تحریک خلافت کے دوران برصغیر میں کیا ہوا۔۔۔؟
اسپیشل فیچر
صدیوں سے ہندوستانی مسلمانوں کا خلافتِ عثمانی کے ساتھ خاص تعلق رہا ہے۔1875ء میں ہرزیگوینا کی بغاوت، بلغاریوں اور پھر سرب اور مونٹی نیگرو میں شروع ہونے والی شورشیں اور اُن کی پشت پناہی کی خاطر روسیوں کا اعلانِ جنگ کرنا اور1878ء کو عثمانیوں کی شکست اور اِن جنگوں کے دوران عام مسلمانوں کا بے دردی سے قتل ہونا، اِن سب نے مل کر ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں بڑی ہلچل مچادی تھی اور وہ اپنے مذہبی بھائیوں کی اِس حالت پر خون کے آنسو بہانے لگے تھے۔خلافت کمیٹی1920 میں قائم ہوئی ، مولانا عبدالباری نے یہ کمیٹی قائم کی ۔ 23 نومبر 1919ء کو خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس دہلی میں مسٹر فضل اللہ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ تحریک خلافت کے دوران برصغیر میں احتجاجی جلسے جلوس اور ہڑتالیں کی گئیں۔ تحریک خلافت کے دوران ہندو ہوں یا مسلم سب نے متفقہ طور پر اِس عظیم یومِ دعا میں شریک ہوکر خلافت عثمانی اور ترکوں کے ہمراہ اپنی ہمدردی کا مظاہرہ کیا تھا:ان دنوں میں مختلف شہروں میں کیا ماحول تھا ، اس کے لئے چند شہروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
گورکھپور:آل انڈیا مسلم کانفرنس انجمن اسلامیہ نے 17 اکتوبر 1919ء کو جامع مسجد میں دعا کا انتظام اور خلافت ڈے کے اظہارِ درد و غم کو عملی صورت میں لانے کے واسطے پانچ بجے شام ہندو مسلمانوں کا ایک جلسہ بصدارت منشی عبداللہ خان شاکر علی صاحب بیرسٹر کی کوٹھی پر منعقد کیا گیا ۔ اتّفاق رائے سے طے پایا کہ ہندو مسلمان اپنے کار و بار بند کریں اور سلطنتِ ترکیہ اور خلیفۃالمسلمین کے دوام و بقا کے لیے دعائیں کریں۔ چنانچہ17 اکتوبر کو تمام ہندوا ور مسلمانوں نے اپنے کارو بار بند کردئیے اور محلہ علی نگر اردو بازار، جعفربازار، صاحب گنج اور تمام شہر کے وکانداروں نے اپنی اپنی دکانیں تمام دن بند رکھیں۔ ہر مسجد میں بعداز نماز جمعہ نہایت جوش و خروش کے ساتھ دعائیں مانگی گئیں۔ مسلمان اپنی اپنی مسجدوں سے نکل کر جامع مسجد میں مجتمع ہوگئے۔ مجمع اِس کثرت سے تھا کہ پھاٹک تک تل دھرنے کی گنجائش نہ تھی۔ گورکھپور کہنہ کے مسلمانوں نے دعا کے بعد ایک لاکھ بار درود شریف اور ایک ہزار بار استغفار کا ورد کیا اور سب ننگے سر اور بادیدۂ نم تھے۔ ایک کثیر تعداد میں ہندوبھی آئے۔ گورکھپور کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی امامت مولانا فاخر نے کی جو حسنِ اتفاق سے اُسی روز پہنچ گئے تھے، بعد نماز دعائیں اِس سوز و گداز سے کی گئیں کہ حاضرین کے قلوب بے چین ہوگئے اور بے اختیار چیخ اُٹھے۔ کچھ ایسا سماں تھا جس کا اظہار لفظوں میں ناممکن ہے۔ اِس کے بعد مولانا ممدوح نے ایک پُر مغز اور پُر اثر تقریر غایت دعا وخلافت پر کی اور وہیں عام مسلمانوں نے خلافت کمیٹی قائم کرکے قاضی فراست حسین کو صدر اور حکیم مولوی محمد محسن اور مولوی ظہور الدین ممبر میونسپل بورڈ کو سیکریٹری منتخب کیا۔ وائسرائے ہند اور خلافت کمیٹی کو تار بھیجے اور آل انڈیا مسلم کانفرنس کی تجاویز منظور کی گئیں۔
اعظم گڑھ:اعظم گڑھ میں یومِ خلافت نہایت کامیابی اور جوش سے منایا گیا۔ تمام مسلمانوں نے روزہ رکھا اور خلافت کی بقا کے لیے جامع مسجد میں دعا مانگی اور آل انڈیا مسلم کانفرنس، منعقدہ لکھنؤ کی قراردادیں منظور کرلی گئیں۔ تمام کار و بار ہندوئوں اور مسلمانوں نے بند کردیاتھا۔ کچہریاں بھی ڈھائی گھنٹے کے لیے بند کردی گئی تھیں۔
لکھنؤ:17 اکتوبر 1919ء کو یوم الحاح و دعا نہایت سرگرمی سے منایا گیا۔ ایک بجے نماز جمعہ شاہ پیر محمد صاحب کے ٹیلر پر ہوئی جس میں دس ہزارسے زائد مسلمانوں نے شرکت کی اور خلافت ترکی کے قیام کی دعا مانگی۔ دیگر مساجد میں بعد نماز دعا ہوئی۔ پھر فوراً بعد نماز رفاہ عام اور اُس کے پشت والے وسیع میدان میں شامیانہ کے نیچے اور باہر لوگ جمع ہوئے۔ تمام ہال اور شامیانہ لبالب بھرا ہوا تھا جس میں ہندو حضرات بھی شامل تھے۔ مسٹر مختار حسین صدر جلسہ نے پُرجوش تقریر کی۔ تجاویز منظور ہوئیں اور طے ہوا کہ اُن کی نقلیں وزیرِ اعظم انگلستان کو وزیرِ ہند و وائسرائے اور نواب لیفٹیننٹ گورنر صوبہ جات متحدہ کے پاس بھیجی جائیں۔
