مادام تسائو مومی عجائب گھر
سنگ تراشی تو دنیامیں زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے لیکن موم کو انسانی قالب کی شکل دینا کمال کا کام ہے۔ اس فن کو فرانس میں 1761 ء میں پیدا ہونے والی مادم تسائو نے عروج تک پہنچایا ہے اور آج لندن کے علاوہ دنیا کے25 شہروں میں مادام تسائو کے نام سے مومی عجائب گھر موجود ہیں۔ لندن میں مادام تسائو نے1835ء میں پہلا مومی عجائب گھرقائم کیا۔
میری تسائو کی والدہ سوئٹزر لینڈ کے شہر برن میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کے ہاں ملازمہ تھی۔ وہ ڈاکٹر ایک ماہر موم تراش بھی تھا۔ مادام تسائو نے مومی مجسمہ سازی کا فن اسی ڈاکٹر سے سیکھا۔ مادام تسائو نے 16 سال کی عمر میں پہلا مجسمہ فرانس کے مشہور فلاسفر اور لکھاری والٹیئر کابنایا۔ اس کے بعد اس نے روسو بنجمن فرینکلن کے علاوہ کئی مشہور افراد کے موم کے مجسمے بنائے۔ مادام تسائو 17 سال کی عمر میں فرانس کے بادشاہ لوئیس XVI کی بہن کی ٹیوٹر بن گئی۔ بعد میں انقلاب فرانس شروع ہوا تو اس شاہی خاندان کے ہمراہ نہ صرف تین ماہ کیلئے پابند سلاسل کردیا گیا بلکہ پھانسی پانے والوں کی فہرست میں بھی شامل کرلیا گیالیکن اس کے ایک بااثر دوست کی کوششوں سے اسے رہا کر دیا گیا۔ ڈاکٹر کرٹیوس کے 1794ء میں وفات پا جانے کے بعد اس کے مومی ماڈلوں کا وسیع ذخیرہ مادام تسائو کو ورثہ میں ملا۔
مادام تسائو کو 1802ء میں لندن سے اس کے فن کی نمائش کیلئے دعوت نامہ ملا۔ مادام تسائو نے اپنے فن کی نمائش پورے برطانیہ میں کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے فن میں نکھار آتا گیا۔ عوام نے اس کے فن کو خوب سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔ اس نے لندن کی ہیکر سٹریٹ میں اپنا گھر بنا لیا اور وہیں اپنا میوزیم قائم کرلیا۔ 1835ء میں قائم ہونے والا یہ موم کا پہلا میوزیم تھا۔ برطانیہ میں مادام تسائو کے اس فن کو بہت شہرت ملی۔ 16 اپریل 1850ء کو مادام تسائو کا 89ء برس کی عمر میںلندن میں انتقال ہوا۔ آج مادام تسائو کا قائم کردہ میوزیم اسی کے نام سے مشہور ہے۔
آج تقریباً 300 سے زائد کی تعداد میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے موم کے بنائے ہوئے مجسمے اس میوزیم میں موجود ہیں۔ ان شخصیات کا تعلق سیاست ، عالمی سطح کے لیڈر ، فلم ، کھیل ، ادب ، میوزک ، ٹی وی ، سٹیج اداکار اور شاہی خاندان سے ہے۔ مادام تسائو کے میوزیم کو1925ء میں لگی آگ سے شدید نقصان پہنچا۔ جنگ عظیم دوم میں جرمنوں کی بمباری سے لندن شہر کے باقی حصوں کی طرح اس میوزیم کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ بعد میں اسے مرمت کردیا گیا۔
مادام تسائونے اپنا ذاتی مجسمہ بھی بنایا جو میوزیم کے داخلی دروازہ کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ مادام تسائو کا مومی میوزیم لندن کی بہت بڑی تفریح گاہ بن چکا ہے۔
اس میوزیم کے مغربی جانب لندن پلنٹیریم موجود ہے۔ اب دنیا کے کئی شہروں میں مادام تسائو میوزیم کی کئی شاخیں کھل چکی ہیں جن میں ایمسٹرڈیم، بنکاک، ووہان، برلن، دبئی، شنگھائی، لاس ویگاس، ماسکو، نیویارک، ہالی ووڈ، ہانگ کانگ، ہیمبرگ، ویانا، واشنگٹن، ڈی سی، بیجنگ اور لینڈو، سان فرانسسکو، سڈنی، استنبول، دہلی، ٹوکیو سنگا پور، کوالالمپور، بوڈاپسٹ اور پراک شامل ہیں۔ لندن کے مادام تسائو میوزیم میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا مجسمہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ عالمی شہرت کی حامل جن شخصیات کے مجسمے یہاں رکھے ہیں ان میں چند کے نام یہ ہیں۔ ایڈولف ہٹلر، ونسٹن چرچل، امیتابھ بچن، مصطفی کمال اتاترک، لیڈی ڈیانا، جارج واشنگٹن، میڈونا، مارلن منرو، ماہتما گاندھی، نیلسن منڈیلا، پوپ جان پال دوم، ٹونی بلیئر، ولیم شیکسپیئر، آندرے آگاسی، شاخ رخ خان، سلمان خان، چارلی چیپلن، الزبتھ ٹیلر، ملکہ الزبتھ دوم، برنس فلپس، نپولین بوناپاٹ، پرنس چارلس (موجودہ بادشاہ) پرنس کمیلا، جان ایف کینیڈی، آئزک نیوٹن، اندرا گاندھی، بل کلنٹن، ہیلری کلنٹن، بل گیٹس، بروس لی، دلائی لامہ، کپل دیو، کرینہ کپور، لی کوان یو، تھامس ایڈیسن، ولادی میر ی پوٹن، نیل آرم سٹرانگ، ملکہ وکٹوریہ، پرنس ولیم، پرنس ہیری اور یاسر عرفات۔
عمومی طورپر ایک مجسمہ تیار کرنے میں چار ماہ صرف ہوتے ہیں جن کا کام کا دورانیہ350 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ بے شمار پیمائش اور200 کے قریب فوٹو درکار ہوتی ہیں۔ بنانے والے ماہر فنکار کو کو ئی ویڈیو اور فوٹو گراف کا عمیق مشاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ سرکا ایک ایک بال علیحدہ علیحدہ چسپاں کرنا پڑتا ہے اور سر کیلئے تقریباً ایک لاکھ بال لگائے جاتے ہیں، جس کیلئے پانچ ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈورے میں لال ریشمی دھاکہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مادام تسائو کے تمام مجسمے کمپنی کے لندن میں قائم سٹوڈیوز میں بنائے جاتے ہیں۔