آلودگی کا بم:اسموگ
چند برس پہلے تک اسموگ ہمارے یہاں ایک نیا لفظ تھا لیکن اب بچہ بچہ اس لفظ سے تو آگاہ ہے لیکن اس کے خوفناک مضمرات سے ابھی آگاہی موجود نہیں۔ یورپ امریکا، چین، بھارت اور بعض افریقی ممالک میں کئی برسوں سے اس حوالے سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
2016ء کے نومبر کے اوائل میں لاہور اور وسطی پنجاب کے متعدد شہر اسموگ یا آلودہ دھند کی لپیٹ میں آگئے۔شروع شروع میں تو اس کو دھند ہی سمجھا جاتا رہا اور سردی کی آمد کا اعلان سمجھ کر گرم کپڑے نکالنے شروع کر دیے لیکن جب سردی کا احساس ہونے کے بجائے آنکھوں سے پانی نکلنا شروع ہوا تو ایسا لگا کہ لاہور کا ہر شہری ابھی رو دے گا۔ بعض سرخ آنکھوں کے ساتھ ساتھ کھانس بھی رہے تھے تب معلوم ہو کہ سردی کی آمد نہیں بلکہ آلودگی کا حملہ ہے۔''اسموگ فوگ‘‘ یعنی دھند اور سموک مطلب دھویں سے ماخوذ ایک اصطلاح ہے۔ اس کی ظاہری شکل لاہور اور گرد و نواح کے شہری اپنی نظروں سے کئی برسوں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں۔ اردو میں ہم اسے گرد آلود دھند یا آلودہ دھند بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیمیائی طور پر اس میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلانے سے نکلنے والا دھواں مثلا بھٹوں سے نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے اسموگ کی وجہ سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔
اسموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے چین میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افراد سموگ کی وجہ سے جان ہار بیٹھتے ہیں، وہاں 17 فیصد اموات سموگ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسموگ میں زیادہ وقت گزارنے سے مختلف طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جیسا کہ سانس لینے میں دشواری، کھانسی یا گلے اور سینے میں جلن: صرف چند گھنٹوں میں ہی اسموگ آپ کی پھیپھڑوں کی داخل ہو کر جلن پیدا کر سکتی ہے، تاہم اگر جلن نہ بھی ہو تو یہ آپ کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اسموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر گہرے سانس لینا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ دمہ کے مریض ہیں تو اسموگ میں باہر جانا آپ کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ آنکھوں میں جلن اور چبھن،بعض اوقات گہری اسموگ میں زہریلے مادے آنکھوں میں جلن اور چبھن پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو سکتی ہیں اور آنسو بہہ سکتے ہیں۔موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پنجاب کے متعدد علاقے سموگ کی لپیٹ میں ہیں،محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ کئی روز تک بارش ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ ڈی جی میٹ کے مطابق یہ دھند دسمبر تک جاری رہ سکتی ۔
یہ مضر صحت ہونے کے علاوہ یہ اسموگ ٹریفک حادثات کا سبب بھی بنتی رہی ہے آج ہی حکومت نے دفاتر اور تعلیمی اداروں کے اوقات تبدیل کرنے کے احکامات جاری دیے ہیں۔اسموگ سب سے زیادہ آنکھوں پر اثر انداز ہو رہی ہے جس کی وجہ سے آنکھوں میں جلن اور خارش کا احساس ہوتا ہے،خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور کھلے مقامات پر کام کرنے والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اسموگ میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر ذرات شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں لاہور اور کراچی میں اب یہی صورتحال پیدا ہورہی ہے اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپڑوں کی بیماریاں عام پھیل رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ملک کے بیشتر علاقے اس گرد آلود دھند کی لپیٹ میں ہیں۔حیرت کی بات یہ تھی کہ زیادہ تر لوگ اس کو دھند سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں اور یہی ہماری قوم کا بحثیت مجوعی مزاج بھی ہے۔ خطرہ ہمارے سامنے ہوتا ہے لیکن ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوتی ہیں ۔ اب ہمیں بہت سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ خطرہ اب ہمارے سروں پر آن پہنچا ہے،حکومت کو اب آلودگی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپنے رویے بدلنے ہوں گے، تب جا کر ہم اس خوفناک حد تک خطرناک صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔چین، جو کہ پاکستان کی طرح آلودگی کے مسئلے کا شکار رہا ہے، نے حالیہ برسوں میں اسموگ پر قابو پانے کیلئے منفرد اقدامات کیے ہیں۔
''اسموگ ٹاورز‘‘
چین نے اسموگ ٹاورز کا منصوبہ شروع کیا ہے، جو ہوا کو صاف کرنے کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان ٹاورز کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آلودہ ہوا کو فلٹر کر کے صاف ہوا فراہم کی جائے۔ بیجنگ اور زیان جیسے شہروں میں ان ٹاورز کی کامیاب آزمائش کے بعد مزید شہروں میں بھی یہ ٹاورز نصب کیے جا رہے ہیں۔ یہ ٹاورز ہوا کو فلٹر کر کے فضائی آلودگی کی شرح میں کمی لاتے ہیں اور لوگوں کو بہتر معیار کی ہوا فراہم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔پاکستان میں بھی اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے اسموگ ٹاورز کی طرز پر جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ یہ ٹاورز بڑے شہروں میں آلودگی کو کم کرنے اور ہوا کو صاف کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ چین کے کامیاب تجربات کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے منصوبوں پر غور کرے اور انہیں مقامی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور حکومت کی جانب سے مؤثر پالیسیوں کا نفاذ سموگ کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
احتیاطی تدابیر
٭... ماسک کا استعمال کریں۔
٭...چشمے کا استعمال کریں کیونکہ اسموگ آنکھوں کے مختلف امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔
٭... کانٹیکٹ لینز کی بجائے نظر کی عینک کو ترجیح دیں۔
٭... زیادہ سے زیادہ پانی پئیں اور گرم چائے کا استعمال کریں۔
٭...باہر سے گھر آنے کے بعد ہاتھ ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو صابن سے دھوئیں۔
٭...گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔
٭...کھڑکیوں اور دروازوں کے کھلے حصوں پر گیلا کپڑا یا تولیہ رکھیں۔
٭...گاڑی چلاتے ہوئے رفتار دھیمی رکھیں، حد نگاہ کم ہونے پر فوگ لائٹس استعمال کریں۔
٭...تعمیراتی سائٹس پر گردو غبار کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔
٭ ...جنریٹرز اور زیادہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کو ٹھیک کروایا جائے۔