماجد جہانگیر کے ساتھ مل کر، بہاری لہجے میں بات کرنے والے منوا اور ببوا کے کرداروں میں یادگار اداکاری کی جس کے سبب اس اداکار جوڑی کو بہت شہرت ملی۔انہوں نے ایک مزاحیہ پروگرام ''لیاری کنگ لائیو‘‘ میں بھی عمدہ اداکاری کی۔ یہ پروگرام بھی ایک امریکی ٹاک شو کی مزاحیہ نقالی تھا، جس میں انہوں نے مزاح کے انداز میں حقیقی رنگ بھرے۔ ان کے مقبول ڈراموں میں ''ربر بینڈ، یہ زندگی ہے، پاک ولا، دہلی کالونی، اورنگی ٹاؤن کی انوری، ماموں، جن کی آئے گی بارات، مرچیاں، نمک پارے، برفی لڈو، بھائی بھائی، وہ پاگل سی‘‘ شامل ہیں۔ ان کے اسٹیج ڈرامے ''سونے کی چڑیا‘‘ کو بہت مقبولیت ملی۔ عمر شریف کے ڈرامے ''مسٹر چارلی ان کراچی‘‘ کے علاوہ لاہور میں بھی ایک یادگار اسٹیج پلے کیا۔وہ ٹیلی وژن کے ساتھ ساتھ فلم کے شعبے میں بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے درجن بھر سے زائد فلموں میں کام کیا۔ کارٹون فلم ''ڈونکی راجا‘‘ میں چاچا کے کردار کیلئے اپنی آواز بھی فراہم کی۔ ان کو 4 نگار ایوارڈز، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سمیت کئی اہم اعزازات سے نوازا گیا۔اسمٰعیل تارا کی زندگی فنکار برادری کیلئے ایک مثال ہے۔ انہوں نے اداکاری کے شعبے میں اپنے شوق کی تکمیل تو کی، مگر زندگی بسر کرنے کیلئے جامع اور عملی منصوبہ تشکیل دیا، جس کے تحت ذاتی کاروبار کیے، اولاد کی تعلیم اور تربیت کی تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں اور بڑھاپے میں کسی سے اپیل نہ کرنی پڑے اور کٹھن وقت کو اپنے وسائل سے گزار سکیں اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے۔2022ء میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ، ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی، ان کے ادا کیے ہوئے کردار، آئندہ بھی چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں گے۔

