فورٹ ولیم کالج کے مقاصد

فورٹ ولیم کالج کے مقاصد

اسپیشل فیچر

تحریر : وردہ بلوچ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

مغلیہ حکومت کے کمزور ہونے سے ملک میں انگریزوں کے قدم جمنے لگے اور ملک کا نظم و نسق عملاً ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں آ گیا تو انگلستان سے افسر بھی یہاں آنے لگے۔ جو نوجوان انگلستان سے بھرتی ہو کر ہندوستان آتے تھے وہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناتربیت یافتہ بھی ہوتے تھے۔ برصغیر کی زبانوں اور یہاں کے طور طریقوں سے انہیں ذرا بھی واقفیت نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی انہیں بڑے بڑے منصب عطا کر دیے جاتے۔ ان کی اس کمزوری کو دور کرنے کی غرض سے 10 جولائی 1800ء کو فورٹ ولیم کالج قائم کر دیا گیا، لیکن اس کے افتتاح کی تاریخ چار مئی لکھی گئی، جو ٹیپو سلطان کی شکست اور انگریزوں کی فتح (چار مئی 1799ئ) کی پہلی سالگرہ تھی۔ فورٹ ولیم کالج میں اردو زبان کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا، مگر یہاں درسی ضروریات کے مطابق کتابیں دستیاب نہ تھیں۔ لہٰذا اس مقصد کی تکمیل کے لیے سر رشتۂ تالیف و ترجمہ قائم کیا گیا اور ملک کے اطراف و جوانب سے قابل افراد کو چن کر ان سے اردو کی کتابیں لکھوائی گئیں۔ ان ادیبوں نے جو کارنامے انجام دیے وہ اردو ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تمام تصنیفی و تالیفی سرگرمیاں درسی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر سرانجام دی جا رہی تھیں، لہٰذا سادگی یہاں کی سب تصانیف و تراجم میں پائی جاتی ہے۔ اس کالج کے روح رواں ڈاکٹر جان گلکرسٹ تھے۔ انہوں نے نہ صرف خود تصنیفی و تالیفی خدمات انجام دیں بلکہ اردو کے مصنفین سے معیاری کتابیں تالیف و ترجمہ بھی کروائیں۔ اس طرح متعدد کتابیں ترجمہ ہوئیں جن سے اردو نثر کا ایک اسلوب قائم ہوا۔ اگرچہ فورٹ ولیم کالج سے باہر یہاں کی لکھی ہوئی کتابوں کے اثرات زیادہ مرتب نہ ہو سکے تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ بعد میں ان تصانیف کا اسلوب جدید اردو نثر کا پسندیدہ اور مقبول اسلوب بن گیا۔ یہاں زیادہ تر کتابیں داستان سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ کے موضوعات پر بھی کچھ کتابیں لکھی گئیں اور کچھ مذہبی اور اخلاقی کتابوں کے بھی تراجم ہوئے۔ میرامن نے قصہ چہار درویش کو ’’باغ و بہار‘‘ کے نام سے لکھا۔ ’’باغ و بہار‘‘ اپنی سادہ اور دلکش نثر کی وجہ سے ایک شاہکار کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’گنجِ خوبی‘‘ کا ترجمہ کیا۔ حیدر بخش حیدری نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں قصہ ’’مہرو ماہ، توتا کہانی اور آرائشِ محفل‘‘ قابل ذکر ہیں۔ میر شیر علی افسوس نے سعدیؒ کی کتاب ’’گلستان‘‘ کا ترجمہ ’’باغِ اردو‘‘ کے نام سے کیا۔ منشی سجان رائے کی تاریخی کتاب خلاصۃ التواریخ کو ’’آرائشِ محفل‘‘ کے نام سے اردو میں پیش کیا۔ میر بہادر علی حسینی نے ’’نثرِ بے نظیر، اخلاقِ ہندی، تاریخ آسام، اور قواعدِ زبان اردو‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں۔ خلیل علی خاں اشکؔ نے بھی کئی کتابیں لکھیں مگر بیشتر غیر مطبوعہ رہ گئیں۔ انہوں نے ’’قصہ امیر حمزہ‘‘ کو اردو قالب عطا کیا۔ ان کی دوسری تصانیف میں ’’رسالہ کائنات جو، اور قصہ گلزارِ چین‘‘ بھی ہیں۔ مظہر علی خاں ولاؔ نے ’’مادھونل اور کام کنڈلا، ہفت گلشن، اور بیتال پچیسی‘‘ کے ترجمے کیے۔ شیخ حفظ الدین نے ’’خرد افروز‘‘ لکھی جو ’’عیارِدانش‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کاظم علی جوانؔزیادہ تر مصنفین کو ان کی تالیفات کی تکمیل میں مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی دو کتابیں لکھیں۔ ایک شکنتلا اور دوسری تاریخِ فرشتہ کے بڑے حصے کا ترجمہ۔ مرزا علی لطفؔ نے ’’گلشنِ ہند‘‘ کے نام سے شعرائے اردو کا ایک تذکرہ لکھا۔ امانت اللہ نے اپنی عربی کتاب ’’ہدایت الاسلام‘‘ کو اردو میں منتقل کیا۔ بینی نرائین نے چار گلشن، دیوانِ جہاں، اور شاہ رفیع الدین کی کتاب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ کے ترجمے کیے۔ یہ کالج انگریزوں کی سیاسی اور انتظامی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا تھا مگر اس کا غیرشعوری طور پر اردو زبان کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس کالج نے جس طرح سادہ نگاری پر زور دیا اور اس کے عملی نمونے پیش کیے، اس نے اردو نثر کے اسلوب میں جدید رنگ اور آہنگ پیدا کر دیا۔ اس کالج کی کتابوں کی تصنیف کی غرض و غایت نووارد انگریزوں کو اردو سکھانا تھا۔ اس سے انہوں نے سادگی اور صفائی کے ساتھ ادائے مطلب کا خاص طور پر خیال رکھا۔ اس کالج کے تقریباً تمام مصنفین ایک دو مثالوں کے سوا، سادہ نویسی کے علم بردار تھے۔ سادگی ان مصنفین کی مشترکہ خصوصیت تھی۔ اسی کے ساتھ یہاں ایسے گونا گوں اسالیب سامنے آتے ہیں جن پر اردو کے آئندہ اسالیب کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک طرف میرامن اور شیر علی افسوس دہلی کے روزمرہ اور محاوروں پر اپنی تصانیف کی عمارت کھڑی کرتے ہیں وہیں دوسری طرف مولوی اکرام علی، حیدر علی اور مرزاعلی لطف وغیرہ زبان سنجیدہ اور علمی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو مقامی اثرات سے پاک ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو کے دوسرے مصنفین کو کس طرح متاثر کیا۔ اس سلسلے میں محققین کا یہ کہنا ہے کہ کالج کی کتابوں کا دائرہ اثر اس لیے محدود تھا کہ یہ درسی ضروریات کے تحت لکھی گئی تھیں اور کالج سے باہر ان کی پذیرائی نہیں ہو پاتی تھی۔ ان کتابوں کی باہر کے لوگوں تک رسائی مشکل تھی۔ اس لیے فورٹ ولیم کالج کا اسلوب نگارش کالج کے باہر زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ لیکن بعد کے زمانہ میں یہی اسلوب اردو نثر کا بنیادی اسلوب قرار پایا۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
صاحب کی بیٹھک:جنت گم گشتہ

