سموگ کے اہم اسباب

سموگ کے اہم اسباب

اسپیشل فیچر

تحریر : رضوان عطا


1905ء میں ہونے والی ایک ’’صحت عامہ کانفرنس‘‘ میں ڈاکٹر ہنری انتوین ڈی وُو نے ایک مقالہ پیش کیا جس میں غالباً پہلی بار ’’سموگ‘‘ کا لفظ برتا گیا۔ یوں انگریزی کے دو الفاظ ’’فوگ‘‘ یعنی دھند اور ’’سموک‘‘ یعنی دھواں کو ملا کر بنائے گئے اس نئے لفظ کا سہرا ڈاکٹر ہنری کے سر باندھا جاتا ہے اور اس کا ایک پسِ منظر ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی دارالحکومت لندن کو دھند اور دھوئیں کے ملاپ سے بننے والی سموگ کی ایک قسم نے لپیٹ رکھا تھا۔ برطانیہ میں صنعتی ترقی کا دور تھا اور اس میں بطور ایندھن کوئلے کا استعمال عام تھا۔ تب برطانوی گھروں میں موسم سرما میں حدت پیدا کرنے اور صنعتوں کو چلانے کی خاطر کوئلے کو جلایا جاتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئلہ جلنے پر دھواں پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر ہنری کا کہنا تھا کہ سموگ فضا میں دھویں اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی سے بنتی ہے۔ یوں دنیا اس نئے مظہر سے واقف ہوئی جس میں دور تک دیکھنا مشکل ہوتا ہے، آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ چند برس قبل تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے والے افراد ہی کو سموگ کی جان کاری تھی۔ امریکا چین اور انڈیا سمیت بعض ممالک کے بڑے شہروں میں سموگ چھا جانے کی خبریں ٹیلی ویژن کی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر آجایا کرتی تھیں، عملاً اس کا سامنا پاکستان کے شہریوں نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب ملک کے تمام بڑے شہروں کے باسی اس کا تلخ تجربہ کر چکے ہیں اور ان کی تعداد شاید کروڑوں میں ہے۔ لندن کی مذکورہ سموگ اور لاہور میں پیدا ہونے والی سموگ میں کچھ فرق ہے کیونکہ تب اور اب کی طرزِزندگی، ٹیکنالوجی اور صنعت مختلف ہیں۔ دور حاضر میں پیدا ہونے والے سموگ میں آلودگی کی متنوع اقسام کا عمل دخل ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں پیدا ہونے والے سموگ میں انڈیا میں فصلوں کو جلانے کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ اس سے بڑی مقدار میں دھواں پیدا ہوتا ہے۔ یہ دھواں بالخصوص دہلی کو متاثر کرتا رہا لیکن اب یہ پاکستان میں لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک اور سبب سرما میں ہوا کا جمود بھی ہے، جس کی وجہ سے سموگ ٹھہر جاتی ہے۔ دیگر عوامل میں ٹرانسپورٹ ذرائع اور صنعتوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ہے۔ موجودہ زمانے میں طرح طرح کی آلودگی کا ملاپ سموگ جیسے زہریلے عمل کو پیدا کرتا ہے۔عام طور پر سموگ کو گرما اور سرما میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ گرمائی سموگ پیچیدہ قسم کے فوٹوکیمیکل تعامل (روشنی کی مدد سے لائی گئی کیمیائی تبدیلیاں) سے پیدا ہوتی ہے اور یہ مظہر ریاست ہائے متحدہ امریکا میںزیادہ دیکھا جاتا ہے۔ اس میں عام طور پر دھواں یا بھاپ پیدا کرنے والے نامیاتی مرکبات (مثلاً لکڑی، کوئلہ اور ایندھن)، نائٹروجن آکسائیڈز اور سورج کی روشنی زمینی اوزون بنا دیتے ہیں۔ یہ اوزون فضا کی بیرونی سطح کے برخلاف زمین کی سطح کے قریب ہوتی ہے۔ زمینی سطح سے بہت بلند اوزون کی تہ انسانوں کے لیے مفید ہے کیونکہ یہ تابکاری کو زمین تک پہنچنے میں مانع ہے جبکہ نچلی اوزون نقصان دہ ہے۔ سرما اور گرماکے ساتھ ساتھ سموگ کی دو اقسام کے لیے بالترتیب سلفوریس سموگ اور فوٹوکیمیکل سموگ کی اصطلاحیں بھی رائج ہیں۔ سلفوریس سموگ اسی طرح کی ہوتی ہے جس سے لندن کو واسطہ پڑا تھا۔ یہ سلفرڈائی آکسائیڈ کے فضا میں زیادہ ارتکاز سے پیدا ہوتی ہے،اسے پیدا کرنے والے عوامل میں کوئلے جیسے فاسل فیولز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فوٹو کیمیکل سموگ کو ’’لاس اینجلس سموگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی شہر سے نسبت اس کے وہاں شروع ہونے اور بار بار آنے کی وجہ سے ہے۔ یہ سموگ عموماً ان شہروں میں ہوتی ہے جہاں گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ اس کے لیے دھند کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ اس کی بنیاد نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن بخارات ہوتے ہیں جو گاڑیوں کے دھویں اور دیگر ذرائع سے خارج ہوتے ہیں۔ بعدازاں زمین کی سطح کے قریب فضا میں ان کا فوٹو کیمیکل تعامل (ری ایکشن) ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی کی موجودگی میں نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈروکاربن بخارات کے تعامل سے زہریلی اوزون گیس پیدا ہوتی ہے۔اس طرح پیدا ہونے والی سموگ سے فضا کا رنگ بدل سا جاتا ہے۔ فوٹو کیمیکل سموگ میں ٹرانسپورٹ ذرائع مثلاً بس، ٹرک، کار سے نکلنے والا دھواں، کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے اور ایسے اجزا بھی جو گنجان آباد اور بڑے شہروں میں سموگ کا باعث بنتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ ذرائع سے سلفر ڈائی آکسائیڈز کا بھی اخراج ہوتا ہے۔ سرما میں سموگ کاروایتی سبب کوئلہ رہا ہے۔ کوئلے سے توانائی ماضی میں بھی حاصل کی جاتی تھی اور اب بھی کی جاتی ہے۔ عہد وسطیٰ کے انگلستان میں کوئلے کا استعمال عام تھا اور اس سے پیداشدہ سموگ سے لندن بیسویں صدی کے وسط تک خاصا بدنام رہا۔ جب چین نے ترقی کی راہ لی تو اس کے ہاں کوئلے کا استعمال بہت بڑھ گیا اور اس سے فضائی آلودگی اور سموگ جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ چین میں اب اس مسئلے پر قابو پانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔مجموعی طور پر دنیا میں کوئلے کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں سرمائی سموگ میں کوئلے سے زیادہ دیگر عوامل کا ہاتھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سموگ کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں اور ذمہ دار عوامل پر قابو پایا جائے کیونکہ یہ بہت بڑی آبادی کو صحت کے مسئلے سے دوچار کر دیتی ہے۔ یہ کاوشیں اجتماعی ہونی چاہئیں اور اس میں خطے اور عالمی سطح پر تعاون ہونا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کفایت شعاری کا عالمی دن

