ابن خلدون:فلسفہ تاریخ کا بانی:جس نے تاریخ کو سائنس کا درجہ دیا
اسپیشل فیچر
جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں ابن خلدون کا نام بقائے دوام کی سند حاصل کر چکا ہے۔ ازمنہ متوسط میں اگر چراغ لے کر بھی ڈھونڈا جائے تو دنیائے کلیسا میں اس پائے کا فاضل آدمی نہ مل سکے گا۔ ابن خلدون (پیدائش1332ء۔وفات1406ء) کو اگر محض ایک مورخ کی حیثیت سے لیا جائے تو خود عربوں میں اس سے کہیں برتر اور فائق مصنفین کا وجود مل سکے گا لیکن ہم تاریخ کے واضح اصول کے اعتبار سے اس کی برتری مسلمہ امر ہے۔ جدت طرازی، فکری گہرائی اور وسعتِ نظر وہ امتیازی خصوصیات ہی جن میں ان خلدون کی عظمت کا راز مضمر ہے، جس طرح دانتے کو دنیائے شاعری کا شہنشاہ مانا جاتا ہے، اسی طرح ابنِ خلدون فلسفہ ٔتاریخ کا پیشواہے۔
ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے جس نے تاریخ پر ایک مستقل سائنس کی حیثیت سے قلم اٹھایا اور یہ حقیقت اس کی معرکہ آرا تصنیف'' مقدمہ ابن خلدون‘‘ کے سرسری مطالعہ سے واضح ہو جاتی ہے۔ مابعد الطبیعات اور ایسے دیگر مسائل میں ابن خلدون عقل و خرد پراعتماد نہیں کرتا بلکہ الہام اور وجدان پر تکیہ کرتا ہے۔ ابن خلدون تاریخ کے اصول تاریخی حقائق کی مدد سے وضع کرتا ہے، علاوہ ازیں اس کی بصیرت افروز نظر کمال ہوشیاری سے سماجی مسائل کی گہرائیوں تک اُتر جاتی ہے اور وہ ان کے باہم ربط و دیگر کوائف کا سراغ لگانے میں خداداد ملکہ رکھتا ہے۔
''مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفہ ٔتاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اورجنگوں ہی کا نام نہیںبلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور تفتیش کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رستخیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا مقصد تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کرتا ہے اور یہ وہ مقصد ہے جسے ابن خلدون کے اپنے الفاظ میں '' پہلے کسی مصنف نے مستقل، منظم اور علمی طور پر سرانجام دینے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی‘‘۔
''مقدمہ ابن خلدون‘‘ کی تمہید کا بیشتر حصہ مورخین کی تاریخی لغزشوں کی پردہ دری پر مشتمل ہے اور حیرت کا مقام ہے کہ ابن خلدون جب کسی مورخ کی تحقیقات کو تنقید کی زد میں لاتا ہے تو وہ اس کے بطلان اور اثبات کے لئے جو اصول اور معیار وضع کرتا ہے وہ کم و بیش وہی ہیں جو دورِ حاضر کے نقاد ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جن امور کو ابن خلدون تاریخی تحقیقات میں لغزش کا باعث قرار دیتا ہے ان میں سے زمان و مکان کی تفریق کو نظر انداز کردینا‘ فراہم شدہ مواد سے بہ عجلت نتائج اخذ کرنا، ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور پندار باطل کا فریب کھا جانا، تہذیب و تمدن کی تحقیقی ماہیت اور اصلیت سے نابلد ہونا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اگر ان امور کو مدنظر رکھا جائے تو خود ابن خلدون کے الفاظ ہیں '' ایک ایسی سائنس معرضِ وجود میں آ جاتی ہے جو اپنی جدت، وسعت اور افادیت کے اعتبار سے نہایت عظیم الشان ہے‘‘۔ ''مقدمہ ابن خلدون ‘‘کے پہلے باب میں سوسائٹی پر عمومیت کے ساتھ اور نسل انسانی کے تنوع اور مختلف طبقات زمین پر خصوصیت کے ساتھ بحث کرتا ہے۔ اس میں ابن خلدون انسان کے فطرتاً سوشل ہونے پر زور دیتا ہوا بتاتا ہے کہ کس طرح افراد تقاضاتِ فطرت کے مطابق باہم میل جول پر مجبور ہو کر سوسائٹی کی تشکیل کرتے ہیں اور پھر کس طرح یہ مجموعی حیات مختلف منازل طے کرتی ہوئی ایک تمدن اور ثقافت کی بنیاد ڈالتی ہے۔ اسے دنیا کی جغرافیائی حالت کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ابن خلدون اس امر کی اہمیت پر زور دیتا ہے کہ کسی خاص مقام کا ماحول اب و ہوا اور دیگر جغرافیائی حالات اس کے باشندگان کی جسمانی دماغی اور اخلاقی خصوصیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
