انقلابی ٹیکنالوجی اب گویائی سے محروم افراد بھی بول سکیں گے
اسپیشل فیچر
گویائی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، جذبات اور ضروریات کا اظہار کرتا ہے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو پیدائشی طور پر یا کسی حادثے، بیماری یا چوٹ کے باعث گویائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے دوسروں سے رابطہ قائم کرنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے، جس سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ تعلیمی، پیشہ ورانہ اور معاشرتی میدان میں بھی وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔تاہم حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کا ایک ایسا انقلابی حل پیش کیا ہے جو نہ صرف گویائی سے محروم افراد کی زندگی بدل دے گا بلکہ انسانی فلاح و بہبود کے شعبے میں ایک نئی راہ بھی کھولے گا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ''آواز کی تخلیق‘‘ (Speech synthesis) اور''دماغی سگنلز سے رابطہ‘‘ (Brain-Computer Interface) کے امتزاج سے وجود میں آئی ہے۔اس نئی ٹیکنالوجی میں ایک خصوصی چپ یا سینسر انسانی دماغ میں نصب کیا جاتا ہے جو دماغ کے اُس حصے سے جڑا ہوتا ہے جہاں بولنے کے سگنلز پیدا ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اگرچہ وہ آواز پیدا نہیں کر سکتا، لیکن دماغ میں وہ سگنلز ضرور پیدا ہوتے ہیں جو بولنے کے عمل سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ سینسر اُن سگنلز کو شناخت کرتا ہے، کمپیوٹر پر منتقل کرتا ہے اور پھر مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی سسٹم ان سگنلز کو سمجھ کر انہیں آواز میں ڈھالتا ہے۔اس نظام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف کسی بھی عام آواز نہیں پیدا کرتا بلکہ مریض کی اپنی سابقہ آواز کے نمونوں کو استعمال کرکے اُسی لہجے، اْسی انداز اور اُسی لب و لہجے میں گفتگو کو ممکن بناتا ہے۔ اس کے لیے مریض کی پرانی ریکارڈنگز، ویڈیوز، یا کسی رشتہ دار کی آواز کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
2023 میں امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے سائنسدانوں نے ایسے دو مختلف مریضوں پر کامیاب تجربات کیے تھے جو گویائی سے مکمل محروم تھے۔ ان کے دماغی سگنلز کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف الفاظ کی ادائیگی ممکن ہوئی بلکہ چہرے کے تاثرات کو بھی ڈیجیٹل انداز میں ظاہر کیا گیا تاکہ مریض کی بات کو جذبات کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔یہ ٹیکنالوجی نہ صرف گویائی سے محروم افراد کو بولنے کی صلاحیت دے رہی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی، ذہنی صحت اور معاشرتی تعلقات کو بھی بہتر بنا رہی ہے۔ ایسے افراد جو پہلے اپنے جذبات کا اظہار تحریری یا اشاروں کے ذریعے کرتے تھے، اب براہ راست گفتگو کر سکتے ہیں، جس سے ان کی معاشرتی قبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ترقی یافتہ ممالک میں آزمائی جا رہی ہے لیکن مستقبل قریب میں یہ ترقی پذیر ممالک میں بھی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت، نجی شعبہ، طبی ادارے اور فلاحی تنظیمیں مل کر ایک جامع پالیسی بنا سکتی ہیں تاکہ معذور افراد کو یہ سہولت فراہم کی جا سکے۔