شہد شفا سے بھرپور

شہد شفا سے بھرپور

اسپیشل فیچر

تحریر : تحریم نیازی


شہد انسانی خوراک کا اہم ترین حصہ ہی نہیں بلکہ ان کی پسند بھی ہے بلکہ انہی خصوصیات کے پیش نظر قدیم مصری باشندے شہد کو ایک مقدس چیز ماننے لگے تھے۔دل کو لبھانے والی خوشبو، مٹھاس نے شہد کو ان کی خوراک کااہم حصہ تو بنا ہی دیا تھا لیکن علاج میں سہولت کی وجہ سے وہ شہد کو انتہائی مقدس شے سمجھنے لگے تھے ۔
حال ہی میں طبی سائنسدانوں ایک بار پھر شہد کے متعدد فائدوں سے دنیا کو آگاہ کیا ہے۔ شہد میں موجود اجزاء کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '' قدرت(اللہ تعالیٰ) نے کئی اہم کیمیکلز اور انسانی صحت کیلئے ضروری اجزاء کو ایک خاص تناسب سے شہد میں شامل کر کے اس کی طبی اہمیت دو چند کر دی ہے۔شہد کم سے کم 200 مرکبات پرمشتمل ہوتا ہے ،دنیا کی کسی اور نعمت میں اس قدر مرکبات نہیں پائے جاتے بلکہ اتنے مرکبات کی موجودگی کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس میں معقول تعداد میں پانی کے علاوہ شوگر،پروٹینز، کئی قسم کے اینزائمز ، حیاتین، معدنیات اور امائنو ایسڈز کے علاوہ کئی اقسام کے نباتاتی مرکبات بھی شامل ہیں۔ قدیم رومن اور یونانی باشندے بجا طور پر شہد سے پیٹ درد اور کھال کے زخموں کا علاج کیا کرتے تھے ۔ جدید سائنس نے بھی شہد کو معجزاتی قرار دیا ہے۔ذیل میں ہم آپ کو شہد کے ایسے فوائد بتانے والے ہیں جن پر عمل کرکے آپ پیسے بچا سکتے ہیں اور وقت بھی۔
جلنے میں مفید:امریکہ کے صحت عامہ کے ادارے '' نیشنل سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول‘‘ کے مطابق آگ سے ہلکے جلنے کی صورت میں لوگ جانتے ہیں کہ انہیں کیاکرنا ہے!یعنی فوری طور پر شہدکا استعمال نہات مفید رہتا ہے۔ سب سے پہلے جلنے والے حصے کو ٹھنڈے پانی میں ڈبو دیں۔بعض افراد مکھن لگاتے ہیں خدارا ایسا ہرگز نہ کریں۔شہد سوزش کے پھیلائو کو روکتا ہے۔
اینٹی بیکیٹریل: منفرد کیمسٹری اور وسکوسٹی کے باعث شہد کوبہترین جراثیم کش کیمیکل مانا جاتا ہے۔ جلد پر لگانے سے بیرونی انفیکشن کو جسم میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ شہد تیزابی خصوصیات کا حامل ہے، لیکن ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والے جراثیم اور پیتھوجنز تیزابی ماحول میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے شہد ان سے بچائو کیلئے مفید ہے۔ اس میں موجود اینزائمز گلوکوز آکسیڈیز کو گلوکوز اور ہائیڈروجن پر آکسائیڈ میں توڑ کر دیتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضائع نہ ہواسی لئے بہت دیر تک یہ اصلی حالت میں رہ سکتا ہے۔اسی لئے ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کی قلیل سی مقدارہر وقت شہد کے اندر موجود رہتی ہے۔
آپ شائد جانتے ہیں کہ کئی ممالک میں شہد کی نایاب اقسام بھی پائی جاتی ہیں جیسا کہ نیوزی لینڈ میںدستیاب خاص قسم کا شہد ''منوکا ہنی‘‘ (Manuka Honey)کہلاتا ہے، جس میں موجود ''میتھائل گلائل آکسل‘‘ (Methayglyoxal) نامی کیمیکل طاقتور جراثیم کش صلاحیت کا حامل ہے۔یہ ہمارے جسم کو پیٹ میں موجود جراثیم سے بچاتا ہے۔
شہد ۔۔کھانسی میں مفید:ہر کسی کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جب لوگ کسی بیماری کے علاج کیلئے شہد کا ایک چمچ اصلی حالت میں یا کسی چیز میں ملا کر کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ چائے، دودھ، لیمن، سمیت کئی مشروبات میں شہد ملا کر کھانے سے کچھ بیماریوں میں آرام ملتا ہے۔
اگست 2020 ء میں برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونیوالی ایک تحقیق میں شہادتوں کی بنیاد پر بنائی جانے والی ادویات اورقدرتی مرکبات پر بحث کی گئی ۔ تحقیق میں کہا گیا تھاکہ عین ممکن ہے کسی کو گلے کی خارش، سانس کی بالائی نالی کی بیماری یا کھانسی میں آرام آجائے۔ 2010ء میں ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘‘ کی ایک بڑی تحقیق میں شہد کو کھانسی کا بہترین علاج قرار دیا گیا تھا۔ محققین نے بچوں کے ڈاکٹروں کو شہد استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے بچوں کو نیند بھی بہتر آتی ہے۔
تھکن منٹوں میں دور:ہم قدرتی نعمتوں کو چھوڑ کرمہنگی ادویات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔خود کو آرام دینے کیلئے قوت بخش ادویات کا ڈھیر لگائے بیٹھے ہیں۔حالانکہ ہم منٹوں میں شہد کے ایک دو چمچوں سے تھکن دور کر سکتے ہیں اور ضائع ہونیوالی طاقت دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔ شہد میں 80فیصد گلوکوز اور فرکٹوز شامل ہوتی ہے۔ورزش کے وقت ہمیں توانائی کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور یہ ہمیں ہماری جسمانی ضروریات کے مطابق توانائی مہیا کرتا ہے جس سے توانائی ضائع بھی نہیں ہوتی۔یہ بھی پتہ چلا ہے کہ شہد دوران ورزش ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے امیون سسٹم کو دوبارہ بحال کر دیتا ہے تاہم اس پر مزید تحقیق ہونا باقی ہے۔یہ ہڈیوں کی مضبوطی کیلئے بھی مفید ہے۔
پیٹ کے کیڑوں کا علاج:پیٹ میں کئی قسم کے کیڑے اپنا گھر بنا کر رہنا شروع کر دیتے ہیں، یہ ہماری خوراک کھاتے ہیں اور اس طرح ہمارے ہی جسم میں رہنے کے باوجود ہمیں ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ شہدآنتوں میں پائے جانے والے کیڑوں کو بھی مارسکتا ہے۔اس سلسلے میں پپیتے کے بیج بھی مفید ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: یوسف خان باصلاحیت ورسٹائل اداکار

