شہزاد احمد… ایک مکمل شاعر انہوں نے شاعری پر 30 کتابیں لکھیں,نام زندہ رہےگا
60ء کی دہائی میں بعض شعرا نے جدید طرزِ احساس کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا۔ ان میں شہزاد احمد کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی شاعری میں شعری طرزِ احساس کے ساتھ ساتھ ایک نیا لہجہ بھی ملتاہے۔ انہوں نے بہت لکھا اور غزل کے میدان میں اپنی ایک الگ حیثیت منوائی۔ شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ انہوں نے امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات اور فلسفے میں ایم اے کیا۔ انہوں نے شاعری پر 30 کتابوں کے علاوہ نفسیات پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انہیں 90ء کی دہائی میں تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان کے مشہور شعری مجموعوں میں ’’صدف، جلتی بجھتی آنکھیں، ٹوٹا ہوا پل، اترے مری خاک پہ ستارے، بچھڑ جانے کی رت‘‘ شامل ہیں۔شہزاد احمد بعض اوقات چونکا دینے والے شعر کہتے ہیں۔ ان کی قوتِ متخیلہ دیکھ کر قاری حیرت کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئےشام ہونے کو ہے جلنے کو ہے شمعِ محفلسانس لینے کی بھی فرصت نہیں پروانے کوندرتِ خیال کے حوالے سے یہ شعر بھی دل کو چھو لیتا ہےتختہ دار پہ چاہے جسے لٹکا دیجئےاتنے لوگوں میں گنہ گار کوئی تو ہو گاشہزاد احمد کالج کے زمانے سے ہی شعر کہتے تھے اور مشاعروں میں اپنا کلام سناتے تھے۔ انہوں نے شروع سے ہی یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک باصلاحیت شاعر ہیں اور مستقبل میں بہت نام کمائیں گے۔ وہ ایک عالم فاضل آدمی تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے نفسیات اور فلسفے کے حوالے سے بھی کئی باتیں کر جاتے تھے۔ کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ شہزاد احمد نے فیض اور فراز کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھا۔ شہزاد احمد کی غزل کا رومانوی لہجہ بڑا متاثر کن ہے۔ نکتہ آفرینی ان کی شاعری کا اہم وصف تھا۔ وہ براہ راست ابلاغ کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں ہمیں مشکل تراکیب نہیں ملتیں۔ ان کا کلام زیادہ تر سادہ زبان میں ہے اور فوری طور پر قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہزاد احمد حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کا بڑی شدت سے احساس بھی ہوتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ شہزاد احمد نے خود بھی ایک شعر میں یہ تسلیم کیا ہے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ کریںمیں چاہتا ہوں حقیقت پسند ہو جاؤں مگر ہے اس میں یہ مشکل حقیقتیں ہیں بہتاب ایک اور شعر ملاحظہ کریں جس میں ان کے تخیل کی اڑان دیکھئےکس لیے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھاشہزاد احمد شعری طرزاحساس کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شعریت سب سے ضروری ہے۔ بعض اوقات ان کے ہاں داخلیت اور خارجی عوامل کا بڑا دلچسپ امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے کبھی قنوطیت سے کام نہیں لیا اور ہمیشہ رجائیت پسند رہے۔ رجائیت بھی وہ جس میں زندگی کی حرارت نظر آتی ہے یعنی حیات افروز رجائیت۔ شہزاد احمد نے نظمیں بھی لکھیں مگر ان کی اصل شہرت ان کی غزلوں کی وجہ سے ہے۔ ذیل میں ہم ان کی غزلوں کے مزید اشعار قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔ یہ چاند ہی تری جھولی میں آ پڑے شایدتُو اس پہ بیٹھ کمند آسماں پر ڈالے جاوہ مری صبحوں کا تارا وہ مری راتوں کا چاندمیرے دل کی روشنی تو تھا مگر میرا نہ تھایار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتےبزم میں مرا گِلہ سب نے کیا میرے بعدپتھر نہ پھینک دیکھ ذرا احتیاط کر ہے سطحِ آب پر کوئی چہرہ بنا ہوا عمر جتنی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹیاور اب سوچتا ہوں اس کا بھروسہ کیا تھاجس نے تری آنکھوں میں شرارت نہیں دیکھیوہ لاکھ کہے اس نے محبت نہیں دیکھیدن نکلتے ہی وہ خوابوں کے جزیرے کیا ہوئےصبح کا سورج مری آنکھیں چرا کے لے گیاکہیں بھی سایہ نہیں کس طرف چلے کوئیدرخت کاٹ گیا ہے ہرے بھرے کوئیجھولی میں گُل تو کیا کوئی کانٹا ہی ڈال دو مایوس تو نہ ہو کوئی دامن پسار کےشہزاد احمد زندگی میں کئی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ وہ مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ دو اگست 2012ء کو یہ باکمال شاعر 80 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