یادرفتگاں: فاروق قیصر بے مثل فنکاروڈرامہ نویس
اسپیشل فیچر
پاکستانی مزاح، پتلی تماشا اور ادبی تخلیق کے منظرنامے پر اگر کوئی نام سب سے زیادہ اثر انداز ہوا تو وہ نام ہے فاروق قیصر۔ ایک ہمہ جہت شخصیت، جنہوں نے نہ صرف بچوں کو قہقہے عطا کیے بلکہ بڑوں کو بھی آئینہ دکھایا۔ وہ بیک وقت مصنف، کالم نگار، کارٹونسٹ، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، صداکار، استاد، شاعر اور سب سے بڑھ کر ایک باشعور اور باوقار انسان تھے۔
اگر کہا جائے کہ انکل سرگم کے خالق فاروق قیصر فن و ادب کی دنیا کا ایک روشن ستارہ تھے تو یہ ہرگز مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کے تخلیق کردہ کردار جیسے ماسی مصیبتے،بونگا بخیل،ہیگا،رولا اورشرمیلا آج بھی ہمارے حافظے میں تازہ ہیں۔ یہ سب کردار ایک سماجی شعور کے ساتھ تخلیق کیے گئے، جنہوں نے عوامی زبان میں بڑے مسائل کی نشاندہی کی۔
فاروق قیصر 31 اکتوبر 1945ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، تاہم ان کی پرورش پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئی۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے، جس کے باعث تعلیمی سفر بھی پشاور، کوئٹہ اور لاہور کے درمیان بٹا رہا۔ میٹرک پشاور سے، ایف اے کوئٹہ سے اور گریجویشن نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں کیا۔ فائن آرٹس میں ماسٹرز کی ڈگری رومانیہ سے حاصل کی، جب کہ 1999ء میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا سے ماس کمیونیکیشن میں دوسرا ماسٹرز بھی مکمل کیا۔
فاروق قیصر کی فنی زندگی کا آغاز پی ٹی وی کے پروگرام ''اکڑ بکڑ‘‘ سے ہوا، جس میں انہیں فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے متعارف کروایا۔ تاہم اصل شہرت انہیں 1976ء میں شروع ہونے والے شہرہ آفاق پروگرام ''کلیاں‘‘ سے ملی۔ اس شو میں ''انکل سرگم‘‘ کا کردار فاروق قیصر کی پہچان بن گیا۔ کلیاں اگرچہ بچوں کا پروگرام تھا، مگر اس میں موجود طنز و مزاح نے ہر عمر کے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
فاروق قیصر کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے کپڑے کی پتلیوں سے وہ باتیں کہلوائیں، جو زندہ انسان کہنے سے گھبراتے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ٹیلی وژن کو عوامی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا اور نااہلی، کرپشن اور ادارہ جاتی بگاڑ کو لطیف انداز میں بے نقاب کیا۔ ان کا یہ جملہ خاصا مشہور ہے: ''فرد ہر بات کہہ سکتا ہے، بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے‘‘۔ان کی دیگر مشہور تخلیقات میں ''ڈاک ٹائم‘‘، ''سرگم سرگم‘‘،''سیاسی کلیاں‘‘ اور ''سرگم بیک ہوم‘‘ شامل ہیں۔ ان تمام پروگراموں میں کرداروں کی تخلیق، ڈیزائننگ اور آواز کا کام خود فاروق قیصر نے انجام دیا۔
فاروق قیصر کی ایک اور تخلیقی پہچان ''حشر نشر‘‘ کے نام سے پیش کیا جانے والا مزاحیہ صداکاری پر مبنی پروگرام تھا، جس میں انہوں نے انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز میں ڈبنگ کی۔ اس نئے طرز نے پاکستانی ٹی وی پر طنز و مزاح کی نئی راہیں کھول دیں، جو بعدازاں ایک مقبول رجحان بن گیا۔
ان کی خدمات کا دائرہ صرف تفریح تک محدود نہیں تھا۔ وہ یونیسکو کے مختلف منصوبوں سے وابستہ رہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں صحت، تعلیم اور ثقافتی آگاہی کیلئے کام کیا۔ لوک ورثہ کے بورڈ آف گورنرز کا حصہ رہے اور نیشنل کالج آف آرٹس و فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی سمیت کئی جامعات میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔
انہوں نے 40 سے زائد ڈرامے، بے شمار نغمات اور کئی اخباروں کیلئے مستقل کالمز تحریر کیے۔ ان کی چار کتابیں ''ہور پْچھو‘‘، ''کالم گلوچ‘‘، ''میٹھے کریلے‘‘ اور ''میرے پیارے اللہ میاں‘‘ ان کے ادبی ذوق کی عکاس ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا۔
14 مئی 2021ء کودل کا دورہ ان کی جان لے گیا۔ وہ 75 برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آج جب ان کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا بچپن، ہماری مسکراہٹیں اور ہمارے خواب بھی ان کے ساتھ جڑے تھے۔
فاروق قیصر کی فنی زندگی صرف کرداروں، پتلیوں یا جملوں تک محدود نہ تھی بلکہ ایک ایسے شعور کا نام تھی جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا جانتا تھا۔ بلاشبہ وہ پاکستان میں پتلی تماشا کے بانی بھی تھے اور مزاح کی زبان میں سنجیدہ بات کہنے کے ماہر بھی۔ان کا خلا کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