سمارٹ ٹریفک سگنلز

سمارٹ ٹریفک سگنلز

سمارٹ ٹریفک کنٹرولنگ سسٹم کی نمائش میں سب سے زیادہ توجہ سمارٹ ٹریفک سگنلز سسٹم پر دی گئی جو جدید اور انتہائی حساس کیمروں سے لیس ہوں گے۔ سمارٹ ٹریفک سگنلز خود کار گاڑیوں کو کنٹرول کرنے اور انہیں درست کمانڈ دینے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔نمائش میں یورپی یونین کے پویلین میں سمارٹ گاڑیوں کے ماڈلز کو پیش کیا گیا جو آسٹریا میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ان گاڑیوں میں سوار ہونے والوں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ اپنی منزل کا تعین کریں اور محفوظ ڈرائیونگ کے جدید تجربے سے لطف اندوز ہوں۔ناروے پویلین میں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال ہونے والی ایپلی کیشن کے طریقے کو واضح کیا گیا جس کے ذریعے عوامی ٹرانسپورٹ کیلئے ٹکٹوں کی خریداری و ادائیگی سے لے کربس اسٹاپس کا تعین شامل تھا۔نمائش میں امریکی کمپنی کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطی و شمالی افریقی کے بتایا کہ ان کی کمپنی نے ایسے سمارٹ ٹریفک سگنلز متعارف کرائے ہیں جو انتہائی حساس نیٹ ورک سسٹم سے منسلک ہیں۔ ان سگنلز کی خوبی یہ ہے کہ ان میں نصب کیمرے اس سمت کا تعین کرتے ہیں جہاں ٹریفک ازدحام زیادہ ہوتا ہے اور اس جانب کے گرین سگنل کا دورانیہ خود کارانداز میں بڑھ جاتا ہے اس کا مقصد ازدحام کو کنٹرول کرنا ہے۔دنیا کا پہلا ٹریفک سگنل لندن میں دسمبر1868ء میں لگایاگیاتھا۔مگر وہ زیادہ دیر نہ چل سکا، جب وارڈن اسے آن کرنے کی کوشش کر رہا تھا،عین اس وقت گیس سے چلنے والا یہ سگنل ہلکے سے دھماکے سے پھٹ گیا۔وارڈن الگ زخمی ہوا۔جس کے بعد کسی کو اس پر کام کرنے کی ہمت نہ پڑی اور 20برس کے بعد پھر 1912ء میں امریکی ریاست یوٹاوہ میں بجلی کاپہلا ٹریفک سگنل لگایا گیا۔پھر دوسری طرف کبھی کار ڈرائیور اپنی لائن کا خیال نہیں رکھتے تو کبھی اشارہ نہ ہونے کے باوجود پیدل چلنے والے زیبرا کراسنگ کے عین درمیان میں آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور موٹر سائیکل سوار تو ایک موٹر سائیکل کے ساتھ پوری سڑک ہی خرید لیتے ہیں۔ہائی وے ہو تو وہ بھی ان کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔ان کے راج میں سرخ اور سفید لائٹوں کو آپ بچوں کو رنگ سمجھانے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں، اور بس۔ اس لئے مغربی ممالک اپنے ٹریفک سگنلز کے نظام کو مزید بہتر بنانے پر غور کر رہے ہیں۔اس ضمن میںمتعددتجاویز پر کام ہو رہا ہے۔چلی میں کاروں کے ڈیزائن بنانے والے ایک فنکار رابرٹوواکفلورز (Roberto Vackflores)کا ڈیزائن بھی ان سے مختلف ہے۔اس میں لگی ہوئی ٹیکنالوجی کی مدد سے سڑک پر گزرنے والے سبھی افراد کو نہ صرف چلنے یا رکنے کے اشارے ملیں گے بلکہ انہیں موسم کے حال اور ان کی کار کی رفتار بھی معلوم ہو سکے گی۔ان سگنلز میں لگے سینسر ایمرجنسی گاڑیوں (ایمبولینس، فائر بریگیڈ وغیرہ) کو راستہ دینے کیلئے خود بخود اس سائیڈ کی ٹریفک کھول دیں گے۔ٹریفک سگنلز تین رنگوں کی لائٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جس میں سرخ، زرد اور سبز رنگ شامل ہیں۔سرخ رنگ کا مطلب ہوتا ہے کہ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں رک جائیں اور پیدل چلنے والوں کو سڑک پار کرنے کا راستہ ملے جبکہ سبز لائٹ کا مطلب ہے کہ گاڑیاں چلیں اور پیدل چلنے والے افراد رک جائیں۔ مختلف ممالک میں ٹریفک سگنلز کو نہایت دلچسپ اور مختلف انداز میں بنایا گیا ہے جو دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ان ٹریفک سگنلز کو مختلف کہانیوں کی تصاویر پر بنایا گیا ہے جو سڑکوں پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ایک ڈیزائن کے مطابق پیدل چلنے والے افراد کو خاص قسم کی روشنی سے زیبرا کراسنگ پر روکا جائے گا۔ کاروں کیلئے بھی زیبرا کراسنگ کے قریب خاص قسم کی روشنی ایک لکیر کی صورت میں نظر آئے گی تاکہ کوئی کار بھی فٹ پاتھ کے قریب نہ ہو سکے۔ اس لائٹ سے کاروں اور پیدل چلنے والوں سے ٹریفک رولز کی پابند ی کرائی جائے گی۔ اس سے انہیں اپنی ''حدود ‘‘ میں رہنے کا راستہ دکھایا جائے گا۔ایک روسی ڈیزائنر ارنین ایوگنی (Arinin Evgeny) نے ہر سگنل پر نئے رنگ کی روشنی کے سگنلز لگانے کی تجویز دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی سائز کی لائٹیں دیکھ کر لوگ تھک گئے ہیں۔ اب ہر رنگ کی لائٹ کاسائز بدل دینا چاہئے۔ اس لئے دنیا میں اب مختلف سائز کی لائٹس لگانے پر بھی غور ہور ہا ہے۔ ایک اور ڈیزائنر سونگ لی (Kisung Lee)نے بل کھاتے ہوئے لیمپ کی شکل میں لمبے پولز پرلائٹس لگا دی ہیں۔ کھمبے روایتی انداز میں لمبے نہیں ہوں گے بلکہ عام پائپوں کے سائز کے کھمبوںمیں سرخ ، پیلی اور ہری روشنیاں لگا دی جائیں گی ۔ ان پولز کے اوپر ہی ٹائمر بھی لگا ہو گا،جس سے سبھی کو اپنی اپنی کراسنگ کے دورانیے کا علم ہو جائے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہو گاکہ تینوں لائٹس آپس میں مکس نہیں ہوں گی انہیں دور دور لگایا جائے گاتاکہ فرق صاف نظرآئے ۔چین نے یہ سگنلز منگشا مائوٹین اور کریسنٹ سپرنگ کے مقام پر لگائے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اونٹوں کو حادثات سے بچانے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے صحرائی علاقے کو ''گانے والاصحرا ‘‘بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس ریت پر چلنے والے کو کئی طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔جیسے کوئی گیت گا رہا ہو۔

