دماغی صحت کے دشمن:پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات
اسپیشل فیچر
ہم اپنی جسمانی صحت کے معاملے میں اکثر دل، جگر، گردوں اور بلڈ پریشر پر توجہ دیتے ہیں مگر ایک ایسا عضو ہے جس کی صحت کو ہم عام طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں وہ ہے دماغ۔ہمارا دماغ ہماری سوچ، یادداشت، فیصلے اور شخصیت کو متعین کرتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں الزائمر اور ڈیمنشیا جیسے امراض کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ماہرینِ صحت کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔اب امریکہ کی ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق سے یہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری خوراک میں شامل چند عام مگر خطرناک جنک فوڈز دماغی صحت کی سب سے بڑی دشمن ثابت ہو رہی ہیں۔یہ تحقیق یونیورسٹی آف مشی گن ہیلتھ اینڈ ریٹائرمنٹ سٹڈی کے اعداد و شمار پر مبنی ہے جس میں 4750 امریکی شہریوں کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 55 برس یا اس سے زیادہ تھیں۔یہ مطالعہ 2014ء سے 2020ء تک جاری رہا اور ہر دو سال بعد مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے شرکاکی یادداشت، ارتکاز اور دماغی کارکردگی پرکھی گئی۔تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز یعنی وہ غذائیں جو فیکٹریوں میں کیمیکل، مصنوعی ذائقوں، چکنائیوں اور پریزرویٹیوز کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں دماغی صحت پر کس قدر اثرانداز ہوتی ہیں۔
پچھلی دہائی میں متعدد مطالعات یہ واضح کر چکے ہیں کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال موٹاپے، ٹائپ ٹو ذیابیطس، امراضِ قلب، ڈپریشن حتیٰ کہ قبل از وقت موت کے خطرے کو بھی بڑھاتا ہے۔تاہم اب تک یہ بات واضح نہیں تھی کہ ان میں سے کون سی خاص اقسام دماغ کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ورجینیا ٹیک کی اس تازہ تحقیق نے پہلی بار واضح کیا ہے کہ الٹرا پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات دماغی صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ مطالعے کے نتائج کے مطابق وہ افراد جو روزانہ پراسیسڈ گوشت (جیسے ساسجز، برگر پیٹیز یا ڈبہ بند گوشت) کی ایک اضافی سرونگ استعمال کرتے تھے ان میں دماغی صلاحیتوں میں کمی کا خطرہ 17 فیصد زیادہ پایا گیا۔اسی طرح وہ شرکاجو روزانہ ایک اضافی بوتل کولڈ ڈرنک یا میٹھے مشروب کی پیتے تھے ان میں یادداشت اور توجہ میں کمی کا خطرہ 6 فیصد زیادہ رہا۔تحقیق کے دوران شرکاکی فوری اور تاخیر سے یاد کرنے کی صلاحیت، حسابی ذہانت اور ارتکازکی کارکردگی کو جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے گئے جن میں الٹا گننا اور تسلسل سے اعداد منفی کرنا شامل تھا۔مجموعی طور پر 1363 افراد میں علمی زوال یا ذہنی کمزوری (Cognitive Impairment) کی علامات ظاہر ہوئیں۔
ہر پراسیسڈ فوڈ مضر نہیں
تحقیق کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز کا مجموعی استعمال دماغی زوال سے نمایاں طور پر وابستہ نہیں تھا۔مثلاً مٹھائیاں، بسکٹ، چپس،اناج یا ڈیری مصنوعات پر مبنی سنیکس کا براہِ راست تعلق ذہنی کمزوری سے ثابت نہیں ہوا۔یعنی نقصان دہ اثرات مخصوص اقسام تک محدود ہیں اور الٹرا پراسیسڈ گوشت کے ساتھ میٹھے مشروبات کا امتزاج گویا دماغ کے لیے ڈبل دھماکہ ثابت ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق پراسیسڈ گوشت میں سچوریٹڈ چکنائی، سوڈیم، نائٹریٹس اور دیگر کیمیائی اجزاکی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو خون کی نالیوں کو سخت کرتے ہیں، دماغ میں آکسیجن کی فراہمی کو متاثر کرتے ہیں اور سوزش بڑھاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں دماغی خلیات متاثر ہوتے ہیں اور یادداشت کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے ۔ میٹھے مشروبات دوسری طرف خون میں شکر کی سطح کو غیر متوازن کر دیتے ہیں۔ بار بار شوگر کی زیادتی انسولین کے ردعمل کو کمزور کرتی ہے اور دماغ کے خلیات کے درمیان رابطے کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے جس سے الزائمر اور ڈیمنشیا کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔تحقیق کی شریک مصنفہ پروفیسر برینڈا ڈیوی کے مطابق:زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آپ خود بدل سکتے ہیں۔ خوراک میں اعتدال اور توازن ہی صحت کا بہترین نسخہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر لوگ صرف پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات میں کمی لے آئیں تو وہ نہ صرف دماغی بلکہ مجموعی جسمانی صحت میں بھی نمایاں بہتری لا سکتے ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں خطرے کی گھنٹی
یہ مسئلہ صرف مغربی دنیا تک محدود نہیں، ہمارے ملک میں بھی فاسٹ فوڈ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔فریزر میں رکھے ریڈی ٹو کُک کھانے، نگٹس، ساسجز، برگر پیٹیز اور روزانہ کولڈ ڈرنک پینے کا رجحان عام ہو چکا ہے۔چونکہ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی ذیابیطس، بلڈ پریشر اور موٹاپے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے ایسے میں پراسیسڈ فوڈز کا بے دریغ استعمال دماغی امراض کی شرح میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔
کیا کیا جائے؟
پروفیسر ڈیوی اور دیگر ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ مکمل پرہیز نہیں کر سکتے تو دانشمندانہ اعتدال اپنائیں:
٭ پراسیسڈ گوشت کے بجائے قدرتی پروٹین (چکن، مچھلی، انڈے، دالیں) استعمال کی جائیں۔
٭ کولڈ ڈرنکس کے بجائے پانی، لیموں پانی یا تازہ پھلوں کا جوس استعمال کریں۔
٭اگر کبھی فاسٹ فوڈ کھایا بھی جائے تو ساتھ سبزیوں اور فائبر سے بھرپور غذا ضرور شامل کریں تاکہ نقصان کم ہو۔
اس تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دماغی صحت کا تعلق صرف ذہنی دباؤ، نیند یا بڑھاپے سے نہیں ہماری روزمرہ خوراک سے بھی ہے ۔ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہی ہماری یادداشت، سوچ اور شعور کو متاثر کرتا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں ہمارا ذہن تروتازہ، یادداشت مضبوط اور سوچ واضح رہے تو ہمیں اپنی خوراک کے معاملے میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔چاہے اس کے لیے ہمیں اپنا پسندیدہ پیزا، برگر یا کولڈ ڈرنک سے انکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