صرف نام ہی نہیں، کام بھی ایک جیسا مقبولیت کے جھنڈے گاڑھنے والے پاکستان و بھارت کے ہم نام فنکار
ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں کچھ فنکار ایسے بھی تھے جو ہم نام ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اداکار بھی تھے۔ ویسے ایک مثال اداکارائوں کی بھی ہے جو ہم نام تھیں اور جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں بہت مقبولیت حاصل کی۔
ہم نام اداکار تھے رحمان، ایک بھارتی رحمان اور دوسرے پاکستانی رحمان۔ بھارتی اداکار رحمان کے بارے میں سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کے ایک سگے بھائی مسعود الرحمان پاکستان فلمی صنعت کے نامور کیمرہ مین تھے، اداکار فیصل رحمان ان ہی کے بیٹے ہیں۔ اس رشتے سے بھارتی اداکار رحمان پاکستانی اداکار فیصل رحمان کے سگے چچا تھے۔ بہت سے لوگ ماضی کی معروف بھارتی اداکارہ وحیدہ رحمان کو بھی رحمان خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ وحیدہ رحمان کا اداکار رحمان سے کوئی تعلق نہیں صرف لفظ رحمان کی وجہ سے کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ شاید یہ آپس میں رشتے دار تھے۔ بھارتی اداکار رحمان اس بات پر بہت نازاں تھے کہ ان کا بھائی اور بھتیجا پاکستانی فلمی صنعت میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔80ء کی دہائی میں وہ جب پاکستان آئے تو انہوں نے کئی پاکستانی فلمیں بھی دیکھیں اور دل کھول کر تعریف کی۔
بھارتی اداکار رحمان نے ہیرو کی حیثیت سے بھی کام کیا اور وہ ولن کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ پھر انہوں نے کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ وہ ہر روپ میں فلم بینوں کی توقعات پر پورا اترے۔
رحمان نے ہیرو کی حیثیت سے کئی فلموں میں کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ''صاحب بی بی اور غلام، پیاسا، وقت، مجبور، آپ کی قسم، آندھی، دل دیا درد لیا‘‘ اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ وہ جتنے خوش شکل تھے اتنے ہی اچھے اداکار تھے۔ ان کی کھنک دار آواز فلم بینوں کو فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی۔ شیخ مختار کی فلم ''نور جہاں‘‘ میں انہوں نے شہنشاہ اکبر کا کردار ادا کیا۔ وہ 1990ء میں اس جہان رنگ و بو سے رخصت ہو گئے۔ بھارتی فلمی صنعت میں ہمیشہ ان کا احترام کیا جاتا رہا۔ ذاتی زندگی میں وہ ایک ملنسار اور وضع دار مخلص انسان تھے۔ انہیں شاعری سے بھی شغف تھا مطالعے کے بہت شوقین تھے۔ ان کے بارے میں ایک دفعہ مجروح سلطانپوری نے کہا تھا کہ رحمان وسیع القلب، وسیع النظر اور وسیع المطالعہ تھے۔ ذرا اندازا لگایئے کہ ایک شخصیت بیک وقت اتنی صفات کی حامل بھی ہو سکتی ہے؟۔
اب ذرا پاکستانی اداکار رحمان کی بھی بات ہو جائے۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بنگالی فلموں کے علاوہ اردو فلموں میں بھی کام کرتے تھے۔ صرف اداکاری نہیں بلکہ انہوں نے فلمسازی بھی کی۔ ان کی مشہور فلموں میں ''تلاش‘‘، ''درشن‘‘، ''چندا‘‘، ''چاہت‘‘،'' دوستی‘‘ اور ''نادان‘‘ شامل ہیں۔ وہ اپنی فطری اداکاری کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ اداکارہ شبنم کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت پسند کیا جاتا تھا اور ان دونوں کی فلمیں باکس آفس پر بہت کامیاب ہوئیں۔ بدقسمتی سے ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران رحمان ایک حادثے کا شکار ہو گئے جس کے نتیجے میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور مصنوعی ٹانگ لگوا لی جس کے بعد انہوں نے اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔
1971ء میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو شبنم کی طرح رحمان نے بھی پاکستان میں قیام کو ترجیح دی۔ مشرقی پاکستان کے ایک گلو کار بشیر احمد کی آواز ان پربہت جچتی تھی۔ بشیر احمد بہت خوبصورت آواز کے مالک تھے اور انہوں نے روبن گھوش کی موسیقی میں کئی شاندار فلمی گیت گائے۔
پاکستان میں رحمان نے دو فلمیں بنائیں۔ ایک تھی ''چاہت‘‘ اور دوسری تھی'' دو ساتھی‘‘۔ دونوں فلموں کی موسیقی روبن گھوش کی تھی اور ان فلموں کے نغمات نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔1974ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''چاہت‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گانا‘‘ پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ خان صاحب کے معرکہ آرا گیتوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح ''دو ساتھی‘‘ میں غلام عباس کا گیت'' ایسے وہ شرمائے‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
رحمان بڑی صاف ستھری فلمیں بناتے تھے اور ان کا شعور موسیقی بھی انتہائی قابل تحسین تھا۔ روبن گھوش ان کے بارے میں اکثر کہا کرتے کہ یہ شخص موسیقی کے اسرار و رموز کو سمجھتا ہے۔
رحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ذاتی زندگی میں وہ عاجزی اور انکساری کا مجسمہ تھے۔ انتہائی دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے رحمان نے کسی سے ناراض ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔
وہ پاکستان میں اپنی تیسری فلم ''تین کبوتر‘‘ بنا رہے تھے لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی۔ اس سے وہ بہت مایوس ہوئے۔ غالباً 1980ء میں وہ بنگلہ دیش چلے گئے، چند برس پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔
ہم نام ہونے کا شرف ہندوستانی اداکارہ ممتاز اور پاکستانی ممتاز کو بھی حاصل ہے۔ دونوں اداکارائوں میں صرف نام کی مماثلت ہی نہیں بلکہ کچھ اور خوبیاں بھی ایک جیسی تھیں۔ دونوں کمال کی ڈانسرز تھیں انہوں نے شوخ اداکاری کی وجہ سے بہت مقبولیت حاصل کی۔ دونوں کو گانا پکچرائز کرانے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ اگر بھارتی ممتاز روک اینڈ رول پر یہ گانا پکچرائز کراتی ہے '' آجکل تیرے میرے پیار کے چرچے ہر زبان پر‘‘ تو پاکستانی اداکارہ ممتاز بھی ''تت ترو ترو تارا تارا‘‘ جیسا مسحور کن گیت انتہائی خوبصورت انداز میں پکچرائز کرا کے فلم بینوں سے بے پناہ داد وصول کرتی ہے۔بھارتی اداکارہ ممتاز کی مشہور فلموں میں ''دو راستے، آپ کی قسم، برہم چاری، رام اور شیام‘‘ اور ''میلہ‘‘ شامل ہیں۔
پاکستانی اداکارہ ممتاز نے بھی کئی فلموں میں اپنی اداکاری اور رقص کے ذریعے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ ان کی قابل ذکر فلموں میں ''انتظار، شرارت، ان داتا، محبت زندگی ہے، نوکر ووہٹی دا، شریف بدمعاش‘‘ اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ یہ ہم نام فنکار تھے اور ان سب نے ناکامی کے کانٹے نہیں بلکہ کامیابی کے پھول سمیٹے۔ یہ سب ہندوستان اور پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘
سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں