ٹیلی ویژن سے قبل اردو ڈرامے کی تاریخ
اسپیشل فیچر
ہندوستان میں اردو ڈرامہ کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے ناقدین آپس میں متفق نہیں ہیں۔ اردو نے بھی ہندوستان سے جنم لیا ہے، بالکل اسی طرح اردو ڈراما نے بھی ہندوستان کی کسی سرزمین سے آنکھ کھولی ہے۔ سنسکرت زبان میں لکھے جانے والے ڈرامے اس بات کی دلیل ہیں کہ اردو ڈرامے کا آغاز سب سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں ہوا۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں ڈرامہ نگاری کا فن یونان سے قبل پھوٹا سنسکرت زبان میں بہت اچھے ڈرامے لکھے گئے جن میں رام لیلا ، بھگت وغیرہ شامل ہیں۔
بھانڈ اور نقالوں کا کام زبان سے نقل اتارنا ہوتا تھا۔ وہ اپنی حرکات و سکنات سے لوگوں کے اندر قہقہے بکھیرتے تھے۔ درباروںاور میلوں میں بھانڈ نقال اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ لکھنؤ میں فنون لطیفہ پروان چڑھا دلی اور اودھ کے فنکاروں نے بھی لکھنؤ کا رخ کیا۔ نوٹنکی سوانگ نقالی اور داستان گوئی کی سرپرستی کے سبب ان فنون نے عروج پکڑ ا۔ اسی ماحول کے پیش نظر لکھنؤ میں شاہی اور عوامی ماحول پیدا ہوا۔
اودھ کے حاکم واجد علی شاہ فنون لطیفہ کے قدر شناس تھے۔ انہوں نے رقص کے لیے پری خانہ کے نام سے ایک جلسہ گاہ بنا رکھا تھا۔ پری خانہ میں نہایت خوبصورت مستورات ملازمت کرتی تھیں۔ واجد علی شاہ خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس کے بعد رئیس کا نام آتا ہے۔ رئیس ناٹک کی شکل میں کرشن کنھیا اور رادھا گوپیوں کے ساتھ مل کر ناچتے گاتے نظر آتے۔ اس کے بعد ناٹک کی شکل میں سلطان نے رادھا کنھیا کا قصہ لکھا جو قیصر باغ میں فلمایا گیا جو بہت کامیاب رہا۔ اس کے بعد واجد علی شاہ نے ناٹک لکھنے شروع کیے جو سٹیج بھی کیے گئے۔ واجد علی شاہ جب معزول ہوئے تو مٹیا برج کلکتہ میں جلاوطنی کے زمانے میں بہت سے ناٹک لکھے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ واجد علی شاہ اردو ڈرامہ نگاری کے معمار ہیں۔ اس کے بعد سید آغا حسن امانت لکھنوی کا نام آتا ہے۔ جنہوں نے نواب واجد علی شاہ کے دور اقتدار میں آنکھ کھولی اور اندر سبھا کی تخلیق کا موجد ٹھہرے۔ اندر سبھا کو عوامی سطح کا ناٹک کہا جاتا ہے۔
اردو تھیٹر ڈرامے کا دور
برصغیر پاک و ہند میں اردوتھیٹر کا دور سترھویں اور اٹھارویں صدی سے شروع ہوتا ہے۔ 14نومبر 1853ء کو ہندو ڈرامیٹک کور کے اہتمام یہ ڈرامہ پیش کیا گیا۔ یہ بمبئی کے اردو تھیٹر کی ابتدا تھی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں بمبئی میں انگریزوں نے قدم جما لیے تھے۔ انہوں نے اپنی دلچسپی کیلئے کلکتہ کے بعد بامبے تھیٹر قائم کیا، جس میں انگریزی ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔ جب اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو ہندوستانی سرمایہ داروں نے اسے تجارت کا نیا ذریعہ سمجھا اور ہندو ڈرامیٹک کے نام سے ایک کمپنی تخلیق کی۔ پہلے ایک مراٹھی ڈرامہ پھر گجراتی اور اس کے بعد راجہ گوپی چند کے نام سے لکھا۔
آغا حشر کا پہلا ڈرامہ '' آفتاب محبت‘‘ تھا جبکہ ان کے دیگر ڈراموں میں ''مرید شک‘‘، ''مار آستین‘‘، ''اسیر حرص‘‘، '' شہید ناز‘‘،'' سفید خون‘‘ ''خواب ہستی‘‘ اور'' خوبصورت بلا‘‘ شامل ہیں۔ ان کا آخری ڈرامہ ''رستم سہراب‘‘ ہے جو فارسی کے مشہور شاعر فردوسی کی مشہور مثنوی شاہنامہ کے ایک واقعے سے ماخوذ ہے۔
