یادرفتگاں: بیگم خورشید مرزا ریڈیو،ٹی وی اور فلم کی ممتاز اداکارہ

اسپیشل فیچر
بیگم خورشید مرزا جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا تقسیم ہند سے قبل رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہوئیں اور پاکستان بننے کے بعد سرکاری ٹی وی کی ممتاز فنکارہ کے طور پر جانی گئیں۔ 8 فروری 1989 کو لاہور میں وفات پانے والی بیگم خورشید مرزا کو ناظرین ''اکا بوا‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے تھے۔ اُس دور میں شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے اُن کے یادگار ڈرامے ''کرن کہانی‘‘، ''زِیر زبر پیش‘‘، ''انکل عرفی‘‘، ''پرچھائیں‘‘، ''رومی‘‘، ''افشاں‘‘ اور' 'انا‘‘ نہ دیکھے ہوں۔ لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ بیگم خورشید مرزا کا تعلق برصغیر کے کتنے معروف علمی، ادبی اور ثقافتی خانوادے سے تھا۔
بیگم خورشید مرزا 4مارچ 1918ء کو برٹش انڈیا دور میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں اور ان کا نام خورشید جہاں تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ بیرسٹر تھے، جنہوں نے علی گڑھ گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کی والدہ وحیدہ جہاں تھیں۔ بیگم خورشید جہاں کا گھرانہ علی گڑھ کے پڑھے لکھے گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشیدہ تھیں جو انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی اراکین میں سے تھیں اور ان کی دوسری بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔
خورشید جہاں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی۔ سکول کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے انڈیا کے مختلف تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم کی سندیں حاصل کیں۔ 1934ء میں ان کی شادی دہلی کے ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی اور وہ بیگم خورشید مرزا کہلائیں۔ ان دنوں فلموں کی اداکارائوں کو زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
رینو کا دیوی( بیگم خورشید مرزا) کی پہلی فلم ''جیون پرابھت‘‘ کے نام سے 1937ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ''بھابی‘‘ تھی جو 1938ء میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی۔ یوں بیگم خورشید پورے انڈیا میں رینوکا دیوی کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ اس فلم میں وہ ہیروئن تھیں۔ فلم ''نیا سنسار‘‘ بھی ان کی ایک سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے ہیرو اشوک کمار تھے اور ہیروئن رینو کا دیوی (بیگم خورشید مرزا) تھیں۔ فلم ''سنسار‘‘ کے ہدایتکار این آر اچاریہ تھے۔ اس فلم میں بھی رینوکادیوی نے کئی گانے گائے تھے۔
1941ء کی یہ سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم کے بعد رینوکا دیوی (بیگم خورشید مرزا) نے بمبئی کو خیر باد کہا اور لاہور آئیں۔1943ء میں لاہور سے زینت بیگم فلمز کی جانب سے ان کی ایک فلم ''سہارا‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔
1947ء میں پاکستان وجود میں آیا اور رینوکادیوی اپنا نام اور فلمیں انڈیا میں چھوڑ کر پاکستان آ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد کافی عرصہ تک ان کا نام ہندوستان میں گونجتا رہا اور وہاں کے شائقین فلم رینو کادیوی کو یاد کرتے رہے، مگر رینوکادیوی پاکستان آ گئیں اور یہاں بیگم خورشید مرزا کے نام سے معروف ہوئیں۔
ابتدا میں بیگم خورشید مرزا ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہیں اور اپنے پروگراموں میں غریب پسماندہ علاقوں کے مسائل پر روشنی ڈالتی رہیں مگر انہوں نے یہاں کی فلمی صنعت جوائن نہیں کی، کیونکہ یہاں کی فلموں کی تباہ حالی اوراداکارائوں کی عزت کا معیار ان کے حساب سے توہین آمیز تھا، اس لئے انہوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور ریڈیو کے ذریعے حق کی آواز بلند کرتی رہیں۔
1964ء میں سرکاری ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں آیا اور اس میں خواتین بھی پڑھی لکھی تھیں، اس میں شمولیت اختیار کی۔ بیگم خورشید مرزا کا پی ٹی وی پر پہلا ڈرامہ سیریل ''کرن کہانی‘‘ کے نام سے تھا، جس کو حسینہ معین نے تحریر کیا تھا۔70ء کی دہائی میں بیگم خورشید مرزا سرکاری ٹی وی کی معروف فنکارہ بن گئیں۔1974ء میں ان کی ڈرامہ سیریل ''زیر، زبر، پیش‘‘ تھی۔ یہ کامیڈی ڈرامہ تھا، جس کی پروڈیوسر شیریں خان تھیں۔ کہانی حسینہ معین نے لکھی تھی۔1974ء ہی میں ان کا ایک اور ڈرامہ ''انکل عرفی‘‘ کے نام سے شروع ہوا جو کافی مقبول ہوا۔ اس کے بعد ان کے بے شمار ڈرامے پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہوئے۔1984ء میں ان کی ڈرامہ سیریل ''انا‘‘ پیش کی گئی جو بہت مقبول ہوئی۔ کراچی سینٹر کی یہ سیریل 21اقساط پر مشتمل تھی۔ ان کے دیگر معروف ڈراموں میں شمع، افشاں، عروسہ، رومی، شوشہ، پناہ، دھند اور ماسی شربتی وغیرہ شامل ہیں۔
1982ء میں بیگم خورشید مرزا نے اپنی خود نوشت ایک مقامی میگزین میں 9اقساط میں لکھی جو ہر ماہ شائع ہوئی تھیں۔ ان سوانح حیات میں انہوں نے برطانوی دور حکومت میں اپنی تعلیم زندگی، ازدواجی زندگی اور بھارتی فلموں میں ان کی اداکاری پر تفصیلی نوٹ لکھا جو بعد میں ان کی بیٹی لبنیٰ کاظم نے ترتیب دیا جوA Woman of Substance: The Memoirs of Begum Khurshid Mirza, 1918-1989کے نام سے شائع ہوا۔ بیگم خورشید مرزا نے بہت سماجی خدمات بھی انجام دیں، ان میں ''اپوا‘‘ (Apwa) ''آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‘‘ ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 1985ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ بیگم خورشید مرزا کا انتقال 8 فروری 1989ء کو لاہور میں ہوا ۔اور ان کی تدفین میاں میر قبرستان لاہور میں کی گئی۔