حکایت سعدیؒ :دنیا پرست درویش
اسپیشل فیچر
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک درویش با خدا بستیوں سے کنارہ کش ہو کر جنگل میں آباد ہو گیا تھا۔ درختوں کے پتے کھا کر چشمے کا پانی پیتا اور ہر وقت یاد خدا میں مصروف رہتا، بزرگی کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ملک کا بادشاہ شکار کھیلتا ہوا اس طرف آ نکلا۔ اس کی نگاہ اس بزرگ پر پڑی تو اس کے پاس گیا اور اس کے احوال سے آگاہ ہونے کے بعد اس سے درخواست کی کہ آپ ہمارے ساتھ دارالحکومت چلیں، ہم آپ کیلئے بہت عمدہ انتظام کر دیں گے، وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔
درویش نے بادشاہ کی یہ بات ماننے سے انکار کیا اور کہا، میں یہیں ٹھیک ہوں۔ ایک وزیر بولا، حضور، بادشاہ سلامت کی یہ بات ماننے میں کوئی حرج تو نہیں، اگر شہر میں آپ کا دل نہ لگے تو پھر یہیں آسکتے ہیں۔
یہ بات درویش کی سمجھ میں آ گئی اور وہ بادشاہ کے ساتھ آگیا۔بادشاہ نے درویش کے رہنے کیلئے ایک شاندار مکان دے دیا جس میں باغ بھی تھا۔ خدمت کیلئے ایک لونڈی اور ایک غلام مقرر کر دیا اور درویش نہایت عزت اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔
کچھ عرصے بعد بادشاہ کو درویش کا خیال آیا تو وہ ملاقات کیلئے آیا۔ وہ تخت پر گاؤتکیے سے کمر لگائے بہت آرام میں رہنے اور اچھی غذا کھانے سے موٹا تازہ ہو گیا تھا اور اس کا رنگ نکھر آیا تھا۔
بادشاہ نے اسے اس اچھی حالت میں دیکھا تو بہت خوشی ظاہر کی اور کہا، آپ جیسے بزرگوں کی خدمت کر کے مجھے دلی مسرت حاصل ہوتی ہے۔
دانا وزیر ساتھ تھا، اس نے کہا، عالی جاہ! درویشوں کو عیش و آرام کا عادی بنا دینا ان کی خدمت نہیں ہے، ایسا کرنے سے ان کی روحانی ترقی رک جاتی ہے اور وہ دوسرے دنیا داروں کی طرح دنیا دار بن جاتے ہیں البتہ عالموں کو ضرور مالی امداد دینی چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کیلئے فارغ ہو جائیں۔
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت خوب صورت انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ خدا اور دنیا کی چاہت الگ الگ دائر ے ہیں ان دونوں کی سمتیں واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ اگر خدا پرست دنیاوی راحتوں کی تمنا کر ے گا تو بالآخر دنیا ہی میں پھنس جائے گا۔ ویسے یہ بات ممکن تو ہے کہ ایک شخص دنیاوی سازو سامان بھی رکھتا ہو اور با خدا بھی ہو، جیسا کہ خود حضرت سعدیؒ نے ایک حکایت میں یہ بات تسلیم کی ہے لیکن اس امتحان میں ہر شخص پورا نہیں اتر سکتا کہ اسے ہر طرح کی آسائش بھی حاصل ہو اور خدا کے راستے میں جان قربان کرنے کیلئے تیار بھی رہتا ہو جو درویشی کی اصل روح ہے۔