قلمی دوستی:ماضی کی خوبصورت روایت

اسپیشل فیچر
جدید ٹیکنالوجی اور سائنس نے ترقی کے نام پر جہاں ہم سے ہمارا ورثہ، رسم ورواج ، ہماری روایات اور ہماری پہچان ہم سے چھین لی ہے وہیں اسی ٹیکنالوجی نے باہمی دوستی کے ایک منفرد اور خوبصورت رشتے کو بھی ہم سے دور کر دیا ہے۔ قلمی دوستی بنیادی طور پر تو ایک مشغلہ ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک حقیقی دوستی میں بھی بدل جایا کرتا تھا۔ بعض ممالک میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں قلمی دوستی جیون رشتوں میں بھی بدلتی دیکھی گئی ہے۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرے تک ''قلمی دوستی‘‘ کا رشتہ ایک ایسے منفرد اور خوبصورت تعلق کے طور پر قائم تھا جس سے کم ازکم آج کل کی نسل مکمل طور پر لاعلم ہے۔ تین چار عشرے قبل جب تک ہماری زندگیوں میں ''الیکٹرانک رابطوں‘‘ کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا یہ خوبصورت روایت ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہوا کرتی تھی ۔
قلمی دوستی ہے کیا ؟
قلمی دوستی کا آسان اور لفظی مفہوم تو یہ ہے ، باہمی خط و کتابت ( ڈاک کے ذریعے )کے ذریعے قائم ہونے والی دوستی ، قلمی دوستی کہلاتی ہے۔ انگریزی زبان میں اسے ''پین فرینڈ‘‘ (Pen friend) یا ''پین پال‘‘ (Pen Pal)کہتے ہیں۔ قلمی دوستی اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک تک بھی ہو سکتی ہے۔ اس مشغلہ کے پس پردہ دراصل بنیادی مقاصد میں مختلف ممالک کی ثقافت اور رہن سہن کی جانکاری بارے آگاہی ، دیگر زبانوں کو جاننے کی خواہش اور کوشش سمیت دوستی کے اس نرالے رنگ کو پروان چڑھانا بھی شامل ہوتا ہے۔
گزشتہ صدی کے آخری تین عشروں میں قلمی دوستی بطور ایک مشغلہ کا جادو ایک عرصہ تک سر چڑھ کر بولتا رہا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر کے اخبارات و رسائل میں قلمی دوستی کا ایک مختص صفحہ نوعمر لڑکے لڑکیوں کیلئے سب سے پرکشش اور زیادہ پسند کیا جانے والا صفحہ ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک چھوٹا سا ''کلب ‘‘ ہوتا تھا جس میں کوئی بھی لڑکا یا لڑکی اپنا مختصر سا تعارف مثلاً نام، پتہ، عمر، مشاغل وغیرہ اس صفحہ پر شائع کرواکے قلمی دوستی کی دعوت دیا کرتا تھا۔
عمر اور مشاغل ہی عام طور پر ذہنی ہم آہنگی کی دلیل سمجھے جاتے اور یوں دونوں طرف سے باقاعدہ خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو دن بدن دوستی کے مضبوط رشتے میں بدلتا چلا جاتا۔ ''ڈاکیا‘‘ جو اب تیزی سے ایک بھولا بسرا کردار بنتا جا رہا ہے ، قلمی دوستوں کو اس کی آمد کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں مختلف تنظیمیں اور دوستی کلب بھی میدان میں آگئے تھے جو سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے اس مشغلہ کے فروغ کیلئے کوشاں رہے۔
قلمی دوستی کی شروعات کیسے ہوئیں
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ قلمی دوستی کی ایک مشغلہ کی حیثیت سے شروعات امریکہ میں سترہویں صدی کے آخری عشرے میں ہوئی تھی۔ جبکہ اسے باقاعدہ شہرت 1930ء میں حاصل ہوئی تھی۔چنانچہ اس کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے پہلی مرتبہ 1931ء میں آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اس کا اندراج کیا گیا تھا۔ قلمی دوستی کے لفظ کو آکسفورڈ ڈکشنری نے ا نگریزی میں ''پین پال‘‘ (Pen Pal)کا نام دیا تھا۔ لیکن قلمی دوستی کو باقاعدہ رواج دینے کا اعزاز 1936ء میں امریکہ کے ایک ہائی سکول کی ٹیچر کو جاتا ہے جس نے '' سٹوڈنٹس لیٹرایکسچینج‘‘ نامی ایک گروپ تشکیل دیا۔اس گروپ کے ذریعے اس نے اپنے طلباء کو اس امر کی ترغیب دی کہ وہ دنیا بھر کے بچوں کے ساتھ قلمی دوستی کا رشتہ قائم کریں۔اس طرح سے جہاں ایک طرف دوسرے ممالک کی ثقافت اور تہذیب بارے بچوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا وہیں ان کی لکھنے کی صلاحیت میں بھی بہتری آنے لگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں بچوں میں خود اعتمادی کے درجے میں بھی بہتری محسوس کی گئی۔
قلمی دوستی بطور ایک مشغلہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس خوبصورت روایت کو یاد رکھنے کیلئے ہر سال یکم جون کو اس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی دن منانے کا یہ فائدہ ہوا کہ اگرچہ زمانے بدل گئے ڈاک کا نظام بدل گیا ، ڈاک کی جگہ ''میل ‘‘ اور اب میل کی جگہ ''ای میل‘‘ نے لے لی ہے۔چنانچہ اب '' سٹوڈنٹ لیٹر ایکسچینج گروپ‘‘ نے اس گروپ کو فیس گروپ میں بھی تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں متعدد '' قلمی دوستی گروپ ‘‘ متحرک ہیں۔ جن میں '' واٹ پیڈ‘‘ ،'' پین پالز نائو‘‘ ، ''پین پال ورلڈ‘‘، ''انٹر پالز‘‘،''پوسٹ کراسنگ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اب دنیا بھر میں قلمی دوستی عام طور پر تین طریقوں، روائتی خط و کتابت کا طریقہ، ای میل یا سوشل میڈیا کے طریقوں کے ذریعے قائم کی جاتی ہے۔ قلمی دوستی کے عالمی دن منانے کی اختراع امریکہ سے شروع ہوئی تھی۔ جس کا سہرا امریکی ریاست الینوائے کی ایک قلمی دوست شہری روزی کے سر جاتا ہے۔ جس نے 1975ء میں باقاعدہ طور پر ''قلمی دوستی کا عالمی دن‘‘ منانے کو رواج دیا۔ روزی نے اپنے متعدد قلمی دوستوں کو ملنے کیلئے امریکہ اور اس سے باہر طویل سفر طے کئے ۔ قلمی دوستی کے مشغلہ کو جاری اور زندہ رکھنے میں روزی کی کاوشیں قابل ستائش سمجھی جاتی ہیں۔
روزی نے قلمی دوستوں کو اکٹھا کرنے اور اس مشغلے کی افادیت کو اجاگر کرنے کیلئے ''الینوائے پین پال پکنک ری یونین‘‘ نامی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روزی ''پین پال اتحاد‘‘ نامی ایک ادارے کی بانی بھی ہیں۔
پڑوسی ملک نے اس خوبصورت روایت کو تازہ رکھنے کیلئے 1999ء میں ''صرف تم‘‘نامی ایک فلم بھی بنائی تھی ، جس میں بنیادی طور دو قلمی دوست خط وکتابت کرتے کرتے ایک دن ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بارے کہا جاتا ہے کہ مختلف اقوام کی لڑکیاں اپنے ملک کے فوجیوں کو جو محاذ پر برسر پیکار رہے تھے ، انہیں باقاعدگی سے خطوط لکھا کرتی تھیں چنانچہ ان میں کچھ کے بارے یہ بھی بتایا جاتا ہے انہوں نے بعد میں اپنے دوستوں سے شادیاں کر لی تھیں۔
تاریخ کی کتابوں میں ایک روسی مہارانی ، کیتھرین دا گریٹ اور فرانسیسی فلاسفر وولٹائر کا ذکر ملتا ہے جن کی خط و کتابت 1778ء تک وولٹائر کی وفات تک جاری رہی۔ ایسے ہی ایک برطانوی جے آر آر ٹولیکئن اور ایک امریکی سی ایس لیوز کے درمیان بھی ایک عرصہ تک عیسائیت کے عقیدے بارے خط و کتابت کے ذریعے بحث جاری رہی۔
قلمی دوستی کی روایت جس طرح تحریری خط سے ، ای میل اور ای میل سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم تک پہنچ چکی ہے ، اب نے والا وقت دوستی کے اس سفر کو کس پلٹ فارم تک لے کر جاتا ہے ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