اردو ادب کے اگر بہترین ڈراموں کی چھانٹی کی جائے تو رستم سہراب ان میں سے ایک ہے۔ آغا حشر سے پہلے آرام ظریف رونق اور احسن کے نام آتے ہیں ۔ انہوں نے مغربی ڈراموں سے استفادہ کیا تھا، ان کے ڈراموں میں اشعار اور گانے کم اور نثری مکالمات زیادہ ہیں۔
اردو ڈرامہ بیسویں صدی میں
اردو ڈرامہ ترقی کی جانب رواں دواں تھا، ناطق فلموں کا آغاز ہوا تو تماشائیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ شرر، نیاز فتح پوری، عبدالماجد دریا آبادی نے ادبی ڈرامے لکھے۔ ان میں سرفہرست شرر ہیں، جنہوں نے کل چھ ڈرامے لکھے۔ میوہ تلخ، شہید وفا ،شکنتلا شامل ہیں۔ ادبی ڈرامہ نگاروں میں مولاناظفر علی خان، آرزو لکھنوی، عابد حسین بھی شامل ہیں۔ امتیاز علی تاج کا ''انارکلی‘‘ شہرہ آفاق کا درجہ رکھتا ہے۔
مرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی ہے۔ مرزا صاحب نے شاعری سے تخلیقی سفر کا آغاز کیا پھر افسانہ نگاری کی جانب مائل ہوئے ۔افسانہ نگاری سے بھی طبیعت اچاٹ ہوگئی تو ڈرامہ نگاری کی طرف رخ کیا ۔ان کے ڈراموں میںآنسو اور ستارے لہو اور قالین ستون فصیل شب پس پردہ خاک نشین چین وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے بعد خواجہ معین الدین کا نام آتا ہے۔ خواجہ صاحب نے تعلیم بالغاں کے نام سے ڈرامہ تحریر کیا، یہ ڈرامہ بہت بار فلمایا گیا۔ اس کے بعد خواجہ صاحب نے مرزا غالب بندر روڈ پر اسٹیج کیا۔ پاکستان بننے کے بعد اسٹیج ڈرامہ زوال کا شکار ہو گیا۔ اگرچہ کچھ تعلیمی اداروں میں ڈرامے سٹیج کئے جاتے رہے لیکن مغرب اور پڑوس ملک میں اسٹیج ڈرامے کی جونظیر ملتی ہے وہ مثال وطن عزیز میں قائم نہ ہوسکی۔
ریڈیو ڈرامہ
برصغیر پاک و ہند میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہونے کے بعد ریڈیو ڈرامے نشر ہونے لگے۔ شروع میں مغرب کی کہانیوں اور مختلف داستانوں سے اخذ کر کے ڈرامے تخلیق کیے گئے گئے پھر مختلف افسانوں کو ریڈیائی شکل میں لایا گیا۔ جن میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، قیوم نظر، امتیاز علی تاج، ممتازمفتی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لکھاری ایسے ہیں جن کا نام لینا ناگزیر ہے ،جن میں یوسف ظفر، شاہد احمد دہلوی، محمود نظامی، حفیظ جاوید، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، شاطر غزنوی، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، سلیم صدیقی،اے اے حمید، بانو قدسیہ، آغا بابر، مرزا ادیب، ضیاء سرحدی، جاوید اقبال، اطہر شاہ خان شامل ہیں۔
سعادت حسن منٹو بھی آل انڈیا ریڈیو کے ملازم رہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کو ڈرامائی تشکیل کی۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ''منٹو کے ڈرامے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ اوپندر ناتھ اشک نے یک بابی ڈراموں میں نام کمایا۔ کرشن چندر اگرچہ افسانہ نگار مشہور ہیں لیکن ان کے ڈراموں میں نچلے طبقے کے لوگوں کے دکھ اور تکلیفوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قیوم نظر اور آغا بابر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔
اشفاق احمد اور ان کی زوجہ بانو قدسیہ نے بھی ریڈیائی ڈراموں میں نام کمایا۔ خدیجہ مستوراور ہاجرہ مستورکا قلم بھی ڈرامے تحریر کیے بغیر نہ رہ سکا۔ٹی وی کے آنے سے ریڈیائی ڈرامہ زوال کا شکار ہوا۔ اگرچہ ریڈیائی ڈراموں کی کہانیاں معیاری ہوتی تھیں۔