بنارس:بنارس میں ہندو مسلمانوں نے مشترکہ طور پر یومِ خلافت منایا۔ روزہ رکھا گیا اور دعائیں مانگی گئیں۔ جامع مسجد میں نماز کے بعد دعا مانگی گئی۔ ایک مسجد میں عظیم الشان جلسہ کیا گیا جس میں اہل ہنود بھی شریک تھے۔ تجاویز منظور ہوئیں اور اُن کی نقول وائسرائے کو بھیجا جانا طے ہوا۔ ایک ہندو نوجوان نے تحریک خلافت میں ہندوؤں کی شرکت کا پُر جوش یقین دلایا۔
علی گڑھ: تمام ہندوؤں اور مسلمانوں نے دکانیں بند رکھیں۔ بعد نماز جمعہ امام صاحب نے نہایت موثر مناجات پڑھی اور دعا مانگی۔ اِس کے بعد دیگر مقررین نے تقریریں کیں جن سے متاثر ہوکر حاضرین اشکبار ہوگئے۔ ایک تار وزیر اعظم برطانیہ و وزیرِ ہند وغیرہ کی مذمت میں ارسال کیا گیا۔
بنگال:یومِ خلافت تمام اضلاع بنگال میں کامیابی کے ساتھ منایا گیا۔ کلکتہ میں تقریباً تمام ہندوستانی دکانیں بند کردی گئی تھیں۔ نمازِ جمعہ کے بعد خلافت کے قیام و بقاء کے لیے دعائیں مانگی گئیں اور سہ پہر کو ٹاؤن ہال میں مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع ہوا جس میں ہندو بھی شریک تھے۔ کثرت تعداد کی وجہ سے ہال کے باہر بھی جلسے ہوئے۔ صدارت ہال کے اندر فضل الحق نے کی۔ تجاویز منظور ہوئیں۔
الٰہ آباد:یومِ خلافت نہایت خاموشی کے ساتھ منایا گیا۔ دکانیں بند تھیں۔ مسجدوں میں دعائیں مانگی گئیں۔
دہلی:دہلی کا بڑا اور چھوٹا بازار ہڑتال کا المناک منظر پیش کرکے یہ آواز بلند کررہا تھا کہ دہلی کے ہم ہندو اور مسلمان آج خلیفۂ اسلام کے اقتدار میں فرق آنے کی تجویز اورسلطنتِ ترکی کے حصّے بخرے کرانے کی تجویز پر عملی اظہارِ ناراضی کرتے ہیں۔ جامع مسجد بازار کی اناج منڈی، چاؤڑی بازار لال کنواں، چاندنی چوک، صدر بازار، کپڑے کی منڈیاں سب بند تھیں۔ ہر مسجد میں نہایت خشوع و خضوع سے دعائیں مانگی گئیں۔ مسلمانوں کی گریہ و زاری، آہ و بکا، شور و فغاں کی آواز آدھ گھنٹے تک گونجتی رہی۔ پھر سب لوگ دعا میں مشغول ہوئے اور سر بسجود ہوئے۔ پھر جلسہ ہوا جس میں ہندو مسلمان قریب ایک لاکھ کی تعداد میں شریک تھے۔ ہر مقرر نے نہایت آزادی اور بے باکی سے تقریر کی۔ سوامی شردھارنندجی اور مسٹر آصف علی نے بھی تقریریں کیں۔
بمبئی:مسلمانوں نے یومِ خلافت اور دعا روزے کے ساتھ منایا۔ ہندوؤں نے بھی شرکت کی۔ تمام منڈیاں بند رہیں۔ بھنڈی بازار، نل بازار، کرفورڈ مارکیٹ کی تمام دکانیں خاص طور پر بند رہیں۔ مذبح خانے بھی بند رہے۔ ڈپٹی میونسپل کمشنر و سپرنٹنڈنٹ مذبح کے مجبور کرنے پر بھی قصائیوں نے صاف انکار کردیا۔ ایک بجے جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ہوئی۔ نماز سے دو گھنٹے قبل لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور تمام سڑکیں بند تھیں۔ تقریباً پچاس ہزار آدمی جمع تھے۔ رضاکاروں نے انتظام کیا۔ نماز کے بعد خلافت کے دنیوی اقتدار کے لیے خاص طور پر دعا مانگی گئی۔ اِس کے بعد فوراً ہی مسجد میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ میاں حاجی جان محمد چھوٹانی صدر خلافت کمیٹی نے ایک جلسہ کی صدارت کی اور آل انڈیا مسلم کانفرنس کے مطابق تجاویز منظور ہوئیں اور اُس کی نقل وزیر اعظم انگلستان، وزیر ہند اور وائسرائے اور گورنر بمبئی کو تار سے بھیجنے کی ہدایت صدر کو کی گئی ۔ بہت سے ہندوؤں نے مہادیو بھوگ میں دعا مانگی۔ اِسی طرح مئو ناتھ بھجن، کٹھور، مراد آباد، بستی، در بھنگہ کے حالات اور جلسوں اور تجاویز کا ذکر ہے۔ بستی میں بابو دولت استھانا ایڈووکیٹ نے بڑے جوش و خروش سے شرکت کی۔ کھٹیا سرائے، مرزاپور، دربھنگہ عغیرہ کا بھی اِسی طرح کا ذکر ہے۔