آج کا دن

آج کا دن

ڈارون کی کتاب کی اشاعت24 نومبر 1859ء کو مشہور برطانوی سائنس دان اور حیاتیات دان چارلس ڈارونکی کتاب ''On The Origin Of species‘‘ شائع ہوئی۔ یہ وہ کتاب تھی جس میں ڈارون کا سائنسی دنیا اور مذہبی اداروں کے مابین سخت گیر بحث کا باعث بننے والے شاہکار ''ارتقاء کا نظریہ‘‘ پہلی بار تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ یہ نظریہ اس بات کو سمجھنے کیلئے پیش کیا گیا تھا کہ زمین پر موجود مختلف جاندار کس طرح وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔چیکوسلواکیہ میں ویلوٹ انقلاب1989ء میں آج کے روز چیکوسلواکیہ میں ویلوٹ انقلاب آیا۔ کمیونسٹ حکومت کے خاتمے اور جمہوری تبدیلی کے حوالے سے یہ ایک اہم دن تھا۔ ''ویلوٹ انقلاب‘‘ چیکوسلوواکیہ میں ہونے والی ایک پرامن سیاسی تبدیلی تھی، جس کے نتیجے میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوا اور جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ اس انقلاب کو ''ویلوٹ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ عمل تقریباً مکمل طور پر غیر متشدد اور پرامن طریقے سے انجام پایا۔ترکی نے روس کا جنگی طیارہ مار گرایا24 نومبر 2015ء کو ترکی کی جانب سے روسی جنگی طیارہ گرانے کا واقعہ پیش آیا۔ جس نے ترکی اور روس کے تعلقات کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا۔ یہ واقعہ شام کی سرحد کے قریب اس وقت پیش آیا جب روسی طیارہ شام میں باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد روس اور ترکی کے درمیان تجارتی تعلقات متاثر ہوئے۔ جون 2016ء میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے معذرت کا خط لکھا، جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی۔ہائی جیکر روپوشڈی بی کوپر نامی ہائی جیکر 24 نومبر 1971ء کو امریکہ میں ایک طیارہ اغواکرنے کے بعد اپنے مطالبات پورے ہونے کے بعدپراسرار طور پر غائب ہو گیا تھا۔ طیارہ جب واشنگٹن ریاست کے جنگلات کے اوپر سے گزر رہا تھا، ڈی بی کوپر نے طیارے کے پچھلے حصے سے پیراشوٹ کے ساتھ چھلانگ لگا دی۔ اس کے بعد وہ کبھی دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔یہ واقعہ آج تک دنیا کے سب سے مشہور اور حل نہ ہونے والے مجرمانہ معمہ جات میں سے ایک ہے۔ 

جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

پاکستانی شعر و ادب کی دنیا میں جن شخصیات نے اپنی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدین عالی بھی شامل ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ جہاں اُنہوں نے کئی مقبول اور یاد گار ملی نغمے اور گیت لکھے تو دوسری طرف اُْنہوں نے دوہے جیسی مترنم اور نغمگی سے بھرپور مگر نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعرو ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستائش ہیں۔ اردو کے حوالے سے بھی جمیل الدین عالی کی خدمات بہت ہیں۔ انہوں نے ہر دور میں اردو کے نفاذ کا بیڑا اٹھائے رکھا۔جمیل الدین عالی صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ اس پورے عہد میں ان کی شخصیت کے انگنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور ہر رنگ میں ان کی شخصیت درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ملی نغمے لکھے تو لازوال، مصرعے ایسے کہ زبان زدعام ہو گئے۔ اردو زبان کے نجات دہندہ ہونے کا شرف ملاتو بہت سے ایسے کام کر گئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ مولوی عبدالحق بابائے اردو کی وفات کے بعد 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور پھر انجمن کی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں کام کیا۔ انگریزی زبان کی کشش اور یلغار کے سامنے اردو کی اہمیت اور ضرورت کو قائم رکھنا اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان کی نئی اصطلاحیں رائج کرنا‘ اور اردو زبان کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا کوئی آسان ٹاسک نہ تھا، مگر جمیل الدین عالی نے شب و روز ایک کر کے اردو زبان کی ترقی کیلئے کام کیا اور انجمن ترقی ادب کراچی کے ساتھ پچاس برس کی رفاقت نہایت محبت سے نبھائی۔ اس دور میں کم و بیش ساڑھے تین سو کتب ایسی شائع کروائیں جو اردو لسانیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج اگر عدالتی حکم نامے کے مطابق پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو کو مل چکا ہے تو اس کے پیچھے عالی جی جیسے دیوانوں کی اردو زبان سے محبت اور محنت شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں اردو زبان کو رائج کرنے کا بیڑا اٹھائے رکھا۔ ایسا ہی ایک اور قابل قدر کارنامہ عالی جی نے یہ سرانجام دیا کہ اردو کالج کراچی سے وابستہ ہوئے تو اسے وفاقی اردو یونیورسٹی تک پہنچایا یعنی ''جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ کے مصداق عالی جی نے جو بھی کام کرنے کی ذمہ داری لی،اسے احسن طریقے سے نبھایا اور اسے دوسروں کیلئے مثال بنا دیا۔ان کی شخصیت کا ایک اور روپ کالم نگار کا ہے۔ مقامی اخبار میں پچاس برس تک اپنا کالم ''نقار خانے میں‘‘ لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز سامنے آیا۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اورسیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔ ایک ہی کالم میں کئی موضوعات پر یوں لکھتے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے باتیں کر رہے ہوں۔ کالم نگاری سے ہٹ کر عالی جی نے جو نثر لکھی وہ ادبی شہ پارے ہیں مگر اخبار کے کالم میں انہوں نے سادہ اور بے تکلف سا انداز تحریر اپنایا۔ جمیل الدین عالی کا ذکر ہو اور دوہے کی بات نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ اردو میں جدید دوہے کے بانی بھی عالی جی ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عالی جی کو ہر میدان میں اپنا جھنڈا گاڑنے کا کچھ ایسا چسکا تھا کہ انہوں نے اردو شاعری میں بھی وہ صنف چنی جو شعراء کی نظر میں کم کم تھی اور یوں پارٹیشن کے بعد پاکستان میں دوہے کی روایت کے بانی عالی جی ہی بنے اور آج بھی جمیل الدین عالی اور اردو دوہے کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ عالی جی کی زندگی اتنی بھر پور گزری کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص زندگی کے کتنے محاذوں پر جتا رہا اور کہیں بھی اس نے شکست نہیں کھائی۔ جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور اور خوشحال زندگی گزاری۔ جتنا کام، کامیابیاں، پذیرائی اور محبتیں انہوں نے اپنی زندگی میں سمیٹیں، لوگ ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عمر کے آخری چند برسوں میں وہ عارضہ قلب سمیت مختلف امراض کا شکار ہو گئے اور 90 سال جینے کے بعد خالق ِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عالی جس کا فن سخن میں اک انداز نرالا تھا نقد سخن میں ذکر یہ آیا دوہے پڑھنے والا تھا جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا سوکھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھول ابھرنے تھے اب بھی نہ ان کی پیاس بجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا حقیقتوں کو فسانہ بنا کے بھول گیا میں تیرے عشق کی ہر چوٹ کھا کے بھول گیا ذرا یہ دورء احساس حسن و عشق تو دیکھ کہ میں تجھے ترے نزدیک آ کے بھول گیا بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا  