کفایت شعاری کا عالمی دن

کفایت شعاری کا عالمی دن 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے،اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد آمدن سے زیادہ اخراجات پر قابو پانا ہے اور بچت کو فروغ دینا ہے۔ کفایت شعاری کو بہت سی ثقافتوں میں ایک خوبی سمجھا جاتا ہے۔ جب انسانوں نے وسائل بچانے کا تہیہ کرلیا تو 1924ء میں میلان میں پہلی بین الاقوامی کفایت شعاری کانگریس منعقد ہوئی۔ کفایت شعاری کا عالمی دن منانے کا آغاز اسی سوچ کی کڑی تھا۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد آمدن سے زیادہ اخراجات پر قابو پانا ہے اور بچت کو فروغ دینا ہے۔ ہر سال اس کا ایک تھیم مقرر کیا جاتا ہے، حالیہ برسوں میں، تھیمز محفوظ مستقبل کیلئے بچت کے خیال کے گرد گھوم رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2022ء کا تھیم تھا ''کفایت شعاری آپ کو ایک مستحکم مستقبل کیلئے تیار کرتی ہے‘‘۔ اس دن کی مناسبت کے تحت، بینک، مالیاتی ادارے، اور غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو بچت کھاتے کھولنے، اپنے بجٹ کی منصوبہ بندی کرنے اور طویل مدتی مالیاتی فیصلے کرنے کی ترغیب دینے کیلئے ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنس وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ بچت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے عالمی سطح پر مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ان میں تعلیمی پروگرام، بچت کے چیلنجز، اور کمیونٹی پر مبنی مالی خواندگی کی مہمات شامل ہیں جن کا مقصد بالغ افراد اور بچوں دونوں کیلئے ہے۔ اس دن کی مناسبت سے بہت سے بینک خصوصی بچت اسکیمیں متعارف کرواتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچت کی باقاعدہ عادت اپنانے کی ترغیب دی جا سکے۔ دنیا میں بچت کرنے کا سب سے زیادہ رواج جن ملکوں میں ہے ان میں سرفہرست مکاؤ، جمہوریہ کانگو، قطر، آئرلینڈ، برونائی، سنگاپور، لکسمبرگ، گبون، متحدہ عرب امارات اور چین ہیں۔ دین اسلام نے بھی کفایت شعاری کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے ترجمہ ''اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 27)۔قرآن کریم کے اس فرمان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ فضول خرچی کرنا در اصل اللّٰہ تعالیٰ کی ناشکری کرنا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس حوالے سے مکمل رہنمائی کی گئی ہے رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ''جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مال دار بنا دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کردیتا ہے۔ (مسند البزار، 161/3، حدیث946) ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ ''خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔‘‘ اسلام ہمیں ہر چیز کو احتیاط سے کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ جس نے کفایت شعاری کو اپنایا، اْس نے حکمت و دانائی سے کام لیا۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہے۔ انگریز مفکر سوفٹ کا کہنا ہے کہ کفایت شعاری سب سے بڑی دولت ہے۔ آج دنیا بھر میں معاشی حالات مستحکم نہیں ہیں، صرف ممالک ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی ہر شخص پریشان نظر آتا ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ پریشانی کی ایک بڑی وجہ صرف فضول خرچی، خواہشات کی تکمیل ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ آج کے گلوبل ویلیج میں اکثر افراد سوشل میڈیا پہ مختلف قسم کی مصنوعات، برانڈڈ چیزیں دیکھ کر اُنہیں بلا وجہ اپنی خواہشات اور منشا بنا لیتے ہیں۔ ان کی ذاتی جمع پونجی خواہشات کی تکمیل کے راستے میں ہی ختم ہو جاتی ہے اور وہ خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اُداس و غمگین رہنا شروع ہو جاتے ہیں، اسی پریشانی میں مبتلا ہو کر کئی ایک تو اپنی زندگی تک کا خاتمہ کر لیتے ہیں جبکہ کئی افراد ذہنی عارضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے اپنے سے کم حیثیت، کم مرتبہ افرد کی طرف نظر کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم تمام امورِ خیر کی جمع ہے کیونکہ جب بندہ دنیاوی اعتبارسے اپنے سے بَر تَر شخص کو دیکھتا ہے تو اُس کا دل چاہتا ہے کہ وہ بھی اُس فلاں بندے کی طرح بنے اور خود کے پاس جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ اُسے تھوڑا سمجھتا ہے اور زیادہ کی طلب میں لگ جاتا ہے، خواہشات تو انسان کی قبر تک پوری نہیں ہو سکتیں۔ جب بندہ دنیاوی امور میں اپنے سے کم مرتبے، اپنے سے کم مال ودولت والے کو دیکھتا ہے تو اُسے سمجھ آتی ہے کہ مجھ پر تو اللہ پاک کی کس قدر نعمتیں ہیں تو وہ ان نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر بجا لاتا ہے۔ بہت آسانی کے ساتھ تمام ضروریات پوری بھی ہو جاتی ہیں اور انسان کا دل بھی مطمئن ہو جاتا ہے۔ میانہ روی اور کفایت شعاری کو اپنا کر انسان اپنے کئی رکے ہوئے کاموں کو بھی با آسانی پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ کفایت شعاری، میانہ روی اختیار کرنے کا مطلب خود کو محروم رکھنا نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم صحیح اور بہتر فیصلے کرنا ہے۔ جب آپ فضول خرچی نہیں کریں گے تو پھر صحیح وقت آنے پر صحیح جگہ پر سرمایہ کاری کر کے بہتر سے بہترین کی طرف قدم اٹھائیں گے۔ بچت اور دانشمندانہ فیصلہ سرمایہ کاری کے ذریعے آپ کو زندگی میں کامیابی کی طرف لے کر جائے گا۔