باب دوئم میں مصنف خانہ بدوش اور نیم وحشی اقوام کے تہذیب و تمدن پر بحث کرتا ہے۔ بحث کا آغاز اس حقیقت کے انکشاف سے ہوتا ہے کہ مختلف انسانی ادارے اور ان کی روایات اور رسومات لوگوں کی طرزِ معاش اور روٹی کمانے کے وسیلے پر منحصر ہوتی ہیں۔ شہری اور دیہاتی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے مصنف گائوں کی بے رونق بستیوں کو گہوارۂ تمدن کے نام سے یاد کرتا ہے۔ وہ اہلِ دیہات کی اخلاقی برتری کا قائل ہے۔
باب سوئم میں بتایا گیا ہے کہ صحرا نشین قبائل میں باہمی اتحاد و یگانگت کا راز رشتۂ خون یا اور کسی ایسی ہی محکم وجہ اشتراک میں مضمر ہے۔ ابن خلدون کہتا ہے کہ اقوام میں سے وہی قوم حکومت اور سلطنت کی اہل ہوا کرتی ہے جس کی جبلت اور قومی کردار میں اعلیٰ اخلاقی اور اعلیٰ ظرفی کی بلند خصوصیات پائی جاتی ہیں اور جب کسی قوم میں عیش و طرب اور جنسی لذات کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں تو وہ جلد ہی انحطاط کا شکار ہو جاتی ہے۔
ابن خلدون کے نزدیک کسی خاندان میں حکومت کی اہلیت اور اعلیٰ درجہ کی شرافت کے جذبات بمشکل ہی چار نسلوں سے آگے جانے پاتے ہیں۔ اس کے بعد ابن خلدون عربوں کی فتوحات پر نہایت کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس کے خیالات سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف لیکن اس میں کسی انصاف پسند اور معقول ناقد کو کلام کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ابن خلدون میں آج سے صدیوں پیشتر ایک مورخ کی حیثیت سے وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں موجودہ دور کے مورخین کیلئے لازمی قرار دی گئی ہیں۔ عربوں کے کارناموں کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے H.G. Wellsکی طرح بے جا مذہبی تعصب اور ناجائز قومی رواداری سے کام نہیں لیا۔
باب چہارم میں بڑے بڑے شہروں کے معرض وجود میں آنے کی وجوہات ان کی سلطنتوں سے باہمی ربط اور اضلاع پر اثر اور ان سے متعلق دیگر امور پر مشتمل ہے۔باب پنجم میں قومی بقا کے ذرائع اور ملکی خوشحالی کے فروغ دینے پر بحث کی گئی ہے اور فن کے ان مختلف شعبوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا دارومدار ملک کی خوشحالی پر ہوتا ہے مثلاً صنعت و حرفت، اقتصادیات، تفریحات وغیرہ۔ چھٹے باب میں مستقل سائنس کے موضوع پر اس انداز سے بحث کی گئی ہے کہ یوں معلوم دیتا ہے۔ جیسے مصنف کوئی انسائیکلو پیڈیا تحریر کر رہا ہے۔ ابن خلدون کی تحقیقات میں کہیں کہیں خامیاں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن اس کی ایک معقول وجہ ہے اور وہ یہ کہ اس کو یورپ کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے متعلق جو مواد میسر تھا وہ حد درجہ ناقص اور نامکمل تھا۔ اگر اسے دنیائے کلیسا سے بھی اسی طرح واقفیت ہوتی جس طرح اُسے عالم اسلامی سے تھی تو وہ ایک ایسا شاہکار اپنی یادگار چھوڑ جاتا، جس کے حضور دنیا بھر کا ادب اپنا سر ابد تک نگوں کئے رکھتا لیکن اب بھی جو متاع بے بہا ہمیں حاصل ہے وہ ابن خلدون کا نام ہماری آخری نسل تک پائندہ و تابندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔
بد رمنیر علم تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور
کئی تحقیقی مضامین کے مصنف ہیں