تاریخ فرانس بہت سی جنگوں،لڑائیوں اور انقلاب کو دیکھا

اسپیشل فیچر
فرانس پر بادشاہت کا آغاز پانچویں صدی میں فرانکوں کی آمد سے ہوتا ہے جبکہ بادشاہت کا اختتام 1780ء میں ہوا۔ اس دوران فرانس نے بہت سی جنگوں، لڑائیوں اور انقلابوں کو دیکھا۔ متعدد بادشاہ، جن کا تعلق مختلف خاندانوں سے تھا، اس پر حکمران رہے۔ اپنی آزادی کی خاطر انگریزوں سے فرانسیسیوں کی مخاصمت بھی بہت طویل رہی۔ بالآخر وہ فرانس قائم ہوا، جسے ہم آج جانتے ہیں۔ آئیے فرانس کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
فرانس کا قدیم نام ''گال‘‘ (Gaul) تھا۔ یہ نام رومیوں نے یورپ کے اس حصے کو دے رکھا تھا جہاں کے لوگ کلٹی (Celtic) زبانیں بولتے تھے۔ اس میں فرانس کے علاوہ اور بھی متعدد متصلہ علاقے شامل تھے۔ سلطنت رومہ کے ایک حصے کی حیثیت سے فرانس کا شمار یورپ کے سب سے زیادہ متمدن علاقوں میں ہوتا تھا۔ وہاں پر رومی اثر بہت قوی اورپائیدار رہا۔ بعدازاں فرانکوں نے حملہ کر کے اس کو فتح کر لیا۔ گیارہویں صدی کے اوائل میں اس کے اپنے بادشاہ تھے لیکن ان کا اقتدار محدود تھا کیونکہ ملک کا بڑا حصہ طاقتور ڈیوکس اور کاؤنٹس، خاص طور پر نارمنڈی اور برگنڈی اور اکوی ٹین کے زیراثر تھا۔
قرون وسطیٰ کے اختتام کے قریب فرانس کی تاریخ زیادہ تر انگلستان کے ساتھ جنگوں کی تاریخ ہے جو تخت و تاج کے قبضہ کے لیے لڑی گئیں۔ انگلستان اور فرانس کے درمیان یہ کشمکش ''جنگ صد سالہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ جنگ چودھویں صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب ایڈورڈ سوم نے فرانس کے تخت و تاج کا دعویٰ کیا۔ انگریزوں نے کریسی اور پواٹیئر کی لڑائیوں میں فتح حاصل کی۔ 1360ء میں بریِٹگنی کی صلح ہوئی۔ اس کے ذریعہ شاہ ایڈورڈ سوم نے فرانس کا بہت سا علاقہ حاصل کیا لیکن تخت و تاج نہیں۔ 1389ء میں جنگ پھر سے شروع ہو گئی اور 1396ء تک جاری رہی۔
1403ء میں جنگ و جدل کا ایک اور دور شروع ہوا۔ ہنری پنجم نے فرانس کے تخت پر اپنا حق جتاتے ہوئے اس کو ایک سنگین معاملہ بنا دیا۔ آجن کورٹ کی لڑائی میں اس کی جیت ہوئی۔ نارمنڈی اس نے فتح کر لیا اور 1420ء میںایک عہدنامے کے ذریعے بادشاہ کا ولی اور فرانس کا ہونے والا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے باوجود قوم کی ایک جماعت انگریزوں کی حکمرانی پر معترض ہوئی اور جنگ 1429ء تک جاری رہی۔ اس موقع پر جون آف آرک کے دور سے لڑائی کے رخ نے پلٹا کھایا اور انگریزوں کو مسلسل ناکامی ہوتی رہی۔ 1453ء میں اس کشمکش کا خاتمہ ہو گیا، ایک کے سوا فرانس کا سارا علاقہ انگریزوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔
جون آف آرک: اسے فرانس میں آزادی کی ہیروئن کا درجہ حاصل ہے۔ یہ عالی ہمت عورت مذہبی اور جذباتی واقع ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسے آوازیں سنائی دیتی ہیں اور فرانس کو، جو اس وقت انگریزوں کے قبضے میں تھا، نجات دلانے کیلئے کہہ رہی ہیں۔ 1429ء میں اس کا معزول بادشاہ چارلس ہفتم سے تعارف ہوا۔ چارلس نے اس کو سپاہیوں کے ایک لشکر کی قیادت سونپی تاکہ آرلیئنز کو، جس کا انگریزوں نے محاصرہ کر رکھا تھا، کمک پہنچائی جائے۔ اس کے راسخ اعتقاد نے اس کے ہم وطنوں میں نئی ہمت پیدا کر دی، جس کے باعث محاصرہ اٹھ گیا اور فتوحات حاصل ہوئیں ۔1430ء میں ایک لڑائی کے دوران جون زخمی ہو گئی اور برگنڈیوں نے اس کو گرفتار کر لیا۔ 1431ء میں مذہبی عقائد کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیاگیا۔
انگلستان کے ساتھ جنگوں کا دور پندرہویں صدی میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد والوا اور آگے چل کر بوربن بادشاہوں کے تحت فرانس کی شاہی حکومت یورپ میں سب سے زیادہ مرکزیت کی حامل ہو گئی اور جب بریٹینی اس میں شامل کر لیا گیا تو فرانس کا رقبہ وہی ہو گیا جو آج کل ہے
خاندان والوا:والوا فرانس کا ایک شاہی خاندان تھاجس کے اراکین نے فرانس کی تاریخ میں اہم کارمنصبی ادا کیے۔ 1328ء سے لے کر 1589ء تک یہ لوگ فرانس کے بادشاہ رہے۔
بوربُن خاندان:والوا خاندان کے بعد بوربن شاہی خاندان فرانس میں اقتدار میں آیا کیونکہ والوا خاندان کا کوئی مرد وارث باقی نہ بچا تھا۔ اس خاندان کے افراد فرانس اور سپین کے بادشاہ ہوئے ہیں۔ یہ نام فرانس کے علاقے بوربن لارکمبیل سے لیا گیا ہے کیونکہ ارکان خاندان دسویں صدی میں اس جگہ کے امیر بنے۔ یہ جاگیر ان لوگوں کو لوئی نہم کے ایک بیٹے کی شادی میں ملی تھی اور اس کا بیٹا ڈیوک آف بوربن بنا دیا گیا تھا۔ بعدازاںایک ڈیوک انتونی کا لڑکا ہنری 1589ء میں فرانس کا بادشاہ بنا۔ وہ اور اس کے جانشینوں نے 1789ء تک اور پھر 1814ء تا 1848ء حکمرانی کی۔ اس خاندان کے لوگ سپین کے بھی بادشاہ رہے۔
رش لیو (Richelieu): فرانس کی تاریخ کا ایک اہم کردار ہے۔ فرانسیسی کاردنال (مذہبی عہدہ) تھا اور لوئی XIII کا وزیر تھا جس کے دور حکومت میں رش لیو چھایا ہوا تھا۔ وہ 1585ء میں پیرس میں پیدا ہوا۔ 1607ء میں لوکان کا بشپ، 1622ء میں کاردنال اور 1624ء میں وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ اس کی پالیسی کے تین بڑے اہم مقاصد تھے۔ فرانسیسی پروٹسٹنٹ (Huguenots) کی سیاسی قوت کو ختم کرنا، شاہی اقتدار کا بول بالا کرنا اور ہاپس برگ کے تسلط کے اندیشے سے فرانس کو محفوظ رکھنا۔ ان تینوں مقاصد میں اس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کو بادشاہ کی ہر وقت تائید حاصل رہی اور 1642ء اس کا انتقال ہوا۔
لوئی چہار دہم : یہ فرانس کے بوربن بادشاہوں میں سب سے مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ وہ 1638ء کو پیدا ہوا۔ اس نے 72 سال تک حکومت کی۔ وہ اپنے زمانے کے یورپ کی سب سے ممتاز ہستی تھا۔ نہ صرف سیاسیات بلکہ فنون لطیفہ اور ادب میں بھی اس نے اپنے غیرمعمولی اثر کو استعمال کیا۔ اس کو اپنی اہمیت کا بڑا احساس تھا۔ لوئی چہار دہم شان و شوکت کا دلدادہ تھا اور'' شاہ عالی شان‘‘ (Louis the Great) کہلاتا تھا۔ اس نے محل ورسائی اور دوسری شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں۔ ورسائی کا محل پیرس کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور اپنی بھاری جسامت اور وسیع پھیلاؤ کی وجہ سے ممتاز ہے۔ لوئی چہار دہم نے 1715ء میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا اور پوتا دونوں اس کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ جانشین اس کا پڑپوتا لوئی پانز دہم ہوا۔
فرانس کی بادشاہت لوئی چہار دہم کے تحت اپنی عظمت کی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ یورپ کی سماجی زندگی کی قیادت کا سہرا فرانس کے سر تھا اور بحیثیت مجموعی دیگر معاملات میں بھی وہ غالب آ گیا تھا۔ اس دوران فرانس بہت بڑی فوجی طاقت بن گیا۔
اس تصور کا ایک تاریک رخ بھی تھا، یعنی فضول خرچی، رشوت ستانی اور اس سے بھی زیادہ بدتر، غریبوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ناانصافی۔ان خرابیوں کیلئے اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی جو انقلاب کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس خونی انقلاب نے شاہی کو ختم کر کے پہلی جمہوریہ قائم کی۔
اس جمہوریہ کی راکھ سے نپولین کی سلطنت نے جنم لیا۔ مطلق العنانی کا یہ دور بھی 1815ء میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد بادشاہت کو بحال کر دیا گیا اور لوئی ہزدہم تخت پر بیٹھا۔ لوئی فلپ 1830ء میں فرانس کا بادشاہ بنا۔ 1848ء میں اس کی حکومت کا خاتمہ کر کے دوسری جمہوریہ قائم کی گئی۔ یہ جمہوریہ بھی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے خاتمے کے بعد شہنشاہ نپولین سوم تخت نشین ہوا اور مطلق العنانی کا یہ دوسرا دور 1870ء تک جاری رہا۔