گلوکار بشیر احمد , انہوں نے لازوال گیت گائے، وہ نغمہ نگار اور موسیقار بھی تھے
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی اردو فلموں کی کامیابی میں بنگالی اداکاروں، نغمہ نگاروں اور سنگیت کاروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں 60کی دہائی میں بڑی معیاری اردو فلمیں بنائی گئیں۔ بنگالی فنکاروں میں شبانہ، شبنم، رحمان، مصطفی، نسیمہ خان اور دیگر فنکاروں کی خدمات تسلیم نہ کرنا صریحاً ناانصافی ہوگی۔ اس طرح سرور بارہ بنکوی اور اختر یوسف نے اعلیٰ درجے کے فلمی گیت تخلیق کیے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ موسیقاروں کی بات کی جائے تو روبن گھوش کی فنی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ انہوں نے یادگار دھنیں تخلیق کیں۔ گلوکاراؤں میں رُونا لیلیٰ فردوسی بیگم اور شہناز بیگم کو کون بھول سکتا ہے اور پھر گلوکار بشیر احمد کی مدھر بھری آواز کے دیوانوں کی آج بھی کمی نہیں۔ وہ بشیر احمد جنہیں مشرقی پاکستان کا ا حمد رشدی کہا جاتا تھا۔ 60 کی دہائی میں نہایت مقبول تھے۔ انہوں نے بلاشبہ اتنے خوبصورت گیت گائے جن کو سن کر آج بھی دل جھوم اٹھتا ہے۔بشیر احمد 11نومبر 1940 کو کولکتہ (مغربی بنگال) میں پیدا ہوئے انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ڈھاکہ چلے آئے جہاں انہوں نے پلے بیک گلوکار کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ 15برس کی عمر میں ہی وہ استاد ولایت حسین کے شاگرد بن گئے۔ جب وہ ممبئی آئے تو یہاں انہوں نے استاد بڑے غلام علی خان سے بہت کچھ سیکھا۔ بشیر احمد نے بھارت کی مشہور گلوکارہ گیتاوت کے ساتھ بھی کام کیا۔ ڈھاکہ میں بشیر احمد کے برادرِ نسبتی عشرت کلکتوی نے اُن کا تعارف روبن گھوش سے کرایا۔ وہ ان دنوں اردو فلم ’’تلاش‘‘ کے گیت لکھ رہے تھے۔ یہ اتفاق کی بات ہے اس فلم کے زیادہ گیت سرور بارہ بنکوی نے تخلیق کیے۔ بشیر احمد نے اس فلم کے لیے کچھ گانے گائے۔ جن میں ’’کچھ اپنی کہیے، کچھ میری سنیے‘‘ اور ’’میں رکشے والا بے چارہ‘‘ بہت ہٹ ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو اور گیت گائے۔بشیر احمد شاعری بھی کرتے تھے اور انہوں نے اپنا ادبی نام بی اے دیپ رکھا ہوا تھا۔ 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’تلاش‘‘ کے سپرہٹ نغمات گانے کے بعد بشیر احمد شہرت کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ چکے تھے۔ اس دوران فلمساز مستفیض نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے اپنی فلم ’’ساگر‘‘ کیلئے ایک نغمہ گانے کو کہا۔ بشیر احمد نے وہ نغمہ گایا جس کے بول تھے ’’جو دیکھا پیار ترا‘‘۔ 1964 میں انہوں نے روبن گھوش کی موسیقی میں فلم ’’کارواں‘‘ کے گیت گائے۔اس فلم کے تمام گیت ہٹ ہوئے لیکن بشیر احمد کا گایا ہوا یہ گیت ’’جب تم اکیلے ہو گے ہم یاد آئیں گے‘‘ مقبولیت کی تمام حدیں پار کر گیا۔ اس گیت کو انہوں نے خود ہی لکھا تھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ نغمات بی اے دیپ کے نام سے لکھتے تھے اور پلے بیک گلوکاری بشیر احمد کے نام سے کرتے تھے۔ انہوں نے ’’ساگر، کارواں، ایندھن، ملن، کنگن اور درشن‘‘ کے نہ صرف نغمات لکھے بلکہ انہیں گایا بھی۔ بشیر احمد نے ان فلموں کے لیے شاندار گیت گائے۔ جن گیتوں نے بہت شہرت حاصل کی ان میں ’’یہ موسم یہ مست نظارے، تمہارے لئے اس دل میں، دن رات خیالوں میں، ہم چلے چھوڑ کر، گلشن میں بہاروں میں تو ہے‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے میڈم نور جہاں کے ساتھ بھی ایک دو گانا گایا ’’چن لیا اِک پھول کو‘‘۔ یہ دو گانا بھی بہت ہٹ ہوا۔1971 میں جب بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو مغربی پاکستان کے فلمسازوں نے ان کی وہ قدر و منزلت نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بشیر احمد رشدی کے انداز میں گاتے ہیں جو اس وقت بہت بڑے پلے بیک گلوکار تھے۔ اس دوران بشیر احمد نے فلم ’’بِل سٹیشن‘‘ کے جو نغمات گائے اُن کو بہت پذیرائی ملی لیکن ان کے علاوہ ان کا کوئی اور قابل ذکر گیت نہیں ملتا۔کہا جاتا ہے کہ 70کی دہائی میں سقوطِ ڈھاکہ پر ایک فلم بنائی گئی جس کا نام تھا سنگتراش‘‘۔ اس میں بشیر احمد کے گیت بھی شامل تھے، جن میں ’’بول ذرا کچھ دنیا والے‘‘ اور ’’مکھڑے میں چاند‘‘ شامل ہیں اس وقت جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی۔ فلمساز کی بے پناہ کاوشوں کے باوجود اس فلم کی نمائش کی اجازت نہ ملی۔ بشیر احمد اس کے بعد بنگلہ دیش چلے گئے جہاں انہوں نے طویل عرصے تک بنگالی فلموں کے بے شمار گیٹ گائے۔ اس لیے بشیر احمد کو صرف اردو فلموں کا ہی نہیں بلکہ بنگالی فلموں کا گلوکار بھی کہا جاتا ہے۔2005 میں انہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے ایکوشے پدک ایوارڈ دیا۔ اس کے بعد انہیں ’’کوک ہو تو میگھ کوک ہو تو برستی‘‘ کیلئے شاندار نغمات گانے پر بنگلہ دیش نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بشیر احمد نے غزلیں بھی گائیں اور غزل گائیکی میں بھی انہوں نے شہرت حاصل کی۔ یہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ قدرت نے بشیر احمد کو زبردست صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انہوں نے عمر بھر اپنی ان صلاحیتوں سے اہل موسیقی کو حیران کیے رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ بشیر احمد جیسا باصلاحیت فنکار بار بار پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے اردو اور بنگالی ہٹ گانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نغمہ نگار اور موسیقار کی حیثیت سے بھی انہوں نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیش میں ان کے مداحین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔بشیر احمد 19اپریل 2014 کو 73برس کی عمر میں ڈھاکہ میں انتقال کر گئے۔ اس موقع پر ان کا یہ گیت بہت یاد آیا ’’ہم چلے چھوڑ کر تیری محفل صنم‘‘۔٭…٭…٭