عمر رسیدہ افراد کے جسمانی،ذہنی اور معاشرتی مسائل

اسپیشل فیچر
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی، ذہنی اور معاشرتی حالت میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں۔ زندگی کا یہ مرحلہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ اسی عمر میں انسان مختلف مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں بزرگ شہریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جو ان کی صحت اور خوش حالی پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔
عمر رسیدہ افراد میں عام
جسمانی بیماریاں
بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی نظام سست ہو جاتے ہیں، قوت مدافعت کمزور پڑتی ہے اور مختلف بیماریوں کا سامنا عام ہو جاتا ہے۔ ان میں ہائی بلڈ پریشر اور شوگر،گردوں کے امراض، جوڑوں کا درد اور گنٹھیا، نظر کی کمزوری اور موتیا، قبض، ہاضمے کے مسائل اور یورینری انفیکشن اور دل کی بیماریاں نمایاں ہیں۔ ان تمام بیماریوں کا بروقت علاج، مناسب پرہیز اور میڈیکل چیک اپ انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
ذہنی صحت کے عام مسائل
بزرگوں میں ذہنی صحت کے مسائل کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ ان کی مجموعی صحت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ عام ذہنی مسائل میں ڈپریشن، یادداشت کی کمزوری (ڈیمینشیا / الزائمر)، بے چینی، نیند کی کمی، مستقبل کا خوف اور زندگی کا بے مقصد محسوس ہونا شامل ہیں۔
معاشرتی مسائل
بزرگ افراد کو معاشرتی سطح پر بھی کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جن میں تنہائی اور سماجی علیحدگی، نظراندازی اور بے توقیری، اولاد کا مصروف طرز زندگی اور عدم دلچسپی، معاشی انحصار اور خودمختاری کی کمی، ریٹائرمنٹ کے بعد بیکاری کا احساس نمایاں ہیں۔ یہ تمام عوامل ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
بزرگوں کی فلاح و بہبود کے اہداف
ایک صحت مند معاشرہ تبھی قائم ہو سکتا ہے جب ہر عمر کے افراد کو مساوی حقوق اور سہولیات دی جائیں۔ بزرگوں کیلئے فلاح و بہبود کے اہداف درج ذیل ہو سکتے ہیں۔بہتر صحت کی سہولیات،معاشی تحفظ،سماجی قبولیت،ذہنی و جذباتی سکون اورفعال معاشرتی کردار۔
اہداف کا حصول کیسے ممکن؟
یہ اہداف حاصل کرنے کیلئے حکومت، خاندان، صحت کے ادارے اور معاشرہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ریگولر ہیلتھ چیک اپ کروائیں،بزرگوں کیلئے مخصوص ہسپتال یا وارڈز کا قیام عمل میں لایا جائے،ذہنی صحت کے ماہرین تک رسائی ممکن بنائی جائے، معاشی معاونت، پنشن اسکیم اور صحت انشورنس دی جائے،روزمرہ سرگرمیوں میں بزرگوں کی شمولیت،خصوصی نشستیں، بزرگ دوستانہ انفراسٹرکچرفراہم کیا جائے۔
خاندان اور معاشرے کی ذمہ داریاں
بزرگوں کی فلاح و بہبود میں سب سے اہم کردار ان کے قریبی رشتہ داروں اور معاشرے کا ہوتا ہے۔ ان ذمہ داریوں میں محبت اور توجہ دینا،ان کی رائے کو اہمیت دینا،وقت دینا اور بات چیت کرنا،روزمرہ امور میں ان کی شمولیت،معاشی طور پر سہارا دینا اوران کی عزت نفس کا خیال رکھناشامل ہیں۔
اسلام کی بزرگوں سے متعلق رہنمائی
اسلام بزرگوں کی عزت، خدمت اور ان سے حسن سلوک پر بہت زور دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر اس حوالے سے رہنمائی موجود ہے۔''اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘ (البقرہ: 83)، ''جو شخص کسی بوڑھے کا احترام کرتا ہے، اللہ اس کیلئے بھی ایسے لوگوں کو مقرر کرتا ہے جو اس کی بڑھاپے میں خدمت کریں‘‘(حدیث نبوی)۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''بوڑھوں کے چہروں میں تم اپنے کل کو دیکھو‘‘
فلاحی ادارے کا کردار
کراچی میں واقع رفاعی ادارہ بزرگوں کی صحت کے حوالے سے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ یہاں روزانہ درجنوں بزرگ مریضوں کو مفت ڈائلاسس، ادویات اور مشورے فراہم کیے جاتے ہیں۔ سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اسفند یار احمد نہ صرف ماہر نیفرو لوجسٹ ہیں بلکہ بزرگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے: ''ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ افراد نہ صرف ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہیں بلکہ ان کی دعائیں ہمارے ادارے کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انہیں وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے‘‘۔
بزرگوں کو نظر انداز کیے
جانے کی وجوہات
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بزرگوں کو کئی وجوہات کی بنا پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جن میں تیز رفتار طرز زندگی،افرادِ خانہ کی ترجیحات میں تبدیلی،معاشی مسائل اور سہولیات کی کمی،سوشل میڈیا اور موبائل کی مصروفیت شامل ہیں۔ بزرگ افراد ہمارے معاشرے کا وہ آئینہ ہیں جو ہمارے ماضی کو حال سے جوڑتے ہیں۔ ان کی صحت، عزت اور خوش حالی نہ صرف انسانی، بلکہ اسلامی و سماجی فریضہ بھی ہے۔ ہمیں بطور فرد اور ادارہ یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم بزرگوں کو وہ عزت، سہولت اور محبت دیں جو ان کا حق ہے۔