طنزومزاح:حماقتیں
اسپیشل فیچر
لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائیگا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔ بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔
جینے کیلئے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کیلئے روپے کی ضرورت ہے۔ اور روپیہ حاصل کرنے کیلئے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔ محبت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔
دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اڑاے گی۔ اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا،نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔ یہاں سے جاتے وقت تم متحیرہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنی اور بے سود تھا۔(شفیق الرحمن کی کتاب ''حماقتیں‘‘ سے اقتباس)
مکان کی تلاش
مکان کی تلاش کرنے میں دیر ہی کیا لگتی ہے۔ اخبار سے پتا پڑھا، چھٹی کے دن سائیکل سنبھالی اور چل دیے۔ جہاں ''مکان کرائے کیلئے خالی ہے‘‘ لکھا دیکھا ٹھہر گئے۔ مکان کو ادھر ادھر سے دیکھ کر پانچ چھ منٹ میں پسند کر ڈالا۔ کرایہ طے کیا اور شام تک آ بسے، مگر نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ مشکلات ان پر بخوبی عیاں ہوں گی جنہیں کبھی اس قسم کا تلخ تجربہ ہوا ہو۔ سب سے زیادہ قابل رحم وہ لوگ ہیں جن کی قیمتی عمر کا زیادہ حصہ مکان کی تلاش میں گزرتا ہے۔ اور ان سے دوسرے درجے پر ہیں طلبہ حضرات، جنہیں اوّل تو اپنی پسند کا مکان ملتا نہیں اور اگر کہیں مل بھی جائے تو فوراً سوال ہوتا ہے ''بیاہے ہو یا نہیں؟‘‘اس قسم کے بے سمجھ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ایک وقت میں دو کام کس طرح ہو سکتے ہیں اور جو کسی چالاک سے طالب علم نے کہہ بھی دیا کہ ہاں ہم بیاہے ہیں، کر لو ہمارا کیا کروگے؟ تو فرمائش ہوتی ہے کہ پہلے بیوی حاضر کرو۔ جہاں ایک بیاہا طالب علم شریف الطبع، پرہیزگار، متقی، خدا سے ڈرنے والا اور شرافت کا پتلا گردانا جاتا ہے، وہاں ایک بدقسمت کنوارے کو آوارہ گرد، بدتمیز، مشکوک چال چلن والا، اور خطرناک سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اکثر معاملہ بالکل الٹا ہوتا ہے۔(شفیق الرحمن کے مضمون ''مکان کی تلاش‘‘ سے اقتباس)