شاہراہ ریشم، ایک عجوبہ جسے مغربی انجینئرز نہ بناسکے

 شاہراہ ریشم، ایک عجوبہ  جسے مغربی انجینئرز نہ بناسکے

اسپیشل فیچر

تحریر : طیب رضا عابدی


پاکستان اور چین کے درمیان لازوال دوستی ہے اور اس دوستی کی ایک مثال شاہراہ قراقرم ہے ، اسے دوستی کی شاہراہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ ہے!کہیں دلکش تو کہیں پراسرار، کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی، کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کی تعمیر کا آغاز 1966ء میں ہوا اور تکمیل 1979ء میں ہوئی۔ اس کی کُل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، داسو، چلاس، جگلوٹ، گلگت، ہنزہ نگر، سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چین میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت، شدید برف باری اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔ اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 3 کروڑمیٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں تھاکوٹ تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مڑ جاتا ہے۔تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔
چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے کورونا سے قبل فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی تھیں۔ رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت، دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور، دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ،کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی، سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر، اشکومن، غذر اور شندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔ گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔ نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ایسا ہونہیں سکتا کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نہ دباتا ہو۔ ''پاسو کونز‘‘اس بات کی بہترین مثال ہے۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں، گلیشیئرز، آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی، التر، بتورہ، کنیانگ کش، دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔عطا آباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد،دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کی بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں، برفانی چیتے، مارموٹ، ریچھ، یاک، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔اس سڑک پر آپ کو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں، دریاؤں کی بہتات، آبشاریں، چراگاہیں اور گلیشیئر زسمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے بلکہ یہ پاک چین دوستی کی اعلیٰ مثال ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نو بخت اور فضل بن نوبخت

نو بخت اور فضل بن نوبخت

ابوجعفر منصور خلیفہ عباسی کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نو بخت اور فضل بن نو بخت یا باپ اور بیٹے اس کام کے لئے نگراں تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں نظم و ضبط کی بھی صلاحیت اور قابلیت تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کاگنبد زمیںسے دو سو چالیس فٹ بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ تھا۔ فضل بن نو بخت نے اس فن کی تعمیر اپنے والدسے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کئے۔ اسی دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نوبخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی ۔ دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومت وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کئے۔ ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم وفن کا مرکز بن گیا۔ابتدائی زندگی تعلیم و تربیت نو بخت بغداد معمار ہے۔ اسی ہوشیار انجینئر نے عمارت کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہوچکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لئے تجربہ کار ہوشیار انجینئروں کی ضرورت تھی۔ نو بخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔نو بخت نہایت ذہن، بلا صلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ علم ہئیت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نو بخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی۔ اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ جعفر منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔کام اور کارنامےنوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے ولا( Surveyer) تھا۔ مکمل شہری آبادی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غورو فکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کی منصوبہ بندی کی اور پورانقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمیں سے کوئی دو سو چالیس فٹ بلند تھی۔ وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبدپر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔ یہ مجسمہ دھات کاتھا،شاہی محلات ، باغات اور دیگر عماراتیں ایک گل دستے کی باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیںکہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھااوری یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کی کہانیوں کا مرکز بنا۔فضل بن نو بخت فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹھا تھا۔ تعلیم اپنے قابل باپ سے حاصل کی اورمطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ وہ جلد ہی علم ہئیت میں یکتائے روز گار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں اپنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہئیت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہد افلاک میںساتھ رہتا۔علمی خدمات اور کارنامے فضل علم ہلیت کا ماہر تھا، اس نے کئی علم اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کتب خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اورنگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب سے رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فہرست بنائی یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا اور یہ دنیا کا پہلا کتب خانہ تھا۔ 