موسم سرما کی سوغات

موسم سرما کی سوغات

ستمبر کے آخری ہفتے اور نومبر کے آغاز سے ہوائوں میں خنکی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نومبر کے آخر تک موسم سرما اپنی تمام تر جوبن کے ساتھ سرد ہوائوں کے ساتھ ہرطرف ٹھنڈک بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں سردموسم میں ٹھنڈ سے محفوظ رہنے کیلئے موسم کے سرما کے پکوان خاصی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں ۔جن کے استعمال سے ہم اپنے جسم کو سردی سے محفوظ رکھتے ہوئے اس موسم کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرسکیں۔چونکہ پاکستان میں سردیاں زیادہ طویل وقت کیلئے نہیں آتیں لہٰذا لوگ اس خاص موسم کی خاص سوغاتوں کو بنانے اور کھانے کا اہتمام بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔گاجر کا حلوہگاجر کا حلوہ سردیوں کی خاص سوغات ہے اور یہ صحت کیلئے نہایت مفید بھی ہے، اس حلوے کا سب سے اہم جزو گاجر ہے، جو کہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن کے اور فائبر سے بھرپور سبزی ہے۔کشمیری چائےدیکھا جائے تو کشمیر میں سردی کا موسم طویل ہوتا ہے اس لیے کشمیر کے لوگ اس چائے کو بہت زیادہ پیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں کشمیری چائے بہت مشہور ہے بلکہ یہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی کھانے کے ساتھ رکھی جاتی ہے۔ مچھلیسردی کے موسم میں ذائقے اور افادیت سے بھر پور غذا مچھلی کا استعمال لوگ بہت شوق سے کرتے ہیں۔مچھلی میں وافر مقدار میں سیلینیم پایا جاتا ہے ،یہ جز و مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردارادا کرتاہے۔مونگ پھلیمونگ پھلی صحت مند چربی، پروٹین اور فائبر کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔اس میں بہت سے وٹامنز پوٹاشیم، فاسفورس اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ مونگ پھلی میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور ان میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔پائےپائے برصغیر کی بہترین اور سب سے زیادہ پسند کی جانے والی ڈش ہے اس کو پکنے میں کافی دیر لگتی ہے۔اس کا اصل مزہ اس میں شامل کیے گئے پائے کے گودے کا ہوتا ہے اور اسی سے جسم کو طاقت بھی ملتی ہے۔ سوپموسم سرما کا ذکر ہو اور جسم کو گرماہٹ دینے والی غذاؤں کی فہرست میں سوپ کا نام نہ شامل ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے، یہ جلد ہضم ہونے والی غذا ہے۔سوپ افادیت کے لحاظ سے لاجواب ہے، بلکہ یہ نظامِ ہضم کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بھی کارآمد ہے۔ ویسے تو مرغی اور بکرے کا سوپ بے حد مفید ہے لیکن سبزیوں سے تیار کردہ سوپ بھی انتہائی لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے  

