خودکار ہتھیاروں کی عالمی نگرانی:اقوام متحدہ کی کاوشیں اور درپیش چیلنجز
اسپیشل فیچر
جدید دور میں جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے استعمال میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی نے خودکار ہتھیاروں کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہ ہتھیار جو خود مختاری کے ساتھ فیصلے کر سکتے ہیں روایتی جنگی ہتھیاروں سے مختلف اور زیادہ خطرناک ہیں۔خودکار ہتھیاروں میں انسانی مداخلت کے بغیر حملے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ ہتھیار مخصوص الگورتھمز اور ڈیٹا کے ذریعے ہدف کو پہچانتے ہیں اور کارروائی کرتے ہیں۔ ڈرون، روبوٹ اور خودکار بندوقیں جدید جنگوں میں استعمال ہونے والے چند اہم خودکار ہتھیار ہیں۔خودکار ہتھیار جو بغیر کسی انسانی کنٹرول کے کام کرتے ہیں، عالمی سطح پر متنازع بن چکے ہیں۔
کچھ ممالک کا ماننا ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال سے شہریوں کو کم نقصان پہنچے گا جبکہ انسانی حقوق کے ماہرین اور بین الاقوامی تنظیمیں اس پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ خودکار ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ کئی اخلاقی، قانونی اور سکیورٹی چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مشینوں کو انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرنے کا اختیار دینا درست ہے؟ ایسے ہتھیار غلطی سے غیر متعلقہ افراد کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے۔بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کے دوران شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ لیکن خودکار ہتھیاروں کی غیر متوقع حرکتیں اور غلط فیصلے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔ کئی ممالک اور ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی یا سخت قوانین بنائے جائیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کے استعمال میں انسانی مداخلت ضروری ہے تاکہ غلطی یا غیر ارادی نقصان کو کم کیا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے ہمیشہ اخلاقی اور انسانی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے، اس لیے ایک نگرانی کا نظام قائم کرنا اہم ہے۔
کئی ممالک اور تنظیمیں عالمی سطح پر ایسے معاہدے کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن کے تحت خودکار ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کو محدود کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر اس معاملے پر بحث جاری ہے تاکہ انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔خودکار ہتھیاروں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال نے دنیا کو ایک نیا چیلنج دیا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے پر غور کرے اور ایسی پالیسیز وضع کرے جو انسانی حقوق اور عالمی امن کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ہتھیار عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں خودکار ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے سسٹمز نے جنگوں کے طریقہ کار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ یوکرین سے غزہ تک جدید خودکار ہتھیار میدان جنگ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا استعمال اور ترقی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ان کے استعمال کو قواعد و ضوابط کے تحت لانے کی عالمی کاوشیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
خود کار اور خود مختار ہتھیاروں کے بڑھتے استعمال اور اس سے جڑے خطرات کے پیش نظر اس سال 12 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خودکار ہتھیاروں پر عالمی سطح پر ضوابط کے قیام کے حوالے سے پہلی بار خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد ان ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات اور اخلاقی چیلنجز پر غور کرنا تھا۔ خودکار ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت کا یہ سلسلہ 2014ء سے جاری ہے جب کنونشن آن کنونشنل ویپنز(CCW) کے تحت ممالک نے جنیوا میں مکمل طور پر خودکار ہتھیاروں پر پابندی کے امکان پر غور شروع کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 2026 ء تک خودکار ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے عالمی اصول وضع کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے تاہم انسانی حقوق کے ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی اس ہدف کو مشکل بنا رہی ہے۔اقوام متحدہ کے اجلاس میں دنیا کے 164 ممالک نے ایک قرارداد کی حمایت کی جس میں خودکار ہتھیاروں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا، تاہم امریکہ، روس، چین اور بھارت نے اس عالمی معاہدے پر اعتراض کیا ہے۔
تکنیکی ترقی اور انسانی حقوق
موجودہ حالات میں خودکار ہتھیاروں کے تیز رفتار پھیلاؤ کے پیش نظر عالمی قوانین کی عدم موجودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ روس کے 'Veter‘ کامی کازی ڈرونز اور یوکرین کے نیم خودکار ڈرونز اس کی ایک مثال ہیں کہ خودکار ہتھیاروں کا استعمال جنگی حکمت عملی میں اضافہ کر رہا ہے۔
اس پرانسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، بغیر نگرانی کے خودکار ہتھیاروں کا استعمال نہ صرف انسانی حقوق کیلئے خطرہ ہے بلکہ ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا بھی موجب بن سکتا ہے۔
ماہرین کا مؤقف
ماہرین کے مطابق دفاعی کمپنیوں کو خودکار ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے خود مختار نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ''سٹاپ کلر روبوٹس‘‘ کی مہم سے منسلکLaura Nolan کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں پر اعتماد کرنا غیر منطقی ہوگا کیونکہ دفاعی صنعت کا مفاد ہمیشہ عالمی سلامتی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا۔
اقوام متحدہ کے اس اجلاس کو اس بات کا امتحان سمجھا جا رہا ہے کہ آیا عالمی برادری خودکار ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل اپنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عسکری طاقت رکھنے والے ممالک عالمی امن کی خاطر اپنے مفادات کو پس پشت ڈالنے کیلئے تیار ہوں گے یا نہیں۔