الاسکا آدھی رات کے سورج کی سرزمین

الاسکا آدھی رات کے سورج کی سرزمین

حضرت امام یوسف ؒ اپنے شہر کی جامع مسجد میں ایک شخص کو دیکھا کرتے جو نہایت خاموشی سے بیٹھا رہتا۔ ایک دن آپ ؒ نے اس سے دریافت کیا کہ آپ کو میں اکثر خاموشی سے بیٹھا ہوا دیکھتا ہوں۔ آپ بھی نمازیوں کے ہمراہ مسائل کی گفتگو میں حصہ لیا کریں۔ اس شخص نے جواب دیا کہ بہتر، آپؒ مجھے یہ بتائیں کہ سحری کب تک کھا سکتے ہیں۔ تو امام نے فرمایا کہ جب تک صبح صادق نمودار نہ ہو جائے آپ سحری کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد اس شخص نے دریافت کیا کہ روزہ کس وقت افطار کیا جائے تو امام نے فرمایا کہ جب سورج غروب ہو جائے۔ پھر وہ شخص گویا ہوا کہ اگر سورج غروب ہی نہ ہو تو؟ امام ابو یوسفؒ اس شخص کا غیر متوقع اور حیران کن سوال سن کر کسی قدر خفگی سے بولے کہ بہتر ہے تم خاموش ہی رہا کرو۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو آج سے بارہ صدی قبل پیش آیا لیکن اس وقت کس کو پتہ تھا کہ اس نادان شخص کی امام ؒ سے دریافت کی گئی بات ایک دن سچ ثابت ہو جائے گی۔ اس وقت ذرائع آمدورفت آج کے ترقی یافتہ دور کے مقابلہ میں بہت محدود تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ ساری دھرتی سکڑ کر انسان کی ہتھیلی پر چاول کے دانے کی طرح نظر آنے لگے گی۔ اس وقت کس کو پتہ تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حدود قیود کی دیواریں مسمار ہو جائیں گی اور وہ بات جس کا نادان شخص نے ذکر کیا تھا، بالکل ایک واضح حقیقت ثابت ہو جائے گی اور اس وسیع کائنات کا ذرہ ذرہ انسان کی دسترس میں ہوگا۔ آج موجودہ دور کے انسان نے دیکھ لیا کہ اس زمین پر ایسے خطے موجود ہیں جہاں تین تین، چار چار ماہ تک سورج غروب ہی نہیں ہوتا۔ راقم کی مراد قطب شمالی میں ان علاقوں سے ہے جہاں آدھی رات کو بھی سورج آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور دنیا ان علاقوں کو آدھی رات کے سورج کی سرزمین کے الفاظ سے یاد کرتی ہے۔ ایسے ہی خطوں میں ایک خطہ الاسکا کا بھی ہے اور الاسکا کو بھی ''لینڈ آف مڈ نائٹ سن‘‘ (Land of midnight sun)کہا جاتا ہے۔الاسکا امریکہ کی 49ویں اور موجودہ پچاس ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست ہے بلکہ امریکہ کی دوسرے نمبر پر آنے والی ریاست ٹیکساس سے بھی اڑھائی گنا بڑی ہے۔ اگر الاسکا کی وسعت کو مزید واضح کرنا ہو تو امریکہ کی تین بڑی ریاستوں ٹیکساس، کیلیفورنیا اور مونٹانا کے رقبہ کو اگر اکٹھا کر لیا جائے تو پھر بھی الاسکا کی ریاست کا رقبہ زیادہ ہوگا۔ اگر یورپ کے چار بڑے ممالک فرانس، برطانیہ، سپین اور اٹلی کے مجموعی رقبہ کا الاسکا کے رقبے سے موازنہ کیا جائے تو الاسکا ہی کا رقبہ زیادہ ہوگا۔ الاسکا کی ریاست کے دو نک نیم ہیں ایک تو ''The Last frontier‘‘یعنی دنیا کا آخری کنارہ اور دوسرا وہی یعنی ''The land of midnight sun‘‘یعنی ''آدھی رات کے سورج کی سرزمین‘‘ نیو یارک کے JFK ایئر پورٹ سے الاسکا جانے کیلئے امریکہ کی مغربی ریاست واشنگٹن کے شہر Seattleجانا پڑتا ہے JFK سے Seattleکا 2412میل کا فاصلہ راقم نے بوئنگ جہاز میں ساڑھے چھ گھنٹوں میں طے کیا۔ دراصل بوئنگ جہازوں کی جائے پیدائش Seattleکا شہر ہی ہے۔ یہاں پر بوئنگ جہازوں کے بنانے کا کارخانہ قائم کیا گیا ہے اور بوئنگ کمپنی کا صدر دفتر بھی یہیں ہے۔ ساری دنیا میں اڑنے والے جہاز بوئنگ 707،737 اور جمبو جیٹ دو منزلہ 747قسم کے جہاز یہیں تیار کئے جاتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں ٹورسٹ کی بڑی تعداد کے پیش نظر سی ایٹل ایئرپورٹ سے 20کے قریب روزانہ فلائٹس اینکر ایج جاتی ہیں۔الاسکا کا کل رقبہ 663267مربع میل اور آبادی710231نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جو تینوں سمت دنیا کے تین مختلف سمندروں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔اس کے جزائر کی تعداد 8000کے قریب ہے جن میں 2670جزیرے ایسے ہیں جن کے باقاعدہ نام ہیں اور اس سے دو گنا تعداد میں ایسے جزائر ہیں جن کے نام نہیں ہیں۔ الاسکا میں ایک لاکھ سے زیادہ گلیشیر ہیںعجائبات قدرت کا مظہر کرہ ارض کے انتہائی شمال میں صرف گرمیوں کے موسم میں آدھی رات کے وقت سورج کا نظر آتے رہنا عجائبات قدرت کا ایک مظہر ہے اور اسی طرح سردیوں میں تین ماہ تک سورج کا نظر نہ آنا بھی مظہر عجائبات قدرت ہے۔ لاسکا کا خطہ بھی قطب شمالی میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ مظاہر قدرت دوسرے چند خطوں کی طرح اس علاقہ میں بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ان ایام میں سورج افق کے نیچے چلا جاتا اور 19نومبر سے 28جنوری تک بالکل افق کے نیچے ہی رہتا ہے۔ اور 65دن تک بالکل نظر نہیں آتا اور 24گھنٹے رات ہی کی حکمرانی ہوتی ہے۔ نومبر میں Barrowکا زیادہ سے زیادہ ٹمپریچر منفی13سے منفی 19سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ اسی لئے الاسکا کا ایک Nick Name the land of mid night sunیعنی آدھی رات کے سورج کی سرزمین ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

