ہرمل:کرشماتی جنگلی بوٹی، اس کی دھونی سے مچھروں اور زہریلے کیڑوں کا خاتمہ ممکن
چند دن پہلے میں نے اپنے ملازم کو فون کیا، تو وہ بتانے لگا کہ اس سال بارشوں کی وجہ سے جنگلی جڑی بوٹیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اگلی فصل کی تیاری کے لئے زمین کو تیار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ''ہرمل‘‘ نامی بوٹی اس کثرت سے اُگ آئی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
''ہرمل‘‘ کا نام سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اپنے بچپن کا زمانہ گھومنے لگا ،جب ہر سال ماہ اکتوبر کے شروع ہوتے ہی گھروں میں بڑے بوڑھے باقاعدگی سے ہرمل کی دھونی کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ کیا مجال کہ ہرمل کی دھونی والے گھر میں مچھر یا نقصان پہنچانے والے دوسرے موسمی کیڑے نظر آجاتے بلکہ ایسے گھر ممکنہ حد تک موسمی بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے۔
اس حوالے سے پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں سارا سال ہر پھل، ہر سبزی دستیاب ہوتی ہے۔ وجہ اس کی وطن عزیز میں چاروں موسموں کا ملک کے کسی نہ کسی کونے میں موجود ہونا ہے۔ اگر پنجاب میں سخت گرمی کا موسم ہے تو شمالی علاقہ جات کے کچھ علاقوں میں برف باری ہو رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب پنجاب کے بیشتر علاقوں میں گرمی کا آغاز ہونے کو ہوتا ہے تو سندھ کے بیشتر علاقوں سے گرمیوں کے پھل اور سبزیاں آچکے ہوتے ہیں۔
پاکستان کو قدرتی بناتات کا گھر کہا جاتا ہے۔ جڑی بوٹیوں کو خواہ انگریزی ادویات میں استعمال کریں یا دیسی طریقہ علاج میں، ان کی افادیت اور اہمیت سے کسی کو انکار ممکن نہیں۔
ہرمل ایک ایسی خود رو بوٹی ہے جس کے خواص کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ہرمل کے پودے کی پہچان یہ ہے کہ اس پر چھوٹی چھوٹی ڈوڈی نما پھلیاں لگتی ہیں جو سیاہ دانوں سے بھری ہوتی ہیں۔
ہرمل کیا ہے اور کہاں ہوتا ہے؟
ہرمل بنیادی طورپر ریگستانوں کی ایک خود رو جنگلی بوٹی ہے لیکن اپنے اندر اوصاف کا خزانہ رکھنے اور شہری علاقوں میں مہنگے داموں بکنے کے سبب اب اسے کسی حد تک محفوظ کیا جانے لگا ہے۔ اس سے پہلے عمومی طور پر اسے تلف اس لئے کر دیا جاتا تھا کہ یہ فصلوں کو بڑھنے سے روکتی ہے۔ اس کا سائنسی نام Peganum Harmal ہے، انگریزی میں اسے Syrian Rue جبکہ فارسی میں اسے'' اسفند‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پاکستان کے ریگستانی علاقوں میںبکثرت ہوتاہے۔
ہرمل کی خصوصیات
نظام قدرت ملاحظہ فرمائیں کہ مالک کائنات نے ایک جھاڑی سے لیکر درخت تک جو بھی نباتات اس روئے زمین پر پیدا کی ہے وہ بلا جواز نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری سوچ اور تحقیق اس تک نہ پہنچ سکی ہو۔کچھ ایسا ہی احوال ''ہرمل ‘‘ کے خود رو پودوں کا ہے جو عین انہی دنوں شباب کو پہنچتے ہیں جب گرمیوں کا موسم جا رہا ہوتا ہے اور سردیوں کی آمد آمد ہوتی ہے۔ یہی وہ دن ہوتے ہیں جب ہمارے ہاں مچھروں کی آمد کی شروعات ہو چکی ہوتی ہے۔
ہرمل کو قدرت نے مچھر بھگانے کا حیرت انگیز وصف عطا کر رکھا ہے تبھی تو صدیوں سے جب مچھر بھگاؤ لوشن اورسپرے کاوجود بھی نہ تھا سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گھروں میں انگارے جلا کر اس کے اوپر ہرمل کے دانے ڈال دیئے جاتے، جسے ''ہرمل کی دھونی‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کی بو سے مچھر بھاگ جاتے ہیں اور متواتر کچھ دن ہرمل کی دھونی کرتے رہنے سے کافی دنوں تک کے لئے مچھروں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اب تو جدید تحقیق نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ ہرمل ایک مکمل ''اینٹی بکٹیریل‘‘ اور ''اینٹی وائرل‘‘ خصوصیات کا حامل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہرمل کے ساتھ لوبان کا اضافہ بھی کر دیا جائے تو اس کے مزید بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کی دھونی صرف مچھروں کے لئے ہی کارآمد نہیں بلکہ ہر قسم کے کیڑے مکوڑوں، مکھیوں اور دیگر نظر نہ آنے والے جراثیموں بکٹیریا اور موسمی وائرس سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ اس کی متواتر دھونی سے مندرجہ بالا خطرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے بلکہ آج کل ڈینگی مچھر اور اس کے اثرات سے بچنے کا یہ انتہائی کار آمد نسخہ ہے۔ چین میں تو ہرمل کے ہرے پودے کو کمروں میں رکھنے کا رواج عام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جب تک ہرا پودا کمرے میں رہتا ہے، مچھر نزدیک نہیں آتے۔یہ چونکہ ایک زبردست جراثیم کش خصوصیات کا حامل پودا ہے جس کے باعث ہمارے دیہی علاقوں میں آج بھی ہرمل کی دھونی سے فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔
(خاورنیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں)