صرف نام ہی نہیں، کام بھی ایک جیسا مقبولیت کے جھنڈے گاڑھنے والے پاکستان و بھارت کے ہم نام فنکار

صرف نام ہی نہیں، کام بھی ایک جیسا مقبولیت کے جھنڈے گاڑھنے والے پاکستان و بھارت کے ہم نام فنکار

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفرؔ


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں کچھ فنکار ایسے بھی تھے جو ہم نام ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اداکار بھی تھے۔ ویسے ایک مثال اداکارائوں کی بھی ہے جو ہم نام تھیں اور جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں بہت مقبولیت حاصل کی۔
ہم نام اداکار تھے رحمان، ایک بھارتی رحمان اور دوسرے پاکستانی رحمان۔ بھارتی اداکار رحمان کے بارے میں سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کے ایک سگے بھائی مسعود الرحمان پاکستان فلمی صنعت کے نامور کیمرہ مین تھے، اداکار فیصل رحمان ان ہی کے بیٹے ہیں۔ اس رشتے سے بھارتی اداکار رحمان پاکستانی اداکار فیصل رحمان کے سگے چچا تھے۔ بہت سے لوگ ماضی کی معروف بھارتی اداکارہ وحیدہ رحمان کو بھی رحمان خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ وحیدہ رحمان کا اداکار رحمان سے کوئی تعلق نہیں صرف لفظ رحمان کی وجہ سے کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ شاید یہ آپس میں رشتے دار تھے۔ بھارتی اداکار رحمان اس بات پر بہت نازاں تھے کہ ان کا بھائی اور بھتیجا پاکستانی فلمی صنعت میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔80ء کی دہائی میں وہ جب پاکستان آئے تو انہوں نے کئی پاکستانی فلمیں بھی دیکھیں اور دل کھول کر تعریف کی۔
بھارتی اداکار رحمان نے ہیرو کی حیثیت سے بھی کام کیا اور وہ ولن کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ پھر انہوں نے کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ وہ ہر روپ میں فلم بینوں کی توقعات پر پورا اترے۔
رحمان نے ہیرو کی حیثیت سے کئی فلموں میں کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ''صاحب بی بی اور غلام، پیاسا، وقت، مجبور، آپ کی قسم، آندھی، دل دیا درد لیا‘‘ اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ وہ جتنے خوش شکل تھے اتنے ہی اچھے اداکار تھے۔ ان کی کھنک دار آواز فلم بینوں کو فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی۔ شیخ مختار کی فلم ''نور جہاں‘‘ میں انہوں نے شہنشاہ اکبر کا کردار ادا کیا۔ وہ 1990ء میں اس جہان رنگ و بو سے رخصت ہو گئے۔ بھارتی فلمی صنعت میں ہمیشہ ان کا احترام کیا جاتا رہا۔ ذاتی زندگی میں وہ ایک ملنسار اور وضع دار مخلص انسان تھے۔ انہیں شاعری سے بھی شغف تھا مطالعے کے بہت شوقین تھے۔ ان کے بارے میں ایک دفعہ مجروح سلطانپوری نے کہا تھا کہ رحمان وسیع القلب، وسیع النظر اور وسیع المطالعہ تھے۔ ذرا اندازا لگایئے کہ ایک شخصیت بیک وقت اتنی صفات کی حامل بھی ہو سکتی ہے؟۔
اب ذرا پاکستانی اداکار رحمان کی بھی بات ہو جائے۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بنگالی فلموں کے علاوہ اردو فلموں میں بھی کام کرتے تھے۔ صرف اداکاری نہیں بلکہ انہوں نے فلمسازی بھی کی۔ ان کی مشہور فلموں میں ''تلاش‘‘، ''درشن‘‘، ''چندا‘‘، ''چاہت‘‘،'' دوستی‘‘ اور ''نادان‘‘ شامل ہیں۔ وہ اپنی فطری اداکاری کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ اداکارہ شبنم کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت پسند کیا جاتا تھا اور ان دونوں کی فلمیں باکس آفس پر بہت کامیاب ہوئیں۔ بدقسمتی سے ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران رحمان ایک حادثے کا شکار ہو گئے جس کے نتیجے میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور مصنوعی ٹانگ لگوا لی جس کے بعد انہوں نے اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔
1971ء میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو شبنم کی طرح رحمان نے بھی پاکستان میں قیام کو ترجیح دی۔ مشرقی پاکستان کے ایک گلو کار بشیر احمد کی آواز ان پربہت جچتی تھی۔ بشیر احمد بہت خوبصورت آواز کے مالک تھے اور انہوں نے روبن گھوش کی موسیقی میں کئی شاندار فلمی گیت گائے۔
پاکستان میں رحمان نے دو فلمیں بنائیں۔ ایک تھی ''چاہت‘‘ اور دوسری تھی'' دو ساتھی‘‘۔ دونوں فلموں کی موسیقی روبن گھوش کی تھی اور ان فلموں کے نغمات نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔1974ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''چاہت‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گانا‘‘ پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ خان صاحب کے معرکہ آرا گیتوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح ''دو ساتھی‘‘ میں غلام عباس کا گیت'' ایسے وہ شرمائے‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
رحمان بڑی صاف ستھری فلمیں بناتے تھے اور ان کا شعور موسیقی بھی انتہائی قابل تحسین تھا۔ روبن گھوش ان کے بارے میں اکثر کہا کرتے کہ یہ شخص موسیقی کے اسرار و رموز کو سمجھتا ہے۔
رحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ذاتی زندگی میں وہ عاجزی اور انکساری کا مجسمہ تھے۔ انتہائی دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے رحمان نے کسی سے ناراض ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔
وہ پاکستان میں اپنی تیسری فلم ''تین کبوتر‘‘ بنا رہے تھے لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی۔ اس سے وہ بہت مایوس ہوئے۔ غالباً 1980ء میں وہ بنگلہ دیش چلے گئے، چند برس پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔
ہم نام ہونے کا شرف ہندوستانی اداکارہ ممتاز اور پاکستانی ممتاز کو بھی حاصل ہے۔ دونوں اداکارائوں میں صرف نام کی مماثلت ہی نہیں بلکہ کچھ اور خوبیاں بھی ایک جیسی تھیں۔ دونوں کمال کی ڈانسرز تھیں انہوں نے شوخ اداکاری کی وجہ سے بہت مقبولیت حاصل کی۔ دونوں کو گانا پکچرائز کرانے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ اگر بھارتی ممتاز روک اینڈ رول پر یہ گانا پکچرائز کراتی ہے '' آجکل تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر‘‘ تو پاکستانی اداکارہ ممتاز بھی ''تت ترو ترو تارا تارا‘‘ جیسا مسحور کن گیت انتہائی خوبصورت انداز میں پکچرائز کرا کے فلم بینوں سے بے پناہ داد وصول کرتی ہے۔بھارتی اداکارہ ممتاز کی مشہور فلموں میں ''دو راستے، آپ کی قسم، برہم چاری، رام اور شیام‘‘ اور ''میلہ‘‘ شامل ہیں۔
پاکستانی اداکارہ ممتاز نے بھی کئی فلموں میں اپنی اداکاری اور رقص کے ذریعے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ ان کی قابل ذکر فلموں میں ''انتظار، شرارت، ان داتا، محبت زندگی ہے، نوکر ووہٹی دا، شریف بدمعاش‘‘ اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ یہ ہم نام فنکار تھے اور ان سب نے ناکامی کے کانٹے نہیں بلکہ کامیابی کے پھول سمیٹے۔ یہ سب ہندوستان اور پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘
سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

