مادام تسائو مومی عجائب گھر

مادام تسائو مومی عجائب گھر

اسپیشل فیچر

تحریر : فقیر اللہ خاں


سنگ تراشی تو دنیامیں زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے لیکن موم کو انسانی قالب کی شکل دینا کمال کا کام ہے۔ اس فن کو فرانس میں 1761 ء میں پیدا ہونے والی مادم تسائو نے عروج تک پہنچایا ہے اور آج لندن کے علاوہ دنیا کے25 شہروں میں مادام تسائو کے نام سے مومی عجائب گھر موجود ہیں۔ لندن میں مادام تسائو نے1835ء میں پہلا مومی عجائب گھرقائم کیا۔
میری تسائو کی والدہ سوئٹزر لینڈ کے شہر برن میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کے ہاں ملازمہ تھی۔ وہ ڈاکٹر ایک ماہر موم تراش بھی تھا۔ مادام تسائو نے مومی مجسمہ سازی کا فن اسی ڈاکٹر سے سیکھا۔ مادام تسائو نے 16 سال کی عمر میں پہلا مجسمہ فرانس کے مشہور فلاسفر اور لکھاری والٹیئر کابنایا۔ اس کے بعد اس نے روسو بنجمن فرینکلن کے علاوہ کئی مشہور افراد کے موم کے مجسمے بنائے۔ مادام تسائو 17 سال کی عمر میں فرانس کے بادشاہ لوئیس XVI کی بہن کی ٹیوٹر بن گئی۔ بعد میں انقلاب فرانس شروع ہوا تو اس شاہی خاندان کے ہمراہ نہ صرف تین ماہ کیلئے پابند سلاسل کردیا گیا بلکہ پھانسی پانے والوں کی فہرست میں بھی شامل کرلیا گیالیکن اس کے ایک بااثر دوست کی کوششوں سے اسے رہا کر دیا گیا۔ ڈاکٹر کرٹیوس کے 1794ء میں وفات پا جانے کے بعد اس کے مومی ماڈلوں کا وسیع ذخیرہ مادام تسائو کو ورثہ میں ملا۔
مادام تسائو کو 1802ء میں لندن سے اس کے فن کی نمائش کیلئے دعوت نامہ ملا۔ مادام تسائو نے اپنے فن کی نمائش پورے برطانیہ میں کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے فن میں نکھار آتا گیا۔ عوام نے اس کے فن کو خوب سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔ اس نے لندن کی ہیکر سٹریٹ میں اپنا گھر بنا لیا اور وہیں اپنا میوزیم قائم کرلیا۔ 1835ء میں قائم ہونے والا یہ موم کا پہلا میوزیم تھا۔ برطانیہ میں مادام تسائو کے اس فن کو بہت شہرت ملی۔ 16 اپریل 1850ء کو مادام تسائو کا 89ء برس کی عمر میںلندن میں انتقال ہوا۔ آج مادام تسائو کا قائم کردہ میوزیم اسی کے نام سے مشہور ہے۔
آج تقریباً 300 سے زائد کی تعداد میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے موم کے بنائے ہوئے مجسمے اس میوزیم میں موجود ہیں۔ ان شخصیات کا تعلق سیاست ، عالمی سطح کے لیڈر ، فلم ، کھیل ، ادب ، میوزک ، ٹی وی ، سٹیج اداکار اور شاہی خاندان سے ہے۔ مادام تسائو کے میوزیم کو1925ء میں لگی آگ سے شدید نقصان پہنچا۔ جنگ عظیم دوم میں جرمنوں کی بمباری سے لندن شہر کے باقی حصوں کی طرح اس میوزیم کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ بعد میں اسے مرمت کردیا گیا۔
مادام تسائونے اپنا ذاتی مجسمہ بھی بنایا جو میوزیم کے داخلی دروازہ کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ مادام تسائو کا مومی میوزیم لندن کی بہت بڑی تفریح گاہ بن چکا ہے۔
اس میوزیم کے مغربی جانب لندن پلنٹیریم موجود ہے۔ اب دنیا کے کئی شہروں میں مادام تسائو میوزیم کی کئی شاخیں کھل چکی ہیں جن میں ایمسٹرڈیم، بنکاک، ووہان، برلن، دبئی، شنگھائی، لاس ویگاس، ماسکو، نیویارک، ہالی ووڈ، ہانگ کانگ، ہیمبرگ، ویانا، واشنگٹن، ڈی سی، بیجنگ اور لینڈو، سان فرانسسکو، سڈنی، استنبول، دہلی، ٹوکیو سنگا پور، کوالالمپور، بوڈاپسٹ اور پراک شامل ہیں۔ لندن کے مادام تسائو میوزیم میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا مجسمہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ عالمی شہرت کی حامل جن شخصیات کے مجسمے یہاں رکھے ہیں ان میں چند کے نام یہ ہیں۔ ایڈولف ہٹلر، ونسٹن چرچل، امیتابھ بچن، مصطفی کمال اتاترک، لیڈی ڈیانا، جارج واشنگٹن، میڈونا، مارلن منرو، ماہتما گاندھی، نیلسن منڈیلا، پوپ جان پال دوم، ٹونی بلیئر، ولیم شیکسپیئر، آندرے آگاسی، شاخ رخ خان، سلمان خان، چارلی چیپلن، الزبتھ ٹیلر، ملکہ الزبتھ دوم، برنس فلپس، نپولین بوناپاٹ، پرنس چارلس (موجودہ بادشاہ) پرنس کمیلا، جان ایف کینیڈی، آئزک نیوٹن، اندرا گاندھی، بل کلنٹن، ہیلری کلنٹن، بل گیٹس، بروس لی، دلائی لامہ، کپل دیو، کرینہ کپور، لی کوان یو، تھامس ایڈیسن، ولادی میر ی پوٹن، نیل آرم سٹرانگ، ملکہ وکٹوریہ، پرنس ولیم، پرنس ہیری اور یاسر عرفات۔
عمومی طورپر ایک مجسمہ تیار کرنے میں چار ماہ صرف ہوتے ہیں جن کا کام کا دورانیہ350 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ بے شمار پیمائش اور200 کے قریب فوٹو درکار ہوتی ہیں۔ بنانے والے ماہر فنکار کو کو ئی ویڈیو اور فوٹو گراف کا عمیق مشاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ سرکا ایک ایک بال علیحدہ علیحدہ چسپاں کرنا پڑتا ہے اور سر کیلئے تقریباً ایک لاکھ بال لگائے جاتے ہیں، جس کیلئے پانچ ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈورے میں لال ریشمی دھاکہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مادام تسائو کے تمام مجسمے کمپنی کے لندن میں قائم سٹوڈیوز میں بنائے جاتے ہیں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ہاتھ دھونے کا عالمی دن

ہاتھ دھونے کا عالمی دن

دنیا بھر میں 15 اکتوبر ''ہاتھ دھونے کے عالمی دن‘‘ (Global Handwashing Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد لوگوں، بالخصوص بچوں میں ہاتھوں کو صابن کے ساتھ دھونے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ ہاتھ دھونے کی عادت کو پروان چڑھایا اور اس کے ذریعے مختلف بیماریوں سے بچا جا سکے۔ہم جانتے ہیں کہ صحت مند زندگی کیلئے صفائی ستھرائی نہایت اہم ہے۔ ہمارے دین نے اس کی اہمیت کو اس طرح سے واضح کیا ہے کہ صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر باطن کے ساتھ ساتھ جسمانی و ظاہری صفائی کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ (البقرہ : 222)۔ نبی اکرمﷺ کا ارشاد پاک ہے: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے (صحیح مسلم: 223)۔اسی طرح ایک مسلمان دن میں پانچ مرتبہ ہاتھ دھو کر اس سے ہونے والے فوائد حاصل کرتا ہے ۔ دیگر مذاہب نے ہاتھ دھونے کی اہمیت کو سمجھا تو ایک دن اس کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے ہاتھ دھونے کا عالمی دن مقرر کیا ۔ بیماریوں کی ایک بڑی مقدار ہمارے ہاتھوں اور کھانے کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ ہمارے ہاتھ روزانہ دس لاکھ جراثیم کے سامنے آتے ہیں۔جس کے ہاتھ صاف نہ ہوں ان سے ہاتھ ملانے سے بھی ہمارے ہاتھ جراثیم زدہ ہو جاتے ہیں۔اس سے ایک شعر یاد آیا!یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ ہر روز ہم مختلف قسم کی چیزوں کو چھوتے ہیں جو غیر صحت بخش اور گندی ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں کو چھونے کے بعد اپنے ہاتھ نہیں دھوتے اور صاف نہیں کرتے تو کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعے جراثیم آسانی سے ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اسہال، دست، پیچش کے سبب بچوں کی شرح اموات میں خطرناک اضافہ بھی یہ تقاضا کرتا ہے کہ بچوں میں ہاتھ دھونے کی عادت کو پروان چڑھایا جائے ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سالانہ 2 کروڑ سے زائد بچے ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ بچے موت کا شکار ہوتے ہیں۔ اسہال کی بیماری مختلف جراثیم سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ جراثیم، آلودہ پانی یا جراثیم والے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اس بیماری کو روکنے کا سب سے موثر اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کو جراثیم سے پاک رکھا جائے۔اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ کم از کم 20سیکنڈ تک دھوئیں۔بیت الخلاء سے فراغت کے بعد ہاتھ صابن سے دھوکر درجنوں بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ جس میں معدے،آنکھ ،ناک کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت کو پختہ کرنا چاہیے۔علاوہ ازیں کوئی بھی ایسا کام کریں جس سے ہاتھ گندے ہو جائیں تو ہاتھ دھونے چاہیے ۔ ہمیں چاہے گھر میں واپس لوٹیں تو لازمی ہاتھ دھوئیں ۔ہاتھ دھونے کے طریقہ کار کے حوالے سے پاکستان میں قومی ادارہ صحت نے بھی یہ گائیڈ لائینز شائع کی ہیں۔ ان کے مطابق ہاتھوں کو دھونے سے ان پر جراثیم کا بالکل خاتمہ یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار درج ذیل ہے۔ پہلے ہاتھوں پر اچھی طرح صابن لگائیں۔ دونوں ہتھیلیوں کو مخالف ہاتھ کی مدد سے خوب رگڑیں۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پشت سے ملا کر باری باری صاف کریں۔ انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر، انگوٹھوں کو ہتھیلی سے گھما کر ،بند انگلیوں کی پشت کو ہتھیلی کے ساتھ رگڑ کر ہاتھ دھوئیں ۔جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ عالمی سطح پر ہر سال 15 اکتوبر ''ہاتھ دھونے سے متعلق عوامی آگہی‘‘ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 2008ء میں 70 مختلف ممالک کے 120 ملین بچوں نے بیک وقت اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھو کر کیا ۔تاکہ ایسے بچوں پر جو اسہال اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کے سبب موت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، توجہ مرکوز کر کے ان کی شرح اموات میں کمی لائی جا سکے۔ہمیں خود بھی ان سب باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور بچوں کو بھی تاکید کرنی چاہیے ۔حفظان صحت کیلئے صفائی کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں اور ہمارا دین بھی ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں بالخصوص دیہی علاقوں میں ہاتھوں کی صفائی اور صاف پانی کے استعمال کے کلچر کو فروغ دیا جائے اور اس کیلئے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عوامی شعور کی آگہی کی مہمات چلائی جائیں تاکہ صحت و صفائی کے ذریعے صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

آج کا دن

آج کا دن

نیلسن منڈیلا کیلئے نوبیل 15 اکتوبر 1993ء کو جنوبی افریقہ کے صدر ڈی کلیرک اور قومی اسمبلی کے اسپیکر نیلسن مینڈیلا کو نوبیل امن ایوارڈ دیا گیا ۔اس کا مقصد ملک میں نسل پرستی کو ختم کرنا تھا۔آج نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ اور تمام دنیا میں ایک تحریک کا نام ہے جو اپنے طور پر بہتری کی آواز اٹھانے میں مشہور ہے۔ نیلسن منڈیلا کو ان کی چار دہائیوں پر مشتمل تحریک و خدمات کی بنیاد پر 250 سے زائد انعامات سے نوازا گیا جن میں سب سے قابل ذکر 1993ء کا نوبیل انعام برائے امن ہے۔ بحر اوقیانوس عبور کرنے کی کوشش 1910ء میں گرم ہوا کی مدد سے اڑنے والے غبارے کے ذریعے بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کی پہلی کوشش کی گئی۔ کشتی اور سلیج کے ذریعے بحر اوقیانوس کو عبور کرنے میں ناکامی کے بعد ہاٹ ایئر بیلون پر سفر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس بیلون کو فرانس میں لوئس متین گوڈارڈ نے تیار کیا تھا۔ گلاسکو کی جنگ15اکتوبر1864ء کو شروع ہونے والی ''گلاسکو کی جنگ‘‘ امریکی خانہ جنگی کے دوران گلاسکو میسوری اور اس کے قریبی علاقوں میں لڑی گئی۔ یہ لڑائی میسوری مہم کا ایک حصہ تھی۔ جنگ کے نتیجے میں کنفیڈریٹ نے مطلوبہ ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا جس سے ان کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔کنفیڈریٹ کو پائلٹ نوب کی لڑائی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے فوج مایوسی کا شکار تھی لیکن ہتھیاروں پر قبضے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔سلواڈور کی بغاوت15اکتوبر1979ء کو سلواڈور میں ہونے والی بغاوت دراصل ایک فوجی بغاوت تھی۔ اس کی قیادت نوجوان فوجی افسران نے کی جس کے نتیجے میں ایک خونزیز لڑائی کے بعد فوجی صدر کارلوس ہمبر ٹورومیرو کو معزول کرنے کے بعد جلاوطن کر دیا گیا۔اس بغاوت کے بعد قومی مفاہمت پارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی اور فوجی افسران کی جانب سے ایک انقلابی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ 

دنیا کےخوشحال اور بدحال ترین شہر!

دنیا کےخوشحال اور بدحال ترین شہر!

بنیادی طور پر معیار زندگی کا مطلب کسی بھی خطے میں آباد افراد کو دستیاب بنیادی ضروریات زندگی کا وہ پیمانہ ہے جو اسے دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں صحت، تعلیم، استحکام، امن و امان، بنیادی انتظامی ڈھانچہ، ثقافت اور ماحول قابل ذکر ہیں۔ دراصل دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی حکومت اپنے عوام کو کس مقدار میں اور کس معیار کے ساتھ بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرتی ہے۔برطانوی جریدے ''اکانومسٹ‘‘ کا ایک ذیلی ادارہ ''اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘‘ (ای آئی یو) ہر سال دنیا بھر کے ممالک میں دستیاب مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مالی اور معاشی اعداد و شمارلے کران کی درجہ بندی کرتا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے افراد کیلئے ایک پیمانہ تجویز کرنا ہوتا ہے کہ نقل مکانی کی صورت میں کون سا ملک ان کیلئے بہتر اور موزوں ہے۔ اس درجہ بندی میں پانچ بنیادی عوامل کو سامنے رکھا جاتا ہے، جس میں استحکام، صحت کی سہولیات، تعلیم، بنیادی ڈھانچہ ، ثقافت اور ماحول شامل ہوتے ہیں۔یہ درجہ بندی ایک وسیع تر سروے کے ذریعے براہ راست دنیا بھر کے سرکردہ شہروں کے باسیوں کی آرا پر مبنی ہوتی ہے۔ حال ہی میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے سال 2024ء کے دس بہترین قابل رہائش شہروں کی درجہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یہ سروے دنیا بھر کے 173 شہروں کو 30 اشاریوں کی بنیاد پر پانچ زمروں ( جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے) میں تقسیم کرتا ہے۔یہ سروے12 فروری 2024ء سے لے کر 17 مارچ 2024ء کے دوران کیا گیا تھا۔اس سروے کے مطابق مغربی یورپ عالمی سطح پر بہترین رہائش پذیری کے لحاظ سے سرفہرست ہے جس کا مجموعی سکور 100 میں سے 92 ہے۔ شمالی امریکہ دوسرا بہترین خطہ ہے جس نے 100 میں سے90.5 سکور حاصل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ایشیاء وہ خطہ ہے جس کا صرف ایک ملک جاپان جس کا شہر اوساکا نویں نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آسٹریا وہ واحد ملک ہے جس کا شہر ویانا مسلسل تین سال سے پہلی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دس بہترین قابل رہائش شہر ویانا ( آسٹریا ): قابل رشک رہائشی شہروں کی عالمی فہرست میں رواں سال بھی 98.4فیصد نمبر حاصل کرکے مسلسل تیسری مرتبہ پہلی پوزیشن سنبھالنے والا آسٹریا کاشہر ویانا ہی ہے۔رواں سال کی رپورٹ کے مطابق ویانا نے دوسال پہلے یہ ٹائٹل نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ سے چھینا تھا جو پہلے نمبر سے 34 ویں پر پہنچ گیا تھا۔ ماہرین اس کی وجہ کورونا کی وجہ سے عائد پابندیوں کو بتاتے ہیں۔ ویانا وہ شہر ہے جس نے انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور استحکام کے شعبوں میں سو فیصد نمبر حاصل کئے ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین ویانا کو دنیا کا پرکشش اور قابل رشک شہر کا اعزاز حاصل کرنے کی وجہ اس کا استحکام ، مضبوط انفرا سٹرکچر، بہترین طبی سہولیات، ثقافت اور تفریح کے خاطر خواہ مواقع اور موثر تعلیمی نظام کو بتاتے ہیں۔ کوپن ہیگن (ڈنمارک ):کوپن ہیگن ڈنمارک کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر ای آئی یو کے سالانہ سروے ''بہترین معیار زندگی‘‘ کے مطابق کئی مرتبہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔2021ء تک یہ متعدد بار پہلے نمبر پر رہ چکا ہے جبکہ اس سال 98فیصد نمبر حاصل کر کے یہ مسلسل تین سال سے دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ دنیا کے ماحول دوست شہروں میں بھی نمایاں مقام پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں ماحول کو صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک رکھنے کیلئے ترجیحی طور پر سائیکل استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بہترین ریاستی انفراسٹرکچر، ثقافت ، سیاحت ، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں متاثر کن کارکردگی کے سبب یہ اس سال بھی دوسری پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے۔زیورخ (سوئزر لینڈ ):اس شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ 2021ء سے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پہلے نمبر پر ہے۔معیار زندگی کے لحاظ بھی یہ شہر دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل رہتا ہے۔ امسال یہ شہر ای آئی یو کے انڈیکس 97.1 فیصد نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں یہ سو فیصد نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ سال گزشتہ یہ اس انڈیکس میں چھٹی پوزیشن پر تھا۔ اس کی وجہ یہاں کا معیاری نظام تعلیم، مضبوط ریاستی انفراسٹرکچر، صحت اور امن و امان کی مجموعی صورتحال ہے۔ ملبورن (آسٹریلیا ): ملبورن اس سال ای آئی یو کی فہرست میں 97 فیصد نمبر حاصل کر کے یہ چوتھے نمبر پر ہے۔ سال گزشتہ یہ اسی رپورٹ میں تیسرے نمبر پر براجمان تھا۔اس شہر کو ثقافت اور ماحولیات میں دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اس شہر کو بھی سو فیصد نمبر حاصل ہیں۔ خوبصورت ٹرمز کی وجہ سے یہاں کے شہریوں کو سفر کی بہترین سہولتیں میسر ہیں۔اس سروے کے مطابق یہاں کے شہریوں کا رویہ دوستانہ اور مثبت ہے۔ یہاں صحت، تعلیم اور امن و امان کا نظام انتہائی مضبوط ہے۔ کیلگری (کینیڈا ) جینیوا (سوئزر لینڈ ):ای آئی یو کی اس فہرست میں کینیڈین شہر کیلگری ا س سال 96.8 نمبروں کے ساتھ پانچویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہو گیا ہے جبکہ سال گزشتہ یہ شہر ساتویں پوزیشن پر تھا۔ اس کے ساتھ سوئز شہر جینیوا بھی96.8فیصد نمبروںکے ساتھ پانچویں ہی نمبر پر براجمان ہے۔ یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ سال گزشتہ کیلگری ساتویں پوزیشن سے امسال پانچویں پوزیشن پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے ایسے ہی سوئس شہر جینیوا بھی سال گزشتہ آٹھویںپوزیشن پر ہونے کے بعد امسال پانچویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوا ہے۔آسٹریلیا کا شہر سڈنی اور کینیڈا کا شہر وینکور مشترکہ طور پر 96.6فیصد نمبر حاصل کر کے ساتویں پوزیشن پر براجمان ہیں۔جاپان کا شہر اوساکا اور نیوزی لینڈ کا شہر آکلینڈ 96 فیصد نمبر کے ساتھ مشترکہ طور پر نویں پوزیشن سنبھالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ جاپان کا شہر اوساکا صحت ، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سو فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود بھی امسال 10 ویں پوزیشن حاصل کر پایا ہے۔ غیر محفوظ شہر ای آئی یو کے سال 2024 کے سروے کے مطابق غیر محفوظ اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے 173ملکوں کی اس فہرست میں دمشق 173 ویں نمبر پر جبکہ طرابلس 172 ویں ، الجیریا 171 ویں،نائجیرین شہر لاگوس 170 ویں کراچی 169 ویں اور بنگلہ دیشی شہر ڈھاکہ 168 ویں نمبر پر ہیںجبکہ زمبابوے ، پاپوا نیو گنی ، یوکرین اور وینزویلا بالترتیب 167 سے 164 ویں نمبر پر ہیں۔

قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن

قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن

دنیا بھر میں گزشتہ روز قدرتی آفات سے بچاؤ کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو قدرتی آفات سے بچاؤ اور ان کے اثرات کو کم کرنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ 1978ء میں اس دن کو منانے کی بنیاد رکھی گئی، تاکہ عوام کو ناگہانی سانحات جیسے سیلاب، زلزلے، سونامی، آتش فشاں پھٹنے اور دیگر قدرتی آفات سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جا سکیں۔یہ دن دنیا بھر میں مختلف تنظیموں کے تحت منایا جاتا ہے، جن میں شہری دفاع کے ادارے، رضا کار تنظیمیں، ریسکیو ادارے اور سماجی تنظیمیں شامل ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے زیر اہتمام تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور عوام میں معلوماتی لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں، تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے کہ ایسی آفات کے دوران کیسے بچا جا سکتا ہے۔قدرتی آفات وہ ناگہانی سانحات ہیں جو انسانی زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف قدرتی آفات آتی ہیں، جن میں سیلاب، زلزلے، سونامی، طوفان، آتش فشاں، جنگلات میں آگ اور خشک سالی شامل ہیں۔ان کے اپنے اثرات ہوتے ہیں اور ان کا دائرہ کار کم یا وسیع ہو سکتا ہے۔ماضی قریب کی بڑی قدرتی آفاتہیٹی زلزلہ 12 جنوری 2010 ء کو آیا، جس نے ہیٹی کو شدید نقصان پہنچایا اور تقریباً 2 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔26 دسمبر2004ء کو آنے والے اس سونامی نے جنوبی ایشیا کے ساحلی علاقوں کو تباہ کر دیا۔ جس میں سوا 2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 11 مارچ2011ء کو جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی نے ملک کے شمال مشرقی حصے میں تباہی مچا دی اور فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ میں بھی حادثہ پیش آیا۔پاکستان میں ماضی قریب میں بھی قدرتی آفات نے تباہی مچائی۔8 اکتوبر 2005ء کو پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلہ آیا، جس میں تقریباً 86ہزار افراد جان سے گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ اس زلزلے نے ایسے ایسے غم و الم کے قصے چھوڑے کہ سن کر اب بھی خوف طاری ہو جاتا ہے۔ خاندانوں کے خاندان تباہ ہو گئے، کہیں صرف ایک دن کا بچہ باقی بچا اور پورا خاندان تباہ ہو گیا، کہیں صرف سو سال کا بزرگ بچا اور باقی پورا خاندان دار فانی سے کوچ کر گیا۔ 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا، جس نے ملک کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تقریباً 2 کروڑلوگ متاثر ہوئے اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔2022 کے سیلاب نے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کو تباہ کیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہو گئے۔قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ جیسا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا قیام، پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کا قیام، فورسز اور دیگر اداروں کو ایمرجنسی میں بطور رضاکار ٹریننگ وغیرہ۔قدرتی آفات سے بچاؤ کیلئے عوام کو آگاہی فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو آفات سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتایا جانا ضروری ہے۔

راکٹ اور میزائل کی کہانی

راکٹ اور میزائل کی کہانی

موجودہ خلائی دور کی بنیاد ڈالنے میں تین موجدوں کا حصہ ہے۔ ایک روسی کونسٹنٹین زالکووسکی،دوسرا امریکی روبرٹ گوڈرڈ اور تیسر ارومانیہ کا ہرمن اوبرتھ۔ یہ تینوں جانتے تھے کہ ہوائی جہاز تو صرف ہوا میں اڑ سکتا ہے اور خلائی سفر صرف راکٹ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔اسی کے ذریعہ سے ہم کسی دوسری دنیا پر پہنچ سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ایندھن کے جلنے اور رفتار حاصل کرنے کیلئے آکسیجن ضروری ہے لہٰذا راکٹ کو اپنی ضرورت کا ایندھن اپنے ساتھ لے جانا ہوگا۔ راکٹ کی پرواز کا اصول یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتاہے اور یہ دونوں آپس میں برابر ہوتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال معمولی غبارہ ہے۔ غبار میں خوب ہوا بھرلیں اور پھر یکایک اس کا منہ کھول کر اسے چھوڑ دیں۔ اس میں سے ہوا تیزی سے جس سمت میں نکلے گی وہ اس کی مخالف سمت میں اتنے ہی زور سے حرکت کرے گا اور اڑ جائے گا۔1950ء میں روس اور امریکہ میں نہایت طاقتور راکٹ بنائے گئے۔ یہ راکٹ ہزاروں میل کی بلندی تک اٹھتے تھے اور خلا سے زمین پر واپس آ جاتے تھے اور یوں رفتہ رفتہ راکٹ کو بہت قوی بنایا گیا۔ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ چین میں اب سے 5ہزار سال پہلے راکٹ کا تصور موجود تھا۔ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ 1230ء میں راکٹ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اس کے تقریباً پونے تین سو سال بعد وان ہو نامی چینی رہنما نے راکٹ کے اصول پر چلنے والے ایک طیارے میں سفر کیا۔1807ء میں انگریزوں نے کوپن ہیگن پر حملے کے دوران راکٹ استعمال کئے اس کے علاوہ دوسری جنگوں میں بھی انہیں استعمال کیا گیا۔دوسری جنگ عظیم میں راکٹ دوبارہ استعمال ہوئے۔ شروع میں راکٹ میں بارود کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس راکٹ کی بناوٹ بہت سادہ ہوتی تھی۔ پہلے دھات کا ایک سلنڈر بنایا جاتا تھا اس کے زیادہ حصے میں بارود بھر دی جاتی تھی۔ اس کے پچھلے حصے میں قیف جیسا ایک شگاف ہوتا تھا اور اس کے بالکل آگے یعنی اس کی ناک میں دھمکا پیدا کرنے والی کوئی چیز بھر دی جاتی تھی۔ ایسے راکٹ ہوا کے بالائی طبقات کی تحقیقات کے لئے بھی استعمال کئے گئے۔ اس صورت میں ان کے اگلے حصے میں دھماکے والی شے کے بجائے سائنسی آلات بھر دیئے جاتے تھے۔ پچھلے حصے سے فتیلہ باہر نکلا ہوتا تھا۔ فضا میں راکٹ کا توازن برقرار رکھنے کیلئے اس کے اوپر ایک ڈنڈا لگا دیا جاتا تھا جیسے ہی فیتے کو شعلہ دکھایا جاتا تھا، بارود جلنے لگتی تھی۔ اس کی گیس پیچھے سے زور سے باہر نکلتی تھی اور راکٹ آگے کی طرف پرواز کرتا تھا۔1920ء میں راکٹ میں خشک ایندھن کے بجائے مائع ایندھن کا استعمال ہوا جو زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔1926ء میں امریکہ میں ایک مرتبہ ایسا راکٹ فضا میں چھوڑا گیا اس میں بنزین اور مائع آکسیجن استعمال کئے گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا راکٹ تھاجس کا ایندھن صرف اڑھائی سیکنڈ میں ختم ہو گیا اور وہ 198فٹ کی بلندی تک پہنچا۔ جرمنی کا وی ٹو راکٹ بھی اسی اصول پر بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے ویک کارپورل اور وائکنگ وغیرہ میں بھی اسی بناوٹ کو ملحوظ خاطر رکھا۔ یہ تھی ابتدا مائع ایندھن سے چلنے رالے راکٹوں کی۔1950ء کے بعد روس اور امریکہ دونوں ملکوں میں کہیں زیادہ طاقتور راکٹ تیار کئے گئے جو خلا میں ہزاروں میل کی بلندی تک جا کر حفاظت سے زمین پر واپس آ سکتے تھے۔ پھر سائنسدانوں نے حساب لگایا کہ اگر کوئی راکٹ سات میل فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین سے روانہ ہو تو چاہے اس کی رفتار بلندی کے ساتھ تھوڑی کم ہوتی رہے، پھر بھی وہ زمین کی کشش کو توڑ دے گا اور زمین پر واپس نہیں گرے گا۔ گویا وہ زمین سے فرار ہو جائے گا۔اسی لئے سائنسدانوں نے اس رفتار کو ''رفتارِ فرار‘‘ کہا اور تجربے نے بتا دیا کہ یہ نظریہ صحیح تھا۔ اسی رفتار سے روانہ ہونے والے راکٹ زمین کے مصنوعی چاند یا مصنوعی سیارے بنے۔ایسا پہلا مصنوعی سیارہ روسی سائنسدانوں نے چھوڑا وہ صرف ایک گولہ تھا جس میں سائنسی آلات رکھے گئے تھے۔ اس کا وزن75کلو گرام تھا۔یہ 1957ء کی بات ہے یہ تجربہ کامیاب رہا۔ اگلے چند سال کے دوران بعض جاندار بھی خلا میں بھیجے گئے۔ کتا اور بندر تھے خلا کے اوّلین مسافر۔یوں انسانوں کا خود خلا میں جانے کا حوصلہ بڑھا۔آزمائش کے طور پرروسی خلا باز یوری گیگرین نے 12اپریل 1961ء کو زمین کے چاروں طرف گردش کی۔ اس نے جس راکٹ سے سفر کیا اس کا نام '' دو سٹوک‘‘ تھا۔ جس کیپ سول میں خلا باز کو بٹھایا گیا تھا اس کا قطر دو میٹر کے قریب تھا۔ اس پر ایسا مادہ چڑھا ہوا تھا جو آہستہ آہستہ جل کر الگ ہو جاتا تھا۔ یہ مادہ اس لئے چڑھایا گیا تھا کہ واپسی پر تیز رفتاری کے سبب ہوا کے ساتھ رگڑ کھا کر اس کرے کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جاتا تھا۔ خلاء باز کی بحفاظت واپسی کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ اس زبردست حرارت سے محفوظ رہے۔پہلا امریکی خلا نورد5مئی 1961ء کو خلا میں پہنچا۔ایک سال بعد جون گلین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے زمین کے چاروں طرف گردش کی۔ وہ پہلا امریکی تھا جس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس کے لانچر راکٹ کا نام اٹیلسن تھا۔1965ء میں پہلی مرتبہ دو روسی خلا باز ایک ساتھی دو سٹوک راکٹ کے ذریعہ سے خلا میں پہنچے۔ ان میں سے ایک نے خلا میں چہل قدمی بھی کی۔چند دن بعد امریکہ نے ایک نیا خلائی پروگرام شروع کیا جو '' جمنئی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ خاص طرز کا ایک کیپسول تھا جس میں دو خلا باز بیٹھ سکتے تھے۔ یہ دو سٹوک اور مرکری کے مقابلے میں بہتر اور جدیدتھا۔اس کی سمت بھی بدلی جا سکتی تھی اور دو سرے خلائی جہاز کے ساتھ جوڑا بھی جا سکتا تھا۔ اصل میں یہ سب تجربات انسان کو چاند پر پہنچانے کیلئے کئے جا رہے تھے، بالآخر یہ آرزو بیسویں صدی میں پوری ہوئی۔ ''اپالو‘‘ پروگرام کے تحت انسان چاند پر پہنچا۔

ہن کانگ:ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی کورین خاتون

ہن کانگ:ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی کورین خاتون

دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی پرورش میں ان کا ادبی ماحول اتنا گہرا اثر چھوڑتا ہے کہ وہ خود ادب کا ایک ستون بن جاتے ہیں۔ ہن کانگ انہی خوش نصیب گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا سفر ایک ایسے گھر میں شروع کیا جہاں کی ہر دیوار سے الفاظ اور جذبات کی خوشبو آتی تھی۔ جنوبی کوریا میں27 نومبر 1970 ء کو پیدا ہونے والی ہن کانگ کے والد بھی ایک معروف مصنف تھے۔ ان کا گھرانا ہمیشہ کتابوں اور ادب کی روشنی میں رہا اور اس ماحول نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ کہتی ہیں ''ادب میرے لیے ہمیشہ سے ایک پناہ گاہ رہا ہے، جہاں میں دنیا کے شور شرابے سے دور خود کو محسوس کرتی ہوں۔ہن کانگ نے سیول یونیورسٹی سے کورین ادب میں ماسٹرز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تربیت اور ماحول نے انہیں ہمیشہ ادب اور فن کی جانب راغب رکھا۔ ان کی تحریروں میں انسانی جذبات، نفسیات، اور انسانی تاریخ کی تلخیاں نمایاں طور پر جھلکتی ہیں۔ 1993 ء میں ان کی پہلی کہانیوں کی کتاب ''Love of Yeosu‘‘ شائع ہوئی، جو ان کے ادبی سفر کا آغاز تھا۔ ان کا اصل شہکار 2007 ء میں شائع ہونے والا ناول ''The Vegetarian‘‘ ہے جس نے انہیں عالمی سطح پر شہرت دلائی۔ اس ناول میں ایک خاتون کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گوشت کھانے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ بظاہر ایک سادہ فیصلہ لگتا ہے، لیکن کانگ نے اس بغاوت کے ذریعے انسانی جسم اور نفسیات کے گہرے پہلوں کو دریافت کیا۔ اس ناول کا تھیم ایک خاتون پر نفسیاتی اور جسمانی دبائو کے ساتھ ساتھ معاشرتی دبائو اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بغاوت ہے۔ اس کہانی نے نہ صرف ادبی دنیا میں ہلچل مچا دی بلکہ اس کی سادہ سی علامتی دنیا نے گہرے اور پیچیدہ موضوعات کو بڑی کامیابی سے پیش کیا۔ حال ہی میں ہن کانگ کو 2024 ء کا ادب کا نوبل انعام دیا گیا ہے جس نے ان کے ادبی دنیا میں مقام کو مزید مستحکم کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی وجود،دماغ اور تاریخ کے پیچیدہ مسائل کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا گیا ہے۔'' The Vegetarian‘‘ نے انسانی احساسات اور نفسیات کو کچھ اس طرح سے کھول کر سامنے رکھا کہ پڑھنے والا ان کے الفاظ کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہے۔ اس ناول نے دنیائے ادب میں بڑی مقبولیت حاصل کی، جس میں ایک عورت کے سماجی اور جسمانی پابندیوں سے نکلنے کی جدو جہد کو بیان کیا گیا ہے۔ ناول کی مرکزی کردار''یونگ ہی‘‘ معاشرتی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے گوشت کھانا چھوڑ دیتی ہے، جس سے وہ اپنے خاندان کی نظروں میں غیر معمولی بن جاتی ہے۔ یہ کہانی نفسیاتی اور سماجی حدود پر گہری نظر ڈالتی ہے اورانسانی خواہشات و مشکلات کا نہایت گہرا اور پیچیدہ تجزیہ کرتی ہے۔اس ناول کو 2016ء میں ''بکر ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ہن کانگ کی سوچ اور اقوال میں انسانی زندگی اور ادب کے گہرے معانی ملتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں''ادب ہمیں ہماری زندگی کی تلخیوں اور خوشیوں کا آئینہ دکھاتا ہے اور ہمیں خود کو پہنچاننے کا موقع دیتا ہے‘‘۔ان کے نزدیک ادب صرف ایک تخلیقی عمل نہیںبلکہ انسانی جذبات اور زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ہن کانگ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ 1980 ء کا ''گوانگجو قتل عام‘‘ تھا، جس نے ان کی شخصیت اور تحریروں پر گہرا اثر ڈالا۔ اس سانحے میں سیکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔ ان کا ناول ''Human Acts‘‘اسی سانحے پر مبنی ہے، جس میں انہوں نے انسانی جسم اور روح کے ربط اور اس کے ٹوٹنے کا المیہ بیان کیا۔ اس ناول میں انسانی تکالیف، تاریخ کی تلخیاں اور انسانی فطرت کے اندھیرے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ان کے کتاب ''دی وائٹ بک‘‘ (The White Book)ان کے اپنے جذباتی سفر پر مبنی ہے، جس میں مصنفہ اپنی زندگی کے غموں اور خوشیوں کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کرتی ہیں۔نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد ہن کانگ نے اپنی کامیابی کاجشن اپنے بیٹے کے ساتھ سادگی سے ایک کپ چائے پی کر منایا، جس سے ان کی عاجزی اور سادگی جھلکتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں سادگی کو ترجیح دی، اور ان کا یہ رویہ ان کی ادبی شخصیت میں بھی نمایاں ہے۔ہن کانگ کے ناول پر دنیا کے بڑے اخبارات اور ادیبوں نے بے شمار تبصرے کیے ہیں۔ ''نیو یارک ٹائمز‘‘ نے انہیں ''ادب کی دنیا کی ایک نایاب آواز‘‘قرار دیا، جبکہ ''دی گارڈین‘‘ نے ان کے کام کو ''شاعرانہ اور فلسفیانہ عمق کا نمونہ‘‘کہا۔ ہن کانگ کی ادبی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ ادب انسانی جذبات، تاریخ، اور نفسیات کی گہرائیوں میں جھانکنے کا ایک منفرد ذریعہ ہے۔ ان کی تحریریں ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ زندگی کی ناپائیداری اور انسانی تجربات کی شدت کو سمجھنے کیلئے ہمیں الفاظ اور احساسات کی دنیا میں جانا ہوگا۔ ہن کانگ کا منفرد اسلوب ہمیں ہمیشہ انسانیت اور تاریخ کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا رہے گا۔