یادرفتگاں: یوسف خان باصلاحیت ورسٹائل اداکار

پاکستان کی فلمی تاریخ میں متعدد فنکار ایسے بھی رہے ہیں کہ جنھیں اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی اوربعدازاں ان میں سیکچھ لیجنڈ کہلائے۔ ایسے ہی فنکاروں کی فہرست میں ایک نام اداکار یوسف خان کا تھا جو 20ستمبر2009 ء کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور آج ان کی 14ویں برسی ہے ۔ یوسف خان پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے فنکار تھے جنہوں نے فلموں میں مسلسل کام کرنے کی گولڈن جوبلی منائی تھی۔ وہ یکم اگست 1931ء کو فیروز پور (بھارت) میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام خان محمد تھا۔ 1954ء میں فلم ''پرواز‘‘ سے فنی کریئر کا آغاز کیا لیکن بدقسمتی سے ان کے فنی کریئر کو وہ پرواز نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ایک سپرسٹار کا مقام حاصل کرنے کیلئے انھیں پورے دو عشرے(20سال) انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں ہیرو، معاون اداکار اور کریکٹرایکٹر کے علاوہ ولن کے کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ وہ ایک انتہائی با صلاحیت اداکار تھے، ہر کردار میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ 70ء اور 80ء کی دہائی میں پنجابی فلموں میں ایکشن ہیرو کے طور پر اپنے فن کے جلوے دکھا تے نظر آئے۔ انہوں نے کچھ پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔1970ء کی دہائی ان کیلئے مبارک ثابت ہوئی۔ ان کے مرکزی کردار سے سجی متعدد فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری کی سپر ہٹ پنجابی فلم ''ٹیکسی ڈرائیور‘‘ میں انہوں نے مرکزی کردار بڑے شاندار طریقے سے نبھایا۔ اس کے بعد ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری نے انہیں ''ضدی‘‘ میں کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں ان کے ساتھ فردوس، اعجاز،نبیلہ اور الیاس کاشمیری نے اہم کردار ادا کیے۔ اس فلم کے نغمات بھی بہت پسند کیے گئے۔ اس فلم میں یوسف خان فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ نبیلہ کی اداکاری کو بھی بہت سراہا گیا۔ ''ضدی‘‘ اداکارہ ممتاز کی پہلی فلم تھی جس میں ان پر عکسبند کیا گیا گیت ''وے چھڈ میری وینی نہ مروڑ‘‘ بڑا مشہور ہوا تھا۔یوسف خان نے سلطان راہی کی طرح بہت زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا۔ان کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اوور ایکٹنگ نہیں کرتے تھے۔وہ دھیمے لہجے میں بولتے تھے لیکن جب ضرورت پڑتی تھی تو اپنی گرجدار آواز سے بھی فلمی شائقین کو متاثر کرتے تھے۔ وہ بڑی دلکش شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے صبیحہ خانم، نیلو، آسیہ، انجمن، فردوس اور نغمہ کے ساتھ خاصاکام کیا۔ وہ مزاحیہ اداکاری بھی کرسکتے تھے۔ جس کی سب سے بڑی مثال ان کی فلم ''اتھرا‘‘ ہے جو 1975ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی اردو فلموں میں ''حسرت، لگن، دو راستے، سسرال اور خاموش رہو‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا فلموں میں ان کی اہم ترین فلمیں ''سسرال‘‘ اور ''خاموش رہو‘‘ تھیں جن میں انہوں نے اچھا کام کیا۔ دونوں سپرہٹ فلمیں تھیں لیکن ہوا یوں کہ ''سسرال‘‘ میں علائوالدین کی لافانی اداکاری نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور ''خاموش رہو‘‘ میں محمد علی سب پر بازی لے گئے۔ اگرچہ ان دونوں اردو فلموں میں یوسف خان ہیرو تھے۔ اس کے بعد بھی یوسف خان نے '' ماں باپ، تاج محل، دل بے تاب اور غرناطہ‘‘ جیسی فلموں میں کام کیا لیکن ان کی اتنی پذیرائی نہیں ہوئی۔ ان کے بارے میں فلمسازوں اور ہدایتکاروں کی یہ رائے تھی کہ وہ اردو فلموں کیلئے موزوں نہیںکیونکہ ان کا لہجہ اردو فلموں والا نہیں تھا۔انہوں نے سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ ایک زمانے میں مصطفیٰ قریشی کے ساتھ ان کی بہت فلمیں ریلیز ہوئیں۔ جن میں وارنٹ، حشر نشر، چالان، چور سپاہی، غلامی، رستم تے خان اورسوہنی مہیوال بڑی کامیاب ثابت ہوئیں۔ ''جبرو‘‘ اور ''نظام ڈاکو‘‘ نے بھی بہت بزنس کیا۔ ''سوہنی مہیوال‘‘میں اداکاری کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ رومانوی کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ نغمہ کے ساتھ ان کی فلم ''سدھا رستہ‘‘بہت ہٹ ہوئی۔ ان کی پنجابی فلمیں ''چن پتر، بائوجی اور جاپانی گڈی‘‘ بھی بہت کامیاب رہیں۔ وہ بڑی ٹھیٹھ پنجابی بولتے تھے۔ ان کی دیگر یادگار پنجابی فلموں میں ٹیکسی ڈرائیور، ضدی، رستم تے خان، غلامی، دھی رانی اور بڈھا گجر‘‘ شامل ہیں۔ یوسف خان کی دیگر فلموں میں بابل، جواب دو، چترا تے شیرا، پھول اور شعلے، یارانہ، وڈاخان، اللہ رکھا اور قصہ خوانی‘‘ شامل ہیں۔وہ فنکاروں کی تنظیم ''ماپ‘‘ کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کے کئی اداکاروں کے ساتھ جھگڑے بھی مشہور ہوئے اور انہیں فلمی صنعت کا دادا بھی کہا جانے لگا۔ اسی طرح شجاعت ہاشمی نے جب بھارت جا کر سعادت حسن منٹو کے افسانے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ پر بننے والی ٹیلی فلم میں کام کیا تو یوسف خان نے اس کا بھی برا مانا۔ وہ بھارت اور بھارتی فلموں سے نفرت کرتے تھے۔ اسی طرح وہ بھارتی اداکاروں کے پاکستان آنے کے بھی بڑے مخالف تھے۔ اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک سچے قوم پرست تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی انکھوں سے 1947 میں مسلمانوں کی کٹی پھٹی نعشیں دیکھی ہیں اور وہ یہ دلخراش مناظر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کی خوش بختی تھی کہ انہیں شروع میں ہی ریاض شاہد جیسا نابغہ روزگار مل گیا۔ جنہوں نے یوسف خان کی صلاحیتوں کو نکھارا۔ 20 ستمبر 2009ء کو ان کا 78 برس کی عمرمیں لاہور میں انتقال ہوا۔  

اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک

اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک

یہ جولائی 1969ء کی کوئی تاریخ تھی جب نیویارک کی سڑکوں پر کثرت سے لگے اشتہارات نے چلتے لوگوں کے قدم روک لئے۔ یہ اشتہار معروف امریکی بنک ''کیمیکل بنک‘‘ کی طرف سے آویزاں کئے گئے تھے جو دو ماہ تک لوگوں کے تجسس کا سبب بنے رہے۔ ان اشتہارات کی عبارت کچھ یوں تھی ''2 ستمبر 1969ء سے ہمارا بنک صبح نو بجے کھلے گا اور پھر کبھی بند نہیں ہو گا‘‘۔ اس اشتہار نے دوماہ تک لوگوں کو حیرت میں مبتلا کئے رکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کیمیکل بنک چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا۔یہ اس بنک کی طرف سے ''الیکٹرانک بنکنگ‘‘ کی شروعات تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے 1967ء میں برطانیہ کے برکلے بنک کو تاریخ کی پہلی اے ٹی ایم نصب کرنے کا اعزاز ہو چکا تھا جو صرف کیش مہیا کرنے کا ذریعہ تھا۔ 2 ستمبر 1969ء کو کیمیکل بنک کی راک ویل سنٹر، نیویارک برانچ میں نصب کی جانے والی ''ڈاکو ٹیلر‘‘ نامی اے ٹی ایم کے ذریعے کیش کے ساتھ رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور کچھ دوسری بنکنگ سہولیات بھی متعارف کرائی گئی تھیں۔ یوں امریکہ کے کیمیکل بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو رواج دے کر تاریخ کے پہلے الیکٹرانک اور آن لائن بنک کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ کیمیکل بنک کی اس سہولت نے بنکاری کی تاریخ میں خود کار بنکنگ اور ''برانچ لیس بنکنگ‘‘ کی ایسی بنیاد رکھی جو آگے چل کر نت نئی سہولتوں کے ساتھ اپنے کھاتہ داروں کیلئے آسانیاں پیدا کرتی چلی گئی۔ آج کل کی ''ون کلک بنکنگ‘‘ یعنی کمپیوٹر یا موبائل ایپ بنکنگ دراصل اسی الیکٹرانک بنکنگ کا تسلسل ہے۔ جدید سہولیات سے لیس کیمیکل بنک کیلئے بنایا جانے والا اے ٹی ایم سسٹم ڈاکیو ٹیل کمپنی کے روح رواں ایم ڈان ویٹزل نے تیار کیا تھا جنہوں نے اگلے پانچ سال کے دوران اے ٹی ایم کی 70فیصد مارکیٹ کو اپنے نام کر لیا تھا۔ اس منفرد اے ٹی ایم کی شروعات کے ساتھ ہی اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب انتظامیہ نے محسوس کیا کہ اس جدید بنکاری کے ذریعے اٹھنے والے اخراجات ان کی توقع سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل کی طرح اس دور میں بھی بنکوں کی ترجیحات کم اخراجات اور زیادہ منافع ہوا کرتا تھا۔ ابھی بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو شروع ہی کیا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ لوگ اس نئی طرز بنکاری کے ذریعے مشین سے لین دین کرنے سے کترانے لگے ہیں کیونکہ بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ ہم ایک مشین کے حوالے اپنا کیش کیوں کریں۔1982ء میں کیمیکل بنک نے پہلی مرتبہ ''پرسنل کمپیوٹر بنکنگ‘‘ سسٹم شروع کیا۔ اس سسٹم کو ''پرونٹو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سسٹم کے سافٹ ویئر پر بنک کو 20ملین ڈالر کے اخراجات ادا کرنے پڑے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ''پرونٹو‘‘ ہی کمپیوٹر کا وہ پہلا سسٹم تھا جس نے کیمیکل بنک کے ذریعے آن لائن بنکنگ سسٹم کو آگے بڑھانے اور اس میں بنکاری کی نئی جہتیں متعارف کرانے میں موثر کردار ادا کیا تھا تو بے جا نہ ہو گا۔ یوں پرونٹو ہی کی بدولت کیمیکل بنک آن لائن بنکنگ کو متعارف کرانے والا دنیا کا پہلا بنک بن گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھے لوگوں نے اپنے کمپیوٹرز کی مدد سے بنکاری کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا آغاز کیا تھا۔ یوں کیمیکل بنک کی بدولت اس کا اے ٹی ایم نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن کر ابھرا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر اندراس کے آن لائن کسٹمر کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ دنیا کی پہلی اے ٹی ایمدنیا کی پہلی اے ٹی ایم کو برطانوی شہری جان شیفرڈ بیرا نے 27 جولائی 1967ء کو لندن کے علاقے این فیلڈ میں بارکلے بنک کی ایک برانچ میں نصب کیا تھا جسے برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں ''کیش پوائنٹ‘‘ یا ''کیش مشین‘‘ جبکہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں ''منی مشین‘‘ کہا جاتا تھا۔آغاز میں اے ٹی ایم محض کیش کے حصول کی ایک مشین ہوا کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس مشین کا استعمال کاروباری لین دین کے دیگر طریقوں میں بھی بدلتا چلا گیا۔ آج کے دور میں بنک اے ٹی ایم کو ایک ایسی مشین بنانے کی طرف گامزن ہیں جو بنک کے تقریباً سارے کام سرانجام دے سکے۔اے ٹی ایم کے ڈویلپر ''این سی آر‘‘ کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بنک کے اندر کام کرنے والا عملہ جو فرائض سرانجام دیتا ہے اس میں کیش کے لین دین سمیت 80فیصد کام ایسے ہیں جو اے ٹی ایم سے باآسانی لئے جا سکتے ہیں۔اس مشین کی ایجاد کا تصور بھی خاصا دلچسپ ہے۔کہتے ہیں ایک دفعہ جان شیفرڈ اپنے بنک سے رقم نکلوانے جب وہاں پہنچا تو ایک منٹ پہلے بنک بند ہو چکا تھا۔ ایک دن جان شیفرڈ کو اچانک خیال آیا کہ سپر سٹورز پر اگر ایک مشین کے ذریعے چاکلیٹ اور مشروب کی بوتل نکل سکتی ہے تو چوبیس گھنٹے کیش کیوں نہیں نکالا جا سکتا۔ یہی خیال بعد میں اے ٹی ایم کی ایجاد کا باعث بنا۔بہت سارے لوگوں کیلئے یہ بات نئی ہو گی کہ دنیا میں سب سے پہلے اے ٹی ایم سے معروف برطانوی اداکار ریگ ور نے پیسے نکالے تھے۔ تاہم 80ء کی دہائی تک اے ٹی ایم بنکاری کا حصہ بن چکی تھی بلکہ دور حاضر میں تو اے ٹی ایم ہر طبقہ فکر کی ایک ضرورت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اب گلی گلی، محلے محلے کھلے بنکوں میں اے ٹی ایم نے لوگوں کو گھر کی دہلیز تک بنکاری کی سہولیات مہیا کر دی ہیں۔برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ دنیا کی سب سے بلندی پر واقع اے ٹی ایم پاکستان میں واقع ہے۔بادلوں میں ڈھکی اے ٹی ایم 16نومبر 2016ء کا سال بینکاری کی دنیا میں اس لئے اہم ہے کہ اس ماہ پاکستان نے دنیا کے بلند ترین اے ٹی ایم کا اعزاز بھارت سے چھینا۔ بھارتی ریاست سکم کی سرحد پر 14300 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم نصب تھی، جس کے مقابلے میں نیشنل بنک آف پاکستان نے برف پوش خنجراب پاس میں سطح سمندر سے 15397 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم لگا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنائی۔ دنیا کے بلند ترین برف پوش پہاڑی سلسلے میں جہاں اکثر اوقات پورا علاقہ سفید بادلوں سے ڈھکا ہوتا ہے کسی بھی بنک کیلئے مشین کی تنصیب اور اسے چالو رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ عام بجلی کی بجائے اسے سولر اور ونڈ انرجی کے ذریعہ ہی موزوں قرار دیا گیا تاکہ یہ چوبیس گھنٹے بلا تعطل فعال رہ سکے۔ یہ مشین اگرچہ دن رات فعال رہتی ہے تاہم سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کے باعث اسے چالو رکھنے کیلئے خصوصی انتظام کرنا ہوتا ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