صاحب کی بیٹھک:جنت گم گشتہ

استور پہنچے تو جیپ ڈرائیور نے ایک نئے سفر کی طرف مائل اور قائل کر لیا کہ ایک ایسا خوبصورت علاقہ دیکھنا ابھی باقی ہے جو ہمیں منی مرگ سے جدائی کا احساس جلد بھلا دے گا۔ پہلے تو ہم نے اس بات کو مذاق سمجھا ، لیکن پھر معلوم ہوا کہ وہ ہماری آوارہ گردی اور کوہ نوردی کی الگ سی حس کی وجہ سے ہمیں کچھ خاص سمجھتے ہوئے ایسے علاقے کی طرف بھیج کر اسے لوگوں کے سامنے لانے کا خواہاں ہے۔یہ مقام ''صاحب کی بیٹھک‘‘ ہے اور جلد ہی ہم نے یہاں تک رسائی کا ارادہ کر لیا۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہم نے اپنا سفر استور شہر سے شروع کیا جو بذریعہ جیپ تھا ایک بار پھر گوری کوٹ ہمارا نقطہ آغاز تھا۔ چورت کے مقام پر ہم دریائے روپل پر قائم پُل پار کرکے رٹو چھاؤنی کی طرف مڑ گئے۔ اب ہمارا سفر دریائے ریاٹ کے ساتھ ساتھ تھا۔ رٹو چھاؤنی سے ہم نے دریائے ریاٹ کو الوداع کہا اور دائیں طرف میر ملک نالے کے ہم قدم ہوگئے۔داؤ جیل گاؤں اور چمروٹ کے مقامات سے گزرتے ہوئے میر ملک گاؤں پہنچے۔ استور شہر سے 3 گھنٹے کا سفر کرکے ہم شونٹر پاس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہماری دائیں جانب مشہور شونٹر پاس تھا جہاں سے لوگ براستہ کیل بکروال قدیم زمانوں سے پیدل سفر کر کے پہنچتے تھے جبکہ مخالف سمت میں پھلاوائی وادی نیلم کے قرب و جوار کے پہاڑ واقع تھے۔ قرب میں چند خانہ بدوش بھی آباد تھے۔ شونٹر پاس کی طرف سے آنے والی ندی کو ایک ایسے پُل سے پار کیا جو لکڑی کے 2 شہتیروں کے درمیان پتھر کی سلیں رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔یہاں سے ہم نے ٹریکنگ کا آغاز کیا اور تھکن کے خوف نے باقی ہم سفروں کو وہیں روک لیا اور ہم آبشار کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ انتہائی آسان تھا، گھاس میں پوشیدہ چند ڈھلوانیں پار کیں تو ایک گمنام جھیل کے کنارے جا اترے۔ یہ جھیل اگرچہ چھوٹی تھی لیکن باقاعدہ الپائن جھیل تھی۔ یہاں سے آگے راستے میں پتھر اور چٹانیں تھیں جن پر ہمیں احتیاط سے قدم اٹھانا پڑے۔ تھوڑی بلندی سے نیچے اترے تو ایک اور خوبصورت جھیل کا دیدار نصیب ہوا۔ یہ جھیل بھی ایک الپائن جھیل ہی تھی جو پچھلی جھیل کی نسبت قدرے بڑی تھی۔دور پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیاں فلک سے محو گفتگو تھیں۔ ان چوٹیوں کے نیچے ایک بڑا گلیشیئر نظر آرہا تھا جس کا دل موہ لینے والا نظارہ بہت ہی آفاقی معلوم ہورہا تھا۔ کچھ آگے بڑھے تو تیسری جھیل کا دیدار نصیب ہوا اور پھر دور سے آبشار کے گرنے کی کھنکتی آواز نے توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔یہاں بھی چند خانہ بدوش آباد تھے اور اپنے گاؤں کو 'صاحب کی بیٹھک‘ کا نام دیتے ہیں۔ گاؤں کی خوبصورتی نے ہم سب کو اپنا گرویدہ کرلیا اور سوچنے پر مجبور کردیا۔یہ انگریز بھی عجیب لوگ تھے جو صدیوں قبل منی مرگ اور صاحب کی بیٹھک تک جاپہنچے اور ہم اب تک ان جگہوں کے دیدار سے محروم رہے۔ شاید واقعی ہم اپنے ملک کی خوبصورتی کو ابھی تک پہچان نہیں سکے۔اس گاؤں کے قریب بھی ایک خوبصورت جھیل موجود تھی۔ چلتے چلتے اب ہم ایک میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اس میدان میں میر ملک کی ندی میدان کا سینہ چیرتے ہوئے چند شاخوں میں تقسیم ہوکر بہہ رہی تھی۔ بعض شاخوں میں پانی مٹیالہ اور بعض میں نیلا تھا۔نیلے رنگ کا پانی تین چارجھیلوں کا تھا جبکہ مٹیالے رنگ کا پانی دیوقامت آبشار کے بطن سے نکل رہا تھا۔ ایک مقام پر مٹیالے رنگت کا پانی شفاف نیلے پانی میں ضم ہو رہا تھا اور ڈرون سے یہ منظر قابلِ دید تھا۔ نظروں کو بھلا لگنے والا میدان گھاس کا مخملی قالین اوڑھے ہوئے تھا۔ کچھ دیر آرام کیا اور پیٹ پوجا کی۔ یاک کا مکھن بطور سالن تازہ روٹی کے ساتھ نوش کیا اور پھر آبشار کی جانب ایک بار پھر سفر شروع کر دیا۔ نالہ پار کر کے آبشار کی طرف چلے لیکن ہمارا راستہ بڑی ندی نے روک لیا۔ اسے پار کرنا ممکن نہیں لگ رہا تھا۔ ماہ اگست میں پانی کی مقدار قدرے کم تھی لیکن پھر بھی لاچار ہوکر آبشار کو دیکھ رہے تھے اور چلتے چلتے ہم اس ندی کے بہاؤ کی مخالف سمت ایک اور جھیل پر جا پہنچے۔ اس مقام سے آبشار کم و بیش 800 میٹر کے فاصلے پر تھی لیکن چہرے پر پڑتی ہلکی پھوار ہمیں آبشار کے قریب جانے کیلئے اکسا رہی تھی۔ اس آبشار کا شور اس قدر زیادہ تھا کہ کان میں بات کرکے ہی بات سنائی دیتی تھی۔ آبشار کا پانی پہاڑ کی چوٹی سے تین حصوں میں گرتا ہے۔ یہ خوبصورت آبشار 700 سے 800 فٹ اونچائی سے گرتی ہے اور پاکستان کی بڑی آبشاروں میں اس کا شمار ہوتا ہوگا۔ شام ہوچکی تھی۔ لہٰذا آبشار کے قریب پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا اب ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس مرتبہ قدرت ہمیں ابھی آبشار کے چرنوں میں بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دینا چاہتی تھی۔ ویسے تو قدرت کا ہر رنگ ہی خوبصورت ہوتا ہے لیکن میرے پسندیدہ مقام منی مرگ کی خوبصورتی میر ملک کے میدان میں موجود 'صاحب کی بیٹھک‘ اور اس کی دل موہ لینے والی آبشار کے سامنے ڈھلتی ہوئی نظر آئی۔اس خوبصورت وادی میں سرسبز مخملی گھاس، ندی نالے، آبشاریں، جھرنے، جھیلیں، مختلف رنگوں کے پہاڑ اور ایک خوبصورت گلیشیئر موجود ہیں جو اسے میری نظر میں پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ بناتے ہیں۔ تین گھنٹے طویل اور تھکا دینے والے اور ایک گھنٹے کے پیدل سفر نے اگرچہ تھکا دیا تھا مگر جس قدر قدرتی حسن یہاں بکھرا تھا کہ اس کے مقابلے میں راستے کی مشکلات کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اس امید کے ساتھ ایک کوہ نورد ان مقامات کی خوبصورتی کو قلم بند کر رہا ہے کہ شاید قدرت کا متلاشی کوئی اربابِ اختیار اس خوبصورت جگہ تک پہنچ جائے اور یہاں کے مکینوں کی زندگی آسان کرنے کیلئے کچھ ٹھوس اقدامات کر سکے۔