سوویت یونین نیوکلیئر دھماکہ30اکتوبر1961ء کو سوویت یونین نے اب تک دنیا کے سب سے بڑے ایٹم بم کا تجربہ کیا۔ یہ بم1945ء میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہر ہیروشیما پر پھینکے جانے والے ایٹم بم سے 4ہزار گنا زیادہ طاقتور تھا۔یہ سوویت یونین کی جانب سے کیا جانے والا سب سے بڑا تجربہ تھا۔ اقوام متحدہ نے امریکہ اور سوویت یونین سے متعدد مرتبہ اپیل کی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی اس ریس کو ختم کر دیا جائے ورنہ یہ کرہ ارض تباہ ہو جائے گی اور یہاں انسان زندہ نہیں بچیں گے۔موندروس معاہدہ30اکتوبر 1918ء کو موندروس معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ پہلی جنگ عظیم میں شکست خوردہ دولت عثمانیہ اور غالب قوتوں (برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی) کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت عثمانی فوج نے اسلحہ ترک کیا اور استنبول سمیت اناطولیہ کے دیگر علاقوں پر مغربی طاقتوں کا قبضہ شروع ہو گیا۔ سورج نکلنے پر جشنناروے کے شہر رجوکان میںسال کے تقریباً7ماہ براہ راست سورج نہیں نکلتا لیکن 30اکتوبر2013ء میں پہلی مرتبہ اس شہر میں موسم سرما کے دوران سورج نکلا۔ اس موقع پر لوگ اس قدر خوش تھے کہ شہر کے اردگرد دیوہیکل آئینے لگائے گئے تاکہ پہاڑوں سے ڈھکے ہوئے رجوکان کے مرکزی حصے تک دھوپ پہنچائی جا سکے۔بحیرہ ایجئین کا زلزلہ2020ء میں آج کے روز یونانی جزیرے ساموس کے شمال مشرق میں 7.0شدت کا زلزلہ آیا۔ اگرچہ ساموس زلزلے کے مرکز کے سب سے قریب تھا لیکن ترکی کا شہر ازمیر جو مرکز سے70کلومیٹر دور تھا سب سے زیادہ متاثر ہوا۔اس زلزلے کے نتیجے میں700سے زائد تجارتی اور رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا، 119افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ویانا معاہدہ ویانا معاہدہ ایک امن معاہدہ تھا جس پر30 اکتوبر1864ء کو ویانا میں آسٹریا کی سلطنت، پرشیا اور ڈنمارک کی ریاست کے درمیان دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے بعد شلس وگ کی دوسری جنگ کا اختتام ہوا۔ بعد ازاں 14 اگست 1865ء کو آسٹریا اور پرشیا کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کو گیسٹین کنونشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس شرط کے مطابق پرشیا شلس وِگ کے انتظام کو دیکھے گا اور آسٹریا اسی طرح ہولسٹین پر حکومت قائم رکھے گا۔   

عالمی ماحولیاتی خطرات! مشکل اقدامات کا وقت آ گیا

عالمی ماحولیاتی خطرات! مشکل اقدامات کا وقت آ گیا

اقوام متحدہ کے ادارہ ماحولیات (UNEP) نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی صورتحال پر رواں سال جاری کردہ رپورٹ (Emissions Gap Report 2024ء) میں بتایاہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کیلئے مشکل اقدامات کا وقت آ گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 42 فیصد اور 2035ء تک 57 فیصد کمی نہ کی گئی تو عالمی حدت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک رکھنے کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا ۔رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں غیرمعمولی کمی نہ لائی گئی تو کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں 3.1 ڈگری سنٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے جو تباہ کن ہو گا۔UNEPکی ایگزیکٹو ڈائریکٹر Inger Andersen نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کے نئے وعدوں سے قبل ممالک کو غیر معمولی رفتار اور پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر 1.5 ڈگری کا ہدف ترک کر کے عالمی حدت میں اضافے کو دو ڈگری سنٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کی جدوجہد کرنا پڑے گی اور یہ بھی آسان ہدف نہیں ہو گا۔موسمیاتی اقدامات کا جائزہUNEP نے اس رپورٹ میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی موجودہ مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل قریب میںان گیسوں کے اخراج کے اثرات، اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ممالک کی جانب سے کیے گئے وعدوں اور پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو روکنے سے متعلق اہداف پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ پیش کیا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک نے اپنے ہاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسا کہ خشک سالی، سیلاب اور موسمی شدت کے واقعات سے ہم آہنگی اختیار کرنے کے اقدامات اور اس مقصد کیلئے درکار مالی وسائل کی فراہمی سے متعلق وعدے کر رکھے ہیں۔دنیا کے ممالک ہر پانچ سال کے بعد اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (COP) ان منصوبوں کو مزید بہتر بنا نے کااعلان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں دنیا بھر کے ممالک آئندہ اقدامات کے بارے میں آئندہ سال برازیل میں ہونے والی COP20 کے موقع پر سابقہ پیش رفت اور آئندہ کے لائحہ عمل کا جائزہ لیں گے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ اور شدید موسمیاتی حوادث کے مابین براہ راست تعلق ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی کی جائے، بصورت دیگر دنیا موسمیاتی تباہی کا شکار ہو جائے گی جس سے غریب اور غیرمحفوظ ممالک اور وہاں کے لوگ بری طرح متاثر ہوں گے۔عالمی حدت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے حدت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.5 ڈگری تک رکھنے کا ہدف حاصل کرنا ہو گا ، اس اس کے لیے ہر طرح کی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنا ہو گا۔ ایسی 80 فیصد گیسیں بڑی معیشتیں خارج کرتی ہیں چنانچہ سب سے بڑی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔موجودہ ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے 2030ء اور 2035ء کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں تاہم اس کے لیے عزم اور تعاون میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔Emissions Gap Report 2024 میں بتایا گیا ہے کہ 2030ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 31 گیگا ٹن اور 2035ء تک 41 گیگا ٹن کمی لانے سے ان دونوں برسوں میں 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کیلئے ری نیو ایبل توانائی کا استعمال بڑھانا ہو گا۔شمسی توانائی کے استعمال سے 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 27فیصد اور 2035ء تک 38 فیصد کمی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کا تحفظ کر کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 20 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سیارے کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ہم ایک ماحولیاتی ایمرجنسی کے نبرد آزما ہیں اور عمل کرنے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ رپورٹ واضح طور پر بتاتی ہے کہ ہمیں سخت انتخاب کا سامنا ہے یعنی، عالمی درجہ حرارت کو 1.5°C تک محدود کرنا، 2°C کیلئے کم کرنے کی کوشش کرنا یا 2.6°C اور اس سے آگے تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا ہو۔ ہمارا اجتماعی عمل ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔  

