شاید بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں ''جزیرہ‘‘ اور ''جزیرہ نما‘‘ کا فرق پتہ نہ ہو۔ بہرحال آپ کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے بتاتے چلیں کہ جزیرہ چاروں طرف پانی سے گھرا قطعۂ زمین ہوتا ہے جبکہ جزیرہ نما، تین اطرف پانی سے گھرا ہوتا ہے جبکہ چوتھی طرف خشکی ہوتی ہے۔ کرۂ ارض پر سب سے بڑا جزیرہ نما ''خطہ عرب‘‘ ہے جسے ایک زمانے میں جزیرہ العرب یا عربستان بھی کہا جاتا رہا ہے۔یہ جزیرہ نما تین براعظموں یورپ ، افریقہ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جزیرہ نما ان خطوں سے خشکی اور سمندری دونوں راستوں سے جڑا ہوا ہے۔اس جزیرہ نما کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا کل رقبہ تقریباً 31 لاکھ مربع کلومیٹر بنتا ہے جو بالحاظ ہجم براعظم یورپ کے کل رقبے کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ اس کے مغرب میں بحر احمر، مشرق میں خلیج عربی خلیج فارس اور جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہیں۔ اگر آپ جزیرہ نما عرب کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو یہ ایک بے ترتیب مستطیل کی شکل نظر آئے گا۔ جس کے شمالی حصے میں سر زمین فلسطین، شام کا صحرائی علاقہ اور عراق کے کچھ علاقے نظر آئیں گے جبکہ اس کے مشرقی اطراف دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان وادی میسوپیٹیما اور خلیج فارس کے کچھ علاقے نظر آتے ہیں۔اسی طرح اس کے جنوبی حصے میں بحیرہ ہند اور خلیج عدن واقع ہیں۔خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےﷺ کی بعثت کے وقت عرب کے شمال مغرب میں سلطنت روم کی حدودملتی تھیں ، جبکہ شمال مشرق میں سلطنت فارس اور عرب کے مشرق میں الحیرہ کی بادشاہت قائم تھی۔ اگر بات دنیا کے موجودہ نقشے کی، کی جائے تو جزیرہ نما عرب کو ایک عظیم صحرائی پٹی کا ایک ایسا حصہ سمجھا جاتا ہے جو بحیرہ اوقیانوس سے شمال مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب سے ہوتے ہوئے جنوب مغربی ہندوستان کے صحرائے تھر تک پھیلا ہوا ہے۔ جغرافیائی صورت حال زمانۂ قدیم میں لوگ مکہ مکرمہ کو ''ناف ارض‘‘ یعنی زمین کا مرکز کہا کرتے تھے۔یہ لقب بلا سبب نہیں تھا بلکہ خطۂ عرب کو اپنے محل وقوع اور تجارتی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل تھی۔جغرافیائی لحاظ سے جزیرہ نما عرب اور صحرائے شام ایک ہی سلسلے کی ایک ایسی کڑی دکھائی دیتے ہیں جو شمال میں بغیر کسی سرحدی لکیر کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ البتہ ان دونوں خطوں کے درمیان یہاں ایک تصوراتی لکیر مغرب میں خلیج عقبہ سے مشرق میں وادی دجلہ وفرات تک ہے ، جسے عرب کی شمالی سرحد سمجھا جاتا ہے جبکہ صدیوں سے یہاں آباد لوگ سعودی عرب اور کویت کی شمالی سرحدوں کو بھی عرب کہ حد سمجھتے ہیں۔ ارضیاتی علوم اور ماہرین آثارقدیمہ کہتے ہیں جزیرہ نما عرب، دراصل جنوب مغربی ایشیا کی ایک ارضیاتی تشکیل ہے، قدیم جوراسک دور (145.5ملین سال سے199.6 ملین سال قبل کا دور) میں ہی بحر ہند کے گہرے سمندر اور خلیج فارس کی۔پٹی نے عرب کو خطۂ ہند اور خطۂ فارس سے جدا کر کے ایک جزیرہ نما کی شکل دے دی تھی۔اس دور کی پہاڑی تشکیل آج بھی عمان کی ساحلی پٹی پر موجود ہے۔تہذیب و تمدن جزیرہ نما عرب بنیادی طور پر ایک وسیع و عریض صحرا، لق و دق اور بے آب و گیاہ ریتلے چٹیل میدانوں،پہاڑوں اور بیابانوں پر مشتمل ایک تہذیب کا نام تھا۔ جس میں آپ کو کہیں کہیں بہت کم سرسبز و شاداب لہلہاتے کھیت جبکہ مغربی اور جنوبی سمت بلند و بالا پہاڑی سلسلے بھی سر اٹھائے نظر آتے ہیں۔یہ خطہ دنیا بھر میں اپنے گرم ترین درجۂ حرارت کی الگ ہی شہرت رکھتا تھا کیونکہ حد نگاہ ہزاروں میل پھیلے ریت کے صحرائی سلسلے کے علاوہ یہاں کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔مورخین کے مطابق شاید یہاں کا سخت اور خشک موسم اور آب وہوا کی وجہ سے عربوں کے علاوہ یہاں باہر سے کوئی اور آ کر آباد ہونا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ ابتدائی ادوار میں یہاں کے لوگ صحرائی خانہ بدوش کہلاتے تھے۔جس کی وجہ سے کبھی کسی ریاست نے عرب کے ان صحرائی لوگوں پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں غربت نے بھی پنجے گاڑھے ہوئے تھے،جس کی وجہ سے یہاں ترقی اور خواندگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس خطے میں یہی وہ پراسرار صحرا ہیں جہاں ان کی خاک تلے ہزاروں سالوں سے اپنے وقتوں کی شاندار تہذیبیں دفن ہی نہیں بلکہ دنیا کیلئے نشان عبرت بن چکی ہیں۔جن میں عرب بائدہ کے قبائل(قدیم ترین عرب قبائل )، عاد ، ثمود ، طسم، جدیس، عمالقہ اور جرہم جیسی بڑی قومیں شامل ہیں جنہیں گردش دوراں نے نیست و نابود کر ڈالا تھا۔ مورخین کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کی عرب تہذیب و تمدن نے انسانی تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔اس کے مقابلے میں اس زمانے میں یونان کی تہذیب انسانی اقدار کی نشوونما میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔مورخین اس حقیقت پر بھی متفق ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ عرب کلچر اور ثقافت کو جہالت کی دنیا سے نکالنے میں اسلام کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔دراصل اسلام سے پہلے کے عرب میں قبائلی سماج تھا ، ہر قبیلے کا اپنا بت تھا اور ہر قبیلہ اپنے اپنے بتوں کی پوجا کیا کرتا تھا۔جہالت کا یہ عالم تھا کہ ہر قبیلہ اکثر دوسرے قبیلے سے برسر پیکار رہتا تھا جس کی وجہ سے ان قبائل میں اتحاد یا اتفاق کا تصور نہ ہونے کے سبب یہ علاقہ ایک لمبے عرصے تک مکمل ریاست کی شکل اختیار نہ کر سکا۔خطہ عرب میں تجارت کی شروعاترفتہ رفتہ عربوں نے تجارت کو رواج دیا اور پھر تجارت ہی اس خطے کا سب سے بڑا ذریعۂ معاش بن گیا۔ قدیم عرب قبائل خشک اور بے آب و گیاہ صحرا کے باسی تھے اس لئے وہ محدود معاشی اور تجارتی وسائل رکھتے تھے۔جس کیلئے انہیں دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا۔ عربوں کے بارے مشہور ہے کہ یہ تجارت کیلئے کرہ ٔارض کے ہر اس حصے تک گئے جہاں تک ان کی رسائی ممکن ہو سکتی تھی۔یہ زمینی اور بحری دونوں راستوں سے سفر کیا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ بحرہ روم کی بحری تجارت مکمل طور پر عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی تجارت چین ، سری لنکا ، ہندوستان ، مصر ، یونان اور افریقہ تک پھیل چکی تھی۔ قدیم زمانے کے حوالے سے تاریخ کی کتابوں میں عربوں کی تجارت کا ذکر متعدد جگہوں پر ملتا ہے۔ عربوں کی تجارت کا سراغ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے بھی پہلے کے ادوار میں ملتا ہے۔ایک قدیم روایت کے مطابق 2096 قبل مسیح میں جن تاجروں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں سے خرید کر مصر کے رئیس کے ہاتھ فروخت کیا تھا وہ عرب کے اسماعیلی قبائل کے تاجروں کا قافلہ تھا جن کا تعلق مدین سے تھا۔