بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے ، دیبو بھٹا چاریہ کا سنگیت سب سے منفرد تھا
بات موسیقی کی ہو تو پھر اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ پنجاب اور بنگال نے سب سے اعلیٰ سنگیت کار پیدا کئے۔ پنجاب کے حوالے سے بابا جی اے چشتی، ظہور الحسن خیام، مدن موہن، ماسٹر عبداللہ، خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، وزیر افضل، بخشی وزیر، ماسٹر عنایت حسین، او پی نیئر، روشن اور دیگر کئی شامل ہیں۔ نئے آنے والے موسیقاروں نے بھی اپنے فن کا سکہ جما لیا ہے جہاں تک بنگالی موسیقاروں کا تعلق ہے تو ان میں ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، سلیل چودھری، انیل بسواس، روبن گھوش، بشیر احمد (بی اے دیپ) اور ہیمنت کمار (گلوکار موسیقار) کے نام کوئی نہیں بھول سکتا۔ بنگالی سنگیت کاروں کا ذکر ہوا ہے تو پھر ایک اور نام ذہن میں گونجتا ہے اور وہ ہے دیبو بھٹا چاریہ۔ نوجوان نسل میں شاید یہ نام کسی کو بھی معلوم نہ ہو لیکن پرانی نسل کے وہ لوگ جو موسیقی سے شغف رکھتے ہیں، یقینا اس موسیقار کو جانتے ہوں گے۔
دیبو بھٹا چاریہ نے 60کی دہائی میں خوب نام کمایا۔ انہوں نے جن پہلی چار فلموں کا سنگیت دیا وہ اتنی کامیاب نہ ہو سکیں لیکن انہیں اصل کامیابی فلم ''بنجارن‘‘ سے ملی جو 1962 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں میڈم نور جہاں کا یہ گانا ''نہ جانے کیسا سفر ہے میرا‘‘ بہت ہٹ ہوا۔ اس فلم میں دیبو نے مسعود رانا سے چار گانے گوائے۔ اگرچہ ان میں سے کوئی گانا ہٹ نہیں ہوا لیکن مسعود رانا کی آواز نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ 1963 میں دیبو بھٹا چاریہ کی فلم ''شرارت‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ اقبال شہزاد کی فلم تھی اس فلم کے گیت مسرور انور نے تحریر کئے تھے۔ یہ گیت بہت مقبول ہوا تھا۔
اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے۔ اسی سال مشہور ہدایت کار حسن طارق کی فلم ''قتل کے بعد‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس میں انہوں نے مسعود رانا اور احمد رشدی کو یکجا کر دیا۔ ان دونوں نے اس فلم میں یہ گیت گایا ''او جانِ من ذرا رُک جا، یہ ادا نہ ہم کو دکھا‘‘ اس فلم کا ایک اور گیت بڑا مقبول ہوا تھا جو میڈم نور جہاں نے گایا تھا ''مجھے چاند سے ڈر لگتا ہے‘‘۔
1964 میں دیبو کی فلم ''بیٹی‘‘ ریلیز ہوئی۔ انہوں نے پہلی بار کسی اُردو فلم کے لئے تھیم سانگ ریکارڈ کرایا تھا جس کے بول تھے ''ایسے بھی معصوم ہیں اس دنیا میں جانے کتنے‘‘۔ یہ ایک پراثر گیت تھا اور لوگوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ فلم ''بیٹی‘‘ میں دیبو نے نسیم بیگم سے ایک کلاسیکل گیت بھی گوایا تھا۔ چھن چھنا چھن بچھوا والے، کنگناں ڈولے‘‘۔ اس میں مسعود رانا کا الاپ تھا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ مسعود رانا دیبو بھٹا چاریہ کے پسندیدہ گلوکار تھے کیونکہ وہ ہلکے سروں کے علاوہ اونچے سُروں میں بھی گاتے تھے۔
1965 میں دیبو کی فلم ''آرزو‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ بطور ہیرو حنیف کی پہلی فلم تھی۔ اگرچہ حنیف کی شکل دلیپ کمار سے ملتی تھی لیکن وہ اتنے اچھے اداکار نہ تھے۔ بہرحال یہ فلم کامیاب ہو گئی۔ حنیف کی بطور ہیرو یہ پہلی اور آخری فلم تھی جو کامیاب ہوئی۔ اس فلم میں مسعود رانا نے تین گیت گائے جن میں یہ گیت سپرہٹ ثابت ہوا۔
میں تو سمجھا تھا جدائی تری ممکن ہی نہیں
1966میں دیبو نے فلم ''تقدیر‘‘ کی موسیقی دی۔ اس فلم کا یہ گانا بہت ہٹ ہوا۔
ہم شہرِ وقا کے لوگوں کو تقدیر نے اکثر لوٹا ہے اسی سال دیبو بھٹا چاریہ کی ایک یادگار فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''بدنام‘‘۔ اس کی ہدایات اقبال شہزاد نے دی تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ''بدنام‘‘ دیبو کی سب سے بڑی فلم تھی۔ اس فلم کے سبھی گیت مقبول ہوئے تھے۔ اس فلم میں ثریا ملتانیکر نے ایک یادگار گیت گایا ''بڑے بے مروت ہیں یہ حُسن والے۔ کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا‘‘۔
اس گیت کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کی رائلٹی سے ہی فلم کے تمام اخراجات پورے ہو گئے۔ اس فلم کے ایک اور گیت نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ ''ہم بھی مسافر، تم بھی مسافر کون کسی کا ہووے‘‘۔ پہلا گیت مسرور انور نے لکھا جبکہ دوسرا گیت حمایت علی شاعر کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔ اس گیت کی تاثریت کو دیبو کی دلکش موسیقی نے یادگار بنا دیا۔ ذیل میں مکمل گیت قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
یہ دنیا میت رے، راہگزر ہے اور ہم بھی مسافر، تم بھی مسافر
کون کسی کا ہووے
کاہے چپ چپ رواے
کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے
یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے
کہ ہم بھی مسافر تم بھی مسافر
کون کسی کا ہووے
1967 میں دیبو بھٹا چاریہ کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں۔ فلم ''بہادر‘‘ میں ان کا یہ گیت بہت پسند کیا گیا ۔
جان غزل لہرا کے نہ چل ، دلبر میرا دل تڑپا کے نہ چل۔ دوسری فلم تھی۔ ''میرے بچے میری آنکھیں۔ اس کے بھی دو گیت بڑے ہٹ ہوئے۔
''یاد کرو ہمدم وہ پیار بھرا موسم، اور ''میرا یار ہے ایسا یاروں میں‘‘۔ 1968 میں دیبونے میں دو فلموں کی موسیقی دی۔ خاص طور پر یہ گیت تو اپنی مثال آپ تھا''اے وطن کی سرزمیں‘‘، تیرہ ہرذرہ حسیں‘‘ ۔ پھر رفیق رضوی کی فلم ''سمندر‘‘ ریلیز ہوئی۔ اگرچہ یہ فلم اوسط درجے کی ثابت ہوئی لیکن اس کے گانے ہٹ ہوئے۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس فلم میں شبنم نے پہلی بار مغربی پاکستان کی کسی اُردو فلم میں کام کیا تھا ۔ اس فلم کے ہیرو وحید مراد تھے۔ وحید مراد کو احمد رشدی کی آواز بہت سوٹ کرتی تھی۔ اس لیے دیپو سے کہا گیا کہ وہ اس فلم کے تمام گانے احمد رشدی سے گوائیں۔ احمد رشدی شوخ گانے کمال مہارت سے گاتے تھے اس کے علاوہ وہ دھیمے سروں کے گیت بھی عمدگی سے گا لیتے تھے لیکن دیبو کی رائے یہ تھی کہ احمد رشدی اونچے سروں میں نہیں گا سکتے۔ اس لیے انہوں نے ایک کورس میں مسعود رانا کو شامل کیا۔ یہ کورس بہت پسند کیا گیاجسے نامور شاعر صہبا اختر نے لکھا تھا۔ اس کے بول ملاحظہ فرمائیے۔
''ساتھی تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر‘‘
1969 میں ان کی صرف ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''پیار کی جیت‘‘ یہ فلم بری طرح ناکام ہوئی۔ 1970 میں انہوں نے فلم ''ہنی مون‘‘ میں معاون موسیقار کی حیثیت سے کام کیا ۔ اس کے علاوہ ان کے کریڈٹ پر تین اور بھی فلمیں تھیں جن میں '' جھک گیا آسمان، ٹائیگر گینگ اور دل والے‘‘ شامل ہیں۔
مہدی حسن نے دیبو کی موسیقی میں ایک لازوال گیت گایا تھا ۔ یہ فلم تھی ''جلتے ارمان بجھتے دیپ‘‘ ۔ افسوس کہ یہ فلم ریلیز نہ ہو سکی ۔ اس فلم میں مہدی حسن نے یہ گیت گایا '' تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی‘‘ ۔ اس گیت کو بھی صہبا اختر نے تحریر کیا تھا۔ فلم تو ریلیز نہ ہوسکی لیکن اس گیت نے بہت شہرت حاصل کی اور اب بھی یہ مہدی حسن کے بہترین فلمی گیتوں میں سے ایک ہے۔ دیبو ہندو تھے ۔ وہ 1956 میں فلم ''انوکھی‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کراچی آئے اور پھر واپس نہ گئے۔
1971 میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو وہ واپس ڈھاکہ چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا انتقال 90کی دہائی میں ہوا تھا۔ بنگلہ دیش میں انہوں نے کام کیا کہ نہیں اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ وہ بنگالی گلوکارہ فردوسی بیگم سے شادی کے آرزومندتھے اور اس مقصد کے لیے اسلام قبول کرنے پر تیار بھی تھے ۔ بہر حال یہ نہ ہو سکا دیبو کی خدمات یاد گار رہیں گی ۔