مزاح پارے: مین ازاے سوشل میڈیا اینیمل

مزاح پارے: مین ازاے سوشل میڈیا اینیمل

ارسطوکے زمانے میں انسان محض سماجی حیوان تھا مگر نظریہ ارتقاء کی بدولت آج وہ ''سوشل میڈیا اینیمل‘‘ بن چکا ہے ۔لمحہ موجود میں سوشل میڈیا دلوں کی دھڑکن،آنکھوں کی ٹھنڈک،روح کی غذا اور آدابِ حیات کا جزوِ لاینفک اور رنگ، نسل، زبان اور علاقہ کی تفریق کے بغیر مرد وزن اور پیروجواں کیلئے آن لائن مرجع الخلائق ہے۔اب کروڑوںکی تعداد میں مخلوق خدا اس کے اخلاقی، معاشرتی، روحانی اور سیاسی فیض سے فیض یاب ہو رہی ہے۔بھلے سوشلیوں کی زیادہ تر صلاحتیں فتویٰ و فنتہ سازی پر صرف ہوتی ہیں مگرلوگ جوق در جوق اس کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں صنف ِ نازک ، صنف سخت اور صنف ِ میانہ کی تمیز جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ فرینڈ شپ، فرینڈ ریکوئسٹس، کمنٹس اور سمعی و بصری کالز کا بحر ِ بیکراں ہے ۔ مخلوق ِ خدا کا سوشل میڈیا میں استغراق دیکھ کر لگتا ہے جیسے کائنات کے اہم ترین مسائل پہ غور کیا جا رہا ہے۔فی زمانہ وائی فائی کی عدم دستیابی اور نیٹ کے نحیف سگنل سا نحاتِ عظیم سے کم نہیں جبکہ سوشل میڈیا کا بوجوہ بند ہو جانا قدرتی آفت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج سوشل میڈیا اینیمل کسی کے ہاں مہمان جائے تو سلام دعا کی جگہ ''یارکوڈ دسیں‘‘ سننے کو ملتا ہے۔وائی فائی کے سگنلوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہو چلے ہیں۔ پبلک مقامات، کلاس رومز،کھانے کا میز، سرکاری دفاتر، واش روم، کچن، بستر استراحت، دوران ِ سفر حتیٰ کہ حالت اعتکاف میں بھی لوگ ''فنا فی الفیس بک‘‘ہوتے ہیں۔ روزوشب سٹیٹس لگانے، کمنٹس،لائیک اور لَوکے شمار میں بیت رہے ہیں۔مرغی انڈا دے یا بکری بچہ جنے،فیس بک پہ پوسٹ لازم ہے۔ ولیموں، جنازوں، چائے نوشی، باراتوں، مزارات، گھر اور مسجد سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کی تصاویر وائرل کرنا ہر فیس بکیئے پہ فرض ِ عین ہے۔ اب ''نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کی جگہ ''کچھ بھی کر ایف بی میں ڈال کی کہاوت مناسب ہو گی۔فیس بک خواتین کیلئے تو نعمت ہے کہ انہیں دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنے کی مشقت کی ضرورت نہیں رہی بلکہ گھر بیٹھے یہ فریضہ انجام دے سکتی ہیں۔آج اگر زیادہ افراد پر مشتمل فیملی کے گھر خاموشی ہو تو وہاں نیٹ کے سگنل فُل ہونے کی دلیل ہے۔ حج وعمرہ کی تشہیراور سیلفی فیس بک کا نورانی پہلو ہے ۔ بعید نہیں کہ فقہ سوشلیہ میں سیلفی مناسک عمرہ و حج میں شمار ہونے لگے ۔ سماجی رابطوں کے حیوان اس جہاں میں صورت ِ خورشید ہیں جو اُدھر ڈوب کر اِدھر اور اِدھر ڈوب کر اُدھر نکلنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔حسرت ہے ان سماجی حیوانوں پر جو سوشل میڈیااینیمل بننے سے صدیوں قبل ملک ِعدم سدھار گئے۔ رانجھا، مجنوں، ماہیوال اور مرزا اگر سوشل میڈیائی اینیمل ہوتے توانہیںآبلہ پائی،صحرا نشینی اور معاشرتی مخاصمت و رقابت سے دو چار نہ ہونا پڑتا۔مرزا کو یقینا کوئی دوست وٹس ایپ پر صاحباں کے بھائیوںکی آمد کی خبر ضروردے دیتا ۔عشاق کو پیامبروں اور کبوتروں کی حاجت بھی نہ رہتی اور رانجھا ہیر کے ساتھ ساتھ ،سسی ،صاحباں اور سوہنی کا فرینڈ بھی نکلتا۔