بیت المقدس فتح ہوا1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ بیت المقدس 583ھ بمطابق 1187ء میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے جنگ حطین میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا تھا اور 20 ستمبر سے 2 اکتوبر تک جاری محاصرے کے بعد شہر فتح کر لیا۔برطانوی خفیہ ایجنسی پر حملہ20ستمبر2000ء کو آئرش ریپبلکن آرمی نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6کی ایک عمارت پر حملہ کیا۔اس حملے میں روسی ساختہ اینٹی ٹینک راکٹ استعمال کیا گیا۔ راکٹ300میٹر دور سے فائر کیاگیا اور یہ جنوب کی جانب ایک عمارت سے ٹکرایا۔یہ پہلا موقع تھا جب برطانیہ میں راکٹ لانچر استعمال کیا گیا۔''ایم آئی 6‘‘کی عمارت بلٹ اور بم پروف تھی جس کی وجہ سے بہت کم نقصان ہوا۔جرمنی ،سوویت معاہدہ20ستمبر1955ء کو سوویت یونین اور جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ۔جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کو عام طور پر مشرقی جرمنی بھی کہا جاتا تھا۔یہ معاہدہ جرمنی میں سوویت افواج کے گروپ کی قانونی بنیاد بن گیا اور اسی معاہدے کے تحت اس کا جانشین گروہ مغربی گروپ آف فورسز سوویت قبضے کے خاتمے کے بعد جرمنی میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا۔چکماؤگا کی جنگچکماؤگا کی جنگ،20 ستمبر1863ء کو امریکی اور کنفیڈریٹ افواج کے درمیان لڑی گئی ۔یہ جارجیا میںلڑی جانے والی سب سے بڑی جنگ تھی ۔اس لڑائی کو گیٹسبرگ میں ہونے والی لڑائی کے بعد سب سے زیادہ مہلک شمار کیا جاتا ہے۔اس جنگ میں میجر جنرل ولیم روزکرینز نے امریکی فوج اور جنرل بریکسٹن بریگ نے کنفیڈریٹ آرمی کی قیادت کی، اس جنگ کوچکماؤگا کریک کا نام دیاگیا ۔ریزوک مذاکراتریز وک امن معاہدے پر 20 ستمبر 1697ء کو دستخط کئے گئے۔جس سے فرانس اور گرینڈ الائنس کے درمیان 1688ء سے 1697ء تک جاری رہنے والی نو سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے لیکن کوئی بھی اس جنگ میں فتح یا علاقائی برتری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔اس معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوئی کیونکہ اس نے ایک ایسی جنگ کا خاتمہ کیا جس کا کسی بھی ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ 

غصہ آگ کا اک انگارہ

غصہ آگ کا اک انگارہ

ایک صالح بزرگ کو بلا وجہ شیر کے پنجرے میں پھینک دیا گیا لیکن اللہ نے ان کو بچالیا۔ باہر نکلنے کے بعد لوگوں نے پوچھا ''شیر کے پنجرے میں آپ کیا سوچ رہے تھے‘‘؟ بزرگ کہنے لگے ''مجھے غصہ بالکل نہیں آیا،میں سوچ رہا تھا کہ شیر کالعاب پاک ہے یا ناپاک؟علماء نے لعاب کے بارے میں کیا کہا ہے؟‘‘ابن القیمؒ کہتے ہیں کہ انسان کی قیمت اس کی ہمت اور ارادے سے متعین ہوتی ہے؟ مصم ارادہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتا ہے۔سکراتِ موت میں بھی امام احمد بن حنبلؒ اپنی داڑھی کو پانی سے خلال کرنے کا اشارہ کر رہے تھے اور اسے وضو کرانے کے لئے کہہ رہے تھے۔''دنیا کی چاہت والوں کو ہم کچھ دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دیں گے‘‘ (145:3)۔حدیث پاک میں آیا ہے ''غصہ نہ کرو، غصہ نہ کرو، غصہ نہ کرو‘‘ اسی میں آگے یہ ہے کہ ''غصہ آگ کا ایک انگارہ ہے۔ شیطان تین اوقات میں بندے پر چھا جاتا ہے: غصہ ، شہوت اور غفلت کے وقت۔اپنے اوپر زیادتی کواگر آپ معاف کر دیں اور درگزر کریں تو دنیا میں عزت اور آخرت میں بڑامرتبہ ملے گا جیسا کہ ارشاد فرمایا ''تو جودرگزر کر دے اور اصلاح سے کام لے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا‘‘ (40:42) کسی شخص نے سالمؒ بن عبداللہ بن عمر ؓ تابعی سے کہا کہ تم برے آدمی ہو! فرمایا'' مجھے تمہارے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا‘‘۔ ایک امریکی ادیب کہتا ہے ''ڈنڈے اور پتھر میری ہڈیاں توڑ سکتے ہیں لیکن کلمات مجھے نقصان نہیں دے سکتے‘‘۔ ایک شخص نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا ''میں تمہیں ایسی گالی دوں گا جو تمہارے ساتھ قبر تک جائے گی!‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا ''بلکہ تمہاری قبر میں جائے گی!!‘‘ ایک شخص نے عمروؓ بن العارص سے کہا ''میں آپ سے جنگ کے لئے یکسو ہو جاؤں گا‘‘ فرمایا ہاں اب تمہیں مصروف کن کام ملا!! جنرل آیزن آور کہتا تھا: جن لوگوں کو ہم پسند نہیں کرتے ان کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ مچھرکھجور سے بولا، رکو میں اڑنا اور تمہیں چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔ کھجور نے کہا، خدا کی قسم جب تو میرے اوپر اترا تھا میں نے اس وقت کچھ محسوس نہیں کیا تو جب اُڑ جائے گا تو کیوں محسوس کرنے لگا؟ حاتم نے کہا: شریف و سخی کی غلطیاں اس کی سخاوت کے باعث معاف کر دیتا ہوں اور کمینہ و ذلیل کی گالیوں سے اعراض اس لئے کرتا ہوں کہ اپنے شرف کی حفاظت کروں۔ کنفیوشش نے کہا ہے : غضبناک آدمی ہمیشہ زہر آلود رہتا ہے۔شکسپیئر کہتا ہے: اپنے دشمن کیلئے اتنا الاؤ نہ دہکاؤ کہ اس میں تمہارے بھی جل جانے کا سامان ہو جائے۔ آشوب چشم والی آنکھوں سے کہہ دو کہ بہت سی آنکھیں ہیں جو مطلع صاف ہو یا غبار آلود انہیں سورج دکھائی دیتا ہے۔ ان آنکھوں سے درگزر کرو جن کی بصارت اللہ نے چھین کر ان کا نور بجھا دیا، وہ نہ کچھ یادرکھتی اور نہ افاقہ پاتی ہیں۔ایک حکیم کہتے ہیں ''مجھے یہ بتاؤ آدمی کی دلچسپی کیا ہے، میں یہ بتاؤں گا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔سمندر میں ایک کشتی پلٹ گئی ایک عابد و زاہد پانی میں گر پڑا تو اپنے اعضاء کو وضو کی مانند دھونے لگا، ناک میں پانی ڈالا، کلی کی، سمندر نے اسے نکال پھینکا وہ بچ گیا اس بارے میں اس سے پوچھا گیا تو کہاکہ موت سے پہلے میں طہارت کیلئے وضو کرنا چاہتا تھا۔مضمون نگار معروف سکالر اور کالم نگار ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں  

