سائوچائے ٹنکونگ
اسپیشل فیچر
چین کے جنوب مغرب میں واقع مضافاتی علاقہ ''چونگ قنگ‘‘اپنے سرسبز وشاداب کھلیانوں کی وجہ سے تو مشہور ہے ہی لیکن حیرت انگیز طور پر اس گاؤں کے مغربی کنارے پر واقع ایک دیو ہیکل کنواں نما گڑھا جو 660 میٹر گہرائی اور تقریباً 13کروڑ مربع میٹرز حجم کے ساتھ اس وقت تک قدرتی طور پر وجود میں آنے والا دنیا کا سب سے گہرا گڑھا مانا جاتا ہے۔ جسے چینی زبان میں ''ساؤ چائے ٹنکونگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چینی زبان میں ''ساؤ چائے‘‘ کا مطلب ایک چھوٹا سا گاؤں جبکہ ''ٹنکونگ‘‘ کے معنی گڑھے یا کنوئیں کے ہیں۔
یہ گڑھا صدیوں سے لوک داستانوں، پراسرار انکشافات اور افواہوں کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن آج تک اس کی تاریخ اور حقیقت کا علم کسی کو نہ ہو سکا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دیوتاؤں کا کوئی قدیم مسکن ہے، کچھ لوگ اسے کسی بڑی دیوہیکل مخلوق کے قدموں کے نشان سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ پراسرا گڑھا زمین سے کسی سیارے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہو گا۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے کچھ ماہرین نے اس کنوئیں کے معائنے کے بعد اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس طرح کے کنوئیں دنوں اور مہینوں میں نہیں بنتے بلکہ اس کے وجود میں آنے کا عمل لگ بھگ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار سال قبل شروع ہوا ہو گا۔ اس کنوئیں کی غیر معمولی گہرائی بارے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ زمین سے ڈھلوان کی جانب پانی کا رسنا اور زیر زمین بہتے دریا میں شامل ہونا ہی دراصل اس گڑھے کی گہرائی میں اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔
اگرچہ چینی صدیوں سے اس گڑھے کو دیکھتے آ رہے ہیں لیکن چینیوں نے شاید اس کی پراسراریت کے خوف سے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ 1994ء تک بیرونی دنیا اس پراسرا گڑھے کی حقیقت سے لاعلم تھی۔ کہتے ہیں سب سے پہلے اس گڑھے کو ایک بین الاقوامی ٹی وی نے عوام کے سامنے ایک ڈاکومینٹری کے طور پر پیش کیا۔ جس کے بعد 1994ء ہی میں برطانوی مہم جوؤں کی ایک ٹیم اینڈریو جیمز کی سربراہی میں چین پہنچی۔ اس ٹیم کے گائیڈ زاو گوئلین تھے۔ اینڈریو جیمز سب سے پہلے اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ گڑھے کے اندر غاروں میں اترے یہ دیکھنے کیلئے کہ زیر زمین انہیں کس قسم کے حالات سے نمٹنا ہو گا۔ غاروں کے سروے کے دوران ہی اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ غاروں کے نیچے زیر زمین ایک انتہائی تیز بہاؤ والا دریا بھی بہہ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس گڑھے کے اندر ایک دنیا آباد ہے جس میں 1300 کے لگ بھگ مختلف پودے اور بے شمار اقسام کے جانور جن میں کلاؤڈڈ، تیندوے اور گنگکو جیسے پرندے شامل ہیں۔یہ زیر زمین دنیا اس قدر پیچیدہ اور پراسرار ہے کہ اس برطانوی ٹیم کو سب سے زیادہ مشکل یہ درپیش تھی کہ کنوئیں کے اندر پھیلی غاروں کا سروے کیسے کیا جائے کیونکہ گھپ اندھیرے اور تیز رفتار بہتے دریا کے سامنے نیچے غاروں تک رسائی بذات خود ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس کے علاوہ اس گڑھے کے دہانے پر ایک آبشار گرتی ہے جو اس گڑھے کے غاروں کو سیراب کرتی ہے۔
جیسے جیسے دنیا کے مہم جوؤں کے سامنے اس کنوئیں کی اسراریت کھلتی گئی دنیا کے مہم جوؤں نے گویا اسے ایک چیلنج سمجھ کر اسے پرکھنے کا ارادہ کر لیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2004ء تک دنیا کے مختلف ممالک کے مہم جوؤں نے پانچ بار اس کے غاروں تک رسائی کی کوشش کی لیکن ان دس سالوں میں مہم جوؤں کی کوئی بھی ٹیم زیر زمین دریا کی تیز لہروں کے سامنے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔
اب تک اس گڑھے کی اسراریت کو کھوجنے میں سب سے موثر کردار برطانوی ٹیم کا رہا ہے۔ اس کے مطابق اس گڑھے کی پراسرایت میں جہاں سب سے بڑی رکاوٹ پانی کی تیز لہریں ہیں، وہیں اس کی زیر زمین غاروں کی تاریکی بھی ان کی کامیابیوں کے درمیان حائل ہے۔ تاہم میں اور میری ٹیم پرامید ہے کہ جلد یا بدیر دنیا کے قدرتی طور پر وجود میں آنے والے سب سے گہرے اس کنوئیں کے سربستہ رازوں سے پردہ ضرور اٹھے گا۔