رانجھے کی بانسری، ہیر کی چوری، سوھنی کے گھڑے ، فرہاد کے تیشے اور لیلیٰ کی کتیا کی پوسٹوں کو ہزاروں لائک ملاکرتے۔ شہزادہ سلیم ، انار کلی ، محمد شاہ رنگیلا کی ''یو ٹیوبز ‘‘کے تو لاکھوں فالوورز ہوتے۔سوشل اینیمل سے سوشل میڈیا اینیمل کا سفر ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تصدیق کرتا ہے جو انٹرنیٹ کے موجب ممکن ہو سکا۔ انٹرنیٹ لاکھوں کمیپیوٹروںکا تانا بانا ہے جوفون لائنوں،مصنوعی سیاروں اور کیبلز کے ذریعے اک دوجے میں پیوستہ ہے۔انسان جب سماجی حیوان تھاتو یوں شعر کہتا تھا !ہم جیسے دلبروں کوجہنم میں ڈال کر بیٹھے رہوبہشت کو ویراں کیے ہوئے لیکن جونہی ارتقائی عمل سے وہ سوشل میڈیا اینیمل ہواتو شعری توجیہات ایسے بدلیں!ہم دلبروں کو کرکے بلاک اپنی وال سے بیٹھے ہوفیس بک کوویراں کیے ہوئے آڈیو اور ویڈیو کریسی کے ظہور سے قبل ماضی کے کتنے مناظر ہوں گے جو منظر ِ عام پہ آنے کی سعادت سے محروم رہے ۔ 70ء کی دہائی میں آغا جانیوں اور ان کی رانیوں کی حشر سامانیوں کا سمعی و بصری مواد تو سنبھالے نہ سنبھلتا ۔ازمنہ قدیمہ اور قرونِ وسطیٰ کے کروڑوں بصری مناظر بِن دیکھے ہی سپردِ خلا ہو گئے۔ اقوامِ عاد و ثمود اور نوح و لوط کیمروں کی آنکھ سے کتنی محفوظ رہیںاور دنیا ان کے کارناموں کے بصری تجسس سے نا آشنا رہی۔ پھر ہم نینڈرتھل اور ہومو سیپئن کو جدیدانسان بنتے دیکھ سکتے۔ زلیخا کے الزامات کی قلعی بھی کھل جاتی۔ اموی، عباسی اور عثمانی خلفاء کے پردے بھی چاک ہوجاتے ۔ہم دیکھ پاتے کہ محمود و ایاز اور مادھو لال کے اونٹ کس کروٹ بیٹھتے تھے؟۔ رام ،راون اور یاجوج ماجوج کے کچے چٹھے بھی کھلتے۔ابدالی، محمد بن قاسم،عالمگیر اور سکندر کی ہیروشپ جبکہ راجہ داہر،پورس ،مرہٹوں اور سکھوں کی ولن شپ کا ریکارڈ بھی مل جاتا۔ کاش محمد شاہ رنگیلا کے دور میں 36 تصویروں والا کیمرہ ہی میسر ہوتا تو کیا تماشہ لگتا۔ پھر ویڈیو کریسی کی صورت میں مغلوں، خلجیوں، غوریوں، لودھیوں، انار کلیوں، سلیموں،نورجہانوں،شاہ جہانوں اورزیب النسائوںکے معاملات بھی طشت ازبام ہوتے ؟۔قائداعظم کی زیارت ریذیڈینسی کے آس پاس کچھ سی سی ٹی وی ضرور لگے ہوتے۔ مصطفی زیدی اور شہناز گل والے کمرے میں بھی ایک آدھ کیمرہ ہوتا ۔ کثرتِ بادہ خواری کے باعث غالب ہمیشہ مغلوب رہتا اور ولی بننے کا دعویٰ نہ کر پاتا۔ ابراہیم ذوق کی فیس بک پہ غالب کی حالت کیا ہوتی؟ کیا الزامات، کیا دشنام اور کیا الم غلم رہتا۔سائنس کی بے پناہ بلکہ خدا پناہ ترقی سے ہر فرد کے ہاتھ جام جمشید لگ چکا ہے جس میںدنیا و ما فیا کی جملہ حرکات مِن و عن قابلِ سماعت و بصارت ہیں۔ اب خلوتوں کے آداب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہے ہیں۔جہاں '' اللہ دیکھ رہا ہے وہاں کیمرا بھی شریک ہے۔گویا شہر کا شہر الٰہ دین کا چراغ لئے لوگوںکے عیوب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اب اطلاقی دل پھینک اور بوالہوسوں کی مٹی پلید ہونے کے وسیع اہتمام موجود ہیں۔دفاتر، گھر، ریستوران، نیٹ کیفے، مدارس، دربار، شادی، غمی،ہسپتال، سکول اور نہ جانے کہاں کہاں کیمروں کی آنکھیں جھانک رہی ہیں اوران میں لگے کان انہماک سے سب کچھ سن رہے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