کانوں کی حفاظت کے 9طریقے

کانوں کی حفاظت کے 9طریقے

کانوں کی سماعت برقرار رکھنا ہر کسی کیلئے ضروری ہے۔ ایک بار اگر کسی وجہ سے سماعت متاثر ہو جائے تو پھر اس کا ٹھیک ہونا مشکل ہوتا ہے۔ جلد تشخیص کی اپنی اہمیت ہے اور سماعت کو درست حالت میں رکھنے کیلئے مختلف آپشنز اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ آپ کے کانوں کی حفاظت اور سماعت درست رکھنے کیلئے ذیل میں 9 طریقے بیان کئے جا رہے ہیں۔1. ایئر پلگز15فیصد امریکیوں کی سماعت شور کی وجہ سے متاثر ہے، اسی طرح کام کے دوران انہیں بہت شور کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بہت سے مقامات ہوتے ہیں جہاں دوسروں تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے آپ کو اونچی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ یہ صورت حال خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایئر پلگز کا حصول آسان ہے۔ موسیقاروں کے ایئر پلگز کسٹم ایئر پلگز ہوتے ہیں جن میں فلٹرز کی وجہ سے ایک شخص گفتگو اور موسیقی سن سکتا ہے لیکن اس کے باوجود آواز کی وہ سطح جو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کم کر سکتا ہے۔2. آواز کا والیم کم رکھیںعالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ایک ارب ایک کروڑ لڑکے (جن کی عمریں 13سے 19برس تک ہیں) اور نوجوان مرد آڈیو آلات کے غیر محفوظ استعمال کی وجہ سے سماعت کے حوالے سے نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ ہیڈ فونز کے ذریعے موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے خواہش مند ہیں تو آپ 60/60 قاعدے کے مطابق اپنے کانوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ہیڈ فونز کو نہ تو 60فیصد والیم سے زیادہ سن سکتے ہیں اور نہ ہی ایک دن میں 60منٹ سے زیادہ سن سکتے ہیں۔یہ مت بھولئے کہ کوئی بھی تیز میوزک جو آپ ہیڈ فون کے ذریعے سن رہے ہیں، آپ کے کانوں کی سماعت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کسی سماجی تقریب کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو موسیقی اتنی زیادہ تیز نہ ہو کہ لوگوںکو ایک دوسرے سے بات کرنے کیلئے چیخنا پڑے۔3. کانوں کو آرام دیںاگر آپ طویل عرصے تک شور سنتے چلے آ رہے ہیں تو پھر آپ کے کانوں کو آرام کی ضرورت ہے اور انہیں دوبارہ اپنی اصلی حالت میں لانے کیلئے کچھ عرصہ چاہیے۔ شور سے بچنا آپ کیلئے ضروری ہے ۔اس معاملے میں تحقیق کی گئی تو یہ نتیجہ نکلا کہ اگر آپ ایک پوری رات شور سنتے ہیں تو پھر آپ کے کانوں کو 16گھنٹے آرام چاہیے۔ یعنی وہ اتنے گھنٹے اُس ماحول میں رہیں جہاں خاموشی ہو۔4. کانوں میں روئی نہ رکھیںعام طور پر لوگ کانوں کی صفائی کیلئے روئی رکھ لیتے ہیں لیکن اس عمل سے گریز کرنا چاہئے۔ کانوں کی میل نکالنے کیلئے بھی غلط طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ماچس کی تیلیوں سے کانوں کی میل نکالنا کسی صورت درست نہیں۔ اس سے کانوں میں زخم ہو سکتا ہے اور زیادہ بے احتیاطی کی جائے تو کان کے پردے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔5. ڈاکٹر سے مشورہ ضروریکچھ دوائیں ایسی ہیں جن کے استعمال سے کانوں کی سماعت متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لئے کوئی بھی دوا کھانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔ اندازے سے دوائیں کھانا کوئی عقلمندی نہیں۔ جلن کو ختم کرنے کیلئے بعض اوقات اسپرین، امیپروفین اور نیپروکسن کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ دوائیں کانوں کی سماعت متاثر کر سکتی ہیں۔ بہتر ہے ڈاکٹر کے پاس جائیں۔6. کانوں کو خشک رکھیںنمی کی زیادتی کی وجہ سے بیکٹریا کانوں میں داخل ہو سکتے ہیں اور یہ کان کی نالی کو نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتے ہیں، ایک تیراک کو اس معاملے میں خاصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے کانوں کو خشک رکھنے کے لئے تیراکوں کے ایئر پلگز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔7. اپنے آپ کو فِٹ رکھیںکیا آپ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ آپ کے کانوں کے لئے ورزش ضروری ہے؟ پیدل چلنا، دوڑنا اور سائیکل چلانا جسمانی صحت کیلئے بہت اہم ہے۔ کیونکہ اسے جسم کے تمام حصوں کو خون پہنچتا ہے اور ان میں کان بھی شامل ہیں۔ یہ ورزشیں کان کے اندرونی حصوں کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔8. ذہنی دباؤ پر قابو پائیںذہنی دباؤ پر قابو پانا ہر انسان کیلئے ضروری ہے، اس کے علاوہ اضطراب کی حالت میں بھی زیادہ دیر تک مت رہیں۔ اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ سائیکل یا موٹر سائیکل چلاتے وقت سر پر ہیلمٹ پہنیں۔ زیادہ ذہنی دباؤ سے آپ کے جسم کو یہ نقصان پہنچتا ہے کہ یا تو یہ لڑنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے یا پھرکسی بھی قسم کے جھگڑے یا فساد سے بچنا چاہتا ہے۔ یہ سارا عمل آپ کے اعصاب پر بہت دباؤ ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے خون کی روانی اور جسم کی حرارت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دباؤ کانوں میں سنسناہٹ پیدا کرسکتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ کان بجنا شروع ہو جاتے ہیں۔9. باقاعدگی سے چیک اپ کرائیںاپنے ڈاکٹر سے باقاعدگی سے اپنے کانوں کا چیک اپ کراتے رہیں کیونکہ سماعت آہستہ آہستہ متاثر ہوتی ہے اس لئے کسی ماہر ڈاکٹر سے رابطہ بہت اہم ہے اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر آپ کو یہ احساس ہو جائے کہ آپ کے کانوں کی سماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے تو آپ فوری طور پر اس کا تدارک کرنے کے لئے متحرک ہو سکتے ہیں کانوں کی سماعت متاثر ہونے پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا علاج نہ کرانے سے عام طور پر ایک شخص زندگی کے معیار کی قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی تعلقات کے حوالے سے وہ مایوسی (Deperssion) کا شکار رہتا ہے۔ اس سے انسان الزائمر کا شکار بھی ہو سکتا ہے جس سے یادداشت ختم ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر سہیل لائف سٹائل ڈزیزز کے ماہر ہیں،صحت عامہ کے متعلق ان کے کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں 