کائنات جس قدر خوبصورت ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن بھی ہے۔ اگر بات اس کائنات کی مخلوق کی، کی جائے تو اس کا صحیح شمار انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اس روئے زمین پر رینگنے والے کیڑوں سے لے کر ، چرند پرند ، آسمانوں پر اڑتے پرندوں سے لے کر سمندر کی تہوں میں حرکت کرتی مخلوق کا صحیح شمار انسان کے بس سے باہر ہے۔ عقل، انسان کیلئے اگرچہ رب کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے افضل کرتی ہے لیکن دور جدید میں انسان ''ستاروں پہ کمند‘‘ ڈالنے کے باوجود بھی ابھی رب کی بنائی کائنات کے لاتعداد رازوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ابابیل کے بارے تو سوچتے ہوئے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ دس ماہ تک باآسانی لگاتار پرواز کر سکتا ہے۔یہ اور ایسے ہی لاکھوں اور محیر العقول جانداروں بارے سائنس دان کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس دان اس عجیب و غریب پرندے ''ابابیل‘‘ پراب تک کیا تحقیق کر سکے ہیں جس کا تذکرہ قرآن شریف میں بھی ملتا ہے۔ ابابیل ، چڑیا کی طرح کا ایک چھوٹی جسامت کا نازک سا پرندہ ہے لیکن چڑیا اور اس قبیل کے دیگر جانوروں کے برعکس اس کے پر زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ شاید ان پروں کے پیچھے قدرت کا یہ راز پوشیدہ ہے کہ یہ دیگر پرندوں کی نسبت طویل اور انتہائی بلندی پر سفر کرنے والا پرندہ ہے۔ قدرت نے اس پرندے کے پروں کی ساخت کچھ اس طرز پر بنائی ہے کہ ہلکی سی ہوابھی اسے خودبخود آگے دھکیلتی رہتی ہے۔اس پرندے کی عمومی لمبائی 18 سے 20 سنٹی میٹر کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے پر سیاہ اور سینے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پنجے نہایت نازک اور کمزور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زمین پر زیادہ آسانی سے نہیں بھاگ سکتا لیکن اس کے پس پردہ بھی شاید قدرت کی یہ مصلحت کارفرما ہے کہ یہ درختوں کی ٹہنیوں اور بجلی کی تاروں پر زیادہ آسانی سے بیٹھ سکتا ہے۔ابابیل فطرتاً پرانے گنبدوں ، کھنڈرات، پہاڑوں کی چٹانوں ، درختوں کے تنوں کے اندر اور اکثر ویران جگہوں پر اپنا مٹی کا گھونسلا بنا کر رہنے کی عادی ہے۔ یہ زیادہ تر اپنے گھونسلے گیلی مٹی اور گھاس کو باقاعدہ لیپ دے کر بناتے ہیں۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ یہ ستر اسی سال تک اپنا گھونسلا نہیں چھوڑتے اور یہ جہاں بھی ہوں ہر دفعہ اپنے ہی گھونسلے میں آکر انڈے دیتے ہیں۔ابابیل کو باقی پرندوں کے مقابلے میں جو انفرادیت حاصل ہے وہ یہ کہ ابابیل شاید واحد پرندہ ہے جو متواتر اپنی اڑان جاری رکھنے کے سبب دوران پرواز نہ صرف اپنی نیند پوری کر لیتا ہے بلکہ دوران پرواز ہی اپنی خوراک بھی کھاتا رہتا ہے۔ چونکہ دوران پروازیہ اپنی چونچ کو کھلا رکھتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں اڑتے کیڑے مکوڑے خود بخود اس کے منہ کے اندر اس کی خوراک کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ اس کی عمومی غذا کیڑے مکوڑے ہی ہوتے ہیں۔یہ پرندہ بھی نر اور مادہ دونوں شکلوں میں پایا جاتا ہے۔عمومی طور پر یہ دونوں (نراور مادہ )ایک ساتھ اپنی پرواز جاری رکھتے ہیں۔ شاذ ہی یہ اکیلے پرواز کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پرندہ زیادہ تر جھنڈ کی شکل میں پرواز کرتا ہے۔ عربی میں ابابیل کو '' خطاف‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں ابابیل کے معنی جھنڈ یا گروہ کے ہی ہیں۔ یہ پرندہ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والا پرندہ ہے۔ یہ لیبیا، شام اور ایران کے علاقوں سے پورپی ممالک، سوڈان سے جنوبی افریقہ اور عراق کے شہر موصل میں ہجرت کرتے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو جس علاقے کے اوپر سے آواز نکالتا یہ پرندہ گزر جاتا اسے بارش کی پیش گوئی سے تعبیر کیا جاتا۔ اکثر واقفان حال اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ ایسا اکثر و بیشتر صحیح ہی ہوا کرتا تھا۔ ابابیل اور جدید تحقیق ابابیل کو سوئفٹ بھی کہتے ہیں ، جبکہ اس کی ایک نسل کو ''الپائن سوئفٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عام ابابیل کو '' ایپس ایپس‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوئفٹ اور الپائن نسل کے ابابیلوں کی اوسط عمر بیس سال بتائی جاتی ہے۔آج سے چند سال پہلے سویڈن یونیورسٹی نے اپنی ایک طویل تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ ابابیل مسلسل حالت سفر میں رہتا ہے ماسوائے اپنے انڈے دینے کے عرصے کے۔ ابابیل گلائیڈنگ کرتے وقت اکثر اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں یہ زمین سے اتنی بلندی پر چلے جاتے ہیں کہ سوتے وقت اچانک زمین سے ٹکرانے کا خطرہ انہیں نہیں رہتا۔ ابابیل پرواز کرتے وقت اپنی توانائی بچانے کے لئے گلائیڈنگ کرتا ہے یعنی کچھ دیر پر ہلانے کے بعد انہیں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور یوں ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف لندن کی ایک تحقیق کے مطابق ابابیل دس ماہ سے بھی زیادہ عرصہ بغیر زمین پر اترے ہوا میں مسلسل پرواز کر سکتا ہے۔ ایک اور جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ابابیل بغیر رکے 14 ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔عمومی طور پر اس پرندہ کی عمر بیس برس تک ہوتی ہے۔ابابیل سے جڑی قدیم اور دلچسپ روایات یوں تو زمانۂ قدیم میں لاتعداد روایات سننے کو ملتی تھیں لیکن سب سے زیادہ روایات کا تعلق خطۂ عرب سے ملتا ہے۔روایات میں آیا ہے کہ ابابیل اپنے گھونسلوں میں سرخ اور سفید دو طرح کے پتھر رکھتے ہیں۔جنہیں ''حجرالصنوبر‘‘ کہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اکثر سنیاسی ان ہر دو پتھروں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ جبکہ بیشتر طبیب ان پتھروں کے لاتعداد طبی فوائد بھی بتاتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ قدیم دور میں اکثر بوڑھے سنیاسی کہا کرتے تھے کہ ابابیل کے گھونسلے کا سفید پتھر مرگی کے مریض کے گلے میں لٹکانے سے شفا ملتی ہے ، چشم بد کو دور کرتا ہے، اکثر بچے جو سوتے میں ڈر جاتے ہیں ان کے سرہانے سرخ پتھر رکھنے سے بچے سکوں کی نیند سوئے ہیں (واللہ اعلم )۔ایک اور روایت ہے کہ ہر ابابیل کے گھونسلے میں پتھر نہیں ہوتا بلکہ یہ پتھر حاصل کرنے کیلئے ابابیل کے بچے کو زرد رنگ میں رنگ کر کے گھونسلے میں چپکے سے رکھ دیا جاتا ہے۔مادہ ابابیل بچے کو بیمار سمجھ کر خدا جانے کہاں سے پتھر ڈھونڈ لاتی ہے تاکہ اس کے بچوں کا پیلیا (یرقان) جاتا رہے۔( واللہ اعلم)۔کچھ پرانے سنیاسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پتھر دراصل ابابیلوں کے پوٹے میں پایا جاتا ہے ، ابابیل کو مار کر اس کے پوٹے کو کاٹا جائے تو یہ پتھر وہاں سے نکلتا ہے۔ ( واللہ اعلم)۔اب دور جدید میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ گئے زمانوں میں یرقان ، مرگی اور ایسی ہی دیگر متعدد بیماریوں کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اس لئے اکثر ضعیف العقیدہ لوگ ان ٹوٹکوں پر یقین کر لیا کرتے تھے جبکہ دور جدید میں ہر مرض کا علاج دریافت ہو چکا ہے اس لئے اب ایسی تمام روایات مضحکہ خیز لگتی ہیں۔  