پہلی جنگ عظیم:مارن کی لڑائی

پہلی جنگ عظیم:مارن کی لڑائی

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کیلئے ہر لمحہ حالت جنگ کا لمحہ تھا تاہم مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک مارن کے محاذ پر لڑی گئی، جس کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔ 26اگست کی لاکیٹائو کی لڑائی کے بعد مولٹک کی ہدایات کے مطابق جنرل کلاک اپنی آرمی کو جنوب مغرب کی جانب لے جا رہا تھا۔30اگست کو جنرل کلاک کو جنرل بوُلو کی جانب سے ایک پیغام ملا جس میں اسے بتایا گیا تھا کہ فرانس کی فوج کو بری طرح شکست ہو چکی ہے اور دشمن کو قدم جمانے سے روکنے کیلئے ایک شدید حملے کی ضرورت ہے جس کیلئے اس کی پہلی آرمی مدد کر کے جنگ کا خاتمہ کرے۔ جنرل کلاک جو جنگ کے آغاز میں جنرل بوُلو کا ماتحت تھا چند دن پہلے ہی ماتحتی ختم کرکے مطلق العنان جنرل بنا دیا گیا تھا۔ اس نے بہتر یہ سمجھا کہ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرکے ہدایات لے مگر ہیڈ کوارٹر سے رابطہ بہت تاخیر کا باعث بنا۔ کئی دن کے انتظار کے بعد جب کوئی جواب نہ آیا تو کلاک نے فیصلہ کیا کہ وہ جنرل بوُلو کے فیصلے کے مطابق عمل کرے گا۔ 31اگست کو جب جنرل کلاک کو یہ معلوم ہوا کہ جنرل بولو بجائے گرتے ہوئے دشمن پر آخری ضرب لگانے کے ایک ہی مقام پر ایک دن سے زائد عرصے تک پڑائو ڈالے رہا ہے تو اس نے سوچا کہ اس بہترین موقع سے اگر جنرل بوُلو فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا تو نہ اٹھائے۔ اسے تو بہرحال فائدہ اٹھانا چاہیے لہٰذا اس نے جنوب مشرق کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کی پانچویں آرمی کودبانے اور پیرس کے مشرق میں پہنچنے کیلئے اپنی فوج کو پیش قدمی کرنے کی ہدایت کی۔لیگزمبرگ میں مولٹک اپنی مغربی افواج سے مکمل طور پر کٹا ہوا تھا۔ فرانس کی پانچویں آرمی میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کیلئے تیسری اور چوتھی افواج متحرک ہو چکی تھیں۔ اور یہ تمام افواج ایک جگہ مجتمع ہو کر جرمن افواج پر ایک زور دار جوابی حملہ کرنے کیلئے تیاری پکڑ رہی تھی۔ مولٹک ابتدائی طور پر فرانس کی افواج کی پسپائی کو بھرپور شکست سمجھ چکا تھا اور یہ سوچنے کیلئے بالکل تیار نہ تھا کہ جنرل جوفر کسی منصوبے کے تحت بھی اپنی افواج کو پسپائی اختیار کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔مزید یہ کہ جنرل مولٹک اپنی میدان جنگ میں مصروف افواج خصوصاً پہلی اور دوسری آرمی کو یہ معلومات دینے سے بھی قاصر رہا تھا کہ فرانس کی تازہ دم افواج بذریعہ ٹرین میدان کارزار میں پہنچ رہی ہیں اور دوسری طرف پیرس کے ارد گرد قلعہ بندیوں کا کام تیزی سے جاری ہے، جس کے مطابق میدان میں موجود افواج اپنی منصوبہ بندی کرتیں۔فرانس میں پیرس پر حملے کے پیش نظر دارالخلافہ بورڈ یوکس منتقل کر دیا گیا تھا اور تقریباً 5لاکھ شری پیرس سے ہجرت کر گئے تھے۔ تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر جنرل جوفر کو اپنے منصوبے میں پھر تبدیلی کرنی پڑی کیونکہ برطانوی افواج بری طرح تباہ حال ہو چکی تھیں اور انہیں اپنے اوسان درست کرنے میں زیادہ وقت درکار تھا۔ مائونوری میں موجود چھٹی آرمی جو مشرقی افواج کے یونٹس سے مربوط کی گئی تھی ابھی جنگ کیلئے تیار نہ تھی جبکہ جرمن پہلی آرمی کی پیش قدمی کی سمت میں تبدیلی کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں۔ اس نئی صورتحال کے پیش نظر جنرل جوفر نے اپنی چوتھی ہدایات یکم ستمبر کو جاری کیں۔ جن کے مطابق اس نے اتحادی افواج کی پسپائی کا رخ مزید جنوبی سمت پیرس سے ورڈن اور ایک خم کی صورت میں جنوب کی جانب نوجینٹسر سے سائین تک پھیل جانے کی ہدایت کی تھی۔ مزید یہ کہ جنرل جوفر نے جنرل چارلس کی جگہ پانچویں آرمی کی کمانڈ نسبتاً زیادہ جارحیت پسند جنرل فرینچٹ ڈی ایسپیرے کو تفویض کر دی۔ جنرل الیگزینڈ روان کلاک اپنی پہلی آرمی کے ہمراہ 31 اگست سے 2ستمبر تک نہایت تیزی سے جنوب مشرقی جانب بڑھتا رہا۔ اس طرح وہ فرانس کی پانچویں آرمی کے بائیں بازو کو مکمل طور پر تباہ کردینا چاہتا تھا۔ جنرل بوُلو کی فوج جنگ گوئز کے بعد36 گھنٹے کے قیام کی وجہ سے ایک دن کی مسافت پیچھے رہ گئی تھی۔ اس نئی پیش قدمی سے یہ لگ رہا تھا کہ پہلی آرمی فرانس کی پانچویں آرمی کے عقب سے جبکہ دوسری آرمی سامنے سے حملہ آور ہو کر چکی کے دو پاٹوں میں پیس کر رکھ دیں گی۔ 2ستمبر کی شب پہلی آرمی کے 9کور دریائے مارن پر کیٹائوتھیری پر پہنچ چکے تھے۔ اسے مولٹک کی جانب سے ہدایات ملیں کہ وہ دوسری آرمی کے پیچھے رہتے ہوئے جرمن افواج کے دائیں حصے کی حفاظت کرے۔ ایک بار پھر مولٹک نے جنرل کلاک کو فرانس کی افواج کی نقل و حرکت سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ جنرل جوفر اپنے نئے منصوبے کے مطابق جنرل مائیکل مائونیوری کی چھٹی آرمی کے ساتھ 6ستمبر کو جرمنی کی پہلی آرمی پر ایک بھرپور جوابی حملہ کرنے والی تھی جبکہ برطانوی فوج اور پانچویں آرمی بھی جرمن فوج پر پہلوئوں سے حملے کرتے ہوئے پیچھے دھکیلنے کیلئے تیار تھیں۔ جرمنی کے ہیڈ کوارٹر میں مولٹک کو اب محسوس ہو رہا تھا کہ جنرل جوفر کا منصوبہ کیا ہے۔ فرانس کی افواج کا مشرق سے جنوب کی جانب منتقل ہونا اور پیرس کے ارد گرد بھاری فوجی نقل و حمل اسے احساس دلا رہے تھے کہ جنرل جوفر شدید جوابی حملے کیلئے تیاری کر رہا ہے۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اب شیلفن پلان کا متبادل زیر عمل لانا پڑے گا۔ کیونکہ پہلی اور دوسری آرمی اب اس قابل نہیں رہ گئی تھیں کہ وہ دشمن پر فیصلہ کن حملہ کر سکیں لہٰذا وہ ان دو آرمیوں سے مشرقی محاذ پر فرانس کی افواج کو روکتے ہوئے باقی ماندہ پانچ آرمیوں سے جنوب کی جانب فرانس کی مجتمع ہونے والی افواج سے برسرپیکار کرنا چاہتا تھا۔جنرل جوفر2اگست سے 6ستمبر تک اپنی فوج کی کمانڈ اور کنٹرول کے نظام کو سختی سے درست کرتا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تین آرمی کمانڈروں، دس کور کمانڈروں اور اڑتیس ڈویژن کمانڈروں کو تبدیل کیا تھا۔جنرل جوفر نے اپنی چھٹی ہدایت میں فرانس کی چھٹی آرمی کو اپنی خندقوں سے نکل کر شمال کی جانب دریائے آرک کو عبور کرتے ہوئے 6ستمبر کی صبح دشمن پر حملہ آور ہونا تھا۔ ٹھیک اسی وقت برطانوی فوج اور فرانس کی پانچویں آرمی نے اپنے اپنے سامنے موجود دشمن سے بھڑ جانا تھا۔ جوفر کو یہ معلوم تھا کہ اگر اس حملے میں نتائج توقع کے برعکس رہے تو فرانس کیلئے ذلت آمیز شکست کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اسی لئے اس نے پہلی بار اپنے تمام جوانوں سے بلاواسطہ اپیل کی جس میں انہیں ملکی سالمیت کی اس جنگ میں مزید پسپائی کیلئے کوئی جگہ نہ ہونے کی بابت بتایا۔

