''وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا۔۔!‘‘پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر فن مولا فنکار کی آج 20ویں برسی ہےاداکاری کے مخصوص انداز سے شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے اداکا ررنگیلا کو بچھڑے 20 برس بیت گئے، فلموں میں 42سال تک ہنسانے والے رنگیلا فلم انڈسٹری کا اثاثہ تھے۔آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے بطور ورسٹائل اداکار، پروڈیوسر، ہدایتکار، مصنف، نغمہ نگار، گلوکار اورموسیقار خدمات سر انجام دیں۔ایک ایکسٹرا اداکار سے چوٹی کا مزاحیہ اداکار بننے والے اس عظیم فنکار نے وہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ اسے کچھ کہنے ، کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کیونکہ فلم بین اسے دیکھتے ہیں ہنس پڑتے تھے۔جب اس نے فلم بنانے کا اعلان کیا تو لوگ اسے بھی مذاق ہی سمجھے لیکن جب1969ء میں اس نے بطور فلمساز ، ہدایتکار اور مصنف ، فلم '' دیا اور طوفان‘‘ بنائی تو ناقدین حیران رہ گئے ۔ اوپر سے بطور گلوکار بھی اس کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا اور ''گا میرے منوا گاتا جارے‘‘ ہر طرف گایا جانے لگا تھا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ یہ مشہورزمانہ گیت لکھا ہوا بھی ان کا اپنا تھا۔اس کے بعد جب اس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے فلمی نام پر فلم ''رنگیلا‘‘ بنائی تو اس میں وہ ہیرو بھی خود تھے۔ وہ شکل سے ہیرو لگتے ہی نہیں تھے لیکن کمال دیکھیے کہ پورا ملک ان کے حسن کے ترانے گنگنانے پر مجبور ہو گیا تھا کہ ''وے سب توں سوہنیا ، ہائے وے من موہنیا!‘‘ اس نے بطور موسیقار اور نغمہ نگار بھی تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا تھا۔یکم جنوری 1937ء کوخیبر پختونخواہ کے علاقے پاراچنار میں پیدا ہونے والے سعید خان نے رنگیلا کے نام سے شہرت پائی۔عملی زندگی کا آغاز باڈی بلڈنگ سے کیا، اس عظیم فنکارنے شروع میں کئی فلموں کے بورڈ تک بھی پینٹ کئے اور پھر اسٹیج کی ر اہ اختیار کرلی۔اپنے فلمی کریئر کا آغاز انہوں نے 1958 میں فلم ''جٹّی‘‘ سے کیا جس میں انہوں نے اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔1969ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دیا اور طوفان‘‘ میں بہترین مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ بطور رائٹر، گلو کار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر عوام کے سامنے آئے اور اپنی قابلیت منوائی۔رنگیلا پروڈکشن کے بینر تلے انہوں نے متعدد فلمیں بنائیں، ان کی مشہور فلموں میں رنگیلا، دل اور دنیا، کبڑا عاشق، عورت راج، پردے میں رہنے دو، ایماندار، بے ایمان، انسان اور گدھا اوردو رنگیلے‘‘ شامل ہیں۔ رنگیلا کی بطور ہدایتکار 21 فلمیں ہیں اور گیارہ گیارہ فلمیں بطور فلمساز اور مصنف تھیں۔ بطور موسیقار اور نغمہ نگار دو دو فلمیں تھیں۔بطور گلوکار 21 فلموں میں 32 گیت ملتے ہیں اور متعدد سپرہٹ گیت گائے تھے۔رنگیلا نے فلموں کے عام کامیڈین سے ہیرو شپ تک کا سفر انتھک محنت اور خداداد صلاحیتوں کے بل پر طے کیا، پردہ سکرین پر رنگیلا اور منور ظریف کی آمد فلم بینوں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔انہوں نے اپنے دور کی تمام ہیروئینوں کے مقابل مرکزی کردار ادا کئے، اس کے علاوہ بہترین اداکاری اور دیگر شعبوں میں شاندار کاکردگی پر 9 مرتبہ نگار ایوارڈ بھی انہوں نے اپنے نام کیے۔اداکاری ہو یا گلوکاری رنگیلا نے ہر شعبے میں اپنے آپ کو منوایا۔بیالیس برسوں پر محیط کریئر میں چھ سو سے زائد فلموں میں فن کے جوہر دکھائے اور متعدد ایوارڈ اپنے نام کئے۔ان کی مقبول فلموں میں کبڑا عاشق، دوستی، دل اور دنیا، رنگیلا، دیا اور طوفان، نوکر تے مالک، سونا چاندی، مس کولمبو، نمک حلال، راجہ رانی شامل ہیں۔رنگیلا پر مسعودرانا کے چار درجن کے قریب گیت فلمائے گئے تھے جن میں زیادہ تر مزاحیہ گیت تھے۔ان میں 21گیت اردو تھے جبکہ 26گیت پنجابی زبان میں تھے۔1991ء میں رنگیلا نے جگر اور گردے کے عارضے میں مبتلا رہنے کے باعث فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پھر24 مئی 2005 کو اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے۔رنگیلا کا ہر رنگ نرالا اور انداز جداگانہ تھا، انہوں نے لوگوں میں بے شمار خوشیاں بانٹیں اور فلم انڈسٹری پر وہ ان مٹ نقوش چھوڑے کہ ان کے ذکر کے بغیر پاکستانی فلمی تاریخ ہمیشہ ادھوری رہے گی۔اداکار رنگیلا کو مزاح کا بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا،انہوں نے68 برس کی عمر میں وفات پائی لیکن آج بھی وہ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