سوء ادب

سوء ادب

اپنی اپنی سوچ ایک شخص کی بیوی کافی عرصے سے بیمار تھی۔ ایک دن وہ اپنے شوہر سے بولی ،'' میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا ‘‘۔جس پر شوہر بولا ،''اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تم اگر نہ مریں تو پھر میرا کیا بنے گا ؟‘‘ کام گلی میں بچے کھیل رہے تھے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا '' تم کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘ جس پر بچے نے جواب دیا'' ہم نو بہن بھائی ہیں ‘‘پھر پوچھا '' تمہارا باپ کیا کام کرتا ہے ؟ ‘‘ تو جواب ملا '' بتایا تو ہے !‘‘ماخذیہ اوسلو ، ناروے میں مقیم ہمارے بہت پیارے شاعر فیصل ہاشمی کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے وسیم جگنو نے لاہور سے شائع کیا ہے۔ سرورق ریاظ نے بنایا ہے، انتساب امی جان ، شاہ جی اور ڈاکٹر وزیر آغاکی یاد میں، آغاز میں یہ مصرع درج ہے ''سمندر کشتیوں میں چھید کرتی مچھلیوں سے بھر گئے ہیں‘‘۔ ابتدائیہ شاہد شہدائی نے لکھا ہے جبکہ درونِ سرورق کتاب اور شاعر کے بارے میں جوگندر پال ، محمود ہاشمی اور بلراج کومل کی تہسینی آرا درج ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر ایک نظم اور بزبانِ انگیریزی وزیر آغا کی رائے درج ہے۔ ٹائٹل دیدہ زیب نظموں کی تعداد 41 اور قیمت 200 روپے ہے۔ پسِ سرورق چھپی نظم کچھ اس طرح سے ہے۔ ایک انوکھی یکتائی آج جو میں پاتال سے باہر اْس رسّی کو تھام کے نکلا جس کے پھندے دار سِرے پر یہ دنیا اک گیند کی صورت لٹک رہی تھی کوئی نہیں تھا مرنے والا جینے والا ہر جانب بس میں ہی میں تھا !کرنوں کے پردے کو ہٹا کر میں نے دیکھا وقت کا چہرہ اس کی آنکھیں ایک سمندر اور آنے والے کل کے بھنور سے چکراتے اوسان لیے اک جست بھری تھی اور پھر میں بھی اْس سیّا ل کے خالی پن کا حصہ بنا تھا خود سے نکل کر بھی پیچھے ہٹتے لمحہ لمحہ اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا ایک انکوکھی یکتائی میں لامحدود ہوا تھا !!آج کا مطلعاک دن ادھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے خود بڑھ کے روک لیں گے کہیں وہ نظر تو آئے  

رمضان کے پکوان: چکن چیز پارسل

رمضان کے پکوان: چکن چیز پارسل

اجزاء: چکن کا قیمہ 200گرام، چیڈر چیز ایک پیالی، سموسے کی پٹیاں حسب ضرورت، نمک حسب ذائقہ، ٹماٹر دو عدد، لہسن پسا ہوا ایک کھانے کا چمچ، پیاز ایک عدد، کالی مرچ گدری پسی ہوئی ایک چائے کا چمچ، ڈبل روٹی کا چورا دو کھانے کے چمچ، کوکنگ آئل حسب ِضرورت۔ترکیب: قیمے کو صاف دھو کر پین میں ڈالیں اور اس میں لہسن، نمک، کالی مرچ، چوپ کی روٹی پیاز اور ٹماٹر ڈال کر ہلکی آنچ پر پکنے رکھ دیں۔ جب قیمے کا اپنا پانی خشک ہو جائے تو اچھی طرح بھون کر چولہے سے اتاریں اور تھوڑا سا ٹھنڈا ہونے پر اس میں ڈبل روٹی کا چورا شامل کر دیں۔ سموسے کی پٹیوں کو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح سے رکھیں اور درمیان میں ایک کھانے کا چمچ ٹھنڈا کیا ہوا قیمہ ڈالیں۔ نیچے والی پٹی کو اٹھا کر درمیان میں لا کر لئی(میدہ اور پانی لا کر) سے بند کر دیں پھر اس کے اوپر کش کیا ہوا چیز رکھ کر دوسری پٹی کے دونوں سروں کو درمیان میں لا کر بند کرکے پارسل کی شکل میں بنا لیں۔کڑاہی میں کوکنگ آئل کو درمیانی آنچ پر گرم کریں اور ان پارسلز کو تیز آنچ پر سنہری فرائی کرکے نکال لیں۔ 

حکایت سعدیؒ :خوف و پریشانی سے نجات

حکایت سعدیؒ :خوف و پریشانی سے نجات

ایک شخص نے حاکم شیراز تابک سعد بن زنگی کی شان میں قصیدہ پڑھا۔ بادشاہ یہ قصیدہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس کوبیش قیمت خلعت بخشا۔ اس خلعت کے دامن پر اللہ کا طغریٰ کڑھا ہوا تھا۔ قصیدہ پڑھنے والے کی نظر اس طغرے پر پڑی تو اس کی عجیب حالت ہو گئی۔ اس نے اپنے جسم سے خلعت اتار کر پھینک دیا اور دیوانہ وار جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ جنگل میں اس کی ملاقات درویشوں سے ہوئی۔ درویش اس کی زبانی سارا احوال سن کر بہت حیران ہوئے۔ ایک نے کہا: تم بھی عجب شخص ہو بادشاہ کی طرف سے بخشے گئے انعام کو یوں ٹھکرا دیا۔ وہ بولا: میں نے ایسا اس لئے کیا کہ مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ کار ساز حقیقی تو اللہ پاک کی ذات ہے۔ جب تک میں اس راز سے آگاہ نہ تھا خوف اور امید کی ذلت میں مبتلا رہتا تھا۔ اللہ پر کامل یقین ہوا تو میرے دل میں نہ بادشاہ کا خوف ہے نہ اس کی ذات سے کوئی امید ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

شاہ فیصل کا قتل 25 مارچ 1975ء کو شاہ فیصل کو ان کے سوتیلے بھائی مسید بن عبدالعزیز کے بیٹے فیصل بن مسید نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ شاہ فیصل کا بھتیجا امریکہ سے واپس آیا ہی تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ قتل ایک مجلس میں ہوا،جہاں بادشاہ عام شہریوں کے مسائل سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ انتظار گاہ میں فیصل بن مسید نے کویتی نمائندوں سے بات کی جو شاہ فیصل سے ملاقات کے منتظر تھے۔ فیصل بن مسید سے شاہ فیصل کی ملاقات ہوئی تو وہ سعودی رسم و رواج کے مطابق اپنے بھتیجے کو گلے لگانے کیلئے جھکے اور اسی دوران فیصل بن مسید نے پستول نکال کر شاہ فیصل پر گولی چلا دی۔ پہلی گولی بادشاہ کی ٹھوڑی پر لگی اور دوسری گولی ان کے کان میں جا لگی۔ شاہ فیصل کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیالیکن وہاں کچھ ہی دیر بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔ اس طرح مسلم دنیا ایک دور اندیش رہنما سے محروم ہو گئی۔پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا25مارچ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین دن ہے کیونکہ 1992ء میں اسی دن پاکستان نے برطانیہ کو ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں 22رنز سے شکست دینے کے بعد عالمی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔یہ پانچواں عالمی کپ تھا اور اس میں کل نو انٹرنیشنل ٹیموں نے حصہ لیا۔ فائنل کو ملا کر کل39میچ کھیلے گئے۔یہ ورلڈ کپ دو ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔پاکستان نے ایک بار ہی عالمی کپ میں فتح حاصل کی ہے۔سیارہ زحل کے چاند ''ٹائٹن ‘‘ کی دریافت25مارچ 1655ء کو ہالینڈ کے ریاضی دان کرسٹیان ہیگنز نے سیارہ زحل کا چاند ''ٹائٹن‘‘ دریافت کیا ۔ٹائٹن زحل کا سب سے بڑا چاند اور نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا قدرتی سیٹلائٹ ہے۔ یہ واحد چاند ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے اوپر ایک گھنا Atmosphere موجود ہے اور یہ زمین کے علاوہ خلا میں پایا جانے والا واحد علاقہ تھا ،جس میں سطحی مائع کی موجودگی کے مستحکم اور واضح ثبوت ملے۔ ٹائٹن زمین کے چاند سے 50 فیصد بڑا ہے۔ یہ مشتری کے چاند Ganymede کے بعد نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا چاند ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ٹائٹن پر زندگی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔''امینز معاہدہ‘‘امینز کے معاہدے نے دوسری اتحاد کی جنگ کے اختتام پر فرانس اور برطانیہ کے درمیان عارضی طور پر دشمنی ختم کر دی۔ اس نے فرانسیسی انقلابی جنگوں کا بھی خاتمہ کیا۔اس معاہدے کے تحت برطانیہ نے اپنی حالیہ فتوحات کو ترک کر دیا جبکہ فرانس کی جانب سے نیپلز اور مصر کو خالی کردیا گیا۔ معاہدے پر 25 مارچ 1802ء کو ایمینس شہر میں جوزف بوناپارٹ اور مارکویس کارنوالس نے ''امن کے حتمی معاہدے‘‘ کے طور پر دستخط کیے۔ اس امن معاہدے کے باجود تقریباً ایک سال ہی امن قائم رہ سکا ۔    