آج کا دن

آج کا دن

قطب شمالی پر قدم6 اپریل 1909ء امریکی متلاشی رابرٹ پیئری اوران کے نائب میتھیئو ہنسن نے اپنے دیگر 4 ساتھیوں سمیت شمالی قطب پر پہلی مرتبہ قدم رکھا۔ کچھ واقعات کے متعلق لاپرواہی اور کچھ کے متعلق کم معلوما ت ہونے کی وجہ سے ماہرین قطب شمالی پر قدم رکھنے کے بارے میں تحفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ماہرین قطب شمالی پر قدم رکھنے کے متعلق شبہ ظاہر کرتے ہیں ، اس کی تصدیق بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے متعلق شواہد بہت کم ہیں اس لئے اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔برصاکی فتح 6 اپریل 1326ء کو دولت عثمانیہ کے دوسرے حکمران اور عثمان غازی کے بڑے بیٹے اورہان غازی نے بازنطینیوں کے زیر قبضہ شہر برصا کو فتح کیا۔ اس سے قبل اس شہر کو ان کے والد عثمان غازی نے فتح کرنے کی کوشش کی تھی مگر بہت سی لڑائیوں اور جنگوں کے باوجود وہ برصا کو فتح کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکے تھے اور آخر کار ایک بہت بڑے معرکے میں اورہان غازی نے بازنطینیوں شکست دیتے ہوئے برصا کو حاصل کیا۔اس فتح کو تاریخ دانوں نے دولت عثمانیہ کے عروج کی شروعات بھی لکھا ہے۔غوری میزائل کا تجربہپاکستان نے غوری میزائل کا پہلا تجربہ کیا۔غوری پہلا بیلسٹک میزائل ہے جو1800کلومیڑ تک کئی قسم کے بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غوری ٹو بھی اسی پروگرام میں شامل ہے رینج 2ہزار کلومیٹر تک ہے اور انہیں میزائل بردار گاڑیTEL کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔اسے دنیا کی بہترین میزائل ٹیکنالوجیز میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا تجربہ پہلی مرتبہ 6 اپریل 1998ء کو ٹلہ جوگیاں کے قریب ملوٹ ضلع جہلم سے کیا گیاتھا۔جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان2 اپریل 1917ء کو صدر ووڈرو ولسن نے امریکی کانگریس کے خصوصی مشترکہ اجلاس سے جرمن سلطنت کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے لیے کہا۔ کانگریس نے 6 اپریل کو جواب دیا اور اعلان جنگ کا کہا۔جو خط خصوصی اجلاس میں پیش کیا گیا اس میں لکھا گیا کہ جرمن حکومت نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے لوگوں کے خلاف بار بار جنگی کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی طرف سے کانگریس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور جرمن حکومت کے درمیان جنگ کی حالت ہے اور رسمی طور پر اس کا اعلان بھی کیا جائے۔