’’ریڈ مونسٹر‘‘ : نئی کہکشائوں کی دریافت

’’ریڈ مونسٹر‘‘ : نئی کہکشائوں کی دریافت

یہ تینوں کہکشائیں کائنات کے ابتدائی دور کو تشکیل دینے والے حالات بارے نئی بصیرت فراہم کریں گےیہ کہکشائیں 12.8 ارب سال سے زیادہ پرانی ہیں اور زمینی سورج سے 100 ارب گنا زیادہ حجم رکھتی ہیںاندھیری راتوں میں آپ نے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ تو کیا ہو گا۔ کچھ بہت روشن ہوتے ہیں، کچھ مدھم اور کچھ کسی کسی وقت ٹمٹا کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اخترشماری کرنا شاعروں کا ہی نہیں بلکہ فلکیات کے ماہرین کا بھی محبوب مشغلہ ہے۔ آسمان پر کتنے ستارے ہیں؟ اربوں یا کھربوں؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے، جیسے جیسے خلا میں دیکھنے والی دوربینوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، نئے نئے ستارے نظروں میں آ رہے ہیں۔ آسمان کی وسعت اور گہرائی کا تو خیر ذکر ہی کیا، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں میں اتنے ستارے ہیں کہ ہماری گنتی ختم ہو جاتی ہے، لیکن وہ ختم نہیں ہوتے۔ کائنات میں اس جیسی بلکہ اس سے کہیں بڑی ان گنت کہکشائیں ہیں۔حال ہی میں سائنسدانوں نے ''ریڈ مونسٹر‘‘ نامی کہکشائیں دریافت کی ہیں جو تقریباً ملکی وے جتنی بڑی ہیں ۔سائنسدانوں کے ایک گروپ نے تین کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے جنہیں ''ریڈ مونسٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کہکشائیں اپنے ستارے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کہکشاؤں کو ''ریڈ مونسٹر‘‘ کا نام ان کی آگ کے شعلے جیسی سرخ شکل کی وجہ سے دیا گیاہے، جو ان میں موجود دھول کی بے پناہ مقدار کا نتیجہ ہے۔یہ کہکشائیں 12.8 ارب سال سے زیادہ پرانی ہیں اور زمین کے سورج سے 100 ارب گنا زیادہ حجم رکھتی ہیں۔ماہرین ِ فلکیات نے ناسا کی ''جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ‘‘ کی مدد سے ان کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا۔ وہ ان کہکشائوںکے حجم کو دیکھ کر حیران رہ گئے جو تقریباً ملکی وے کے برابر ہیں۔کہکشاؤں کی ستارے بنانے کی صلاحیت نے سائنسدانوں کو زیادہ حیران کیا جو دیگر کہکشائوں سے زیادہ تیز ہے اور تقریباً 80 فیصد گیس کو ستاروں میں تبدیل کرتی ہیں اور کائناتی تاریخ میں اوسط کہکشاؤں سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔کہکشاؤں کی ترقی میں کئی عوامل گیس کو ستاروں میں تبدیل کرنے کی رفتار کو محدود کر دیتے ہیں، لیکن '' ریڈ مونسٹرز‘‘ ان رکاوٹوں کو حیرت انگیز طور پر عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ یونیورسٹی آف باتھ کے پروفیسر اور شائع شدہ تحقیق کے شریک مصنف اسٹین وائیٹس نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ دریافت جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے فریسکو ''FRESCO‘‘ سروے پروگرام کے تحت سامنے آئی، جو مشاہدات کے لیے دوربین کے منفرد آلات کا استعمال کرتا ہے۔محققین نے ان کہکشاؤں کو دریافت کرنے کیلئے دوربین کے ساتھ انفراریڈ کیمرے کا استعمال کیا۔ انہوں نے ''ریڈ مونسٹرز‘‘ کے فاصلے اور خصوصیات کو ان کے روشنی کے طولِ موج کے ذریعے مطالعہ کیا۔ دوربین سے اِن کہکشاؤں کے اُن حصوں کا مشاہدہ بھی با آسانی ہوا جو دھول سے چھپے ہوئے تھے۔''ریڈ مونسٹر‘‘ کہکشائیں تقریباً ملکی وے جتنی بڑی ہیں اور ستارے بنانے کی رفتار ان کہکشاؤں سے کہیں زیادہ ہے جو اب تک دریافت کی جا چکی ہیں۔ان کہکشاؤں کی غیر معمولی خصوصیات کے باوجود یہ دریافت کائنات کے قبول شدہ ماڈل کو چیلنج نہیں کرتی، لیکن موجودہ کہکشاں نظریات پر سوالات ضرور اٹھاتی ہے۔ تحقیق کے مرکزی مصنف اور یونیورسٹی آف جنیوا کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق ڈاکٹر منگیوان ژاؤ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ابتدائی کائنات میں کہکشائیں غیر متوقع طور پر مؤثر طریقے سے ستارے بنا سکتی تھیں۔ جیسے جیسے ہم ان کہکشاؤں کا مزید گہرائی سے مطالعہ کریں گے، یہ کائنات کے ابتدائی دور کو تشکیل دینے والے حالات کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کریں گی۔  