فلپائن کی مشہور مساجد

فلپائن کی مشہور مساجد

مغربی بحرالکاہل میں واقع 7100جزائر کا مجموعہ فلپائن کہلاتا ہے۔ فلپائن ملائی قوم نے آباد کیا تھا۔ اسلام یہاں ساتویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) میں انڈونیشیا کے راستے وارد ہوا۔ ہسپانوی بادشاہ فلپ کے نام پر فلپائن کا نام دیا۔1571ء میں انہوں نے منیلا شہر کی بنیاد رکھی اور یہاں کیتھولک مسیحیت کو فروغ دیا۔جنوبی فلپائن کے مسلمان نصف صدی سے علیحدگی کی جدوجہد کر رہے تھے، ان کی مسلح تحریک مورو لبریشن فرنٹ کے نام سے شروع ہوئی جس کے قائد نور مسواری تھے۔ اس دوران نور مسواری کو مسلم صوبے کا گورنر بنا دیا گیا، تاہم کچھ عرصہ بعد معاہدہ امن کی سرکاری خلاف ورزی کی بنا پر نور مسواری نے حکومت سے علیحدہ ہو کر پھر گوریلا تحریک کی قیادت سنبھال لی جواب تک جاری ہے۔ اب کورازون کا بیٹا نوئی اکینو برسر اقتدار ہے۔ فلپائن میں اسلام وارد ہونے کے ساتھ ہی نور مسوری کی رعایا کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہو گئے۔فلپائن میں کئی دینی مدارس ہیں۔ فلپائن میں کئی مساجد ہیں۔یہاں صرف 2 بڑی مساجد قابل ذکر ہیں۔ سنہری مسجد( منیلا)منیلا شہر کے قوایا پو (Quiapo) ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد اور رہائش پذیر ہے، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہیں مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد واقع ہے، جس کا نام سنہری مسجد ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا گنبد سنہری رنگ کا ہے۔ اس وقت منیلا کی تمام مساجد میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں 3ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ۔یہ مسجد 1976ء میں صدر مارکوس کے دور میں خاتونِ اوّل امیلڈا مارکوس کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔نماز جمعہ اور عید کی نماز کے اوقات میں سنہری مسجد مسلمانوں سے بھر جاتی ہے اور یہ دنیا کی چند خوبصورت مساجد میں شمار ہوتی ہے۔گرینڈ مسجد( کوتاباتو)یہ مسجد فلپائن کی سب سے بڑی مسجد ہے جو برونائی کے سلطان حاجی حسن البولکیہ نے فلپائن کے جنوبی صوبے منڈا نائو کے شہر کو تاباتو (Cotabato) میں پانچ ایکڑ کے رقبے پر تعمیر کروائی۔ یہ پلاٹ وہاں کے ایک مسلمان قبیلے نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر 2009ء میں شروع ہوئی۔ اس برس برونائی کے سلطان تین روزہ سرکاری دورے پر فلپائن آئے تو انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ گرینڈ مسجد اتنی خوبصورت اور عالمی شان ہے کہ سارے فلپائن کے مسلمان فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی انتہائی خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے۔ دیکھنے میں یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔مسجد کو گولڈن مسجد اور حاجی سلطان حسن البولکیہ مسجد کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 141فٹ ہے۔ مسجد میں 40ہزارنمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہ مسجد 2011ء کے رمضان المبارک میں استعمال کیلئے کھول دی گئی تھی لیکن اس کا باقاعدہ افتتاح اگلے سال عیدالفطر کے دن 2012ء میں ہوا۔ اس کے مینار اوپر سے سنہری ہیں جن پر ہلال نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی تعمیر پر بیس کروڑ روپے خرچ ہوئے جو سارے کے سارے سلطان حسن البولکیہ نے برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال کے درمیان ایک دیدہ زیب فانونس لٹک رہا ہے۔ حفاظتی انتظامات کے پیش نظر کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ اس مسجد کی پچھلی جانب جزیرہ بونگ ہے جو خلیج مورو میں گھرا ہوا ہے۔