آج کا دن

آج کا دن

نیوشیپرڈ(New Shepard)نیو شیپرڈ ایک عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کرنے والاخلائی جہاز تھا جسے بلیو اوریجن نے خلائی سیاحتی پروگرام کیلئے تیار کیا تھا۔ بلیو اوریجن ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کی ملکیت ہے۔اس جہاز کا نام امریکہ کے پہلے خلاء باز ایلن شیپرڈ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جو امریکی خلائی ادارہ کے مرکری سیون کے خلا بازوں میں سے ایک تھے۔ 23نومبر2015ء کو100.5کلومیٹر انچائی تک پہنچنے کے بعداس نے کامیابی کے ساتھ عمودی لینڈنگ کی۔اس تجرنے کے بعد یہ کامیاب عمودی لینڈنگ کرنے والا پہلا جہاز بن گیا۔ اس کا ٹیسٹ پروگرام2016ء اور2017ء میں جاری رہا۔میگنڈناؤ قتل عاممیگنڈناؤ قتل(Maguindanao) عام جسے امپاٹوان(Ampatuan) قتل عام بھی کہا جاتا ہے ۔اس قتل عام کا نام اس قصبے کے نام سے منسوب کیا گیا جہاں متاثریں کی اجتمائی قبریں موجود ہیں۔یہ خوفناک واقعہ 23نومبر 2009ء کی صبح میگنڈناؤ،فلپائن کے قصبے امپاٹوان میں پیش آیا۔58افراد بلوآن کے نائب میئر اسماعیل منگودادا تو کیلئے امیدواری سرٹیفکیٹ جمع کروانے جا رہے تھے جب انہیں اغوا کر نے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ مارے جانے والے افراد میں منگوداداتو کی بیوی، اس کی دو بہنیں، صحافی، وکلاء، معاونین، اور گاڑی چلانے والے بھی شامل تھے ۔عراق بم دھماکے23نومبر2006ء کو عراق کے صدر سٹی میں ہونے والے دھماکے دراصل کاربموں اور مارٹر حملوں کا ایک سلسلہ تھا ۔صدر شہر کی ایک بستی میں حملے پر چھ کار بم اور دو مارٹر راؤنڈ استعمال کئے گئے۔ان حملوں میں کم از کم 215افراد ہلاک اور تقریباً100زخمی ہوئے۔2003ء میں عراق جنگ کے بعد یہ سب سے مہلک حملوں میں یہ ایک سمجھا جاتا ہے۔حملوں کے بعد عراقی حکومت نے بغداد میں 24گھنٹے کیلئے کرفیو لگا دیا۔عراق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی تجارتی اور مسافر پروازوں کیلئے بند کردیا گیا اور بصرہ میں بھی ڈاک اور ہوئی اڈوں کی سروس کو معطل کر دیا گیا۔مصری طیارہ اغوامصر ی ائیر لائن کی پرواز648ایتھنز کے ایلی نیکن انٹرنیشنل ائیرپورٹ کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔جہاز قاہرہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کیلئے تیار تھا کہ 23نومبر1985ء کو ایک دہشت گرد تنظیم نے جہاز کو اغوا کر لیا اور جہاز میں موجود تمام سواریوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ مصری فوجیوں کی طرف جہاز کو بازیاب کروانے کیلئے اس پر چھاپہ مارا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیںہوئیں جس کی وجہ سے فلائٹ648کا اغوا ایوی ایشن کی تاریخ کا مہلک ترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