آج کا دن

آج کا دن

  پیرس کا محاصرہ  پیرس کا محاصرہ 19 ستمبر 1870ء سے 28 جنوری 1871ء تک جاری رہا۔اس محاصرے کا اختتام اس وقت ہوا جب پروشیا کی بادشاہی قیادت میں جرمن کنفیڈریشن نے شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ محاصرہ فرانکو،پرشین جنگ کا خاتمہ تھا، جس میں دوسری فرانسیسی سلطنت نے شمالی جرمن کنفیڈریشن کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے براعظم یورپ پر اپنے تسلط کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ جرمن کنفیڈریشن حال ہی میں 1866ء کی آسٹرو،پرشین جنگ میں فتح یاب ہوئی تھی، جس کی وجہ سے براعظم یورپ کی غالب طاقت کے طور پر فرانس کی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا۔ 2 ستمبر 1870ء کو فرانسیسیوں کو بدترین شکست کا سامناکرنا پڑا،شکست کے ساتھ ساتھ فرانسیسی شہنشاہ نپولین سوئم کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔میکسیکو زلزلہ19ستمبر1985ء کو میکسیکو شہر میں شدید زلزلہ آیا جس کی شدت8.0ریکارڈ کی گئی۔زلزلے نے گریٹر میکسیکو شہر کے علاقے کو شدید نقصان پہنچایا ،تقریباً5ہزار افراد لقمہ اجمل بنے۔19ستمبر کو مرکزی زلزلہ آیا،اس سے قبل بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے تھے ۔ زلزلے کے بعد دو بڑے آفٹر شاکس بھی محسوس کئے گئے۔دونوں آفٹر شاکس کی شدت بھی 7.0 اور 7.5 ریکارڈ کی گئی ۔ اس واقعے میں تین سے چار بلین امریکی ڈالر کے درمیان نقصان ہوا کیونکہ شہر میں 412 عمارتیں گر گئیں اور ہزاروں افراد کا جانی و مالی نقصان ہوا۔اس وقت کے صدر میگوئل ڈی لا میڈرڈ کو بھی اس واقع کے بعد شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔تھائی بغاوت2006ء کی تھائی بغاوت کا آغاز 19 ستمبر 2006 کو ہوا ، جب رائل تھائی فوج نے وزیر اعظم تھاکسن شیناواترا کی منتخب نگران حکومت کے خلاف بغاوت کی ۔یہ بغاوت، تھائی لینڈ میں 1991ء کو ہونے والی بغاوت کے بعد پندرہ سالوں میں حکومت کی پہلی غیر آئینی تبدیلی تھی۔بغاوت سے قبل ملک بھر میں ایوان نمائندگان کے انتخابات ہونے تھے۔ یہ تھائی لینڈ اور دیگر جگہوں پر بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے کہ فوجی بادشاہت کے گٹھ جوڑ میں پریم تینسولا نوندا انتہائی اہم شخصیت اور ماسٹر مائنڈتھے۔ فوج نے 15 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات اور 1997 ء کے آئین کو منسوخ کر دیا۔ پارلیمنٹ اور آئینی عدالت کو بھی تحلیل کر دیاگیا۔ احتجاج اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ملک بھر میں مارشل لاء کا اعلان کرنے کے بعد کابینہ کے تمام ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ماسکو معاہدہ19 ستمبر 1944ء کو فن لینڈ ، سوویت یونین اور برطانیہ کے درمیان ماسکو آرمسٹائس معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا۔اس معاہدے کے بعد1940ء کا ماسکو امن معاہدہ کچھ ترامیم کے بعد بحال کر دیا گیا۔فن لینڈ اور بہت سے اتحادیوں کے درمیان آخری امن معاہدہ 1947ء میں پیرس میں ہوا ۔ معاہدے کے مطابق فن لینڈ کو کریلیا اور سالا کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ خلیج فن لینڈ کے بعض جزیروں کو بھی سونپنے کا پابند کیا گیا تھا۔ نئی جنگ بندی نے تمام پیٹسامو کو بھی سوویت یونین کے حوالے کر دیااور فن لینڈ کو مزید مجبور کیا گیا کہ وہ پورکلا کو پچاس سال کی مدت کے لیے سوویت یونین کو لیز پر دے۔