زیارت زلزلے29اکتوبر2008ء کو پاکستانی شہر زیارت میں 6.4 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کا مرکز کوئٹہ کے شمال میں 60 کلومیٹر اور افغانستان کے شہر قندھار سے 185 کلومیٹر جنوب مشرق میں 15کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔6.4 شدت کے اس زلزلے میں 215افراد ہلاک، 200سے زیادہ زخمی اورتقریباًایک لاکھ20ہزار افراد بے گھر ہوئے۔نیویارک اسٹاک ایکسچینج کریش1929ء میں آج کے روز امریکہ کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی تھی۔ جس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہزاروں سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب گیا۔ٹریڈنگ کا حجم اس قدر زیادہ تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کی ٹکرز مشین گھنٹوں پیچھے چل رہی تھی۔اسٹاک ایکسچینج کے کریش ہوتے ہی امریکہ اور دیگر صنعتی ممالک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی اور یہیں سے1930ء کے گریٹ ڈپریشن کا آغاز ہوا جس نے دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ترکی کا اعلان جمہوریت29 اکتوبر 1923ء کو ترکی قومی اسمبلی نے اپنے تاریخی اجلاس میں دنیا کو بتا دیا کہ ''جنگ نجات‘‘ کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کا نظامِ حکومت ''جمہوریت‘‘ ہو گا۔ آئینی تبدیلی کے ساتھ جمہوریہ ترکی قائم ہوا۔ اعلان جمہوریت کے ساتھ ترکی قومی اسمبلی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اتاترک ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔قسطنطنیہ کنونشن''کنوشن آف قسطنطنیہ‘‘ مصر میں نہر سویز کے استعمال سے متعلق ایک معاہدہ تھا۔ اس پر20اکتوبر1888ء کو برطانیہ، جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اسپین، فرانس، اٹلی، نیدرلینڈ، روسی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ نے دستخط کئے تھے۔اس معاہدے میں اس بات کی ضمات دی گئی تھی کہ نہر سوویز کے ذریعے تمام بحری جہازوں کو گزرنے کی اجازت دی جائے گی اور کسی کا راستہ نہیں روکا جائے گا۔لائن فضائی حادثہ29اکتوبر 2018ء لائن ائیر کی فلائٹ نمبر610ایک طے شدہ پرواز تھی جو ٹیک آف کے13منٹ بعد بحیرہ جاوا میں گر کر تباہ ہو گیا۔اس حادثے میں جہاز میں سوار 189 مسافر اور عملہ ہلاک ہو گئے۔ابتدائی تحقیقات میں سنگین مسائل کا انکشاف ہوا۔ پرواز کے دوران اینگل آف اٹیک سینسر اور دیگر آلات کی ناکامی، ڈیزائن کی خرابی کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