یادرفتگاں: ایک عظیم قوال غلام فرید صابری

یادرفتگاں: ایک عظیم قوال غلام فرید صابری

غلام فرید صابری پاکستان کے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال تھے، جنہوں نے قوالی کے فن کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ وہ اپنی جادوئی آواز، وجدانی انداز اور منفرد طرزِ گائیکی کی بدولت صوفیانہ موسیقی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔''تاجدارِ حرم‘‘ جیسی متعدد معروف قوالیوں سے لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دینے والے معروف قوال غلام فرید صابری کو دنیا سے گزرے آج31 برس بیت گئے ہیں۔غلام فرید صابری نہ صرف پاکستان کے مقبول ترین قوال تھے بلکہ دنیا بھر میں قوالی کے کروڑوں چاہنے والوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔وہ 1930ء میں ہندوستان کے علاقے روہتک میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک قوال گھرانے سے تھا، جہاں صدیوں سے قوالی کا فن نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ ان کے والد عنایت حسین صابری بھی قوال تھے، جنہوں نے غلام فرید کو بچپن ہی سے اس فن کی تربیت دی۔قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ان کا پہلا البم 1958ء میں ریلیز ہوا، جس کی قوالی ''میرا کوئی نہیں تیرے سوا‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ وہ اپنے بھائی مقبول صابری کے ساتھ مل کر قوالی گایا کرتے تھے، ان کی جوڑی صابری بردران کے نام سے مشہور ہوئی۔70ء اور 80ء کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، اسی زمانے میں انھوں نے ''بھر دو جھولی میری یا محمد‘‘ جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوا لیا۔1975ء میں گائی قوالی ''تاجدار حرم‘‘ نے ان کی شہرت کو دوام بخشا ۔ ایک دور میں ان کے آڈیو کیسٹس کی ریکارڈ فروخت ہوتی تھی۔ انہوں نے قوالی کے صوفیانہ رنگ کو جدید موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور اپنی پرجوش آواز کے ذریعے سامعین کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔صابری برادران نے قوالی میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا اور اس فن کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ ان کی قوالیوں کو سن کر لوگ وجد میں آجاتے اور روحانی سرور محسوس کرتے۔غلام فرید صابری کی قوالیوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بے حد پذیرائی ملی۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک میں اپنی پرفارمنس کے ذریعے قوالی کی خوشبو بکھیر دی۔انہوں نے فلموں کیلئے بھی قوالیاں ریکارڈ کروائیں جن فلموں میں ان کی قوالیاں شامل کی گئیں ان میں ''عشق حبیب، چاند سورج، الزام، بن بادل برسات، سچائی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مقبول فلمی قوالیوں میں ''محبت کرنے والوں‘‘ اور'' آفتاب رسالت‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔اردو کے علاوہ پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبان میں بھی انہوں نے قوالیاں گائیں۔انہیں کئی بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ غلام فرید صابری نے قوالی کو ایک نئی جہت دی اور ان کا اندازِ گائیکی آج بھی کئی نئے قوال اپنا رہے ہیں۔ ان کے بیٹے امجد فرید صابری نے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوالی میں شہرت حاصل کی، مگر بدقسمتی سے وہ بھی جوانی میں شہید کر دیے گئے۔5 اپریل 1994ء کو کراچی میں غلام فرید صابری کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے لیکن ان کا فن آج بھی زندہ ہے۔ ان کی قوالیاں دنیا بھر میں صوفیانہ موسیقی کے شائقین کے دلوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔ ان کی یاد ہمیشہ عقیدت مندوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کا انداز، ان کی عقیدت اور ان کی آواز ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔مشہور قوالیاں٭...تاجدارِ حرم٭...بھر دو جھولی میری یا محمد٭...مریضِ محبت اْنہی کا فسانہ٭...خواجہ کی دیوانی٭...میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا٭...بالے بالے نی سوہنیا٭...محبت کرنے والوہم محبت اس کو کہتے ہیں٭...آئے ہیں تیرے در پہ تو...اعزازاتصابری بردران نے اپنے کریئر میں بیشمار نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز اور اعزازات اپنے نام کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔٭...1978ء میں صدر پاکستان نے غلام فرید صابری کے پورے گروپ کو ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا تھا۔٭...1981ء میں امریکی حکومت کی طرف سے صابری برادران (غلام فرید صابری اور مقبول صابری) کو ''سپرٹ آف ڈیٹرائٹ ایوارڈ‘‘ ملا تھا۔٭... 1977ء میں نظام الدین اولیاء کے مزار کی انتظامیہ نے انہیں ''بلبل پاک و ہند‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔٭...1983ء میں انہیں فرانسیسی حکومت نے اپنے اعلیٰ ترین اعزاز ''چارلس ڈی گائولے ایوارڈ‘‘ دیا۔٭...آکسفورڈ یونیورسٹی نے صابری برادرز کو علامہ اقبالؒ کا کلام ''شکوہ جواب شکوہ‘‘ پڑھنے پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ 