آج کا دن

آج کا دن

مشن انسائٹ26 نومبر 2018 ء کو ''مشن انسائٹ‘‘ نامی روبوٹ نے مریخ کی سطح پر لینڈ کیا۔ اس روبوٹ کو مریخ کے گہرے اندرونی حصے کا معائنہ کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ یہ روبوٹ لاک ہیڈ مارٹن سپیس سسٹم کی جانب سے تیار کیا گیا تھا لیکن اس کا نظام ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے حوالے کیا گیا تھا۔ مشن کا آغاز 5مئی 2018ء کو ہوا تھا جبکہ 26 نومبر 2018ء کو اس نے کامیابی کے ساتھ مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔ ''سٹالن گراڈ جنگ‘‘26 نومبر 1942ء کو سٹالن گراڈ میں جرمن فوج کے خلاف کئی روزہ دفاعی جنگ کے بعد روسی فوج نے جوابی حملوں کا آغاز کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ''سٹالن گراڈ جنگ‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں روسیوں نے بے پناہ جانی قربانیاں دے کر نازی ازم کو شکست سے دوچار کیا۔اس لڑائی میں لاکھوں افراد مارے گئے تھے۔ یہ لڑائی 23اگست1942ء کو شروع اور 2فروری 1943ء کو ختم ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹالن گراڈ کی لڑائی میں روس نے جو کردار ادا کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ روڑو: سکول میں قتل عام26نومبر2004ء کو چین کے روڑو شہر میں واقع سکول میں ایک شخص نے سکول کے بچوں پر حملہ کر دیا۔ ژان ژان منگ سکول ہوسٹلز کے ایک بلاک میں داخل ہوا اور وہاں اس نے چھری سے وار کرتے ہوئے 12لڑکوں کو شدید زخمی کر دیا۔ زخمی ہونے والوں میں سے 9 لڑکے بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ حملے کے بعد فرار ہو جانے والے ملزم کو وقت گرفتار کیا گیا جب وہ خودکشی کرنے والا تھا۔ اسے18جنوری2005ء کو پھانسی دے دی گئی۔برنکز میٹ ڈکیتی26 نومبر 1983ء کو ہیتھرو انٹرنیشنل ٹریڈنگ اسٹیٹ لندن میں ڈکیتی ہوئی جسے برنکزمیٹ ڈکیتی کہا جاتا ہے۔ اس واردات میں ملزم 26ملین یوروز کے زیورات لے گئے جو موجودہ دور میں تقریباً 93ملین یوروز کے مساوی ہیں۔ یہ کمپنی ڈکیتی کے اگلے ہی سال بند ہو گئی۔ انشورنس کمپنی نے نقصان کی ادائیگیاں کیں لیکن ڈکیتی شدہ سونے کا زیادہ حصہ کبھی بازیاب نہیں کیا جا سکا۔پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن حادثہپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پرواز 740 جو عازمین حج کو لے کر کراچی آ رہی تھی 26 نومبر 1979ء کو جدہ ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز میںسوار تمام 156 افراد ہلاک ہو گئے۔ تحقیقات میں حادثے کی وجہ کیبن میں لگے والی آگ کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرواز کے فوراً بعد جہاز کے کیبن میں آگ لگ گئی تھی،جس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ۔    

انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این

انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این

کون نہیں جانتا کہ انٹر نیٹ کا استعمال دور حاضر میں ایک طالب علم سے لے کر معمولی بزنس مین، صنعتکار غرض کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔آپ کی یاداشت کو تازہ کرتے چلیں کہ ''کمپیوٹر سائنس‘‘ نے باقاعدہ طور پر 1950ء کے آس پاس خودآپ کو نئے علوم کی فہرست میں شامل کرا لیا تھا، جبکہ 1989ء کے آخر میں سوئٹزرلینڈ کے ایک برطانوی کمپیوٹر سائنس دان ٹم برنرزلی کی تحقیق کے نتیجے میں ورلڈ وائیڈ ویب نے ہائپر ٹیکسٹ دستاویزات کو انفارمیشن سسٹم سے جوڑ دیا تھا ۔جس کے نتیجے میں 1990ء کی دہائی کے وسط میں انٹر نیٹ نے تجارت، ثقافت، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ ہائے علوم میں انقلابی اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے تھے۔ جس میں ای میل ، فوری پیغام رسانی، وائس اوور ، انٹرنیٹ پروٹوکول، ٹیلی فون کالز ، ویڈیو کالز ، ورلڈ وائیڈ ویب ، سوشل نیٹ ورکنگ اور آن لائن شاپنگ جیسی سہولیات نے انٹر نیٹ کی اہمیت کو انسانی روزمرہ زندگی کا اتنا عادی بنا دیا کہ کسی بھی تکنیکی خرابی یا انٹر نیٹ کی روانی میں معمولی سی کمی بھی انسانی معمولات زندگی کو معطل کر کے رکھ دیتی ہے۔ پاکستان میں انٹر نیٹ تک عام صارفین کی دسترس 1993ء کے آس پاس شروع ہوئی تھی۔ اس وقت یہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ''یو این ڈی پی‘‘ کی معاونت سے ایک پراجیکٹ کے طور پر متعارف ہوا تھا جسے ''سسٹینیبل ڈویلپمنٹ نیٹ ورکنگ پروگرام‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ابتدا میں صرف چند بڑی کارپوریشنز، بنکوں، اہم سرکاری دفاتر کو ہی اس تک رسائی دی گئی۔ بعد ازاں 1995 میں ''ڈیجی کام‘‘ نامی ایک نجی کمپنی نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اپنی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس کا آغاز کیا، جس کی سپیڈ محظ 64 کے بی پی ایس تھی۔ پھر اسی سال پاکستانی قومی ادارے ''پی ٹی سی ایل‘‘ نے بھی اپنی ایک ذیلی کمپنی '' پاک نیٹ‘‘ کے ذریعے ڈائل اپ سروس کا آغاز کیا تھا۔ مارچ 2000ء میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹر نیٹ ٹریفک کو ''بیک بون ‘‘یعنی مرکزی کنیکشن لنک کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر سیٹلائٹ سے فائبر پر منتقل ہونے کا زیر سمندر کیبل بچھانے کا منصوبہ تھا۔اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے سیٹلائٹ کے مقابلے میں ڈیٹا برق رفتاری سے فوری طرف پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔ بنیادی طور پر پاکستان میں تیز ترین انٹرنیٹ کی تاریخ کا یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ اچانک کیا ہوا ؟حالیہ چند مہینوں سے اچانک انٹر نیٹ سروس کی بعض علاقوں میں بندش جبکہ متعدد علاقوں میں اس کی سست رفتاری کی شکایات نے پورے ملک میں معمولات زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر متعلقہ ادارے اس کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ابھی تک خاموش ہیں تاہم بعض سرکاری حکام غیر مبہم انداز میں اسے قومی سلامتی معاملات سے جوڑتے ہیںجبکہ کچھ حکومتی ارکان نجی محفلوں میں برملا کہتے دیکھے گئے ہیں کہ '' سوشل میڈیا ایک ایسا شتر بے مہار ہے جسے لگام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ انٹرنیٹ کی بندش یا سست رفتاری کا مسئلہ پاکستان میں پہلی دفعہ پیش نہیں آرہا بلکہ مختلف مواقع پر اس کی بندش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ ایسا اکثر سکیورٹی خدشات کے دوران ہوتا ہے جیسے محرم الحرام یا اسی طرح کے دیگر حساس ایام کے دوران۔ اسی طرح فروری میں حالیہ انتخابات کے دوران بھی سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر ٹوئٹر ، جسے اب''ایکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور وٹس ایپ کے استعمال میں حکومتی سطح پر مداخلت کی وجہ سے اندرونی بالخصوص بیرون ملک کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر کام کرنے والے انفرادی اور کلائنٹس کے ساتھ مل کر فری لانسنگ کرنے والوں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور اس کی بندش کے سبب لوگوں نے متعدد ''چور راستے‘‘ تلاش کرنا شروع کئے تو ملک بھر میں ''وی پی این ‘‘ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کو دور کرنے والا ایک اہم ذریعہ بن کر سامنے آیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سال مارچ میں وی پی این سروسز مہیا کرنے والی سوئس کمپنی ''پروٹون‘‘ کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں 600گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وی پی این سروسز مہیا کرنے والی دوسری کمپنیوں کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔وی پی این کیا ہے؟بنیادی طور پر وی پی این ''ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک‘‘ کا مخفف ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال یا راز داری کو ئقینی بنانے کیلئے ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ استعمال کرنے والے کی شناخت اور مقام کو بھی خفیہ رکھتا ہے۔ اس طرح اس کے استعمال کرنے والے ایسی ویب سائٹس تک بھی رسائی کو ممکن بنا لیتے ہیں جن پر کسی ملک میں پابندی ہوتی ہے۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ پرائیویٹ انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کو اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں مختلف سائبرحملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این کے استعمال سے ہر قسم کے خطروں سے نجات مل جاتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ وی پی این کے استعمال سے ایسی ویب سائٹس کے مواد تک رسائی ہو جاتی ہے جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی۔وی پی این کے استعمال میں اس وقت اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا جب رواں برس فروری میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندی اور ایکس تک رسائی محدود کر دی گئی۔ اس بارے حکومتی موقف میں ایکس پر پابندی کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا ۔ مزید براں چونکہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کیلئے ملکی سلامتی کے تناظر میں یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ البتہ پی ٹی اے کے سربراہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے پاس وی پی این کو رجسٹرڈ کرنے کے علاوہ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے تحت ایسی پالیسی وضع کی جارہی ہے جس کے تحت صرف رجسٹرڈ وی پی این کمپنیاں ہی پاکستان میں کام کر سکیں گی۔مسئلہ اتنا آسان نہیں !ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی یا غیر رجسٹرڈ شدہ وی پی این پر پابندی رازداری کے حق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔یہ شہریوں کی معلومات تک رسائی اور آزادی رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزارت داخلہ نے رواں سال جولائی میں انٹرنیٹ کی بندش بارے سندھ ہائی کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی اس کے مطابق ایکس کو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے، ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جسے متعدد بار تنبیہ کی گئی کہ وہ قانون پر عمل کرے ۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کی آزادی نے بذریعہ انٹرنیٹ پاکستان جیسے ملک کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف انٹر نیٹ کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں جزو لاینفک کی صورت اختیار کر گیا ہے ، وہیں دوسری طرف یہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 19 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ملکی معیشت میں آئی ٹی برآمدات 25 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچ چکی ہیں۔چنانچہ اسی تناظر میں پی ٹی اے کے چیئرمین کو سینیٹ کہ قائمہ کمیٹی میں برملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ آئی ٹی کی صنعت وی پی این کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اب حکومت کے تمام متعلقہ اداروں اور آئی ٹی ماہرین کو مل کر اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہئے۔فائر وال ایک حربہ حکومت نے جہاں انٹرنیٹ کے''منہ زور گھوڑے‘‘کو قابو میں لانے کیلئے وی پی این اور دیگر حربے استعمال کئے ہیں وہیں خیال کیا جاتا ہے کہ' انٹر نیٹ فائر وال‘‘ بھی ایک حربے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ فائر وال بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے مرکزی انٹر نیٹ گیٹ وے پرلگایا جانے والا ایک طرح کا ''سیفٹی والو‘‘ ہے جہاں سے انٹرنیٹ ، اپ اور ڈاؤن لنک کیا جاتا ہے۔اس نظام کی تنصیب کا بنیادی مقصد انٹر نیٹ ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتا ہے۔     

یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا

یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا

پرسوز اور سحر انگیز آواز کے مالک گلوکار سلیم رضا کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے، آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔ ان کے گائے گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ 50ء کی دہائی کے مقبول گلوکار سلیم رضا 1955ء سے 1971ء تک پاکستان کے فلمی افق پر اپنے مقبول گیتوں کے ذریعے چھائے رہے۔ سلیم رضا، پاکستان کی اردو فلموں کے پہلے عظیم گلوکار تھے جنھیں ایک ایسے وقت میں فلمی گائیکی پر اجارہ داری حاصل تھی جب پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمدرشدی اور منیر حسین جیسے بڑے بڑے نام موجود تھے۔ ہندوستانی پنجاب کے شہر امرتسر کے عیسائی خاندان میں پیدا ہونے والے سلیم رضا کا پیدائشی نام ڈیاس نوئیل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نام بدل کرکے سلیم رضا رکھ لیا۔ انہوں نے گلوکاری کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا جبکہ فلمی دنیا میں قدم 1955ء میں فلم ''نوکر‘‘ سے رکھا اور اسی سال ریلیز ہونیوالی فلم ''قاتل‘‘ کے گیتوں سے انہیں بے پناہ مقبولیت ملی۔ 1957ء کا سال سلیم رضا کیلئے بہت خوش قسمت ثابت ہوااور انہوں نے بلندی کی طرف اڑان بھرنا شروع کی۔ ان کی پڑھی ہوئی نعت ''شاہ مدینہ، یثرب کے والی‘‘ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول ترین فلمی نعت ثابت ہوئی جسے جتنا بھی سنیں ، اتنا ہی لطف آتا ہے۔ یہ نعت موسیقار حسن لطیف نے فلم ''نوراسلام‘‘ کیلئے تیار کی تھی۔اسی سال فلم ''بیداری‘‘ کے ترانے ''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘ اور ''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘گا کر انھوں نے اپنے آل راؤنڈ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔1962ء کو سلیم رضا کے انتہائی عروج کا سال قرار دیا جاتا ہے ۔ اس برس ان کی 18 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں انھوں نے 31 گیت گائے تھے۔ اس سال انھوں نے فلم ''اولاد ‘‘کی مشہور زمانہ قوالی ''لا الہ الا اللہ، فرما دیا کملی والے نے‘‘ ریکارڈ کروائی تھی۔ یہ اپنے وقت کی سب سے مشہور فلمی قوالی تھی۔ اس سال فلم ''عذرا‘‘کا شاہکار گیت ''جان بہاراں، رشک چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن‘‘ بھی منظر عام پر آیاجسے ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کیا تھا۔ 1963ء میں سلیم رضا کی فلموں کی تعداد 15تھی جن میں کل 32 گیت گائے تھے۔ اس سال کا سب سے سپرہٹ گیت ''اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘‘ تھا جو فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں شامل تھا۔ اسی فلم میں یہ دوگانا ''بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں‘‘بھی سپرہٹ تھا۔ دیگر گیتوں میں ''صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ (باجی) ،''آجا ، دل گبھرائے‘‘ (فانوس) ،''جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ (جب سے دیکھا ہے تمہیں)اور ''شام غم پھر آ گئی‘‘ (سیما) قابل ذکر تھے۔ انہوں نے سب سے زیادہ گیت موسیقارماسٹرعنایت حسین، رشید عطرے اور بابا چشتی کی دھنوں میں گائے۔ موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی تھی حالانکہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کیلئے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز ، پنجابی فلموں ، اونچی سروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کیلئے موزوں نہ تھی۔اس وقت موسیقاروں کی مجبوری ہوتی تھی کہ کوئی اور انتخاب تھا بھی نہیں۔ ان کی آواز سنتوش اور درپن پربہت سوٹ کرتی تھی۔ان کے گائے ہوئے گیتوں کی بدولت کئی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔وہ المیہ گیت گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ملی نغموں کو بھی اپنی آواز دی، جوآج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور سے جو پہلا ترانہ گونجا تھا وہ سلیم رضا اور ساتھیوں کا گایا ہوا تھا، جس کے بول ''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘ تھے۔بطور گلوکار فلموں میں زوال کے بعد وہ کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک فلم ''انداز‘‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔70ء کی دہائی کے وسط میں وہ پاکستان کو خیرآباد کہہ کر کینیڈا چلے گئے، جہاں 1983ء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہیں۔عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے ۔ا ن کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کاروکاری،غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون ‘‘قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔وطن عزیز میں خواتین کے بنیادی انسانی حقوق ہمیشہ سے نظر اندا زکیے جا تے رہے ہیں۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے مثلاًونی ، کاروکاری، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، وراثت سے محرومی،جہیز کی رسم،قرآن سے شادی اور 32 روپے حق مہر وغیرہ ان سب کا شریعت اسلامیہ، پاکستانی قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف ہے بلکہ اسلام میں تو عورتوں کو اتنے حقوق دیئے گئے ہیں کہ کوئی اور مذہب ،معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔ مثلاًجنت ماں کے قدموں کے نیچے ،بیوی شوہر کا اور شوہر بیوی کا لباس قرار دیا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیوی کے متعلق فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘(النسا:19)۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہواور میں ،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہوں‘‘ (الترمذی:1828)۔ کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں (الترمذی: 1161) ۔بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے ، بلکہ وہ نمایا ں پوزیشنز حاصل کر رہی ہیں۔ دوسری طرف دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔والدین میں بھی شعور آ رہا ہے وہ اپنی بچیوں کے اچھے مستقبل کیلئے ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ۔اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اندھیرا چھٹ رہا ہے ۔ خواتین والے باکس میں ایرر ہے اس کو سب سے آخر میں ٹچ کیجئے گا ٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)ترانے٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)جنگی ترانہ(1965ء)٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔مقبول قوالی و نعت٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)ترانے٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)جنگی ترانہ(1965ء)٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘مشہور فلمی نغمات ٭...یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں (سات لاکھ)،٭... زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ(ہم سفر)،٭... جاں بہاراں رشک چمن (عذرا)، ٭...کہیں دو دل جو مل جاتے (سہیلی)، ٭...حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں (پائل کی جھنکار)، ٭...یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو ،یہ نگاہیں (گلفام)،٭... تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم (جب سے دیکھا ہے تمہیں)، ٭...میرے دل کی انجمن میں (قیدی) ؎٭...گول گپے والا آیا(مہتاب)1959ء: سب سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ 

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹریامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کر دیا گیا تھا۔ میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا تے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے۔ ان کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کارو کاری، غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون‘‘ قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