امریکہ کیسے آزادہوا؟

امریکہ کیسے آزادہوا؟

امریکیوں کی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہےامریکہ کا اعلانِ آزادی چار جولائی 1776ء کو امریکی کانگریس نے جاری کیا اور اس کے تحت امریکہ کی 13 نوآبادیوں نے برطانیہ سے سیاسی تعلقات منقطع کر دیے۔ اپنے آپ کو ایک آزاد قوم اعلان کرنے کے بعد امریکہ اس قابل ہو گیا کہ وہ سرکاری طور پر فرانسیسی حکومت سے اتحاد کر لے اور برطانیہ کے خلاف فرانس سے امداد حاصل کرے۔ 1760ء کی دہائی اور 1770ء کے ابتدائی برسوں میں شمالی امریکہ کے برطانیہ کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اس کا تعلق ٹیکس کے نظام اور سرحدی پالیسی سے تھا۔ بار بار احتجاج کیا گیا لیکن برطانوی پالیسیوں کو تبدیل نہ کیا جا سکا بلکہ ہوا یوں کہ بوسٹن کی بندرگاہ بند ہوگئی اور امریکہ کی ایک ریاست میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ نوآبادی حکومتوں نے کانگریس کو وفود بھیجے جنہوں نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ برطانوی اشیاء کا بائیکاٹ کرے۔ جب برطانوی فوجوں اور امریکہ کی نوآبادیوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو پھر کانگریس نے مقامی گروپوں کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی اشیاء کے بائیکاٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ دوسرا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ کے خلاف مزاحمت کیلئے رابطوں کو مضبوط بنایا جائے۔ برطانوی افسروں کو اپنی نو آبادیوں میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور ان کے احکامات کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔ مزاحمت مقامی حکومتیں کر رہی تھیں لیکن کچھ علاقوں میں ایسے عناصر موجود تھے جو برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر رہے تھے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود ان نوآبادیوں کے رہنماؤں کو امید تھی کہ برطانوی حکومت کے ساتھ مصالحت کا راستہ نکل آئے گا لیکن کانگریس کے انقلابی ارکان کے علاوہ تمام اعلانِ آزادی کے مخالف تھے۔ تاہم 1775ء کے آخر میں خط و کتابت کی خفیہ کمیٹی کے رکن بینجمن فرینکلن نے فرانسیسی ایجنٹوں اور دیگر ہمدرد یورپی ملکوں کو اشارہ دیا کہ نوآبادیاں آہستہ آہستہ آزادی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ فرینکلن کو یہ امید بھی تھی کہ وہ فرانس کو امریکہ کی مدد کیلئے قائل کر لے گا۔ اگر فرانسیسی رہنماؤں نے امریکہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر آزادی ضروری ہو جائے گی۔ یہ امید بھی کی جا رہی تھی کہ اگر برطانویوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ امریکہ کو آزادی دینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ امریکی نوآبادیوں کے لوگ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا بہرحال آسان نہیں۔ 1775-76ء کے موسم سرما میں کانگریس کے ارکان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ برطانیہ سے مصالحت کا کوئی امکان نہیں اور ان کے پاس آزادی کا اعلان کرنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بس ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔ جب 22 دسمبر 1775ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے امریکی نوآبادیوں کے ساتھ تجارت پر پابندی لگائی تو کانگریس نے 1776ء میں نو آبادیوں کی بندرگاہیں کھول دیں۔ یہ امریکی فیصلے کا کرارا جواب تھا۔ یہ برطانیہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کیلئے اہم اقدام تھا اور امریکہ اس اقدام کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ نوآبادیوں کی مدد تھامس بین کے پمفلٹ ''کامن سینس‘‘ کے جنوری کے شمارے نے کی۔ اس پمفلٹ نے امریکہ کی آزادی کی پرزور وکالت کی۔ پمفلٹ کو نو آبادیوں میں بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا۔ فروری 1776ء تک نوآبادیوں کے رہنما بیرونی ممالک سے اتحاد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ انہوں نے ''جدید معاہدہ‘‘ کا مسودہ تیار کرنا شروع کر دیا۔ یہ رہنما چاہتے تھے کہ آزادی کے حصول کیلئے انہیں کانگریس کی بھرپور امداد ملنی چاہیے اور اس امداد کو یقینی بنایا جائے۔ 7 جون 1776ء کو رچرڈ ہنری نے کانگریس میں ایک تحریک پیش کی۔ یہ تحریک آزدی کا اعلان کرنے کے بارے میں تھی۔ کانگریس کو اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ کچھ نوآبادیاں ابھی تک اس پر مکمل تیار نہیں ہیں۔ کانگریس نے اعلان آزادی کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی اور یہ کام تھامس جیفرسن کے سپرد کر دیا۔ بینجمن فرینکلن اور جان ایڈمز نے جیفرسن کے مسودے کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اس کی اصل شکل کو محفوظ کر لیا، لیکن اُن چیزوں کو روک لیا جن کی وجہ سے کوئی تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا یا کسی شک کی گنجائش پیدا ہو سکتی تھی۔ کمیٹی نے حتمی مسودہ 28 جون 1776ء کو کانگریس میں پیش کیا جس نے 4 جولائی کو اعلانِ آزدی کا حتمی مسودہ منظور کر لیا۔ برطانوی حکومت نے اعلانِ آزادی کو مسترد کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ برطانوی حکمرانوں نے پراپیگنڈا کے ماہر افراد سے کہا کہ وہ اس اعلانِ آزادی کی خامیاں اور نقائص سامنے لائیں اور نوآبادیوں کے رہنماؤں کی شکایات کی تردید کریں۔ اس اعلانِ آزادی نے برطانیہ کی حزبِ اختلاف کو تقسیم کر دیا۔ ایک گروپ اس اعلانِ آزادی کی مخالفت پر کمر بستہ تھا لیکن آئر لینڈ میں اس کے بہت سے حامی موجود تھے۔ ہالینڈ نے 1782ء میں امریکہ کی آزادی کو تسلیم کر لیا۔ اگرچہ 1779ء میں سپین برطانیہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوا تھا لیکن اس نے امریکہ کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا لیکن جب 1783ء میں ''پیرس معاہدہ‘‘ سامنے آیا تو سپین نے بھی امریکہ کا اعلانِ آزادی تسلیم کر لیا۔ معاہدے کی شرائط کی رو سے جس نے امریکی انقلاب کی جنگ کا خاتمہ کر دیا تھا، برطانیہ نے سرکاری طور پر امریکہ کو آزاد اور خودمختار قوم کے طور پر تسلیم کر لیا۔ یہ سب امریکیوں کی جدوجہد کا ثمر تھا۔ انہوں نے کامل یکسوئی اور جہدِ مسلسل سے آزادی حاصل کی۔  

آج کا دن

آج کا دن

ائیر بریک کی ایجادجارج ویسٹنگ ہاؤس جونیئر پنسلوانیا میں مقیم ایک امریکی تاجر اور انجینئر تھا۔ 1905ء میں آج کے دن اس نے ریلوے ایئر بریک بنائی اور برقی صنعت میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔اس نے 19 سال کی عمر میں اپنا پہلا پیٹنٹ اپنے نام رجسٹر کروایا۔ ویسٹنگ ہاؤس نے1880ء کے اوائل میں الیکٹرک پاور کی تقسیم کے لیے متبادل کرنٹ کے استعمال کی صلاحیت کو دیکھا اور اپنے تمام وسائل کو اس کی ترقی اور مارکیٹنگ میں لگا دیا۔وینیرا پروگرام''وینیرا 14‘‘ روس کی جانب سے شروع کیا جانے والا ایسا پروگرام تھا جس کا مقصد زہرہ کی تلاش کرنا تھا۔ یہ سوویت یونین کے وینیرا پروگرام کا ایک اہم حصہ تھا۔وینیرا 14 وینیرا 13 خلائی جہاز سے مماثل تھا اور اسے 1981ء کے وینس لانچ کے موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اسے پانچ دن کے فاصلے پر لانچ کیا گیا۔ وینیرا 14کو 4 نومبر 1981 اور ''وینیرا 13‘‘ کو 30اکتوبر 1981ء کو لانچ کیا گیا ۔ دونوں ہی خلائی جہاز 760 کلوگرام وزن کے ساتھ مدار میں پہنچے تھے۔''اکاسی کائیکو ر ‘‘کا افتتاح5اپریل 1998 ء کو جاپان میں کوبے شہر اور آواجی نامی جزیرے کو آپس میں ملانے کے لئے اس وقت دنیا کے سب سے طویل پل کا افتتاح کیا گیا۔ اس پل کا نام اکاسی کائیکو رکھاگیا۔ اسے جاپان میں فن تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔جس وقت اسے عوام کیلئے کھولا گیا اس کی لمبائی ایک ہزار991میٹر تھی۔اس شاندار پل کو مکمل ہونے میں 10سال کا طویل عرصہ لگا اوریہ ہزاروں افراد کی آمدورفت کا محفوظ ذریعہ بنا۔ارینا طوفان نے تباہی مچائیارینا ایک بہت بڑا ٹراپیکل طوفان تھا۔ اس نے مڈغاسکر، موزمبیق اور جنوبی افریقہ میں تیز ہواؤں اور بارشوں سے بہت زیادہ تباہی مچائی۔ اس کی تباہ کاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس طوفان نے 2011ء اور 2012ء کے سیزن میں سب سے زیادہ تباہی مچائی اور نقصان پہنچایا۔ اس لئے اسے تاریخ کے بدترین طوفانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ارینا ایک ایسی ٹراپیکل لہر سے بنا جو مڈغاسکر کے شمال میں واقع تھی۔یہ بغیر کسی رکاوٹ کے جنوب کی جانب بڑھا اور ارینا کی شکل اختیار کر گیا۔ارینا مڈغاسکر کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا جس کی وجہ سے شدید سیلاب آیا ۔